محمد قمر الزماں ندوی
موت ان کی ہے کرے جس پہ زمانہ افسوس
یوں تو مرنے کو یہاں روز مرا کرتے ہیں
ملک کے نامور عالم دین متکلم اسلام ترجمان احناف مناظر اسلام قاطع بدعت حامی سنت حضرت سید محمد طاہر حسین گیاوی رح( پیدائش 1947ء وفات 10 جولائی 2023ء) کا آج کچھ دیر قبل انتقال ہوگیا ۔اللہ تعالیٰ حضرت مولانا مرحوم کی مغفرت فرمائے اور اعلیٰ علین میں جگہ عطا فرمائے وارثین متعلقین منتسبین اور تمام اہل تعلق کو صبر جمیل عطا فرمائے آمین
بچپن سے کانوں کی سماعت سے جن مقررین کی تقریریں کٹرت سے ٹکرائیں اور جن کی تقریریں کو خالی اوقات میں اکثرسنا کرتا تھا ،ان میں مولانا محمد طاہر حسین گیاوی رح کا نام سر فہرست ہے ۔ گو مولانا کی تقریریں مناظرہ کی شکل میں ہوتی اور راقم کو فن مناظرہ سے کوئی خاص مناسبت نہیں ہے اور اس کی افادیت کا بہت کم قائل ہوں ۔ لیکن اس کے باوجود مولانا کی زور خطابت ،قوت بیان اور طرز استدلال و استنباط کا ہمیشہ معترف اور قائل رہا ۔ مولانا کی خدمات کو بھلایا نہیں جاسکتا ، ان کی خدمات کا اعتراف سب کو ہے ۔انہوں نے احناف کی طرف سے بہترین وکالت کی اور غلط فہمیوں کا ازالہ کیا اور احناف پر لگائے گئے الزامات کا انہوں مسکت جواب دیا ۔ رد بدعت پر ان کا جو کام تقریر و تحریر کی شکل میں ہے وہ خاصا کی چیز ہے ۔ مولانا فطری طور پر بلا کے ذہین و فطین تھے، بے پناہ قوت حافظہ کے مالک تھے ،بڑی بڑی حدیثیں مع سند خطبہ میں پڑھتے تھے ، ہر بات مدلل کہتے تھے ، اللہ تعالیٰ نے فوت اخذ و استنباط کی بے پناہ صلاحیت سے نوازہ تھا ۔ مولانا نے رد بدعت پر جو کام کیا ہے ،اس کا کوئی جواب نہیں ۔ دار العلوم دیوبند کے فیض یافتہ اور تربیت یافتہ تھے ،دار العلوم دیوبند کے زمانہ اسٹرائیک میں طلبہ کی سرپرستی کی جس بنا پر سند فراغت حاصل نہیں کر سکے، لیکن اس کے باوجود انہوں نے دار العلوم دیوبند کو اپنی محبت و عقیدت سرمہ بنایا، اس کی عظمت معترف و قائل رہے اور دار العلوم دیوبند نے بھی ان کی خدمات کو سراہا ان کو ان کا مقام دیا ۔۔ مولانا گیاوی رح کے بعض معاصر کی بعض تحریریں ان سے متعلق کہیں پڑھنے کو ملی تھیں ،جس میں زمانہ اسٹرائیک کی ان کی بعض تقریروں کے اقتباسات تھے ،ان کو پڑھنے کے بعد لگا کہ واقعتا اس زمانہ میں بھی وہ شہنشاہ خطابت تھے مجمع کو مٹھی میں کرلینا ان کے جوش خطابت اور انداز بیان ان کے لئے آسان کردیا تھا۔ ان کی تقریروں کے ان جملوں نے طلبہ کے خون میں گردش پیدا کردیا ہوگا ۔ افسوس کہ ان تحریروں کو محفوظ نہیں رکھ سکا ۔ مولانا بہت ہی ذہین لوگوں میں تھے اور یہ حقیقت ہے کہ ذہین انسان میں کبھی کبھی شوخی بھی زیادہ پائی جاتی ہے ۔۔ بہر حال مولانا کے معاصر ان کے متعلقین ان کے بارے میں لکھیں گے اور خوب لکھیں ، میں نے دوران سفر جب کے ٹرین پر ہوں ، یہیں اطلاع ملی، راقم نےمولانا کی زندگی کے بارے میں اپنے کچھ تاثرات پیش کردیے ،متعدد بار مولانا مرحوم کی براہ راست مجمع میں تقریریں سنیں اور سوشل ذرائع سے تو ان کی تقریریں سنتا تھا۔
شاید مولانا کا انتقال آرار میں ہوا ہے اور وہیں ملکی محلہ ولی گنج میں کل صبح آٹھ بجے دن تدفین عمل میں آئے گی ۔ مولانا کافی دنوں سے کمزور اور بیمار تھے اولاد اور وارثین نے خوب خدمت کی اللہ تعالیٰ ان سب کو اس کا بہترین بدلہ دے آمین
بس دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت مولانا سید محمد طاہر حسین گیاوی رح کی مغفرت فرمائے جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام نصیب فرمائے تمام متعلقین وارثین اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے ،نیز امت کو ان کا بدل بلکہ نعم البدل نصیب فرمائے آمین
آسماں ان کی لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزیہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے