از:-:عارف حسین
ایڈیٹر سیل رواں
آزاد بھارت کی سیاسی تاریخ کا ایک نہایت تلخ مگر مستقل باب یہ ہے کہ مسلم ووٹ جسے کبھی جمہوریت کی نجات دہندہ قوت سمجھا گیا، رفتہ رفتہ ایک ایسی بےبس اکائی میں بدلتا چلا گیا جو نہ اقتدار کی تقسیم میں مؤثر رہا اور نہ ہی اپنی ترجیحات کے تعین میں خودمختار۔ ستر برس سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے باوجود یہ ووٹ آج بھی انہی دو سیاسی چکیوں کے بیچ پسا جا رہا ہے — ایک طرف ہندو قوم پرستی کی علمبردار بھارتیہ جنتا پارٹی، اور دوسری طرف وہ گٹھ بندھن جنہیں ہم سیکولر سمجھنے کی خودفریبی میں مبتلا ہیں، حقیقت میں وہ مسلم ووٹوں کے محض خریدار ہیں، نمائندے نہیں۔
ہار کے بعد مضبوطی کا سیاسی جادو
اگر ہم محض اعداد و شمار کو سامنے رکھیں تو منظر صاف ہو جاتا ہے۔ 1951 میں ڈاکٹر شیاما پرساد مکھرجی نے آر ایس ایس کی سرپرستی میں بھارتیہ جن سنگھ (BJS) قائم کی۔ 1952 میں صرف تین سیٹیں، 1967 میں پینتیس، 1977 میں جنتا پارٹی کے اتحاد کے سہارے کانگریس کو شکست، اور 1980 میں اسی سے الگ ہو کر بھارتیہ جنتا پارٹی (BJP) کی بنیاد۔ اس کے بعد 1984 میں محض دو سیٹوں سے آغاز کرتے ہوئے بی جے پی نے 1998 میں پہلی مرتبہ مرکز میں این ڈی اے کے تحت حکومت بنائی، 2014 میں 282 سیٹوں کی اکثریت حاصل کی اور 2024 میں 240 سیٹوں کے ساتھ ایک بار پھر اقتدار پر قابض ہوئی۔ یعنی ہر شکست کے بعد وہ پہلے سے زیادہ مضبوط، منظم اور جارحانہ صورت میں لوٹی۔
اس کے برعکس مسلم ووٹ ہمیشہ اسی فرسودہ منطق کے اسیر رہے کہ اگر کانگریس یا اس کے اتحادیوں کو ووٹ دیا جائے تو بی جے پی کو روکا جا سکتا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اس سوچ نے بی جے پی کو کمزور نہیں کیا بلکہ ہر ناکامی کے بعد اسے نیا جواز، نیا عزم اور نیا جغرافیہ دیا۔ ہم نے جسے “شکست” سمجھا وہ درحقیقت اس کے لیے “توانائی” ثابت ہوئی، اور جسے ہم نے “حمایت” جانا وہ ہماری “سیاسی بےبسی” کی علامت بن گئی۔
گٹھ بندھنوں کا نعرہ، اقتدار کا کھیل
1989 سے لے کر آج تک ملک کی سیاست دراصل گٹھ بندھنوں کے گرد گھومتی رہی — کبھی نیشنل فرنٹ، کبھی یونائیٹڈ فرنٹ، کبھی یو پی اے اور کبھی انڈیا الائنس۔ ہر اتحاد کا واحد نعرہ یہی رہا: “بی جے پی کو روکو”۔ مگر ان نعروں کے پیچھے کوئی نظریہ، کوئی پالیسی اور کوئی قومی وژن نہیں تھا۔ ان گٹھ بندھنوں نے اقتدار کو تو اپنا مرکز بنایا مگر عوامی مسائل، بالخصوص اقلیتوں کے خدشات کو کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا۔
2004 سے 2014 تک یو پی اے حکومت نے مسلم ریزرویشن، اقلیتی تعلیمی اداروں اور روزگار میں برابری کی بات ضرور کی، مگر زمینی سطح پر کوئی ٹھوس قدم نہ اٹھایا۔ 2024 میں انڈیا الائنس نے بھی اسی پرانی دھن پر نیا گیت چھیڑ دیا — “بی جے پی ہٹاؤ، ملک بچاؤ” — لیکن اس نعرے میں مسلم مسائل کی جگہ پھر خالی رہی۔ یوں ہر انتخابی موسم میں مسلم ووٹ “اسٹریٹجک ووٹ” تو بن گیا مگر “اسٹیک ہولڈر ووٹ” کبھی نہ بن سکا۔
اعداد کی روشنی میں محرومی
اگر ہم پچھلے چند انتخابات پر نگاہ ڈالیں تو صورت حال اور بھی واضح ہو جاتی ہے۔
2020 کے بہار الیکشن میں 77 فیصد، 2021 کے مغربی بنگال میں 75 فیصد، 2022 کے اترپردیش میں 79 فیصد اور 2024 کے لوک سبھا انتخابات میں 42 فیصد مسلم ووٹ مہا گٹھ بندھن کے کھاتے میں گئے۔لیکن ان ووٹوں کے بدلے مسلمانوں کو کیا ملا؟سی اے اے اور این آر سی کا خوف بدستور قائم ہے، تعلیمی اداروں پر بلڈوزر چلائے جا رہے ہیں، روزگار میں مسلمانوں کا حصہ چار فیصد سے بھی کم ہے، اور پارلیمنٹ میں ان کی نمائندگی پانچ فیصد سے نیچے جا چکی ہے۔یہ اعداد و شمار چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ مسلم ووٹ “بی جے پی کو ہرانے” کے لیے تو استعمال ہوتا ہے مگر “مسلم مسائل کو حل کرنے” کے لیے نہیں۔
ابھرتی آوازوں کا خاموش قتل
پچھلے چند برسوں میں جن آزاد مسلم سیاسی چہروں نے اپنی شناخت قائم کرنے کی کوشش کی، انہیں گٹھ بندھنوں نے یا تو بدنام کیا یا پھر اپنے اندر ضم کر کے بے اثر بنا دیا۔
آسام کے معروف عالمِ دین مولانا بدرالدین اجمل، جو AIUDF کے بانی ہیں، 2024 میں دھبری سے کانگریس کے راقیب الحسنین سے دس لاکھ سے زائد ووٹوں کے فرق سے ہارے۔ یہ شکست صرف ایک امیدوار کی نہیں بلکہ ایک ابھرتی ہوئی آزاد مسلم آواز کی تھی۔ بی جے پی کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما نے اجمل صاحب کو “بی جے پی کی بی ٹیم” قرار دے کر مسلم ووٹ کو کانگریس کی طرف دھکیلا، اور AGP نے کمزور امیدوار کھڑے کر کے AIUDF کو نقصان پہنچایا۔
اسی طرح ڈاکٹر محمد ایوب کی پیس پارٹی، جو مسلم، دلت اور پسماندہ طبقات کی نمائندہ تھی، کو سماج وادی پارٹی اور کانگریس جیسے سیکولر فرنٹس نے پوری طرح نظر انداز کیا۔ اور بہار میں AIMIM کے چار ایم ایل اے کو 2022 میں لالو یادو کی موجودگی میں آر جے ڈی میں ضم کر دیا گیا، تاکہ کوئی آزاد مسلم پلیٹ فارم مضبوط نہ ہو سکے۔ یہ محض سیاسی اتفاق نہیں بلکہ ایک منظم پالیسی ہے — “مسلم قیادت کو وجود میں آنے سے پہلے ہی جذب کر لو تاکہ وہ کبھی خودمختار نہ بن سکے۔
نام نہیں، خود مختاری مسئلہ ہے
جنہیں “اتحاد المسلمین”، “یونائیٹڈ فرنٹ” یا “پیس پارٹی” جیسے ناموں سے تکلیف ہے، انہیں یہ سمجھنا چاہیے کہ اصل مسئلہ نام یا نظریے کا نہیں بلکہ آواز کی خودمختاری کا ہے۔یہ جماعتیں شدت پسند نہیں بلکہ امن، جمہوریت اور باہمی احترام کی علامت ہیں۔نام نہاد اقلیت نواز پارٹیاں ان کے درپے اس لیے ہیں کہ ان کا ووٹ بینک کھسکتا ہے۔اسی لیے ان پر بی ٹیم وغیرہ کا الزام دھرتی ہیں۔یعنی کہ وہ مسلم ووٹ تو لینا چاہتی ہیں مگر مسلم نمائندگی نہیں دینا چاہتیں۔
“بی جے پی ہٹاؤ” کی فرسودہ سیاست
اب سوال یہ ہے کہ کب تک “بی جے پی ہٹاؤ” کے نعرے پر مسلم ووٹ قربان ہوتا رہے گا؟کیا ہر بار انہی دو چکیوں کے بیچ پِس کر ہم یہی سمجھتے رہیں گے کہ ہم نے فریضہ ادا کر دیا؟کیا یہ وقت نہیں آ گیا کہ مسلم ووٹ اپنے لیے سوچے، اپنی قیادت تراشے، اپنی ترجیحات طے کرے؟جمہوریت میں ووٹ محض کسی کو ہرانے کا ذریعہ نہیں ہوتا بلکہ اپنی تقدیر لکھنے کا ہتھیار ہوتا ہے۔
اگر یہ ہتھیار صرف دوسروں کے ہاتھ میں رہے تو انجام وہی ہوگا جو آج ہے — طاقتور حکومت، کمزور نمائندگی، اور ایک ایسی قوم جو اپنے ووٹ کے باوجود اپنی آواز سے محروم ہے۔اب وقت ہے کہ یہ ووٹ کسی کو ہرانے نہیں بلکہ اپنا مستقبل بنانے کے لیے ڈالا جائے۔