سیاست میں ہیں تو سیاست کو سمجھیں

از:- سرور عالم

آرجے ڈی کانگریس کا مسلمانوں کے ساتھ نفسیاتی کھیل جالے اسمبلی حلقہ سے کانگریس نے محمد نوشاد کو ٹکٹ دے کر واپس لیا، پچھلے الیکشن میں جس رشی مشرا نے پارٹی امیدوار کے خلاف مورچہ کھولا تھا اس کی گھر واپسی کراکر میدان میں اتارا گیا

پٹنہ (اسفر فریدی) مہاگٹھ بندھن میں شامل پارٹیاں ’سیکولرزم‘ کے نام پر سماج کے سبھی طبقات اور فرقوں کو ساتھ لے کر چلنے اور آئین میں دیے گئے حقوق کی حفاظت کرنے کا دعویٰ کرتی ہیں، لیکن انتخابی سیاست کی زمین پر کچھ اور ہی نظر آتا ہے۔اس کی تازہ مثال کی صورت میں دربھنگہ ضلع میں واقع جالے اسمبلی حلقہ کو پیش کیا جاسکتا ہے۔ جالے اسمبلی حلقہ کے سلسلے میں پہلے تو آرجے ڈی اور کانگریس نے نوراکشتی کی کہ یہ ہمارے حصے کی سیٹ ہے ، یہاں سے ہم اپنے امیدوار کو اتاریں گے۔ جالے سے کانگریس کے متعدد امیدوار اس آس میں دربھنگہ سے پٹنہ اور نئی دہلی کا چکر لگاتے رہے کہ پارٹی کے پاس سیٹ آئے گی تو ہم میں سے کسی کو موقع ملے گا۔ لیکن دن کے اجالے اور رات کے اندھیرے میں کانگریس قیادت نے الگ الگ فیصلہ لیا۔ دن کے اجالے میں لیے گئے فیصلے میں پارٹی نے محمد نوشاد کو اپنا امیدوار بنایا تھا۔
البتہ دیر رات جب کانگریس نے اپنے ۴۸؍امیدواروں کی فہرست جاری کی تو اس میں جالے اسمبلی حلقہ اور اس کے امیدوار کا نام شامل نہیں تھا۔ اسی دوران معلوم ہوا کہ محمد نوشاد کو پارٹی کے ایک ذمہ دار لیڈر نے فون کرکے کاغذات نامزدگی داخل کرنے سے منع کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی شوشہ چھوڑا گیا کہ جالے سیٹ آرجے ڈی کے کھاتے میں چلی گئی ہے اور وہاں سے پارٹی اسی رشی مشرا کو ٹکٹ دے گی جو پچھلے الیکشن میں کانگریس چھوڑ کر آر جے ڈی میں آئے تھے۔ لیکن جمعہ کو پھر جب سورج نکلا تو آہستہ آہستہ ہی سہی پردہ ہٹنے لگا۔ ’انقلاب‘ کے اس نمائندہ نے جب دن میں ۱۲؍بجے کے بعد رشی مشرا سے پوچھا کہ آپ کا تو فائنل ہوگیا ، پرچہ داخل کرنے جارہے ہیں؟ تو انہوں نے کہا کہ پارٹی نے ٹکٹ نہیں دیا ہے،آزاد امیدوار کے طور پرپرچہ بھریں گے۔ پھر دن کے ایک بج کر ۴۸؍منٹ پر کانگریس پارٹی کے ریاستی واٹس ایپ میڈیا گروپ میں پارٹی کے قومی جنرل سکریٹری کے سی وینو گوپال کی ایک پریس ریلیز ساجھا کی گئی جس میں لکھا ہے کہ مرکزی الیکشن کمیٹی نے جالے سے رشی مشرا کو امیدوار بنانے کی منظوری دے دی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ صرف ایک اسمبلی حلقہ میں امیدوار کو بدلنے پر آرجے ڈی اور کانگریس کو کٹہرے میں کیوں کر کھڑا کیا جاسکتا ہے؟ اس کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ جس رشی مشرا کو کانگریس نے آرجے ڈی سے لاکر جالے سے اپنا امیدوار بنایا ہے، اسی نے بہار اسمبلی انتخابات ۲۰۲۰ء میں نہ صرف پارٹی کے آفیشل امیدوار مشکور عثمانی کے خلاف مورچہ کھولا تھا، بلکہ اس کے لیے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلبہ یونین ہال میں محمد علی جناح کی تصویر لگانے کے تعلق سے برپا کیے گئے طوفان کا سہار ا لیا تھا اور کانگریس پر ’ایک جنا(ح) وادی ‘کو ٹکٹ دینے کا الزام لگایا تھا۔ رشی مشرا نے یہ سب خود کو ’گاندھی وادی‘ بتاتے ہوئے کیا تھا۔ اس سے متھلا کے علاقے کا ماحول بدلا اور مہاگٹھ بندھن پورے خطے میں صرف ایک سیٹ جیت پایا تھا۔
یاد رہے کہ جس محمد نوشاد کو کانگریس نے جمعرات کو جالے سے ٹکٹ دیا تھا، اسی کے اسٹیج سے راہل گاندھی کی ’ووٹ چوری‘ مخالف یاترا کے دوران وزیراعظم نریندر مودی کی ماں کو گالی دی گئی تھی۔ جس وقت یہ نازیبا واقعہ پیش آیا تھا، اس وقت محمد نوشاد اسٹیج پر نہیں تھے۔ وہ راہل گاندھی کے ساتھ یاترا پر بہت آگے نکل گئے تھے۔ اس کے باوجود محمد نوشاد کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا۔ محمد نوشاد کو امیدوار بنانے سے بی جے پی اور اس کی ہم نوا میڈیا یقینی طور پر پھر سے ماحول کو پراگندہ کرنے کی کوشش کرتی لیکن اس سے بچنے کے لیے کانگریس اور اس کے لیڈروں نے جو راستہ چنا وہ کسی بھی طرح سے مناسب نہیں کہا جا سکتا ہے۔
اس بارے میں معروف صحافی اور تجزیہ نگار سرور احمد نے ’انقلاب‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کانگریس کو ’سیاسی بالغ نظری‘ کا ثبوت دیتے ہوئے پہلے ہی محمد نوشاد کو ٹکٹ نہیں دینا چاہیے تھا۔ اب اس نے ٹکٹ دے کر جس طرح ایک اور متنازعہ شخصیت کو امیدوار بنایا ہے، اس سے تو کانگریس نے مسلمان ووٹروں کو ’دھرم سنکٹ‘ میں ڈال دیا ہے۔ اس تعلق سے کانگریس کا موقف جاننے کے لیے پٹنہ اور نئی دہلی میں پارٹی کے متعدد ذمہ دار لیڈروں سے فون پر رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن کسی سے بھی بات نہیں ہو پائی۔
اس معاملے میں جب جالے میں سرگرم کانگریس لیڈر محمد نوشاد سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ’ایک جھوٹے بیانیہ کو بنیاد بنا کر میرا ٹکٹ یہ کہہ کر کاٹا گیا کہ بی جےپی اس کا غلط استعمال کرے گی۔ اول تو میں نے گالی نہیں دی تھی، دوسرے یہ کہ جس وقت یہ غلط حرکت ہوئی میں اسٹیج پر بھی موجود نہیں تھا، تو میں قصوروار کیسے ہوگیا۔ اس کے باوجود اگر میرا ٹکٹ کاٹا گیا تو وہاں سے کسی مسلم امیدوار کو ٹکٹ دیا جانا چاہیے تھا۔ رشی مشرا کو رات کے دس بجے پارٹی جوائن کروایا گیا اور گیارہ بجے ٹکٹ دے دیا گیا۔ اس سے پارٹی کے لیے زمین پر کام کرنے والوں کا حوصلہ پست ہوتا ہے۔

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔