مولانا ابوالکلام آزادؒ — آزاد ہندوستان میں جدید نظام تعلیم کے بانی

از:- ڈاکٹرسراج الدین ندوی

چیرمین ملت اکیڈمی۔بجنور

مولانا آزادؒ کا شمار ان رہنماؤں میں ہوتا ہے جنھوں نے نہ صرف آزادی کی تحریک میں نمایاں کردار ادا کیا بلکہ آزادی کے بعد قوم اور ملک کی فکری و تعلیمی تشکیل میں بھی اپنی پوری زندگی صرف کر دی۔ وہ ایک مفسرِ قرآن، صحافی، مفکر، ادیب، اور سیاست داں ہونے کے ساتھ ساتھ ایک صاحبِ نظریہ ماہرِ تعلیم بھی تھے۔ ان کی شخصیت علم و فکر، اخلاق و کردار اور انسان دوستی کا حسین امتزاج تھی۔
مولانا ابوالکلام آزادؒ 11 نومبر 1888 کو مکہ معظمہ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد مولانا خیرالدین ایک معروف عالمِ دین تھے اور والدہ کا تعلق ایک معزز عرب خاندان سے تھا۔ تعلیم و تربیت کا آغاز گھر سے ہوا، عربی، فارسی، اور دینی علوم میں مہارت حاصل کی۔ بعدازاں جدید علوم سے بھی واقفیت پیدا کی۔ جوانی میں ہی انھوں نے صحافت کے میدان میں قدم رکھا اور اپنے جریدے ”الہلال“ (1912) اور ”البلاغ“ (1915) کے ذریعے ہندوستان کی فکری فضا میں انقلاب برپا کر دیا۔ان کی تحریروں نے مسلمانوں میں سیاسی شعور، خود اعتمادی اوراہل ملک میں قومی یکجہتی کا جذبہ بیدار کیا۔ ان کے قلم نے غلام ذہنوں کو جھنجھوڑا، اور باشندگان ملک کو علم و شعور کی روشنی میں اپنے مقام کا احساس دلایا۔
مولانا آزاد ؒ نباض وقت تھے،وہ جس گھرانے سے تعلق تکھتے تھے وہ صدیوں سے تعلیم یافتہ تھا۔اس لیے ان کے نزدیک تعلیم کی اہمیت مسلم تھی۔جدید ہندستان میں وہ تعلیم کو محض ملازمت حاصل کرنے کا ذریعہ نہیں بلکہ ”انسان کی کردارسازی کا ذریعہ‘ سمجھتے تھے۔ ان کے نزدیک تعلیم کا مقصد تھا انسان کے اندر چھپی ہوئی صلاحیتوں کو اجاگر کرنا اور اسے ایک باشعور، باکردار، اور ذمہ دار شہری بنانا۔
وہ فرمایا کرتے تھے:”تعلیم کا اصل مقصد یہ ہے کہ انسان کو اپنے خالق اور اپنی حقیقت کا شعور حاصل ہو، اور وہ اپنے علم سے بنی نوعِ انسان کی خدمت کرے۔“ (خطباتِ آزاد، جلد ۲)ان کے نزدیک تعلیم کی بنیاد عقل، کردار، اور اخلاقی تربیت پر ہونی چاہیے۔ اگر تعلیم محض معاشی مفاد تک محدود ہو جائے تو وہ معاشرہ ترقی نہیں بلکہ زوال کی طرف جاتا ہے۔
جب ہم مولانا کے تعلیمی نظریات کا مطالعہ کرتے ہیں اور ان کے ذریعہ کی گئی تعلیمی کوشوں کا جائزہ لیتے ہیں تو ہم سمجھتے ہیں کہ مولانا آزادؒ کے نظریہ تعلیم کے درج ذیل چار بنیادی ستون تھے۔
ذہنی و فکری بیداری
مولانا آزادؒ چاہتے تھے کہ تعلیم کے ذریعے نوجوانوں کے اندر تحقیق، تجسس، اور سوال کرنے کی جرات پیدا ہو۔ وہ کہتے تھے کہ قومیں جمود سے نہیں بلکہ فکر و تدبر سے آگے بڑھتی ہیں۔ان کے نزدیک استاد کا سب سے بڑا کام یہ ہے کہ وہ شاگرد کے اندر سچائی تلاش کرنے کا حوصلہ پیدا کرے۔

اتحادِ قومیت

آزادی سے قبل جب قوم مذہب اور زبان کے نام پر تقسیم کا شکار ہو رہی تھی، مولانا آزادؒ نے ہمیشہ ایک متحد ہندوستان کی بات کی۔انہوں نے ایک موقع پر فرمایا:”میں مسلمان ہوں اور فخر سے کہتا ہوں کہ مسلمان ہوں، مگر اس کے ساتھ ہی میں ایک ہندوستانی ہوں اور فخر سے کہتا ہوں کہ ہندوستانی ہوں۔“ان کے نزدیک تعلیم کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ وہ مختلف مذاہب اور طبقوں کے درمیان اتحاد اور رواداری کو فروغ دے۔اس لیے ملک نے جو نظام حکومت اپنے لیے پسند کیا تھا اس کی بقا کے لیے اتحاد اور رواداری ضروری تھے۔

مذہبی رواداری

مولانا کے تعلیمی نظریات میں مذہبی رواداری کا عنصر اس حیثیت میں ملتا ہے کہ وہ ایک ایسا نصاب تعلیم چاہتے تھے جس میں تمام ہندوستانی ایک دوسرے کا احترام کریں،تمام مذہبی شخصیات کا احترام کریں اور کسی بھی مذہب پر اس طرح کی تنقید ہر گز نہ کی جائے جس سے کسی کی دل آزاری ہوتی ہو۔مولانا آزادؒ قر آن کے گہرے عالم تھے۔ بلکہ مفسر قرآن تھے اور وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ اسلا میں روادی کا بنیاد قرآن مجید کی آیت لَکُمْ دِینُکُمْ وَلِیَ دِین ”تمہارے لیے تمہارا دین ہے اور میرے لیے میرا دین۔“ِ (الکافرون:6)ہے۔

عالمی اخوت

مولانا آزادؒ کی فکر صرف قومی نہیں بلکہ عالمی تھی۔ وہ کہتے تھے کہ تعلیم انسان میں وہ شعور پیدا کرے جو اسے پوری انسانیت کے لیے مفید بنائے۔ ان کا یقین تھا کہ انسانیت کا درد رکھنے والا ہی سچا عالم ہے۔آج ہمارے صاحب اقتدار ہندوستان کو وشو گرو بنانے کی بات کرتے ہیں،لیکن ان کی پالیسیاں خود ملک کے اندر طبقاتی کشمکش پیدا کرنے والی ہیں۔ملک کو وشو گروبنانے کے لیے مولانا ابوالکلام آزاد کے نظریہ تعلیم کو اپناناہوگا جس میں نہ صرف مذہبی روادای کو جگہ دی گئی ہے بلکہ عالمی اخوت کا پیغام پوشیدہ ہے۔

تعلیمی خدمات

جب1947 میں ہندوستان آزاد ہوا تو پنڈت جواہر لال نہرو نے مولانا آزادؒ کو پہلا وزیرِ تعلیم مقرر کیا۔ چنانچہ اپنے مختصر مگر بامعنی دور (1947–1958) میں مولانا آزادؒ نے چندایسے ادارے قائم کیے جنہوں نے بعد کی دہائیوں میں ہندوستان کے علمی و تہذیبی ڈھانچے کو مضبوط کیا:

  • 1.یونیورسٹی گرانٹس کمیشن (UGC) – اعلیٰ تعلیم کے معیار اور ترقی کے لیے۔
  • 2.آل انڈیا کونسل فار ٹیکنیکل ایجوکیشن (AICTE) – فنی تعلیم کو منظم کرنے کے لیے۔
  • 3.انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی، کھڑگ پور (IIT Kharagpur) – جدید سائنسی تعلیم کے فروغ کے لیے۔
  • 4.ساہتیہ، سنگیت اور للت کلا اکیڈمیاں – زبان، ادب اور فنونِ لطیفہ کے فروغ کے لیے۔
  • 5. بالغان کی تعلیم اور لائبریریوں کی ترقی کے منصوبے – تاکہ علم ہر طبقے تک پہنچے۔

مولانا آزادؒ کے نزدیک تعلیم کا ایک اہم پہلو اخلاقی تربیت تھا۔مولانا کواس حقیقت کا ادراک تھا کہ:”علم اگر اخلاق سے خالی ہو تو انسان کو انسان نہیں بلکہ حیوان بنا دیتا ہے۔“وہ اسکولوں اور کالجوں میں کردار سازی، دیانت داری، اور قومی خدمت کے جذبات کو لازمی قرار دیتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اگر تعلیم صرف امتحان پاس کرنے یا ملازمت حاصل کرنے تک محدود ہو جائے تو وہ اپنی روح کھو بیٹھتی ہے۔آج جب تعلیم کا مقصد محض معاشی دوڑ بن چکا ہے، اخلاقی اقدار زوال کا شکار ہیں، اور معاشرہ مذہبی تنگ نظری میں مبتلا ہے، ایسے میں مولانا آزادؒ کی فکر ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے۔
مولانا نے ایسی تعلیم کی وکالت کی ہے جو سائنسی تحقیقات اور بھاری صنعتوں کے شایان شان ہو۔ساتھ ہی ساتھ مولانا سائنسی، تکنیکی اور مادی ترقی کو مذہبی اور اخلاقی اقدار کے تابع کرنا چاہتے تھے۔ مولانا آزاد کی دور بین نگاہ قدیم نظامِ تعلیم سے نکل کر جدید طرز تعلیم سے حاصل ہونے والی تبدیلی پر تھی۔ انہوں نے دینی نظام تعلیم میں مضامین کے تنوع اور جدت کی ضرورت کومحسوس کیا۔انھوں نے قومی تعلیمی پروگرام میں مذہبی تعلیم کے تعلق سے 13 جنوری 1948کو نئی دہلی میں ایک پروگرام کے خطبہ? صدارت میں اپنے نظریہ تعلیم پر بہت تفصیل سے گفتگو کی ہے۔ مولانا کہتے ہیں کہ ”ایک چیز آپ بھول گئے۔ وہ چیز ہے تعلیم اور وقت اور زندگی کی چال کے غیر متعلق کوئی تعلیم کامیاب نہیں ہو سکتی۔ تعلیم ایسی ہونی چاہئے کہ زمانہ کی جو چال ہے، اس کے ساتھ جڑ سکے۔ اگر آپ مذہب اور عصردونوں ٹکڑوں کو الگ رکھیں گے تو وہ تعلیم کامیاب نہیں ہو سکتی۔ آج جو تعلیم آپ ان مدرسوں میں دے رہے ہیں، آپ وقت کی چال سے اسے کیسے جوڑ سکتے ہیں۔ نہیں جوڑ سکتے۔ نتیجہ یہ ہے کہ زمانہ میں اور آپ میں ایک اونچی دیوار کھڑی ہے۔ آپ کی تعلیم زمانے کی مانگوں سے کوئی رشتہ نہیں رکھتی اور ز مانہ نے آپ کے خلاف آپ کو نکما سمجھ کر فیصلہ کر دیا ہے“۔ہم کہہ سکتے ہیں کہ مولانا ابوالکلام آزاد کا تصورِ تعلیم ماضی کا ادراک، حال کی بصیرت اور مستقبل کی آگہی پر مبنی ہے۔
مولانا کی یوم ولادت کویومِ تعلیم کی حیثیت سے منانے کا اصل مقصد یہی ہونا چاہیے کہ ہم ان کے افکار کو زندہ کریں، اپنی نئی نسل کو وہی فکر، اخلاق، اور علم دیں جس کا خواب مولانا آزادؒ نے دیکھا تھا۔اگر ہم ان کے نظریے پر عمل کریں تو یقیناً ہمارا ملک ترقی، امن، اور انسانیت کا گہوارہ بن سکتا ہے۔

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔