ہندوستانی مسلم سیاست: بہار کے الیکشن کے تناظر میں

از:- ہارون رشید عاصم

ہندوستان کی سیاست میں مسلمان ایک فیصلہ کن اور نمایاں طاقت کے طور پر ہمیشہ موجود رہا ہے، مگر افسوس کہ اس طاقت کو کبھی منظم اور مؤثر سمت میں استعمال نہیں کیا جا سکا۔ آزادی کے بعد سے آج تک مسلمان کبھی کانگریس، کبھی علاقائی پارٹیوں اور کبھی نئے سیاسی تجربات کے ساتھ جڑ کر اپنی بقا وتحفظ تلاش کرتے رہے، مگر فیصلہ سازی کے عمل میں ان کا کردار حاشیے سے آگے نہیں بڑھ سکا۔ بہار اسمبلی انتخابات 2025 اسی دیرینہ کمزوری کا تازہ مظہر ہیں، جہاں انتخابی شور و غوغا تو عروج پر ہے، مگر اجتماعی شعور اور سیاسی بصیرت ابھی تک بحران کا شکار ہیں۔
**مسلمانوں کی سیاسی حیثیت اور زمینی حقیقت**
بہار میں مسلمانوں کی آبادی تقریباً 17 فیصد ہے، جو کم از کم 40 اسمبلی حلقوں میں فیصلہ کن اثر رکھتی ہے۔ یہی صورت اترپردیش میں 19 فیصد، مغربی بنگال میں 27 فیصد، آسام میں 35 فیصد، کیرالا میں 26 فیصد اور مہاراشٹر میں تقریباً 12 فیصد کی ہے۔ یہ تناسب بتاتا ہے کہ مسلمان اگر شعوری طور پر متحد اور منظم ہوں اور اجتماعیت ووحدت کو ملی وفریضہ سمجھ کر اپنا لیں تو ملک کی انتخابی سیاست میں ایک بڑی قوت بن سکتے ہیں۔ مگر افسوس کہ قیادت کی ناپختگی، تنظیمی کمزوری اور سیاسی تقسیم نے ہمیشہ اس اجتماعی طاقت کو کمزور کیا ہے۔ بیشتر سیاسی جماعتیں مسلمانوں کو صرف ووٹ بینک کے طور پر دیکھتی ہیں، نہ کہ پالیسی کے شراکت دار کے طور پر۔ نتیجتاً ہر انتخاب میں مسلمانوں کے جذباتی ووٹ اور وقتی وعدے ان کے حقیقی مسائل تعلیم، روزگار، تحفظ اور سماجی انصاف سے توجہ ہٹا دیتے ہیں۔

ووٹر لسٹ اور SIR کا بحران

موجودہ انتخابی منظرنامے میں سب سے سنگین مسئلہ ووٹر لسٹ سے مسلمانوں کے ناموں کی کٹوتی ہے۔ بہار، کے سلسلے اطلاعات ہیں کہ تقریباً 35 فیصد مسلم ووٹروں کے نام فہرست سے حذف ہو چکے ہیں۔ یہ محض انتظامی کوتاہی نہیں بلکہ ایک منظم بے حسی کی علامت ہے، جو مسلم شہریت کے استحکام پر براہ راست اثر ڈالتی ہے۔ SIR (Special Summary Revision) کے دوران جب ووٹر لسٹ کی تصحیح کا موقع تھا، نہ سیاسی قیادت نے سنجیدگی دکھائی اور نہ مذہبی و سماجی ادارے بروقت متحرک ہوئے۔ اگر اس موقع پر مساجد، مدارس اور مقامی تنظیمیں ووٹ کے تحفظ کی بیداری مہم چلاتیں تو ہزاروں مسلمان اپنے بنیادی جمہوری حق سے محروم نہ رہتے۔ ووٹ کا تحفظ محض سیاسی نہیں بلکہ وجودی مسئلہ ہے، کیونکہ شناخت اور شہریت کا استحکام اسی سے وابستہ ہے۔
**مسلم قیادت اور ادارہ جاتی خلا**
اویسی صاحب کی سیاست نے مسلم نوجوانوں میں سیاسی خوداعتمادی ضرور پیدا کی ہے، مگر ان کی سیاست تاحال شخصی اور وقتی اثر پر قائم ہے، ادارہ جاتی ڈھانچے پر نہیں۔ وہ ایک طرح سے one man army کے طور پر متحرک ہیں، جہاں خلوص وجذبہ تو ہے مگر تنظیمی حکمت،مستقبل شناسی اور ادارہ جاتی تسلسل کا فقدان ہے۔ یہی حال ملک کے اکثر مذہبی راہنماؤں کا ہے۔ ہر قائد اور ہر ادارہ اپنی الگ سلطنت قائم کرنا چاہتا ہے۔ نہ سیاسی اور مذہبی قیادت ایک دوسرے کے قریب آنا چاہتی ہے، نہ اشتراک عمل کے ساتھ آگے بڑھنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نظر آتی ہے۔
بلکہ اگر کوئی آگے بڑھ رہا ہوتا ہے تو پیچھے دھکیلنا اپنا مذہبی، وملی فرض سمجھتے ہیں، ملک میں اس طرح کی سیکڑوں مثالیں مل سکتی ہیں۔نتیجہ یہ ہے کہ ملت ایک قافلہ ہوتے ہوئے بھی منتشر کارواں کی طرح ہے، جہاں ہر خیمہ دوسرے سے تجاہل عارفانہ کا شکار ہے۔ یہی روش ہمیں تاریخ میں بھی نقصان پہنچا چکی ہے۔ تقسیم ہند کے موقع پر محمد علی جناح اگر کچھ تدبر، صبر اور قربانی سے کام لیتے تو تاریخ کا دھارا بدل سکتا تھا۔ مگر انہوں نے بھی قوم کے اجتماعی مفاد کے مقابلے میں اپنی سیاسی انا کو ترجیح دی۔ مسلمانوں کو "اسلامی ریاست” کے سبز باغ دکھائے گئے، لیکن اس ریاست میں اسلام کا حقیقی نظام کہیں جگہ نہ پا سکا۔ جناح نے جس سیاسی مفاہمت کو "اسلامی نصب العین” کا لبادہ پہنایا، وہ دراصل اقتدار کی جدوجہد تھی، نہ کہ دینی احیاء کی تحریک۔ تاہم، تقسیم کے تمام تر بوجھ کو جناح پر ڈال دینا بھی تاریخی ناانصافی ہوگی۔ حقیقت یہ ہے کہ گاندھی جی اور نہرو جی بھی اس المیے کے برابر کے ذمہ دار تھے۔ اگر وہ ضد، انا اور مستقبل میں ملک میں مسلمانوں کے استحکام کے خطرے اور اقتدار کے نشے سے اوپر اٹھ کر کچھ تدبر دکھاتے تو ملک کی تقسیم روکی جا سکتی تھی۔ مگر سیاسی مفادات نے قومی وحدت کو نگل لیا۔ اس عدم بصیرتی کا خمیازہ آج بھی مسلمان ہی بھگت رہا ہے، جن کی سیاسی، سماجی اور معاشی حیثیت آزادی کے بعد مسلسل زوال کا شکار ہے۔ اگر اُس وقت قیادت اجتماعی مفاد پر متحد ہو جاتی تو نہ یہ تباہی آتی، نہ مسلمان اس قدر برباد اور بے وقعت ہوتا۔ اسی طرح اُن مذہبی راہنماؤں کی اجتہادی خطا بھی قابل غور ہے، جو تقسیم کے فیصلے پر راضی ہو گئے تھے۔ نیتیں خالص تھیں، مگر بصیرت کا بحران تھا۔ انہوں نے وقتی تحفظ یا سیاسی اثر کے خیال سے علیحدگی کو درست سمجھا، مگر انجام کار وہی فیصلہ ملت کی تباہی کا نقطۂ آغاز بن گیا۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب اہل علم و دین سیاست کے جال میں الجھ جائیں اور حالات کے ادراک میں کوتاہی کریں، تو ان کی نیک نیتی بھی کبھی کبھار قوموں کو اندھی گلی میں لے جاتی ہے۔
یہی منافقانہ اور خود غرض سیاست بعد کی نسلوں میں بھی منتقل ہو گئی، اور آج بھی مسلم قیادت اسی دوغلی روش کا شکار ہے،جہاں مفاد، مسلک اور شہرت، ملت سے مقدم سمجھی جاتی ہے۔
**مسلم ووٹ بینک۔ طاقت یا مغالطہ؟**
ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی تقریباً 14 فیصد ہے، جو 70 سے زائد پارلیمانی حلقوں اور تقریباً 120 اسمبلی نشستوں میں فیصلہ کن کردار رکھتی ہے۔ اگر یہ ووٹ منظم ہوں تو ملک کی سیاست کا نقشہ بدل سکتے ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ہر الیکشن میں مسلمانوں کے ووٹ مختلف پارٹیوں میں بٹ جاتے ہیں۔ جذباتی نعرے، وقتی مفادات اور غیرمنظم حکمت عملی اس عددی طاقت کو سیاسی اثر سے محروم کر دیتی ہے۔ ووٹ دراصل محض کسی امیدوار کو جتوانے کا آلہ نہیں، بلکہ اپنی شناخت اور آئینی وجود کے تحفظ کا ذریعہ ہے۔
**آگے کا راستہ۔ شعوری سیاست کی طرف**

اب وقت آ گیا ہے کہ مسلمان جذباتی سیاست سے نکل کر شعوری اور ادارہ جاتی سیاست کی طرف قدم بڑھائیں۔ اس کے لیے چند ٹھوس اقدامات ناگزیر ہیں۔
ووٹ کا تحفظ۔ مساجد، مدارس، جماعتی تنظیموں اور NGO کی سطح پر باقاعدہ ووٹر رجسٹریشن و تصحیح مہم چلائی جائے تاکہ کسی کا نام فہرست سے خارج نہ ہو۔ مسلم نوجوانوں میں سیاسی شعور و آگہی بڑھانے کے لیے Election Literacy پروگرام شروع کیے جائیں تاکہ وہ نعرے نہیں، پالیسیاں پڑھ کر ووٹ دیں۔
دلت، آدیواسی اور سیکولر طبقوں کے ساتھ مشترکہ پلیٹ فارم بنائے جائیں تاکہ انصاف، مساوات اور آئینی تحفظ کی جدوجہد مشترکہ بنیاد پر آگے بڑھے۔ شخصیت پرستی کے بجائے مشاورتی اور ادارہ جاتی قیادت کو فروغ دیا جائے تاکہ فیصلے چند افراد کے بجائے اجتماعی بصیرت سے طے ہوں۔
ملت کی نجات چہروں، نعروں یا وقتی اتحاد میں نہیں بلکہ دانش، اتحاد اور اجتماعی تدبر میں ہے۔ ووٹ محض انتخابی عمل نہیں بلکہ اپنی بقا، شناخت اور شہریت کا بیانیہ ہے۔ جب قوم جذبات کے بجائے فہم و فراست ایمانی سے فیصلے کرتی ہے تو تاریخ اس کے لیے امکانات کے نئے دروازے کھولتی ہے۔ بہار کا الیکشن دراصل ایک آئینہ ہے جس میں پورے ہندوستانی مسلمانوں کو اپنی سیاسی تصویر دیکھنی چاہیے۔ اگر بہار کے مسلمان اس موقع پر اتحاد، حکمت اور بصیرت کے ساتھ قدم اٹھائیں تو یہ محض انتخابی کامیابی نہیں بلکہ ایک نئی مسلم سیاست کی ابتدا ہو سکتی ہے، ایسی سیاست جو جذبات نہیں، علم، تدبر اور شعور شہریت ومستقبل کی مضبوط منصوبہ بندی پر قائم ہو۔

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔