از:- ڈاکٹر محمد اعظم ندوی
بہار کے حالیہ انتخابی نتائج نے ایک بار پھر یہ حقیقت آشکار کر دی کہ ریاست کی سیاست خواہ کتنی ہی شوریدہ کیوں نہ دکھائی دے، اس کی جڑیں نہایت گہری اور دور تک پھیلی ہوئی ہیں، بظاہر زمین ہلتی نظر آتی ہے، مگر نیچے تہہ در تہہ چٹانیں جمی رہتی ہیں، عام تاثر یہ تھا کہ اس مرتبہ نتائج میں بڑا تغیر آئے گا، لیکن ووٹ شیئر کے اعداد وشمار نے یہ دکھا دیا کہ بہار میں ووٹ بینک اب بھی اپنی جگہ قائم ہیں، گویا نسلوں سے منتقل ہونے والی سیاسی یادداشت نے ووٹرز کی انگلیوں کو آخری لمحے تک تھامے رکھا۔
جے ڈی یو اور بی جے پی نے اپنے روایتی ووٹ مجموعی طور پر برقرار رکھے، اور اصل تبدیلی چھوٹے اتحادیوں کی شکل میں آئی جنہوں نے چند فیصد ووٹ کا اضافہ کر کے بڑے پلڑے کو فیصلہ کن طور پر جھکا دیا، ایل جے پی اور ہم جیسے گروہوں کے چھوٹے لیکن ٹھوس ووٹ پیکٹ اس الائنس کی ریڑھ کی ہڈی ثابت ہوئے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہندوستانی سیاست میں اصل امتحان یہ نہیں کہ آپ اپنے ووٹ کو بچا لیتے ہیں، بلکہ یہ ہے کہ آپ اپنے اردگرد کے چھوٹے سیاسی دھڑوں کو کتنی دانائی سے اپنے دائرے میں سمیٹتے ہیں۔
اس انتخاب نے یہ بھی واضح کیا کہ فلاحی مدد اور براہِ راست نقد رقوم کی منتقلی اور ترسیل اپنے اندر غیر معمولی کشش رکھتے ہیں، خواتین کو ملنے والی امدادی رقم اور مزید فوائد کا وعدہ محض کوئی انتخابی نعرہ نہ تھا، بلکہ اس کے پیچھے حکومت کے قائم شدہ فلاحی نظام کا اعتبار موجود تھا، بہار جیسی غریب ریاست میں جہاں اوسط آمدنی کم ہے، وہاں ایسے اقدامات ووٹروں کے لیے فوری اور دور رس تبدیلیوں کی تاثیر رکھتے ہیں، اور سیاسی جماعتیں اس حقیقت سے خوب واقف ہیں کہ "جو دے سکتا ہے، وہی لے سکتا ہے”۔
اس کے مقابلے میں اپوزیشن کی مہم بعض جگہ اپنی ہی سنگینی کے بوجھ تلے دبتی رہی، تیجسوی یادو کا ہر گھر سے ایک فرد کو سرکاری ملازمت دینے کا وعدہ عملی طور پر ایک سیاسی ادعا ثابت ہوا، عوام نے اس اعلان کو سنجیدہ کم اور مبالغہ آمیز زیادہ سمجھا؛ چوں کہ کسی نظیر کے بغیر اتنے بڑے وعدے پر بھروسہ مشکل معلوم ہوتا ہے، اور خصوصاً جب کہ بہار میں اتنی آسامیاں فراہم کرنا کوئی کھیل نہیں، اور شاید یہی وہ لمحہ تھا جب اپوزیشن کا وزن رائے دہندگان کے دل سے ہٹنے لگا، سیاسی دعووں میں بلند آہنگ آوازیں سنی جا سکتی ہیں، مگر ناقابلِ عمل وعدے ہمیشہ اپنے پیچھے بےاعتمادی کی لکیر چھوڑ جاتے ہیں۔
اس انتخاب کا ایک اور غیر معمولی پہلو مسلم ووٹ کا رویّہ ہے، دہائیوں سے مسلم ووٹروں کا جھکاؤ واضح تھا، لیکن اس مرتبہ سیمانچل جیسے خطوں میں بدلتے ہوئے رجحان نے یہ بتایا کہ مسلمان محض خوف کی سیاست پر ووٹ دینے کے لیے تیار نہیں، جب سیکولر جماعتیں ووٹ تو چاہتی ہیں لیکن قیادت میں مسلم موجودگی یا حقیقی نمائندگی سے گریز کرتی ہیں، تو ناراضگی بھی جنم لیتی ہے، اس بدلاؤ کا مطلب یہ نہیں کہ اس خطے کے مسلمان ایک بڑی سیاسی منتقلی کے لیے تیار ہیں، مگر یہ ضرور ہے کہ وہ اب "خاموش وفادار” نہیں رہنا چاہتے۔
بہار کی سیاست میں ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ یہاں ووٹر نہ صرف اپنا حال دیکھتا ہے بلکہ ماضی کو بھی اپنے فیصلے میں شامل رکھتا ہے، لالو کے دور کا "جنگل راج” ایک سیاسی اصطلاح بن چکا ہے، جو آج بھی کئی طبقات کے دلوں میں جاگزیں ہے، اسی طرح نتیش کمار کے دور میں ہونے والی معاشی بہتری، انفراسٹرکچر کی توسیع، اور نظم ونسق کی نسبتاً اصلاح بھی لوگوں کی یادداشت میں محفوظ ہے، بہار اب بھی غریب ہے، لیکن وہ دور جا چکا جب ریاست کی شناخت محض پسماندگی تھی، اسی اعتماد نے اُن چند غیر فیصلہ کن ووٹروں کو این ڈی اے کی طرف مائل کیا جو آخری لمحے تک سوچتے رہے کہ ریاست کے آئندہ سال کس سمت جا سکتے ہیں۔
دلچسپ بات یہ رہی کہ انتخابی مہم عمومی طور پر غیر فرقہ وارانہ رہی، چند نعرے ضرور سنائی دیے، مگر بڑے پیمانے پر سیاسی مہم ذات، مذہب اور دھمکی جیسے روایتی حربوں سے خالی رہی، یہ ہندوستانی سیاست میں ایک خوشگوار علامت ہے کہ بہار جیسے بڑے اور حساس صوبے میں بھی معاشرتی تقسیم کے بغیر انتخابی کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے، اس سے یہ پیغام بھی ملتا ہے کہ سیاست دان جب چاہیں تو عوامی ایجنڈے کو اصل مسائل پر مرکوز رکھ سکتے ہیں۔
ایک پہلو یہ بھی سامنے آیا کہ اپوزیشن نئی سیاسی پالیسی اور تخلیقی حکمتِ عملی سے محروم نظر آئی، پرانے نعرے، پرانی تنقیدیں، پرانے چہروں کے بھروسے پر لڑے جانے والے انتخابات اپنی کشش کھو دیتے ہیں، اقتدار کے مقابلے میں اپوزیشن کے لیے اصل ضرورت یہ ہے کہ وہ صرف حکومت کو غلط ثابت کرنے کے بجائے کوئی مثبت متبادل بیانیہ بھی پیش کرے، یہی کمی تیجسوی یادو اور کانگریس کے درمیان نظر آئی، ایک ایسی خلیج جو ووٹروں کی نظر سے اوجھل نہیں رہ سکتی۔
پرشانت کشور کا تجربہ بھی اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ سیاست نہ صرف نظریے اور حکمتِ عملی بلکہ وقت اور صبر کا کھیل ہے، نئے تصورات اور تنظیمی فلسفہ رکھنے کے باوجود وہ اس مرتبہ کوئی اثر پیدا نہ کر سکے، اور شاید یہ یاد دہانی بھی ضروری ہے کہ بہار جیسی ریاست میں نسلوں سے جمی سیاسی صف بندیوں کو ایک انتخاب میں تبدیل نہیں کیا جا سکتا، ہاں انہوں نے ٹکٹ کے سہارے پیسہ بہت کمایا جو آئندہ ان کے کام آئے گا۔
انتخابات کے اختتام پر سب سے بڑا سوال بہار کے مستقبل سے متعلق ہے، لالو پرساد کا سیاسی دور اپنی آخری سانسیں لے رہا ہے، نتیش کمار کے بارے میں عمومی تاثر یہ ہے کہ وہ اپنے سیاسی سفر کے آخری مرحلے میں ہیں، اس صورت حال میں قیادت کا ایک خلا پیدا ہو رہا ہے جسے پُر کرنے کے لیے سب سے چوکنی نگاہیں بی جے پی کی ہیں، پارٹی اب پہلی مرتبہ حقیقی معنوں میں ایک ایسے بہار کا تصور کر رہی ہے جہاں وہ خود کو غیر اتحادی سہاروں کے بغیر مکمل اکثریتی قوت بنائے، لیکن اس کے لیے اسے مقامی قیادت کا وہ مضبوط چہرہ تلاش کرنا ہوگا جو عوام میں اپنا اعتماد قائم کر سکے۔
مجموعی طور پر یہ انتخاب بتاتا ہے کہ بہار کی سیاست محض ذات پات کی دائمی تقسیم نہیں، بلکہ اس میں معاشی امید، فلاحی بیانیہ، سیاسی یادداشت، اور بدلتی ترجیحات ساتھ ساتھ چل رہی ہیں، اگلے چند برسوں میں ریاست میں ایک بڑی سیاسی تبدیلی کے آثار واضح ہیں، اور اس تبدیلی کی سمت کا انحصار اسی بات پر ہوگا کہ کون سی جماعت بہار کے ووٹر کی ذہنی ساخت، اس کے خوابوں، اور اس کی زمینی ضروریات کو زیادہ صحیح انداز میں سمجھ سکے گی۔
یہ تجزیہ یہ فرض کرکے کیا گیا ہے کسی نہ کسی حد الیکشن کمیشن نے جمہوریت کا وقار بحال رکھا ہوگا، ورنہ اگر ووٹ چوری کا بیانیہ ثابت ہو جائے اور اس کے کافی شواہد ہیں تو پھر کچھ بھی کہنا لا حاصل ہے۔