اب کہاں ڈھونڈھنے جاؤ گے ہمارے قاتل
اب کہاں ڈھونڈھنے جاؤ گے ہمارے قاتل

بھارت کے اس تکثیری سماج کو کبھی دنیا کے لیئے ایک نمونے کے طور پر پیش کیا جاتا تھا یہاں کی جمہوریت قانون اور دستور کی دنیا مثالیں پیش کرتی تھی لیکن اب وہ ملک کے کسی بھی حصہ میں نظر نہیں آرہی ہے اگر کسی کو نظر آبھی رہی ہے تو صرف اوراق کے دامن پر جو قوانین جو باتیں پڑھنے لکھنے تک اچھی لگتی ہیں اتنی ہی خوب صورت عملی میدان میں بھی نظر آنی چاہیئے ورنہ خواب تو سجانے سے دور ہوجائیں گے بلکہ جو پایا وہ بھی کھوتے رہیں گے اس وطن عزیز کو ہمارے آبا و اجداد نے جس خون جگر سے سینچا ہے وہ کوئی معمولی قربانیاں نہیں تھی لیکن آج کے اس نئے بھارت میں ان قربانیوں کا صلہ ظلم، عدم رواداری،مذہبی تفریق کی شکل میں ملک کے گوشے گوشے میں دستیاب ہے

شکر گزاری کا فلسفہ
شکر گزاری کا فلسفہ

آج کل ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ معمولی پریشانیوں یا مسائل پر فوراً ناشکری کرنے لگتے ہیں اور اللہ کی عطا کردہ بڑی نعمتوں کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔ مثلاً کسی کو ذرا سا مالی نقصان ہو جائے تو وہ اللہ کے رزق کو بھول کر شکایت کرنے لگتا ہے، حالانکہ اس کے پاس صحت، گھر اور خاندان جیسی بےشمار نعمتیں موجود ہیں۔ اسی طرح، اگر موسم کسی کے حق میں نہ ہو، جیسے گرمی یا سردی کی شدت، تو لوگ فوراً شکایت کرنے لگتے ہیں، یہ بھول کر کہ اللہ نے ہمیں لباس، رہائش، اور زندگی کی دیگر سہولتوں سے نوازا ہے۔

تنہا سفر کی ممانعت
تنہا سفر کی ممانعت

حالات بدل چکے ہیں، نقل و حمل کے ذرائع ترقی پذیر بلکہ ترقی یافتہ ہو چکے ہیں، انسان کئی کئی دنوں کا سفر اب گھنٹوں میں کر لیتا ہے اور گھنٹوں کا سفر منٹوں میں کر رہا ہے ، سہولتوں کی فراوانی چاروں طرف نظر اتی ہے لیکن اس کے باوجود قول نبی برحق ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد بجا ہے اپ کی دوراندیشانہ گفتگو اور اپ کی زبان فیض ترجمان سے نکلے ہوئے الفاظ و کلمات خدائے رحمان و رحیم کی منشا و مراد کے مطابق ہوتے ہیں چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے

تازہ ترین پوسٹ

تعارف و تبصرہ

"خانوادۂ ہدیٰ کے لعل و گہر” :تعارف و تأثر

زیر نظر کتاب " خانوادۂ ہدیٰ کے لعل و گہر" مولانا مظاہر حسین عماد عاقب قاسمی استاد جامعہ اسلامیہ شانتا...
Read More
شخصیات

جامعہ اشرفیہ مبارک پور کی بنیاد میں اعلی حضرت اشرفی میاں کا حصہ

یہ ادارہ ہندوستان کے صوبہ اتر پردیش کے مشہور ضلع اعظم گڑھ کے اندر قصبہ مبارک پور میں واقع ہے۔...
Read More
تاریخ و سیر

شاہی جامع مسجد سنبھل: ایک تاریخی جائزہ

تاریخ ماضی کے واقعات کا آئینہ ہوتی ہے ، ہندوستان میں مختلف مذاہب اور ثقافتوں کے مابین باہمی رواداری اور...
Read More
تجزیہ و تنقید

گودی میڈیا کا مکروہ چہرہ اور سپریم کورٹ کا ردعمل

جامع مسجد سنبھل تنازع گودی میڈیا کا مکروہ چہرہ اور سپریم کورٹ کا ردعمل ✍ سید سرفراز احمد ________________ اصل...
Read More
تجزیہ و تنقید

احسان فراموشی نہ کریں: بیرسٹر اسد الدین اویسی کی خدمات کا اعتراف ضروری ہے

حال ہی میں بیرسٹر اسد الدین اویسی صاحب کی مالیگاؤں میں کی گئی تقریر کے بعد کچھ حلقوں میں ایک...
Read More

تذکرہ مرشد الامت کا :حضرت مولانا محمد رابع حسنی ندویؒ

 از : عبدالرحیم ندوی  استاذ  دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ 

 نورانی چہرہ، گوری چٹی رنگت  چہرہ پر  سفید براق لمبی داڑھی،  متوسط گول سر ، سر پر ہلکے بال اس پر کھڑی دیوار شیروانی ٹوپی،چمکتی پیشانی  آنکھوں پر سنہری عینک. عینک کے اوٹ سے جھانکتی دوربیں آنکھیں، ناک پر عینک کے نشان، میانہ قد، ہلکا کشادہ دہن،   ترشی ہوئی لب بھر باریک مونچھیں،ابرو پر معمولی بال، ہونٹوں پر ہلکی مسکراہٹ ، سر پر سفید رومال،رومال کے نیچے ٹوپی  ہاتھ میں عصا، کلائی پر چست بندھی گھڑی  بھرا بھرا بدن، نرم گداز روئی کے گالوں کی مانند ہتھیلی، بھری بھری پر گوشت پنڈلیاں، بغیر کالر کے سفید بنگلہ کرتا  سردیوں میں رنگین اونی کرتایا سفید کرتے پر اونی کرتا  ہمہ وقت صدری ، خاص موقعوں پر شیروانی زیب تن کئے ہوئے متواضع و منکسرالمزاج، سادگی پسند  مسلم پرسنل لا کے چوتھے صدر  ندوہ میں  حسنی خاندان کے چوتھے ناظم، رابطۂ عالم اسلامی کے        رکن تأسیسی،رابطۂ ادب اسلامی کے صدر، نصف صدی سے زائد  سفر وحضر میں مفکر اسلام حضرت مولانا علی میاں کے ساتھ  رہنے والے، انکے علمی و انتظامی کاموں  میں شریک وسہیم، اخیر دور میں ملت اسلامیہ ہندیہ کی آبرو، مرشدالامت کا لقب پانے والے، راہ سلوک کے رہرو، شیخ کامل .ہر محفل کے صدر نشیں اعتدال وتوازن کا مجسم نمونہ، ہندوستان کی متفق علیہ شخصیت، مسائل کا حل حکمت وتدبر سے کرنے والے  اختلاف ومخالفت کا فرق ملحوظ رکھنے والے، 23 سال تک ندوہ کی نظامت کے اہم عہدہ پر فائزرہ کر سادگی کی مثال قائم رکھنے والے. ماہرنفسیات ، تعلیم وتربیت میں یدطولی رکھنے والے،  تصنیف وتألیف کے میدان میں  "رہبر انسانیت،”  قرآن رہبر کامل” سماج کی تعلیم و تربیت،” جزیرةالعرب”  منثورات” اور الادب العربی جیسی اہم ومقبول تصنیفات کے مصنف …” تعمیر حیات "والرائد” کے  بانی ومستقل کالم نگار. ، خانوادہ علم اللہی  بلکہ ہندوستان کی بزرگ ترین شخصیت  دنیا کی انتہائی بااثر مسلم شخصیات میں شامل، درجنوں ممالک کا سفر کرنے والے انگنت  اوصاف حمیدہ کے حامل ، اس دور انحطاط میں بے مثال شخصیت کے مالک، اللہ نے حضرت مولانا علی میاں  رح کی جا نشینی کے بعد ایسی مقبولیت عطا کی کہ آپ کا کوئ  ثانی نہ رہا اگر یہ کہا جاۓ کہ آپ حضرت مولاناعلی میاں  صاحب رحمہ اللہ کی شخصیت کا امتداد تھے تو مبالغہ نہ ہوگا۔

قارئین یہ  تھے ہمارے مرشد الامت حضرت مولاناسید محمد رابع حسنی ندوی:

  جو 21 رمضان المبارک 1445.مطابق 14اپریل 2023.(3:30pm )   کو ہم سے رخصت ہو گئے۔ آپ کے انتقال سے امت مسلمہ ہندیہ کے سر سے ایک گھنیرا سایہ اٹھ گیا ، پرسنل لا بورڈ متفق علیہ صدر سے اور ندوۃ العلماء  اپنے ناظم باتدبیر سے محروم ہوگیا اور بے شمار تحریکوں اور تنظیموں نے ایک قائد اور مدبر کو  کھو دیا، گویا ایک شخص نہیں بلکہ ایک جہاں ہم سے رخصت ہو گیا ہو۔  سچ ہی کہا گیا ہے” موت العالم موت العالم”  کہ آپ کے جانے سے ندوہ کی نظامت "مسلم پرسنل لابورڈ ” کی صدارت  دارعرفات،  رابطۂ عالم اسلامی، رابطۂ ادب اسلامی، تحریکِ پیام انسانیت اور نہ جانے اس طرح کے بے شمار منصب  خالی ہوگئے ۔

            حضرت مولاناسید محمد رابع حسنی ندوی رح 29اکتوبر 1926 مطابق 25 جمادی الثانی 1348 میں خانوادۂ علم اللہ میں پیدا ہوئے  ،یہ قطبی سادات کا خاندان سن..1210ءمیں  ہندوستان آیا، پھر کڑا مانک پور ضلع پرتاب گڑھ اور وہاں سے نصیرآباد رائے بریلی میں آباد ہوا اور پھر  خاندان کے ایک بڑے بزرگ شاہ علم اللہ ایک اللہ والے مجذوب کے اشارہ پر   رائے بریلی میں "سئی ندی” کے کنارہ آکر فروکش ہوئے، آگے چل کر یہ جگہ "تکیہ کلاں "” یا دائرہ شاہ علم اللہ "کے نام سے جانی گئی ، اس علمی خانوادہ میں ایک سے بڑھ کر ایک آفتاب وماہتاب نے جنم لیا  ” ایں  خانہ ہمہ آفتاب است” کا سچا مصداق ہے ۔ یہ خاندان مجاہد آزادی سید احمد شہیدرحمہ اللہ سے لیکر مولانا علی میاں ندوی (رحمہ اللہ) پھر حضرت مولانا سیدمحمدرابع حسنی ندوی رح تک کتنے لعل وگہر اس  خانوادہ سے نکلے اور دنیا کی دینی وملی رہنمائی کی، شمار مشکل ہے۔  مصنفین ومؤلفین کی گنتی نہیں ہے،، تاریخ، ادب، سیرت، سوانح، نصاب کوئی کوچہ ایسا نہیں جس میں اس خانوادہ کے افراد کی لمبی قطار نہ نظر آتی ہو۔

           اسی علمی وروحانی خانوادہ کی ایک ممتاز دینی، علمی اور ملی شخصیت حضرت مولاناسید  محمد رابع حسنی ندوی (رحمہ اللہ) کی بھی تھی  آپ کے دادا کو محمد نام اتنا پسند تھا کہ ہر بچے کا نام محمد رکھا، یا اسکے نام میں محمد رکھا. چنانچہ آپ کا نام بھی محمد رکھا گیا  اور امتیاز کے لۓ عربی عدد لگا دیا گیا  آپ اپنے بھائیوں میں چوتھے نمبر کے تھے اس لۓ آپ کے نام کے ساتھ رابع لگایا گیا چونکہ یہ خانوادہ چندے آفتاب وچندے ماہتاب ہے ہندستان میں دینی پیشوائی ورہنمائی  وراثت  میں چلی آرہی ہے اسلئے فطری طور پر ہر بچے کی تعلیم وتربیت دینی ہوتی ہے مولانا کے دونوں ماموں یعنی ڈاکٹر سید عبدالعلی حسنی اور مولانا ابوالحسن علی حسنی ندوی رحمہم اللہ اور خود نانی صاحبہ (والدہ ماجدہ مولانا علی میاں)دینی تعلیم وتربیت پر زور دیتی تھیں لہذا آپ کے لئے بھی دینی تعلیم کا نظم کیا گیا، گھریلو تعلیم کے بعد ندوہ جس میں آپ کے نانا حضرت مولاناحکیم  عبد الحی حسنی صاحب بانیوں میں تھے پھر ماموں ڈاکٹر عبد العلی حسنی صاحب کے زمانہ  سے  تو ابتک نظامت چلی آرہی ہے گویا ندوہ گھر کی چیز تھی  لیکن آپ کی تعلیم مدرسہ کے نظام سے ہٹ کر شخصی زیادہ رہی درجہ اور مدت سے ہٹ کر استاذ اور کتاب کی بنیاد پر ہوئی .چنانچہ ندوہ اور دیوبند دونوں جگہوں سے آپ نے فاضل اساتذہ سے استفادہ کیا  اور بھر پور کیا، لیکن آپ کی شخصیت کی تشکیل میں گھریلو ماحول کے بعد, سب سے زیادہ حصہ بلکہ مکمل حصہ  مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی رحمہ اللہ کا ہے . آپ کی شخصیت کی تشکیل مفکر اسلام حضرت مولاناسید  ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ نے اپنے خاص انداز سے کی تھی اور خوب کی تھی اخیر دور میں تو مولانا کی جانشینی کے بعد ایسا لگتا تھا  کہ مولانا علی میاں صاحب کی شخصیت  قلباوقالبا ہر طرح سے آپ کی شخصیت میں حلول کر گئی ہے  پہلی نظر میں دھوکا سا ہونے لگاتھا، آپ پر  حضرت مولانا علی میاں کا گمان ہونے لگا تھا۔

 حضرت نے بارہا یہ  واقعہ سنایا کہ ماموں جان کا انداز تربیت بہت نرالا تھا وہ غلطی پر تنبیہ کو کافی نہیں سمجھتے تھے بلکہ اس  کو ذہن نشیں کرانا ضروری سمجھتے تھے اس  لئے  وہ غلطی پر اتنی تذلیل کرتے، عار دلاتے اور خود ایسا انداز اپناتے کہ سامنے والا پریشان ہو جاتا، رونے لگتا اور یہ عزم کرنے پر مجبور ہو جاتا کہ اب اس سے یہ غلطی سرزد نہیں ہوگی ،مولانا فرماتے  تھے کہ جب میں ” دیوان حماسہ” پڑھنے لگا تو ماموں جان نے اپنی،، منجد،، مجھ کو دے دی اور کہا اب سبق تیار کرکے لانا ہے میں انتھک کوشش کرتا اور کسی طرح سے سبق تیار کرکےلاتا  پھر اگر ایک  غلطی بھی آجاتی کسی کلمہ کی ایک شکل اگر گزر چکی ہوتی اور دوسری شکل کے پہچاننے میں دشواری ہوتی  تو پھر اتنا چیں بچیں ہوتے اتنا ڈانٹتے کہ رونا آجاتا   فرماتےتھے  کہ میں نے جو حماسہ پڑھی ہے  شاید کوئی صفحہ  ایسا ہو جس پر میرے آنسو نہ بہے ہوں اس طرح تربیت کی سخت بھٹی میں تپا تپا کر  آپ کو کندن بنایا گیا تھا  پھر یہ سونا اتنا کھرا بن کر سامنے آیا کہ پوری ملت ہندیہ کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیا انتظام انصرام میں یکتا قرار پایا  مدبر ملت اور مرشد الامة جیسے  خطابات سے نوازا گیا ، اپنی دور رسی اور فہم وفراست سے ملت کی بڑی خدمت انجام دی۔

مولانا نے  دینی علمی اور قائدانہ کردار ادا کرنے والے گھرانے میں آنکھ کھولی تھی  اور قدرت نے آپ کو بڑے بڑے لوگوں سے استفادہ کا خوب موقع عطا کیا جس سے آپ کی شخصیت بہت پختہ اور تجربہ کار ہو گئی اورحضرت مولانا علی میاں صاحب ندوہ کے ناظم اور آپ کے ناصرف ماموں تھے بلکہ  آپ کے استاد، شیخ، مربی، معلم  سب کچھ تھے ،آپ پر ان کو سو فیصد اعتماد تھا اس لئے ان کے دور نظامت ہی سے آپ ندوہ کی اہم ترین شخصیت تھے انتظامی امور آپ کی رائے سے فیصل ہوتے اس طرح آپ کو ندوہ کی خدمت کا موقع بہت لمبے عرصے تک ملا اور آپ نے اپنی دور رسی اور حسن تدبیر سے ندوہ کی بہتر خدمت انجام دی، آپ کے دور میں ندوہ نے علمی، تعمیری اور دینی لحاظ سے بہت ترقی کی، 1949ءمیں ایک  معاون مدرس کی حیثیت سے آپ کا سفر  ندوہ میں شروع ہوا اور ادیب دوم، ادیب اول(1955ء)، عمید کلیہ اللغة العربیہ(1970ء)، مہتمم(1993ء)، نائب ناظم (1998ء)،  پھر ناظم(2000ء) پر ختم ہوا۔

 73 سال کے  عرصے پر محیط اس طویل سفر میں آپ نےندوہ کی چو طرفہ ترقی کا سامان کیا ، تعمیرات میں ڈاکٹر عبد العلی حسنی ہاسپٹل ، جدید درسگاہ، رواق ابوالحسن، مسجد کی دوسری منزل اوربڑےپیمانہ پر موجودہ توسیع،  رواق سلیمانی کی تکمیل، رواق حبیب اور رواق مولانا محمد علی مونگیری، اسکے علاوہ معہد دارالعلوم کا دوسرے کیمپس سکروری میں منتقل ہونا  اور وہاں کی تعمیرات  آپ ہی کے دور نظامت کی یادگار ہیں اسی طرح مہپت مئو، اور بلوج پورہ میں بھی کئی تعمیری کام ہوئے ، نصاب پر خاص توجہ دی، اساتذہ کا بھی اچھا خاصا تقرر آپ کے دور میں ہوا۔

          آپ ایک معلم و مربی، جغرافیہ داں، تاریخ سے واقف ،عربی ادب کے ماہر اور جہاں دیدہ ہونے کے ساتھ ماہر نفسیات بھی تھے وہ قوموں کی، افراد کی، جماعتوں اور انسانوں کی نفسیات سے  اچھی طرح واقف تھے  اس لیے کبھی کسی سے مرعوب نہیں ہوتے، دھوکہ نہیں کھاتے  اور فیصلہ کرنے میں بہت ہی اعتدال اور توازن قائم رکھتے ،وہ طلباء و اساتذہ کی نفسیات سے  اچھی طرح واقف تھے اس لئے ان سے نہ کوئی بیجا امید قائم کرتے اور نہ ہی ان کی کسی غلطی پر ضرورت سے زیادہ غصہ ہوتے، نہ اس پر کوئی کاروائی کرتے  بلکہ اعتدال آپ کا شیوہ تھا حتی الامکان اصلاحی تدبیر کے ساتھ تسامح آپ کی فطرت تھی ۔

  مختلف طبقات انسانی کی نفسیات اور فطرت سے واقفیت  بہت فائدہ دیتی ہے جو لوگ  اس سے واقف نہیں ہوتے  وہ کسی کے ایک پہلو کو دیکھ کر متأثر ہو جاتے ہیں اور ان کو معصوم جیسا سمجھنے لگتے  ہیں پھر جب ان سے کوئی غلطی سرزد ہو جاتی ہے تو بہت مایوس ہو جاتے ہیں اور بدظن ہوکر یا تو ان سے دوری بنا لیتے  ہیں یا  خود اسی کو دور کر دیتے ہیں لیکن  ہمارے مرشد امت حضرت مولاناسید محمد رابع حسنی ندوی صاحب بہت اچھی طرح جانتے تھے کہ انسان کی فطرت کیا ہے طلباء اور اساتذہ  یا عوام الناس، تحریکات اور جماعتوں کے عہدے داران کی نفسیات کیا  ہوتی ہے اور وہ کس حد تک جا سکتے  ہیں اس  لئے ان کے ساتھ جب  کوئی واقعہ پیش آجاتا  تو بہت متعجب نہ ہوتے کیونکہ وہ ضرورت سے زیادہ کسی کو نہ پارسا سمجھتے اور نہ زیادہ توقع قائم کرتے اس صفت نے ان کو  ہمیشہ اعتدال پر  قائم رکھا اور یہی  ندوہ کی ہمیشہ خصوصیات  رہی ہیں ندوہ  کو ہمیشہ  ایسے ذمہ داران میسر آتے گئے جو کتابی علوم کے ساتھ انسانوں کو  پڑھنے کا ہنر بھی جانتے تھے مردم شناس رہے مردم شناسی بھی ایک ذمہ دار کے لۓ بڑی دولت ہے خود حدیث میں آیا ہے :

عن أبي سعيد الخدري وأبي هريرة رضي الله عنهما مرفوعاً: "ما بعث الله من نبي ولا اسْتَخْلَفَ من خليفة إلا كانت له بطانتان: بطانة تأمره بالمعروف وتَحُضُّهُ عليه، وبطانة تأمره بالشر وتَحُضُّهُ عليه، والمعصوم من عصم الله”.  [صحيح] – [رواه البخاري]

جس ذمہ دار کو یہ صفت حاصل ہوتی ہے وہ اپنے ارد گرد رہنے والوں سے فائدہ بھی اٹھالیتاہے اوبطانةالسوء کی خرابی سے  بچ  بھی جاتا ہے ، یہ دولت حضرت مولانا سید محمدرابع صاحب کو بدرجۂ اتم حاصل تھی ۔

            میں جب ندوہ میں داخل ہوا تو  حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی صاحب اور مولانا واضح رشید حسنی ندوی صاحب دونوں کو  ساتھ ساتھ دیکھا، رکشہ سے دونوں بھائی تشریف لاتے ، پیدل درجات آتے جاتے ، عام اساتذہ کی طرح  تھے ، عام لوگوں کی طرح بود و باش تھی، اکثر دونوں کے ہاتھ میں بیگ ہوتا تھا ، ایک زمانہ تک ہم دونوں میں فرق نہیں کرپاتے تھے ، ہمیں دونوں کی شکل و صورت یکساں نظر آتی تھی، جب کہ دونوں میں واضح فرق تھا، لیکں یہ فرق میں اس وقت  تک محسوس نہ کر سکا تھا جب تک قریب سے دیکھنے کا موقع  نہ ملا۔

ہم چھوٹے طلباء معہد القرآن میں رہتے اور دور ہی سے مشاہدہ کرتے تھے ، ہماری نماز بھی ہاسٹل میں ہی ہوتی تھی، کبھی کبھار مسجد بھاگ کر آجاتے اور ان بزرگوں پر بھی نظر پڑجایا کرتی تھی ، اکثر ان کی نماز مہمان خانہ کی جانب صف کے کنارے ادا ہوتی تھی، مولانا علی میاں صاحب رحمہ اللہ کا مصلی مہمان خانہ کی طرف سے پہلی صف میں پہلی کھڑکی کے سامنے بچھا رہتا تھا اور اذان ہوتے ہی حضرت مسجد کا رخ کرلیتے تھے اور پورے خشوع و خضوع کے ساتھ سنت پڑھتے لیکن ان حضرات (مولانا محمد رابع حسنی ندوی ومولانا واضح رشید ندوی) کی کوئی متعین جگہ نہ ہوتی ، جہاں پہونچ جاتے وہیں نماز ادا کرلیتے تھے ۔

مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی رحمہ اللہ سے میں نے ادب عربی رابعہ میں پڑھی ہے ، مولانا کلیۃ اللغة کے ہال( جو اس وقت جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ مولانا حیدرحسن خاں ٹونکی کے نام سے موسوم ہے ) میں عالیہ رابعہ کے تمام سیکشن کو ایک ساتھ پڑھاتے تھے ، اور چونکہ خود مصنف تھے موضوع پر پورا عبور تھا، اس لیے کتاب کم اور موضوع زیادہ پڑھاتے تھے ہمیں یاد ہے ، پہلے دن عناصر ادب کو سمجھانے کے لیے چائے کی مثال دی، کہ چائے میں دودھ  ، چائے پتی ، چینی اور اسکو پکانا جس طرح ان اجزاء کے حسن توازن سے اچھی چائے تیار ہوتی ہے ، اسی طرح عناصر ادب  (عاطفہ، خیال فکرہ اور صورت لفظیہ) کے توازن سے ادب میں جان آتی ہے اور ان کے توازن کے فقدان سے ادب کی روح پامال ہوجاتی ہے ، کسی ایک کی زیادتی سے ادب کیسے متأثر ہوتا ہے ، اس مثال سے آپ سال بھر تک کام لیتے رہے ۔

 ٣١دسمبر ١٩٩٩ ء میں حضرت مولانا علی میاں صاحب کا انتقال ہوگیا ، اور آپ ناظم مقرر ہوگئے تو ہم نے آپ سے بھی احادیث کی اجازت لی ، اس سے پہلے ترمذی شریف کی سند مولانا علی میاں صاحب سے لے چکے تھے ، مولانا محب اللہ لاری ندوی صاحب کے انتقال پر استاد محترم حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی  صاحب کو دارالعلوم کا مہتمم  بنایا گیا اس وقت استاد محترم کی اصل انتظامی صلاحیت دیکھنے میں آئی اور آپ نے اس عہدہ پر رہ کر مادرعلمی کی بہترین اور مثالی خدمت انجام دی ۔

             میں جب ناظم جمعیۃ الاصلاح بنا تو مہمان خانہ میں استاذ گرامی مولانا شمس الحق صاحب ندوی سے جو مربی  الإصلاح ہوا کرتے تھے  درخواست پر سفارش کرالیتا اور وہیں پر حضرت مہتمم صاحب یعنی حضرت مولانا رابع صاحب سے دستخط کرالیتا ،بس وہ کام ہوجاتا تھا ، لیکن بعد میں جب حضرت، ناظم ہوگئے تو معلوم ہوا کہ مہتمم  دارالعلوم ندوۃ العلماء  آرڈر نہیں کرتا بلکہ وہ نظامت میں سفارش کے ساتھ درخواست کو بھیجتا ہے ، یہ فرق ہم نے حضرت مولانا رابع صاحب کے دور اہتمام میں  نہ جانا تھا ، اس لیے کہ آپ بیک وقت نائب ناظم اور مہتمم دونوں تھے ۔

حضرت فرماتے تھے کہ جب میں ندوہ میں مدرس ہوا تو بڑی کڑی محنت کی، احمد امین کی فجر الاسلام، ضحی الإسلام کا مطالعہ شروع کیا اور ایک دن میں سو صفحات پڑھنے کا ہدف متعین کیا، چنانچہ صبح سے شام تک محنت کرتا تب جاکر یہ ہدف مکمل کر پاتا، میری صحت بھی متاثر ہوگئی گھر والے منع بھی کرتے، لیکن میں سب سے یکسو ہوکر بس پڑھنے میں لگا رہتا تھا، اس سلسلہ کے مطالعہ سے مجھے بہت فائدہ پہونچا، زبان وأدب کا بھی فائدہ ہوا اور معلومات کا بھی، اور اس کا فائدہ آج تک محسوس کرتا ہوں ۔

      راقم کو حضرت مولانا سے بیعت وارشاد کا بھی تعلق حاصل تھا، رمضان کا مہینہ تھا میں عرصہ سے سوچ رہا تھا، کسی کے ہاتھ پر بیعت کروں دل کا میلان کسی کی طرف نہیں ہوتا تھا کبھی مولانا عبد اللہ حسنی ندوی صاحب کی طرف دل کھنچتا تو کبھی خود حضرت کی طرف اسی کشمکش میں مولانا عبد اللہ حسنی ندوی صاحب اللہ کو پیارے ہوگئے (وفات 30/1/2013) ۔

سن 2013 کے رمضان میں  یہ طے کیا کہ اس سال "تکیہ” جاکر بیعت کر ہی لونگا لیکن کوئی سبیل نہ بن سکی خدا کا کرنا یہ ہوا کہ رمضان المبارک میں حضرت  خود ہی لکھنؤ  تشریف لے آئے ( شاید طبیعت کچھ خراب تھی) ، ادھر میرے دل کی کیفیت عجیب ہو رہی تھی، داعیہ زوروں پر تھا بس میں نے ڈرتے ڈرتے 21 جولائی 2013 مطابق 11رمضان المبارک  کو مولانا کے خادم مولوی سحبان ثاقب صاحب ندوی بھٹکلی سے عرض کیا کہ میں مولانا کے ہاتھ پر بیعت ہونا چاہتا ہوں انھوں نے کہا کہ  مہمان خانہ آجائیں، میں اس وادی سے بالکل نابلد گھبرایا، سہما ہوا مہمان خانہ عصر کی نماز کے بعد پہونچا حضرت اندر والے کمرہ میں تھے، ہاتھ بڑھایا میں نے آپ کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دیا ، دل کی کیفیت بدلتی ہوئی محسوس ہوئی،حضرت نے بیعت کے کلمات کہلوائے ۔پھر فرمایا دراصل بیعت ایک عہد ہے، توبہ ہے، اس طرح توبہ کا عہد  پختہ ہوجاتا ہے اور استاذ، شاگرد کا رشتہ قائم ہوجاتا ہے ورنہ بیعت کی کوئی ضرورت نہیں، پھر آپ نے پانچ اوراد کی تلقین فرمائی:

  • تیسرا کلمہ،
  •  لاالہ الا اللہ،
  • درودشریف، 
  • استغفار
  • اللہ اللہ کا ورد ،

یہ سب اوراد  سو سو مرتبہ  سکون کے وقت میں پڑھنے کی ہدایت فرمائی ۔پھر فرمایا والدین کے لیے دعاء کیجئے،امت کے لیے دعاء کیجئے ،چلتے چلتے فرمایا میرے لیے بھی دعاء کریں ،اللہ تعالیٰ حضرت کی مغفرت فرمائے، جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔آمین 

           آج وہ ہمارے درمیان نہیں ہیں، لیکن انکی بتائی ہوئی باتیں، انکی زندگی کا اسوہ اور آپ کی تصنیفات، موجود ہیں جو ہر قدم پر ہماری رہنمائی کے لیے کافی ہیں 

اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے آمین یارب العالمین

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: