مولانا سید سلمان حسینی ندوی کی طالب علمی کے دور کی ڈائری

از : شکیل رشید ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز

ہم اور آپ یا کوئی اور ، مولانا سید سلمان حسینی ندوی کی شخصیت سے کتنا ہی اختلاف کرلے ، مولانا کی علمیت سے انکار نہیں کر سکتا ۔ مولانا موصوف ایک بڑے عالم ، لاجواب خطیب اور اعلیٰ پائے کے ادیب ہیں ۔ ادب – خاص کر عربی زبان کا ادب – جوانعمری ہی سے اُن کا اوڑھنا بچھونا رہا ہے ۔ مدرسہ ہی کے زمانے سے انہوں نے لکھنا شروع کر دیا تھا ، اور کوئی ایسا موضوع نہیں تھا ، جس پر اُن کا قلم نہ چلا ہو ! ثبوت میں مولانا محترم کی وہ ڈائری پیش کی جا سکتی ہے ، جسے اُنہوں نے اس وقت سپرد قلم کیا تھا ، جب وہ درجہ ہفتم عربی و ہشتم عربی کے طالب علم تھے ۔ یہ ڈائری ’ میری ڈائری ‘ ( مذکراتی ) کے نام سے حال ہی میں شائع ہوئی ہے ۔ اصل ڈائری عربی زبان میں ہے ، شائع ہونے والی ڈائری اس کا اردو ترجمہ ہے ۔ اس ڈائری پر نظر ڈالنے سے پہلے اس کے ’ مقدمہ ‘ اور ’ تقدیم و تقریظ ‘ پر ایک نظر ڈال لیتے ہیں ۔
مولانا ندوی کے ’ مقدمہ ‘ سے پتا چلتا ہے کہ اِس ڈائری سے قبل اِس کا چوتھا اور پانچواں حصہ شائع ہوا تھا ، اور یہ پہلا حصہ ہے یا یہ کہہ لیں کہ اپنے لکھنے کا آغاز مولانا محترم نے اِسی ڈائری سے کیا تھا ۔ اُن دنوں اُن کی عمر بیس برس رہی ہوگی ۔ لکھتے ہیں : ’’ پہلے حصے کی ابتدا میں نے اردو زبان میں لکھنے سے کی تھی ، میں نے اس کی پہلی تحریر ٢٥ ؍فروری ١٩٧٣ء کو لکھی تھی ، اس وقت میں دارالعلوم ندوۃ العلماء کے کلیتہ الشریعہ میں تیسرے سال کا طالب علم تھا ، اور اب اس کو پیش کر رہا ہوں ۔ ٢٤ اور ٢٥ ؍ فروری کی یادداشت میں نے اردو زبان میں قلم بند کی تھی ، پھر ٤؍ مارچ ١٩٧٣ء سے قلم عربی زبان میں رواں ہوگیا ۔‘‘ یعنی ٤؍ مارچ سے پہلے کی چند تحریریں اردو میں تھیں اور باقی ساری ڈائری عربی زبان میں تھی ۔ عبدالمعید ندوی ، استاذ جامعہ سید احمد شہید کٹولی ، ملیح آباد ، لکھنئو نے عربی ڈائری کو اردو میں ترجمہ کیا ہے ۔ میں نے نہ اوریجنل عربی ڈائری دیکھی ہے اور نہ ہی عربی کا جانکار ہوں ، لیکن یہ ترجمہ اس قدر رواں دواں ہے کہ اسے ’ شاندار ‘ کہے بغیر نہیں رہ سکتا ۔ اپنے ’ مقدمہ ‘ میں مولانا نے یہ وضاحت کردی ہے کہ اس ڈائری کو پڑھنے والوں کو لکھنے والے سے متعلق شخصی معلومات کم ملیں گی ۔ لیکن ’’ بڑی شخصیات کی وفات اور بڑے واقعات کے متعلق معلومات ضرور ملیں گی ، ان واقعات اور حادثات پر میرا تبصرہ موجود ہے اور بعض علمی ، فکری اور ادبی موضوعات پر اپنی رائے کا اظہار بھی کیا ہے ۔‘‘ وہ مزید لکھتے ہیں کہ اس ڈائری میں مَیں ’’ اپنے نانا محترم حضرت مولانا علی میاںؒ کی زندگی کے واقعات ، اسفار ، اقوال اور مجالس کی خوشبو محسوس کرتا ہوں ، مَیں اپنے خاندان کے نوجوانوں اور طالب علموں میں سب سے زیادہ اُن سے قریب تھا ۔‘‘ ان سطروں اور ڈائری کے مندرجات کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے ، کہ اپنی عمر کی دوسری دہائی سے ہی مولانا سید سلمان حسینی ندوی ایک تجزیاتی دماغ رکھتے تھے ، اور ان میں مشاہدے کی زبردست قوت تھی ۔ کتاب کی ’ تقدیم و تقریظ ‘ میں مولانا جعفر مسعود حسنی ندوی ( مرحوم ) نے ، جو مولانا سلمان ندوی کے خالہ زاد بھائی تھے ، حیرت بھرا اعتراف کیا ہے : ’’ مَیں حیران رہ گیا کہ ایک ۲۰ سال کا طالب علم واقعات و حادثات کا ایسا تجزیہ کرتا ہے اور نتائج اخذ کرتا ہے ، حالانکہ عام طور سے طلبہ کا ذہن ان حقائق کی طرف منتقل نہیں ہوتا ، اسی طرح بعض واقعات پر لطیف علمی تبصرہ دیکھ کر حیرت ہوئی جو بڑے اساتذہ کے شایان شان ہے ، چہ جائے کہ ایک نوخیز طالب علم کا تبصرہ ہو ۔‘‘
ڈائری کے آغاز میں مولانا موصوف کی ۲۵؍ فروری ۱۹۷۳ء کی تحریر ہے ، جِسے ڈائری کا ’ پیش لفظ ‘ کہا جا سکتا ہے ۔ اِس میں انہوں نے پہلے والوں کی ’ بیاض ‘ رکھنے کی خصوصیت کا ذکر کرتے ہوئے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا ہے کہ اب دین سے بے رغبتی کے سبب اسلاف کی قدر دِل سے جاتی رہی ہے ۔ وہ لکھتے ہیں : ’’ علم انسان کی صفتِ اولین ہے ، اسی سے انسان کا امتیاز ہے ، علم کا طالب مرتے دَم تک تشنہ کام ہی رہتا ہے ، اس لیے کہ وہ کمال چاہتا ہے ۔‘‘ اس کے بعد ۲۴؍ فروری ۱۹۷۳ء سے ڈائری کے مندرجات شروع ہوتے ہیں ۔ اس تاریخ کو جمعہ کا دن تھا ، اس روز مولانا نے ایک تبلیغی سفر کیا تھا ، اسی کا ذکر کیا گیا ہے ۔ ڈائری میں رنگا رنگ سُرخیوں سے مختلف نوعیت کے اندراجات شامل ہیں ، جیسے کہ ’ زمین کی خریداری ‘ ، ’ ماموں جان کی ریاض سے واپسی ‘ ، ’ گانے کے طرز پر قرآن کی تلاوت ‘ ، ’ سات لہجوں میں قرآن کی تلاوت ‘ وغیرہ وغیرہ ۔ ایک جگہ انگلش کے کچھ اصطلاحی الفاظ اور ان کے معنی دیے گیے ہیں ۔ مَیں تین اندراجات سے تین اقتباسات پیش کروں گا ، جن سے وہ ساری خصوصیات نمایاں ہو کر سامنے آجائیں گی ، جن پر مرحوم جعفر مسعود حسنی ندوی نے حیرت کا اظہار کیا تھا ۔ ملاحظہ کریں ایک اقتباس ، جو ’ ہندوستانی لیڈروں پر حضرت مولانا کا تبصرہ ‘ کے عنوان سے ہے : ’’ کل رات حضرت مولانا ( علی میاں ندوی ؒ ) کی مجلس میں حاضر ہوا ، مجلس میں ایڈوکیٹ ظفر احمد ، میرے خالو محمد مسلم اور دیگر حضرات شریک تھے ، شرکائے مجلس ہندوستان کی مشہور شخصیات کے متعلق گفتگو کر رہے تھے ، جیسے گاندھی جی ، نہرو اور آزاد ، محمد علی جوہر وغیرہ ۔ حضرت مولانا نے گاندھی کے معاملے کی حقیقت واضح کی کہ انہوں نے کس طرح لوگوں کو جوڑا اور عدمِ تعصب کا اظہار کیا اور مسلمانوں کے ساتھ لطف و محبت کا معاملہ کیا ، قلتِ طعام ، کم سونا اور قلتِ کلام ، لوگوں کی خدمت ، مسلسل محنت جیسی صفات کی بدولت لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا لیا ، بعض بڑے مسلمان بھی گاندھی کی محبت میں گرفتار ہو گیے اور ان کے پیرو کار بن گیے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ با اثر اور اصول کے پابند تھے ، لیکن ان ظاہری خوبیوں کے پردے میں مسلمانوں سے تعصب و نفرت رکھتے تھے ۔ انہوں نے مُلک کا دورہ کیا اور مسلمانوں کی قوت و صلاحیت دیکھی ، انہوں نے ہندوؤں میں جوش و جذبہ بھر دیا ، یہاں تک کہ اپنی قوم کو لے کر اٹھ کھڑے ہوئے اور ایک بڑا انقلاب برپا کر دیا ، ان کے متعلق مولانا محمد علی مونگیریؒ نے فرمایا : گاندھی کی مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے سر پر گھاس پھوس رکھ لی ہو ، تاکہ پرندے دھوکہ کھا جائیں اور اس کو اپنا گھونسلہ سمجھ لیں اور ان کا شکار کر لیا جائے ۔ گاندھی کا حال بھی مسلمانوں کے مسائل میں اسی طرح تھا ۔‘‘ ( صفحہ 35 )
ایک صفحہ پر ’ پارلیمنٹ کا الیکشن ‘ کی سُرخی کے ساتھ یہ تحریر ہے : ’’ ہمارے ملک میں جلد ہی پارلیمنٹ کے الیکشن ہونے والے ہیں ، اس وقت لیکشن کمپین اور پر چار پورے شباب پر ہے ، روڈ پر آپ بہت سی کاریں اور رکشے دیکھ سکتے ہیں جن پر مائک اور لاؤڈ اسپیکر بندھے ہوئے ہیں ، کچھ لوگ نعرہ لگاتے ہوئے اور اپنے امیدواروں کے لیے ووٹ دینے کی اپیل کرتے ہوئے نظر آئیں گے ، جو دوسری سیاسی پارٹیوں کو چیلنج کرتے ہیں ، ان کی کمزوریاں اور نقائص بیان کرتے ہیں ، عوام سے دلکش اور پر فریب وعدے کرتے ہیں ، جو عوام کے جذبات کو اپیل کر سکیں ۔ شور و ہنگامہ ، دعوے اور تردید ، تعمیر و تخریب ، رنگ برنگے جھنڈے ، ترانے اور گانے ، مٹھائیاں اور دوسروں کی مذمت سے ماحول اور فضا پر ہو چکی ہے۔ یہ دنیا کے عاشق پارلیمنٹ کی کرسیوں کے لالچی ہیں ، تا کہ عوام کو دھوکہ دے سکیں ۔‘‘ ( صفحہ 112 )
ایک سُرخی ہے ’ شیخ زکریا سے ملاقات اور اُن کی خانقاہ کا نظام ‘ ، لکھتے ہیں : ’’ میں نے شیخ سے ملاقات کر لی تھی ، پھر انہوں نے اہلِ لکھنئو کو ایک دن بلایا ، اس لیے کہ وہ لوگ لکھنئو جانے والے تھے ، اُن کے ساتھ میں بھی آدھ گھنٹہ بیٹھا ، شیخ کے نواسے شیخ سے کھیل رہے تھے وہ ان پر شفقت فرمارہے تھے، اور ان کو مٹھائی دینے کی تاکید کر رہے تھے۔ ان کی خانقاہ کا نظام یہ ہے کہ لوگ رات میں نہیں سوتے اور شبِ قدر کی راتوں میں بھی اور خاص طور سے ستائیسویں شب میں ، مَیں نے سنا کہ اُس رات میں جاگ کر عبادت کرنے کی سخت تاکید کرتے ہیں ، عام راتوں میں اکثر لوگ تین بجے یا دو بجے یا ایک بجے تک سوتے تھے
پھر عبادت میں مصروف ہو جاتے تھے ، شیخ کی طرف سے کھانے والوں کے لیے طویل دستر خوان لگوائے جاتے ہیں ، کھانے والوں کی تعداد ایک ہزار سے زائد ہوتی ہے ، یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن کا قیام شیخ کے یہاں رہتا ہے ، آنے جانے والوں کی تعداد اور زیادہ ہوتی ہے ، فجر کی نماز تقریباً پانچ بجے ہوتی ہے ، پھر لوگ سو جاتے ہیں ، پھر ان کو دس بجے جگایا جاتا ہے ۔ مولانا عبید اللہ بلیاوی صاحب درس دیتے ہیں ، اُن کے مواعظ بڑے مؤثر اور دردانگیز ہوتے ہیں جن سے لوگ رونے لگتے ہیں ، ان کے درس کے بعد الگ الگ ہو جاتے ہیں ، کچھ لوگ سوتے ہیں ، کچھ تلاوت قرآن اور نوافل میں مصروف ہو جاتے ہیں، ظہر کی نماز ڈھائی بجے ادا کی جاتی ہے، پھر ایک مجلس ہوتی ہے ، مسجد کا اندرونی حصہ ذاکرین سے پر رہتا ہے ۔‘‘ ( صفحہ 188)
یہ ڈائری ضرور پڑھنی چاہیے ، اس سے حضرت مولانا سید سلمان حسینی ندوی کے مشاہدے کی قوت کا اور ان کے ذہنی ارتقا کے مدارج کا بھی اندازہ ہوگا ، اور مختلف موضوعات پر ان کی آراء بھی سامنے آئیں گی ، جو اُن کی آج کی آراء سے قدرے مختلف لگیں گی ۔ یہ ڈائری 224 صفحات پر مشتمل ہے ، اس کی قیمت 350 روپیے ہے ، اس کے ناشر ’ دار السنہ – الھند ، لکھنئو ‘ ہیں ۔ کتاب موبائل نمبر 9198719807 اور 9807531697 پر رابطہ کرکے حاصل کی جا سکتی ہے ۔

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔