کہیں آزادی کا احساس بھی نہ مر جائے

✍️ڈاکٹر محمد طارق ایوبی

اگست کا مہینہ وطن عزیز کی تاریخ میں خاص اہمیت کا حامل ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ آزادی بہت بڑی نعمت ہے ، آزادی کا تصور سب سے پہلے اسلام نے عطا کیا، ہم مسلمانوں سے زیادہ آزادی کے معنی کون جانتا ہے ، کیونکہ ہمارے دین نے ہی انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے آزاد کرایا، بلکہ ہزاروں سال کی رسمِ غلامی کو مختصر سے عرصے میں پوری دنیا سے ختم کر دیا، جن قوموں نے اسلام نہیں قبول کیا رفتہ رفتہ ان کے یہاں بھی مسلمانوں کے عالمگیر اثرات سے یہ رسم ختم ہوگئی ، اسلام نے ایک اللہ کی غلامی کے ساتھ سماج کی ہر اکائی کو آزادی کا تصور دیا، اظہار رائے کی آزادی دی ، سوچنے اور سمجھنے پر ابھارا ، عقل و منطق کے استعمال کی تلقین کی، اندھ بھکتی اور اندھکار کے دلدل سے آزاد کیا، یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کے مسلم عہد میں بھی یہاں کے عوام کو غلام نہیں بنایا گیا ، بلکہ انھیں ان کے مذہب ، رواج اور رسومات کے ساتھ جینے کا پورا حق دیا گیا، پھر جب مغلیہ سلطنت زوال پزیر ہوئی اور انگریزوں کا قبضہ مکمل ہوا، تو آزادی کے لیے جو سب سے پہلی آواز اٹھی ، جو اولین کوششیں ہوئیں ، لسانی ہوں یا قلمی ، میدانی ہوں یا عملی وہ سب مسلمانوں کی طرف سے ہوئیں ، کیوں کہ وہ منوواد کے بالمقابل قرآن کا آفاقی پیغام اور تصور آزادی رکھتے تھے ، لیکن واقعہ یہ ہے کہ اس وقت ملک کی جو صورت حال بن رہی ہے گزشتہ گیارہ سالوں سے اور اگر سچ پوچھیے تو 1992 کے بعد سے جس طرح کا ملک میں ماحول بنانے کی کوششیں ہو رہی ہیں اور ہندواحیا پرستی کی تحریک چل رہی ہے ، اس سے بڑے خطرات پیدا ہو گئے ہیں ، اس صورت حال میں سب سے زیادہ کوشش اس بات کی ہونی چاہیے کہ کہیں آزادی کا احساس بھی نہ مر جائے ، کیونکہ کہ احساس کے مر جانے سے ہی انسان غلام ہو جاتا ہے ، اور احساس زندہ ہو تو خوفناک زنجیریں اور بھیانک ہتھکڑیاں بھی غلام نہیں بناپاتیں ، بلکہ تختہ دار پر چڑھ جانے کے بعد بھی آزادی کا احساس رکھنے والا غلامی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔
اس کے لیے سب سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ ہم ہر سال آزادی کو یوم احتساب کے طور پر منائیں ، ایک طرف حکومت کا احتساب ہو تو دوسری طرف ہم اپنا ملی سطح پر احتساب کریں ،اور یہ کام اپنا اولین فرض سمجھ کر کریں ، نہ کہ اپنے گزشتہ کارناموں کو دہرانے اور ماضی کے افسانے سنانے اور اجداد کی کامیابیوں اور حصول یابیوں کا ذکر کرنے میں وقت گزار دیں ، یہ سب تاریخ ہے، اور تاریخ سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے ، نئی نسلوں کو واقف کرایا جاتاہے نہ کہ تاریخ اپنوں کے درمیان بیان کر کے دل بہلایا اور جینے کا سامان Face Saving کیا جاتا ہے۔

آزادی فطری ضروریات کو محسوس کرنے کا نام ہے، آزادی نام ہے اس کا کہ ہر شخص اپنی فطری خواہشات کو محسوس کر سکے اور اس کی تکمیل کر سکے، آئین ہند میں اس کا مکمل خیال رکھا گیا ہے، ہر فرد کو اس کی آزادی حاصل ہے کہ وہ اپنی پسند کے مطابق مذہب اختیار کرے، اس کی دعوت دے، اپنی مرضی کے مطابق لباس پہنے ، کھانے کھائے ، ادارے بنائے اور چلائے ، لیکن اب صورت حال بالکل مختلف ہے، اب یہاں کپڑوں سے پہچانا جا رہا ہے ، کیا کھانا ہے اور کیا نہیں کھانا ہے یہ سرکاریں طے کر رہی ہیں ، ادارے چلانا ہے یا بند کرنا ہے یہ فیصلہ سرکاریں کر رہی ہیں ، گھروں پر، املاک پر، تجارت پر، مقدسات پر ہمہ وقت تلوار لٹک رہی ہے، کتنی مسجدیں گرائی جا چکیں ، کتنی مزاروں پر کاروائی کی گئی اور کتنے مدرسے بند کر دے گئے ، تین طلاق پر قانون بنا کر شریعت میں راست مداخلت کی گئی اور اب وقف ترمیمی ایکٹ کے ذریعہ ہمارے پورے مذہبی وجود اور ملی ڈھانچے کو متزلزل کر دینے کی تیاری ہے، قدم قدم پر ہمیں دوسرے درجہ کا شہری باور کرایا جا رہا ہے ، ہر جگہ ہندو احیا پرستی کا اس طرح اظہار ہے کہ ہماری بڑی تعداد یا تو مرعوب ہو چکی ہے ، یا زبانیں بند کر لی ہیں ، ٹی وی سے لے کر سرکاری دفاتر تک ، عدالتی فیصلوں سے لے کر عوامی ذہن تک ہندو بالادستی کا اعلان کر رہا ہے ، سات سو سال میں مسلم حکمرانوں نے کوئی نام نہیں بدلا ، مگر یہاں 11 سالوں میں سینکڑوں نام محض اپنی بالادستی کے اظہار کے لیے تبدیل کر دیے گئے ، یہاں برادرانِ وطن کے ” محبوب ولن” اورنگزیب عالمگیر کا ایک واقعہ نقل کرنا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا، کیوں کہ ہندو مورخین اسے "راون” کے ساتھ کھڑا کرتے ہیں بلکہ اس وقت کا سیاسی ماحول تو اس کو راون سے زیادہ ” کمینہ” ثابت کررہا ہے ، اسی اورنگزیب سے متعلق پروفیسر اوم پرکاش نے لکھا ہے کہ
” اس کے ایک افسر نے مرہٹوں پر فتح پانے کے بعد لکھا کہ غیر مسلم دشمن اور غیر معتبر ہیں ، اس لیے انھیں عہدوں سے ہٹا دیا جائے، تو اورنگزیب نے جواب دیا کہ حکومت کے امور کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہوگا ، جنوبی ہند میں واقع برہم پوری کے ایک افسر امیر حسن نے لکھا کہ اسلام پوری کا قلعہ کمزور ہے اور آپ وہاں پہنچنے والے ہیں، قلعہ مرمت چاہتا ہے اس سلسلے میں آپ کا کیا حکم ہے؟اورنگزیب نے جواب میں لکھا : ” اسلام پوری ” لفظ لکھ کر تم نے مناسب نہیں کیا، اس کا پرانا نام برہم پوری تھا، تمہیں وہی لکھنا چاہیے تھا ، جسم کا قلعہ تو اس سے زیادہ کمزور ہے اس کا بھی کچھ علاج سوچا؟”۔ ( اورنگ زیب ایک نیاز اویہ نگاه ص 23-24)
اب تو بات مزید آگے نکل گئی ہے ، بہار میں ووٹر لسٹ رویزن کے نام پر جو کھیل کھیلنے کی تیاری ہے اس کا سیدھا نشانہ مسلمان اور دلت و دیگر غریب و پسماندہ طبقات ہیں ، یعنی اب بآسانی بنیادی شہری حق رائے دہی سے بھی محروم کیاجائے گا ، ان مسائل کے ساتھ ملک غریبی اور بے روزگاری جیسی وبا سے جس حد تک جوجھ رہا ہے ، اس کا اندازہ اس سے کیجیے کہ آربی آئی کی رپورٹ کے مطابق ہندوستان اس وقت قرض میں ڈوب چکا ہے ، قرض کی شرح فی شہری 4.8 لاکھ تک پہنچ گئی ہے، اس کے بعد تو صرف عوام کی جمع پونجی ہی ملک کی معیشت اور حکومتی عیاشی کا آخری سہارا ہے، طرفہ یہ ہے کہ اس بھیانک صورت حال کے باوجود ایک طرف جھوٹ ہی جھوٹ ہے اور دوسری طرف بے حسی ہی بے حسی ، بی جے پی اور آر ایس ایس ” سب کا ساتھ ، سب کا وکاس ، سب کا وشواش اور وشو گرو اور امرت کال” جیسے پر فریب نعروں سے اکثریت کو یہ سمجھانے میں کامیاب ہے کہ "دنیا بھر میں بھارت کا ڈنکا بج رہا ہے ” ، دوسری طرف بے حسی ایسی عام ہے کہ لوگ اپنی اپنی زندگیوں میں مست ہیں ، یا قربانیوں سے جان چراتے ہیں ، یا ساکھ بچانے کے لیے کچھ نقل و حرکت کر لیتے ہیں ، صبر و حکمت کی دہائی دیتے ہیں اور دعا کی تلقین کرتے ہیں ، ہم بار بار واضح کرتے رہے ہیں کہ قانون الہی میں وسائل و اسباب اور تگ و دو کے بغیر دعا کی کوئی اہمیت نہیں ، حکمت حالات کو قابو میں کرنے کے لیے پالیسی سازی اور مقابلہ کرنے کے آئیڈ یاز کا نام ہے، منافقت کا نہیں، اور جہاں تک صبر کی تلقین ہے، ہم صبر کرتے جا رہے ہیں اور حکومت ایک ایک کرکے ہمارے بنیادی بلکہ مذہبی حقوق چھین رہی ہے اور ہمارے تشخص کو مٹانے پر آمادہ ہے، پہلے سیاسی طور پر ہماری نمائندگی ختم کی گئی ، پھر ہمارے سیاسی اثر و رسوخ کو ٹارگٹ کیا گیا، اعداد وشمار اور موجودہ صورت حال بتاتی ہے کہ مسلمان اس وقت ملکی سیاست کے حاشیہ پر ہے، بلکہ اب تو ووٹ کی بھی حیثیت ختم کی جا رہی ہے، تعلیم و تجارت میں بھی ہدف بنایا جا رہا ہے ، اور اب ایک ایک کر کے مذہبی مسائل میں مداخلت کی جا رہی ہے، حکومت کی ان کا رروائیوں کے بالمقابل ہماری مداخلت، مقابلہ اور احتجاج صفرہے، جو کچھ جلسے جلوس دیکھے جا رہے ہیں وہ محض اختلاف و ناراضگی کا اظہار ہے، احتجاج ومزاحمت نہیں، اب معاملہ احتجاج سے آگے بڑھ کر مزاحمتی تحریک تک پہنچ گیاہے، یہاں مولانا ابو الکلام آزاد کا ایک اقتباس یادآ رہا ہے جو اگست1921ء میں تحریک خلافت کے اجلاس میں دیے گئے ان کے خطبئہ صدارت کا حصہ ہے، یہ اقتباس یہاں نقل کرنے کا یہ فائدہ ہوگا کہ اس سے صبر کے اصل معنی و مفہوم کی وضاحت بھی ہو جائے گی اور ہماری روش اور اس وقت کی صورت حال کے مقابلے ہمارے رویّوں پر بھی روشنی پڑ جائے گی ، مولانا فرماتے ہیں :

"تم نے اپنی بدبختی سے نہ صرف شریعت کے حکم کو بدلا ہے ۔ بلکہ اپنے طریق عمل سے شریعت کے لفظوں کو بولیوں کو بھی بدل ڈالا ہے۔ صبر کے معنی کیا ہے؟ تم سمجھتے ہو کہ صبر کے معنی ہیں بے غیرتی اور باطل کی پرستش اور پوجا۔تم صبر کے معنی یہ سمجھتے ہو۔ لیکن جو شخص صبر کے یہ معنی سجھتا ہے۔ اس سے بڑھ کر قرآن مجید کی تحریف لفظی کرنے والا کوئی نہیں ۔ تحریف معنوی تو بہت سے علما ءکر رہے ہیں۔ لیکن تحریف لفظی یہ ہے کہ اگر صبر کے معنی یہ ہیں کہ تمھارے حق کے مقابلے میں مصیبت آجائے تو تم کو چاہیے کہ صبر کے گوشہ میں پناہ لو یعنی ہر طرح کی بے غیرتی کو ،بے چارگی کو، باطل پرستی کو قبول کر لو۔ تو میرے بھائیو! تم سے بڑھ کر قرآن کی تعلیم کو بدلنے والا کوئی نہیں۔ صبر کے معنی اس سے بالکل مختلف ہیں ۔ صبر کے معنی ہیں برداشت کے، صبر کے معنی ہیں جھیلنے کے، صبر کے معنی ہیں تحمل کے، جو قدم تم مقصد کی راہ میں اپنے محبوب اور پیارے مقصد کے لیے اٹھاؤ اور اس میں طرح طرح کی مصیبتیں آئیں ، طرح طرح کی ڈراؤنی صورتیں اور زنجیریں اور ہتھکڑیاں آئیں ، بلکہ ممکن ہے کہ تمھارے سامنے تختہ آوے اور اس پر ایک پھندا جھول رہا ہو۔ یہ سب تمھارے سامنے آسکتا ہے ۔ لیکن اگر تم حق کے پرستار ہو تو تمھارا فرض ہونا چاہئے؟ کہ تمھارے اندر صبر ہو، تمھارے اندر برداشت کی وہ اٹل طاقت، برداشت کا وہ پہاڑ موجود ہو جس پر دنیا کی کوئی شوکت، کوئی تاج و تخت فتح یاب نہ ہو سکے۔ یہ معنی صبر کے ہیں۔ چنانچہ قرآن مجید کے مواقع استعمال پر اگر غور کیا جائے تو معلوم ہو جائے گا کہ ہر جگہ صبر کے یہی معنی ہیں”۔ ( مجموعہ ابو الکلام آزاد ،حصہ سوم ، ص ۱۲۲-۱۲۳ )

اس صورت حال میں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم از سرِ نو اپنی پالیسیوں کا جائزہ لیں، ہم قصے اور افسانے سنانے اور بے معنی لفاظی کرنے کے بجائے یہ دیکھیں کہ اب تک ہماری وصولیابی کیا ہیں؟ اور آج حالات کا مقابلہ ہم کیسے کر سکتے ہیں؟ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ شکست سے پہلے احساس شکست پیدا ہونا یا آزادی کے احساس سے محروم ہونا غلامی کی تمہید ہے ، خدا نخواستہ مسلمان ہند اس مرحلہ میں داخل ہوگئے تو پھر انھیں غلامی سے نکال کر بغاوت پر آمادہ کرنا بہت مشکل ہوگا ، حالانکہ کہا جاتا ہے ، کہ غلام ہی مستقبل کے باغی ہوتے ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ اگر کسی کو غلامی کا احساس ہی نہ ہو تو پھر اس سے بغاوت کی کیا امید؟ آج صورت حال کچھ ایسی ہے کہ رفتہ رفتہ ہماری دستوری آزادیاں سلب کی جا رہی ہیں، ترمیم و قانون سازی کے سہارے ہماری پسند و ناپسند کا دائرہ محدود کیا جا رہا ہے، احساس آزادی پر پے در پے ضربیں لگائی جا رہی ہیں، تاریخ مسخ کر کے غلط فہمیاں پھیلا نے اور نفرت کے بیج بونے کا کام تو انگریزوں نے ہی شروع کر دیا تھا ، پھر انھوں نے جدوناتھ سرکار جیسے مورخین کی خدمات بھی حاصل کرلی تھیں ، لیکن آج یہ مہم اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے ، اب ہمارے مذہبی مقدسات اور پرسنل لا کی کوئی قیمت رہ گئی نہ ہماری جان کی، جتنی جلدی اس مہم کے مقاصد کو سمجھ لیا جائے ، اور اس کے سد باب کی خاطر منصوبہ سازی کی جائے اور قربانیوں کے لیے عزم کیا جائے ، اتنی جلد صورت حال پر قابو پایا جا سکتا ہے ، یقیناً تاریخ سے لوگوں کو واقف کرانا ضروری ہے، اور اب تو نصاب میں زہر گھولنے کے بعد ہماری ذمہ داری مزید بڑھ گئی ہے کہ اپنی تاریخ سے نہ صرف دوسروں کے نظریہ کی اصلاح کرنا ہے بلکہ اپنی نسل نو کو بھی اپنی حقیقی تاریخ سے واقف کرانا ہے، لیکن تاریخ سے اصل تو روشنی حاصل کرنی ہےاور اس روشنی میں مستقبل کا سفر طے کرنا ہے ، تاریخ کا خلاصہ یہ ہے کہ اس کا آغاز شہادتوں سے ہوتا ہے اسکی انتہا قربانی ہوتی ہے، اور تب جاکے آزادی و استحکام کا باب رقم کیا جاتا ہے ،اس سے پہلے کہ نئی نسلیں احساس آزادی سے محروم ہو کر غلامی کے مرض میں مبتلا ہو جائیں یا رفتہ رفتہ اپنے تشخصات سے ہی دست بردار ہو جائیں ، جیسا کہ مشاہدہ ہے، خداوندان ملت کے لیے اٹھ کھڑا ہونا اور منصوبہ بندی کے ساتھ حالات کا مردانہ وار مقابلہ کرنا ضروری ہے ۔

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔