Slide
Slide
Slide

رسول رحمت ﷺکا دشمنوں کے ساتھ حسن سلوک

محمد قمر الزماں ندوی،استاد / مدرسہ نور الاسلام کنڈہ ، پرتاپ گڑھ

  انسان کے ذخیرئہ اخلاق میں سب سے کم اور نادر الوجود چیز دشمنوں پر رحم اور ان سے عفو و درگزر ہے ۔ لوگ (فرد ہو یا جماعت) دشمن سے بدلہ اور انتقام لینا اپنا قانونی حق سمجھتے ہیں اور یہ قانونی حق بھی ہے ۔ لیکن اخلاق کے دائرئہ کار میں آکر یہ حق مکروہ تحریمی بن جاتا ہے ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی گواہ ہے اور تمام روایتیں اس پر متفق ہیں، کہ حامل وحی ،رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ دشمنوں کو معاف کیا ،ان سے درگزر کیا اور چشم پوشی سے کام لیا ۔ اس کی درجنوں مثالیں ہم آپ کے سامنے آگے بیان کریں گے ۔

   بدترین دشمنوں کو معاف کردینا رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی وصف ہے ۔حضرت مسیح علیہ السلام نے کہا تھا کہ میں دنیا کے لئے امن کا شہزادہ ہوں ،لیکن شہزادہ امن کی اخلاقی حکومت کا کوئی ریکارڈ اور کارنامہ محفوظ نہیں ہے ۔لیکن امن و سلامتی اور انسانیت و مانوتا کے شہنشاہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بارگاہ ربانی سے ازل ہی سے رحمت للعالمین کا جو خطاب ملا، تو اس خزانہ رحمت میں دوست و دشمن کافر و مسلم بوڑھے بچے عورت مرد آقا غلام پرند و چرند انسان و حیوان غرض کہ ہر صنف ہستی برابر کی حصہ دار ہے ۔

  آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصف رحمت ہی تھا،جس کے باعث فقط تئیس سال کے قلیل عرصے میں اسلام کی جڑیں تمام عالم کے طول و عرض میں پھیل گئیں ۔ دنیا کی تاریخ میں کوئی ایسی مثال نہیں ملتی کہ آباء و اجداد کے طور و طریقوں کے خلاف کسی روش اور طریقہ کو برداشت کیا گیا ہو اور اتنی تیزی سے قبول کیا گیا ہو ۔ایسا نہیں ہوا کہ نامانوس اور اجنبی صدائیں بہ رغبت سن لی گئیں ہوں ۔

  حضرت نوح علیہ السلام کو سیکنڑوں برس قوم کی نفرت ،مزاحمت اور وحشت کا سامنا کرنا پڑا مجبور ہوکر اور تنگ آکر اللہ تعالیٰ سے قیامت خیز طوفان کی استدعا کی ۔ سورہ نوح میں اس کی تفصیل پڑھ سکتے ہیں ۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو قید و بند اور دار و رسن کا منظر پیش آیا ،انہیں مخالف جماعت اور مخالف حالات کا سامنا کرنا پڑا ۔ صرف تیس چالیس نفوس کی جماعت بنانے بروایت نصاریٰ سولی پر چڑھ گئے ۔( جس کی نفی قرآن نے کی اور کہا۔ و ما قتلوہ و ما صلبوہ ولکن شبہ لھم )…

   تہذیب انسانی کی ارتقاء اور تہذیب انسانی کی بلندیوں تک پہنچانے کا دعوے دار ۔تاہم اسی حکمت کدہ میں سقراط کو زہر کا پیالہ پینا پڑا اور وہ زہر کا پیالہ پی کر ہمیشہ کے لئے راہ ملک عدم ہوگیا ۔ لیکن جب رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارادہ کرلیا کہ اس وقت تک تہذیب و ثقافت اور انسانیت کی تکمیل کے لیے مشن جاری رکھوں گا،جب تک ایک شتر سوار صنعاء سے حضر موت تک سفر کرے گا اور اسے خدا کے سوا کسی کا ڈر نہ ہوگا اور پھر ایسے ہی ہوا ۔مالک کائنات خود پکار اٹھا وما ارسلناک الا رحمة للعالمین ،،اور ہم نے آپ کو ساری جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے ۔

آئے دنیا میں بہت پاک و مکرم ہوکر 

کوئی آیا نہ مگر رحمت عالم بن کر

    آئیے رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت، عفو و درگزر اور دشمنوں سے چشم پوشی کی چند مثالیں پیش کرتے ہیں ۔  رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ دشمنوں سے درگزر کیا ،کانٹے بچھانے والوں، گالی دینے والوں اور پتھر برسانے والوں پر بھی پھول برسائے ۔ آپ کو علم ہوگا ،تاریخ میں یہ سب ریکارڈ موجود ہیں ۔

  •   وہ وحشی بن حرب رض جو اسلام کے قوت بازو اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عزیز ترین چچا حضرت حمزہ رض کا قاتل تھا ۔مکہ میں رہتا تھا ۔جب مکہ مکرمہ میں اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ ہوا، اسلام کی قوت نے ظہور کیا، تو وہ بھاگ کر طائف آیا ۔طائف نے بھی آخر سر تسلیم خم کیا، تو وہ ناچار خود رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن میں پناہ لی ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے معاف کردیا اور صرف اتنا فرمایا کہ وحشی ! تم میرے سامنے نا آنا مبادا پیارے چچا کی یاد آجائے اور میری زبان سے تمہارے لیے کوئی جملہ نکل جائے ۔۔ بخاری شریف میں یہ واقعہ موجود ہے ۔
  •   عکرمہ رضی اللہ عنہ دشمن اسلام ابو جہل کے بیٹے تھے ۔اسلام قبول کرنے سے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سخت ترین دشمن اور اسلام کے کٹر مخالف اور مسلمانوں کے جانی دشمن تھے ۔فتح مکہ کے موقع پر بھاگ کر یمن چلے گئے ۔ان کی بیوی مسلمان ہوچکی تھی ،اس کی تبلیغ سے عکرمہ رض نے بھی اسلام قبول کرلیا اور ان کی بیوی ان کو لے کر خدمت اقدس میں حاضر ہوئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو دیکھ کر فرط مسرت سے اٹھ کھڑے ہوئے ۔اور اس تیزی سے ان کی طرف استقبال کے لئے بڑھے کہ جسم مبارک پر چادر تک نہ تھی اور فرمایا ،، مرحبا بالراکب المھاجر ۔۔ کیا دنیا میں دشمنوں سے معافی، چشم پوشی اور عفو و درگزر کی کوئی ایسی مثال مل سکتی ہے ۔سچ ہے کہ

دشمن سے نہ بدلہ لیا حضرت نے کبھی بھی

مارا بھی تو اخلاق کی تلوار سے مارا 

  •        حضرت ابو سفیان رض اسلام لانے سے پہلے کیا کچھ تھے اور اسلام کے خلاف انہوں کیا کچھ نہیں کیا ؟ غزوات نبوی کا ایک ایک حرف اس کا شاہد اور گواہ ہے ،بدر سے لے کر فتح (مکہ) تک جتنی لڑائیاں اسلام کو لڑنا پڑیں، ان میں تقریبا تمام میں ان کا ہاتھ تھا ،لیکن فتح مکہ کے موقع پر جب گرفتار کرکے لائے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ محبت ،لطف و کرم اور رحمت کے ساتھ پیش آئے اور عفو و درگزر کا معاملہ فرمایا ۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے گزشتہ جرائم کی پاداش میں ان کو قتل کرنا چاہا ،لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف منع فرمایا بلکہ ان کے گھر  کو دار الامن بنا دیا اور یہ فرمایا ،، من دخل دار ابی سفیان فھو آمن ،، جو ابو سفیان رض کے گھر داخل ہوجائے گا ،اس کا قصور معاف ہے اور اس سے کسی قسم کا مواخذہ نہیں ہوگا ۔۔( سیرة النبی شبلی نعمانی رح جلد اول)
  • حضرت ابو سفیان رض کی بیوی ہندہ اسلام لانے سے پہلے اپنے شوہر کے نقش قدم پر تھیں ،اسلام اور مسلمانوں اور پیارے آقا سے سخت نفرت تھی ، جنگ احد میں اس خاتون نے آپ کے محبوب چچا کے قلب و جگر کو چبایا اور ناک کان کا ہار بنا کر پہنا اور اس دن اپنے اس عمل پر  بے پناہ خوشی کا اظہار کیا ،اس نے وحشی بن حرب کو اس شنیع حرکت کے لئے آمادہ کیا تھا ،فتح مکہ کے دن جب وہ مجبور ہوکر سامنے حاضر ہوئیں تو یہاں بھی اپنی شوخی کا اظہار کیا ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تو بدلہ لے سکتے تھے ،لیکن آپ نے معاف کردیا ،در گزر سے کام لیا اور بیعت کی درخواست پر بیعت کے لیے راضی ہوگئے اور ہندہ اب تک دشمن اسلام کے صفوں میں تھی اب مسلمان ہوگئیں اور اس موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی بے پناہ محبت کا اظہار کیا۔
  •       خیبر میں ایک یہودن نے آپ کو کھانے میں زہر دیا ،آپ کو زہر کا اثر محسوس ہونے لگا تو یہودیوں کو بلا کر تحقیقات کی، بالآخر انہوں نے اقبال جرم کرلیا ،آپ نے کسی سے کچھ تعرض نہ فرمایا اگر چہ آپ ہر اس زہر کا اثر آخر وقت تک رہا ،جب اسی زہر سے ایک صحابی کا انتقال ہوگیا تگ آپ نے صرف اس یہودن سے ان کا قصاص لیا ۔
  •       طائف کا واقعہ آپ کی زندگی کا سب سے مشکل اور کٹھن و تکلیف دہ مرحلہ تھا ،طائف کے سرداروں کے اشارے پر وہاں کے اوباش نوجوانوں نے آپ کے ساتھ مظالم کے جو پہاڑ توڑے وہ انتہائی تکلیف دہ ہے ،آپ نے فرمایا وہ دن میری زندگی کا سب سے تکلیف دہ اور مشکل دن تھا ۔ خدا کے حکم سے رحمت کے فرشتے مدد کے لیے آپہنچے ، اور عرض کنا ہوئے اگر آپ حکم دیں تو اہل طائف کو ان دو پہاڑوں کے درمیان پیس کر رکھ دوں ، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں ۔۔نہیں نہیں ۔بشر ہیں بے خبر ہیں ان کے لئے تباہی کی دعا کیوں مانگوں ؟ ۔  آپ نے سب کو معاف کردیا اور فرمایا یہ نہیں تو ان کی آنے والی نسل میری دعوت کو قبول کرے گی ،پھر وہی ہوا جو آپ نے فرمایا ،پورے طائف کے لوگ حلقہ بگوش اسلام ہوئے ۔
  • دشمنوں کے ظلم و ستم سے تنگ آکر ایک صحابی خباب بن ارت رضی اللہ عنہ نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان لوگوں کے حق میں بدعا فرمائیے ۔یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ سرخ ہوگیا ،اور فرمایا میں دنیا کے لئے زحمت نہیں بلکہ رحمت بنا کر مبعوث کیا گیا ہوں ۔( الاستیعاب و الاصبابہ )
  •   فتح مکہ کی تاریخ اور وہ دن ذہن میں لائیے ۔آج رحمت عالم فاتح کی حیثیت سے اپنے آبائی شہر میں داخل ہورہے ہیں ۔یہ وہی پیارا شہر ہے ،جس سے دس سال قبل قریش نے رات کی تاریکی میں نکل جانے پر آپ کو مجبور کردیا تھا ۔ دس سال قبل کی وہ گھڑی تھی ،اس وقت مکہ والوں نے رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے سر کی قیمت سو سرخ اونٹ مقرر کی تھی ۔ لیکن آج فاتح اعظم غیظ و غضب کا پیغام نہیں ہیں ،بلکہ رحم و کرم اور عفو و درگزر کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہیں ۔اس فاتح عالم نے آج اپنے قول و فعل سے غیظ و غضب کے تمام آتش کدوں کو ٹھنڈا کیا ہے ۔آج اکڑی ہوئی گردنیں جھکی ہوئی ہیں ۔

  آج فاتح عالم تن تنہا مہاجر نہیں ہیں بلکہ فاتحین کے جم غفیر کے ہمراہ ہیں ۔ مجرمین تھر تھر کانپ رہے ہیں ۔ان مجرمین میں وہ حوصلہ مند بھی ہیں، جو اسلام کو مٹانے اور نیست و نابود کرنے میں پیش پیش تھے ،وہ بھی ہیں جن کی زبانیں رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر گالیوں کے بادل برسایا کرتی تھیں ۔وہ بھی ہیں جن کے تیغ و سناں نے پیکر قدسی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گستاخیاں کی تھیں ،وہ بھی ہیں ،جنہوں نے ہر طرح سے آپ کو ستایا تھا راہ میں کانٹے بچھائے تھے ،وہ بھی ہیں جس نے پتھروں سے آپ کے جسم اطہر کو لہو لہان کیا تھا ۔وہ بھی تھے جنہوں نے مدینے پر متعدد بار حملے کئے، وہ بھی تھے جنہوں نے پیارے آقا کے صحابہ کو بری طرح ستایا اور ان پر مظالم کے پہاڑ توڑے ،جلتی ریت پر لٹا کر ۔ان کے سینے پر آتشیں مہریں لگایا کرتے تھے ۔

رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت پرسکون انداز میں ان کی طرف دیکھا اور پوچھا کہ تم کو کیا معلوم ہے کہ میں تم لوگوں کے معاملہ میں کیا کرنے والا ہوں ؟ یہ لوگ اگر چہ ظالم تھے ،شقی تھے ،مجرم تھے، بے رحم تھے، لیکن مزاج شناس بھی تھے پکار اٹھے اخ کریم و ابن اخ کریم ۔۔ دفعتا رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان اقدس نے جنبش کی اور یہ اعلان ہوا لا تثریب علیکم الیوم اذھبوا فانتم الطلقاء ،، کسی سے کوئی باز پرس نہیں ،جاؤ آج تم سب آزاد ہو ۔۔

کیا دنیا ایسی کوئی مثال اور تاریخ پیش کرسکتی ہے ۔ نہیں، نہیں ، نہیں ، نہیں ،

  رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے عین میدان جنگ میں بھی رحم و کرم اور رحمت و شفقت کا دامن کبھی ہاتھ سے نہ چھوڑا ۔ تاریخ شاہد ہے کہ جنگ ایک سیلاب ہے ، جب یہ سیلاب بڑھتا ہے ،اس میں موج، تھپیڑا اور طغیانی آتی ہے ،تو غیظ و انتقام کی موجیں مسکراتی انسانیت ،لہلہاتا چمن ،شگفتہ تہذیب اور شائستہ تمدن کو خس و خاشاک کی مانند بہا کر لے جاتی ہیں ۔  مسکراہٹوں کو زندگی سے چھین لیا جاتا ہے ،تہذیب و تمدن کے برگ و بار مرجھا جاتے ہیں اور کلچر و ثقافت کے نقوش مٹ جاتے ہیں ۔لیکن رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تمام جنگی رسومات کا قلع قمع کردیا ۔ اسلام سے پہلے جنگوں میں خلاف انسانیت اور انسانیت سوز افعال کا ارتکاب کیا جاتا تھا ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تمام افعال کو یکسر موقوف کردیا اور جنگی اصلاحات کی تعلیم دی ۔صرف مدافعت ،انسانیت کے احترام اور مظلوم کی حمایت میں جنگ کرنے کی اجازت دی ۔

  حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فوج کو روانہ کرتے وقت فرماتے کہ کسی بوڑھے ضعیف بچے اور عورت کا قتل نہ کرنا ،مال غنیمت میں خیانت نہ کرنا ،صلح کی روش اختیار کرنا اور احسان کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑنا ۔حضرت عبداللہ بن زید انصاری رض سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران جنگ لوٹ مار اور مثلہ کرنے سے منع فرمایا ۔ دشمنوں کیساتھ عفو و درگزر اور رحم و کرم کے واقعات سے تاریخ و سیر کی کتابیں بھری پڑی ہیں ۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مدنی زندگی کا واقعہ ہے کہ نجد سے جو غلہ مکہ جایا کرتا تھا ،اسے نجد کے ایک سردار ثمامہ بن اثال رض نے اس بنیاد پر بند کردیا کہ وہ سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن ہیں ،جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم تڑپ گئے اور مکہ والوں کو غلہ بھیجنے کا حکم صادر فرمایا ۔ (زاد المعاد 3/ 247)…

اس سے بھی زیادہ تعجب خیز واقعہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ سخت قحط پڑا ،یہاں تک کہ لوگوں نے مردار اور ہڈیاں کھانی شروع کر دیں ،ابوسفیان بن حرب جو ان دنوں کٹر دشمن تھا ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور کہا محمد ! آپ لوگوں کو صلہ رحمی اور حسن سلوک کی تعلیم دیا کرتے ہیں ،دیکھئے آپ کی قوم ہلاک ہورہی ہے ،خدا سے دعا کیجئے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی اور خوب بارش ہوئی. ( رحمة للعالمین 1/ 265)

 دشمنوں کو معاف کرنے ان سے درگزر کرنے اور خصوصا دشمنوں کی معاشی فکر مندی اور ان کے بارے میں رحم کا یہ پہلو ،ذرا انصاف سے بتائے کہ کس انسان کے اندر پایا جاسکتا ہے ؟ یقینا یہ اوصاف اسی کے ہوسکتے ہیں ،جو ساری دنیا کے لئے رحمت بنا کر بھیجا گیا ہو ۔۔۔

   یہ تھیں دشمنوں کیساتھ نبی رحمت کے رحیمانہ پہلو کی چند جھلکیاں ، جن کا ذکر کیا گیا ،اگر مزید چاہیں تو کسی اور موقع پر اس کا تذکرہ ہوگا اور یاد رکھیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی وصف کو بیان کرنے کے لئے یہ کہنا درست ہوگا کہ

سفینہ چاہیے اس بحر بے کراں کے لئے

مراجع و مصادر 

 

  • متعدد کتب حدیث
  • زاد المعاد علامہ ابن قیم رح
  • سیرة النبی علامہ شبلی نعمانی رح
  • خطبات مدراس  علامہ سید سلیمان ندوی رح 
  • نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم مولانا علی میاں ندوی رح
  • مقالات سیرت ڈاکٹر محمد آصف قدوائی 
  • معاشرت نبوی اور جدید سائنس حکیم طارق محمود چغتائی 
  • رحمة للعالمین سلیمان منصور پوری رح 
  •  ششماہی زبان خلق حیدر آباد شمارہ ربیع الاول تا شعبان 1431ہج 
  • الرحیق المختوم / مولانا صفی الرحمن مبارک پوری رح

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: