تیجیسوی یادوکامسلم قیادت پر بیان: احتیاط کی ضرورت

تحریر: نبیل اختر نوازی

بہار کی سیاست ہمیشہ سے ملک کی فکری اور نظریاتی سمت کا آئینہ رہی ہے۔ یہاں کے سیاسی بیانات محض وقتی ردِ عمل نہیں ہوتے بلکہ آئندہ سیاسی منظرنامے کے اشارے بھی دیتے ہیں۔ حال ہی میں راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) کے رہنما تیجسوی یادو کا یہ بیان کہ "اسد الدین اویسی شدت پسند ہیں”، نہ صرف سیاسی سطح پر ہلچل مچانے والا ہے بلکہ ہندوستانی مسلم قیادت کے حوالے سے سیکولر سیاست کی سوچ پر بھی سوالیہ نشان لگاتا ہے۔

مجلسِ اتحاد المسلمین کے صدر بیرسٹر اسد الدین اویسی پارلیمنٹ کے سابق سنسد رتن ایوارڈ یافتہ رکن ہیں۔ ان کی پارلیمانی کارکردگی، آئینی نکات پر عبور، اور اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے مدلل گفتگو انہیں محض ایک مذہبی رہنما نہیں بلکہ ایک قانون دان سیاست داں کے طور پر نمایاں کرتی ہے۔

حال ہی میں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان پیدا ہونے والی کشیدگی کے دوران اویسی نے بین الاقوامی فورمز پر ہندوستان کے موقف کی جس جرات مندانہ نمائندگی کی، اس سے ان کی حب الوطنی اور خارجہ پالیسی پر گہری بصیرت کا اندازہ ہوتا ہے۔ ایسے شخص کو “شدت پسند” کہنا نہ صرف ناانصافی ہے بلکہ ایک ایسی زبان ہے جو فرقہ پرست جماعتوں کے بیانیے سے مشابہت رکھتی ہے۔

سیکولر جماعتیں برسوں سے اقلیتوں کے ووٹ سے سیاسی اقتدار حاصل کرتی رہی ہیں، مگر مسلم قیادت کو پنپنے نہیں دیا گیا۔ یہ حقیقت ہے کہ جیسے ہی کوئی مسلمان رہنما خود اعتمادی کے ساتھ قومی سطح پر بولنے لگتا ہے، اُسے “فرقہ پرست” یا “شدت پسند” قرار دینے کی مہم شروع ہوجاتی ہے۔

تیجسوی یادو بلاشبہ ایک نوجوان، باصلاحیت اور امیدوں سے بھرپور لیڈر ہیں، مگر ان جیسے قائدین کو چاہیے کہ وہ مذہبی بنیادوں پر سیاست کرنے کے بجائے ہندوستانی تنوع کا احترام کریں اور مسلم قیادت کو بھی وہی وقار دیں جو دیگر طبقات کے نمائندوں کو حاصل ہے۔

اویسی کی سیاست مذہبی نفرت یا تعصب پر نہیں بلکہ آئینی اصولوں پر استوار ہے۔ وہ مساوات، انصاف، اور شہری آزادیوں کے حامی ہیں۔ ان کا یہ کہنا کہ “ہم ہندوستانی ہیں، ہمارا وجود آئین کے تحت ہے” کسی بھی جمہوری ملک میں شدت پسندی نہیں کہلا سکتا۔
ان کی تقاریر میں اگر طنز یا تلخی محسوس ہوتی ہے تو وہ دراصل ردعمل ہے اس خاموشی کا جو برسوں سے اقلیتوں اور پسماندہ طبقات پر ہونے والے ناانصافیوں کے مقابلے میں سیکولر خیمے سے سنائی نہیں دی۔

تیجسوی یادو جیسی شخصیت کو، جو خود کو سماجی انصاف کی سیاست کا وارث سمجھتی ہے، چاہیے کہ وہ اپنے بیانات میں توازن پیدا کریں۔ سیاسی اختلاف فطری ہے، مگر کسی کی حب الوطنی یا مزاج پر انگلی اٹھانا ایک خطرناک مثال قائم کرتا ہے۔

اگر سیکولر جماعتیں واقعی فرقہ وارانہ سیاست کا مقابلہ کرنا چاہتی ہیں تو انہیں مسلم لیڈرشپ کے ساتھ مکالمے اور اشتراک کا راستہ اپنانا ہوگا، نہ کہ الزام تراشی کا۔

ہندوستان جیسے جمہوری ملک میں مختلف آوازوں کا احترام ہی اس کی اصل طاقت ہے۔ بیرسٹر اسد الدین اویسی اس جمہوری تنوع کی ایک زندہ علامت ہیں، جنہوں نے آئینی حدود میں رہتے ہوئے اقلیتوں، دلتوں، اور پسماندہ طبقات کے حقوق کے لیے مضبوط آواز اٹھائی ہے۔

تیجسوی یادو کا بیان وقتی سیاسی فائدے کے لیے دیا گیا ہو سکتا ہے، مگر ایسی باتیں نہ صرف سیکولرزم کے اصولوں کو کمزور کرتی ہیں بلکہ خود ان جماعتوں کے لیے بھی نقصان دہ ثابت ہوتی ہیں جو “سماجی انصاف” کے نام پر سیاست کرتی ہیں۔

وقت کا تقاضا یہی ہے کہ مسلم قیادت کو “خطرہ” نہیں بلکہ ۔ شریکِ سیاست سمجھناہوگا۔

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔