معصوم مرادآبادی
سوشل میڈیا پر آج کل دیوبند کے ایک مشاعرے کی ویڈیو گردش میں ہے۔ اس مشاعرے میں ایک نوخیز شاعرہ رومانی کلام سنارہی ہے اور دینی مدارس کے طلباء اچھل اچھل کر اس کو داد دے رہے ہیں۔ شاعرہ کوسب سے زیادہ داد اس مصرعہ پر ملتی ہے جس میں وہ "عاشق کی بانہوں میں گزر بسر” کرنے کی بات کرتی ہے۔مشاعرے کے نوجوان سامعین کا ردعمل دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کسی مشاعرے سے نہیں بلکہ مجرے سے لطف اندوز ہونے کی کوشش کررہے ہیں۔یہ مشاعرہ دیوبند کے جس ہال میں منعقد ہوا تھا وہ عظیم مجاہد آزادی شیخ الہند مولانا محمودحسن کے نام سے منسوب ہے۔ مولانا محمودحسن کا نام جامعہ ملیہ اسلامیہ کے بانی کے طورپر بھی بڑے احترام سے لیا جاتا ہے۔
اس مشاعرے کے تعلق سے شروع میں یہ تاثر ابھرا کہ شاید دارالعلوم دیوبند سے اس کا کوئی تعلق ہے۔ لیکن ہنگامہ کھڑا ہونے کے بعد دارالعلوم کی طرف سے نہ صرف اس کی تردید کی گئی بلکہ یہ بھی کہا گیا کہ ”اگر اس مشاعرے میں دارالعلوم کے کچھ طلباء شریک پائے گئے تو ان کے خلاف ضابطے کی کارروائی کی جائے گی۔“
سبھی جانتے ہیں کہ آج کل کے مشاعروں میں کامیابی کا پیمانہ اچھا کلام نہیں بلکہ اسٹیج پرفارمنس اور بے ہودہ کلام ہی ہے،جس میں بعض شاعرات نے بڑی مہارت حاصل کرلی ہے۔ ذومعنی جملے ان شاعرات کی مقبولیت کا راز ہے۔یہی وجہ ہے کہ مشاعرے اور مجرے کا فرق ختم ہوتا چلاجارہا ہے۔لیکن جب مشاعرہ کسی عالمی شہرت یافتہ دینی ادارے کے پہلو میں ہو اور وہاں مدرسوں کے طلباء بازاری انداز اختیار کریں تو اس پر سوال کھڑے ہونا لازمی ہیں ۔ مدرسوں میں جدید تعلیمی اداروں کے مقابلے اخلاقی تربیت پر زیادہ زور دیا جاتا ہے۔اس لیے طلبائے مدارس سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ ان کا عمل بھی اسی تربیت کا عکاس ہو گا۔
دیوبند کے جس مشاعرے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہے، اس کے بارے میں یہ نہیں معلوم ہوسکا کہ اس کے منتظمین کون تھے، لیکن اتنا ضرور ہے کہ اس مشاعرے کا انعقاد کرنے والے افرادطلبائے دیوبند کی نفسیات سے بخوبی واقف ہیں، اس لیے انھوں نے شاعرہ کا انتخاب بھی اسی ذوق کے پیش نظر کیا۔اس ویڈیو کو دیکھ کر کئی اہم علماء اور دینی مدارس کے ذمہ داروں نے شدید ردعمل ظاہر کیا ہے۔ان میں ایک معروف نام مولانا سجاد نعمانی کا ہے،جنھوں نے اس پر باقاعدہ ویڈیو پیغام جاری کیا ہے اور اس اخلاقی پستی کے لیے ان طلباء کی تربیت میں کمی کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ابھی یہ نہیں معلوم ہوسکا ہے کہ اس ویڈیو میں شاعرہ کے سطحی کلام پر اچھل کود کرنے والے طلباء کا تعلق کس مدرسے سے تھا، لیکن اتنا ضرور ہے کہ یہ سب کے سب اسلامی لباس میں تھے۔چہروں پر داڑھیاں اور سر پر ٹوپیاں بھی تھیں۔ہم آپ کو بتاتے چلیں کہ دیوبند میں صرف دارالعلوم اور وقف دارالعلوم ہی نہیں ہیں بلکہ دیوبند دینی تعلیم کا ایک ہب ہے اور یہاں دینی تعلیم کے کم ازکم سو ادارے ہیں۔ ان میں کئی مدرسوں نے اپنا نام بھی دارالعلوم سے ملتا جلتا رکھا ہوا ہے۔
آئیے اب یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس مشاعرے پر اتنا واویلا کیوں مچا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ دیوبند میں دارالعلوم جیسا شہرہ آفاق ادارہ ہے، جسے’ازہر ہند‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔اسی لیے یہاں کی ہر حرکت وعمل پر لوگوں کی توجہ مرکوز رہتی ہے۔لوگ یہ توقع رکھتے ہیں کہ یہاں کے طلباء کا طرزعمل اسکولوں اور کالجوں کے عام طلباء سے مختلف ہو اور وہ کوئی ایسی اوچھی حرکت نہ کریں جس کی آنچ دینی تعلیم پر آئے۔ظاہر ہے ان درس گاہوں میں تعلیم دلانے کا مقصد بچوں کے کردار کو اسلامی شعائر میں ڈھالنا ہے، لیکن جب یہی طلباء اوچھی حرکتوں پر اترآئیں گے تو ان میں اور دنیاوی طلباء میں کیافرق باقی رہ جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ مشاعرے کی اس ویڈیو پر اتنا واویلا مچا ہوا ہے۔دیوبنداسلامک اکیڈمی کے ڈائریکٹر مہدی حسن عینی نے اس مشاعرے کے تعلق سے کہا ہے کہ”جس محمودہال میں یہ مشاعرہ منعقد ہوا اس کا دارالعلوم دیوبند سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ وہ ایک آزاد ٹرسٹ کے ذریعہ چلایا جاتا ہے۔انھوں نے یہ بھی کہا کہ اس مشاعرے کا علماء یا مدارس سے کوئی تعلق نہیں بلکہ اس کے منتظمین دیوبند کے مقامی متشاعرین ہیں جو اپنے وجود کا احسا س دلانے کے لیے وقتاً فوقتاً اس طرح کی ذہنی عیاشیوں کا سامان دارالعلوم کے آس پاس فراہم کرتے رہتے ہیں۔“ان منتظمین کی اصلیت دیوبند کے سرکردہ صحافی کمل دیوبندی نے اپنے ایک حالیہ مضمون میں بڑی شدت کے ساتھ آشکارا کی ہے، جسے پڑھ کر مشاعروں کی موجودہ روش اور اس میں شریک ہونے والی متشاعرات کے بارے میں ہوشربا انکشافات کئے گئے ہیں۔ ان میں سے بعض انکشافات ایسے بھی ہیں جنھیں یہاں نقل نہیں کیا جاسکتا۔
سبھی جانتے ہیں کہ مشاعرہ ہماری تہذیب کا ایک حصہ ہے اور اس نے اردو زبان و تہدیب کے فروغ میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ مشاعرہ نہ صرف عوامی ذوق کی تعمیر وتشکیل میں حصہ لیتا رہاہےبلکہ عوام کے اندر شعروادب کا رجحان بھی پیدا کرتارہا ہے۔لیکن جس طرح زندگی کے مختلف شعبوں میں زوال آیا ہے،مشاعرہ بھی اس سے محفوظ نہیں ہے۔ اب ایسے مشاعرے خال خال ہی ہوتے ہیں جہاں معیاری شعراء یا سامعین پائے جاتے ہوں بلکہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ مشاعرہ بھی دیگر دھندوں کی طرح ایک ایسا دھندہ بن گیا ہے جس کا مقصد لوگوں کو ذہنی عیاشی کا سامان فراہم کرکے دولت اکٹھا کرنا ہے۔ان دنوں ایسے مشاعروں کی بھرمار ہے جہاں متشاعرات کی کثرت ہوتی ہے اور وہ اپنے فحش کلام کے ساتھ ساتھ اپنی اداؤں سے بھی سامعین کو رجھاتی ہیں۔ میں دہلی میں ایک ایسی شاعرہ کو جانتا ہوں جو کسی بھی مشاعرے میں جانے سے پہلے دوتین گھنٹے بیوٹی پارلر میں گزارتی ہیں۔ ایک دن اچانک جب بغیر میک اپ کے ان سے سامنا ہوا تو میں انھیں پہچان نہیں سکا۔ان محترمہ کی مقبولیت اشعار سے زیادہ ان کی لہراتی زلفوں اور ذومعنی فقروں میں پنہاں ہے۔
المیہ یہ بھی ہے کہ مشاعروں میں شاعرات جو کلام سناتی ہیں، وہ بھی دوسروں کالکھا ہوا ہوتا ہے۔دوسرا المیہ یہ ہے کہ یہ شاعرات اپنے اشعار دیوناگری رسم الخط میں لکھ کر لاتی ہیں۔ایسا نہیں ہے کہ ہمارے یہاں اچھے اور معیاری شاعروں اور شاعرات کی کوئی کمی ہے، لیکن یہ لوگ ایسی اوچھی حرکتیں نہیں کرسکتے، اس لیے انھیں بیشتر مشاعروں میں نظرانداز کردیا جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ مشاعرہ عوامی ذوق کی تعمیر وتشکیل کرنے کی بجائے اچھل کود کا میدان بنتا چلا جارہا ہے اور ہر ایرا غیرا شاعر کہلایا جانے لگا ہے۔بقول شاعر
شاعری چارہ سمجھ کر سب گدھے چرنے لگے
شاعری کرنا نہ جانیں شاعری کرنے لگے