تو کیا جواب دیں گے…؟

تو کیا جواب دیں گے…؟

از:- ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز

پہلگام سانحہ کے بعد آپریشن سندور اور اس کے بعد پاکستان کی دہشت گرد سرگرمیوں سے واقف کروانے کے لئے ہندوستان نے 33 ممالک کو اپنے 7 وفود روانہ کئے ہیں جو 59 ارکان پر مشتمل ہیں ان میں 51 کا تعلق مختلف سیاسی جماعتوں سے ہے اور 8 سابق سفارتکار ہے۔ 59 رکن وفد میں 9 مسلم ارکان میں بیرسٹر اسد الدین اویسی، غلام نبی آزاد، غلام علی کھٹانا(نیشنل کانفرنس)، ایم جے اکبر،سابق مملکتی وزیر خارجہ و صحافی سلمان خورشید،سابق مرکزی وزیر ای ٹی محمد بشیر،انڈین مسلم لیگ کیرالا سرفراز احمد، جے ایم ایم جاوید اشرف سابق سفیر، سید اکبر الدین سابق سفیر شامل ہیں۔ مرکزی حکومت نے یوسف پٹھان کا نام بھی شامل کیا تھا مگر ممتا بنرجی نے ان کے بجائے ابھیشیک بنرجی کا نام وفد میں شمولیت کے لئے بھیجا ہے۔ ممتابنرجی اور ادھو ٹھاکرے نے 7 وفود کی اپنے طور پر تشکیل اور متعلقہ سیاسی جماعتوں کے سربراہوں سے مشاورت نہ کرنے پر بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا تاہم جب مرکزی وزیر کرن رجیجو نے ممتا بنرجی اور ادھو ٹھاکرے سے رابطہ قائم کیا تو دونوں نے اپنے ارکان کو وفود میں شامل کرنے کی اجازت دی۔

33 ممالک میں سے 25 ممالک اقوام متحدہ کی سکیوریٹی کونسل کے رکن ہیں مزید 5 ممالک کو عنقریب رکنیت مل جائے گی اور کچھ ممالک ایسے ہیں جن کی آواز ساری دنیامیں سنی جاتی ہے۔ ان 7 وفود جن کے 7 قائدین قیادت کر رہے ہیں۔ 33 ممالک کی حکومتوں کو پاکستان کی دہشت گردوں کی پشت پناہی اور دہشت گردی کے خاتمے کے لئے ہندوستان کے موقف سے واقف کروائیں گے۔ ششی تھرور ایک وفد کی قیادت کررہے ہیں۔ کانگریس میں ناراضگی کا سبب بنے ہوئے ہیں ویسے بھی کچھ عرصہ سے ششی تھرور کے تیور باغیانہ نظر آرہے تھے انہوں نے بعض موقعوں پر وزیر اعظم مودی کی تعریف بھی کی اوراب مرکزی حکومت نے کانگریس سے مشورہ کئے بغیر انہیں ایک وفد کا لیڈر بنا دیا ہے تو لگتا ہے کہ آنے والے دنوں میں ششی تھرور کانگریس سے کنارہ کشی اختیارکرسکتے ہیں۔ کانگریس نے آل پارٹی وفد کے لئے 4 نام پیش کئے تھے۔ تاہم مرکز نے صرف ایک آنند شرما کو وفد میں شامل کیا اور 3 نام کو نظر انداز کردیا ہے۔ کانگریس نے پارٹی کی جانب سے آنند شرما کے علاوہ گورو گوگوئی، ناصر حسین، امریندر سنگھ راجا کے نام بھیجے تھے مگر مرکز نے ان کی جگہ ششی تھرور، امر سنگھ، منیش تیواری کو دورہ کرنے والے وفود میں شامل کیا ہے۔ اور یہ چاروں کانگریسی اپنی پارٹی کے فیصلے کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مرکزی حکومت کے وفود میں شمولیت اختیار کر چکے ہیں۔ اس طرح سے بی جے پی کی زیر قیادت مرکزی حکومت ایک طرف مختلف ممالک کے رائے عامہ کو پاکستان کے خلاف ہموار کرتے ہوئے مستقبل میں اس کو عالمی برادری میں اس کو الگ تھلک کرنے اور اس کو ایک دہشت گرد ملک قرار دینے کی کوشش کر رہی ہے تو دوسری طرف اندرون ملک اصل حریف کانگریس میں دراڑ ڈالنے میں کامیاب ہوگئی ہے۔ کانگریس کا احتجاج اور اعتراض اپنی جگہ واجبی ہے تاہم سیاسی حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے اگر وہ حکومت کے منتخب کردہ ارکان کو ہری جھنڈی دکھا دیتی تو مرکز کی ایک شکست ہوتی۔ ہر وہ رکن چاہے اس کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے کیوں نہ ہو اس کے لئے بیرون ممالک کا دورہ اور حکومت کی نمائندگی بلاشبہ ایک اعزاز ہے جس کا اظہار ششی تھرور، اسد الدین اویسی کے بشمول ہر ایک رکن نے کیا ہے۔

59 رکنی دورہ کنندہ وفودمیں سے 50 ارکان کے لئے یہ دورہ اعزاز کے ساتھ ساتھ مختلف ممالک کی سیاحت کے لئے بھی ایک سنہرا موقع ہے جبکہ 9 مسلم ارکان کے لئے یہ سفر اور ان کا مشن آزمائشی ہوگا۔ کیونکہ پاکستان کے خلاف اپنے ملک کے موقف کو پیش کر رہے ہیں اور یہ ان کی حب الوطنی کا امتحان ہے ساتھ ہی مختلف ممالک میں منظم اور سرگرم پاکستانی لابی کا بھی انہیں سامنا کرنا ہے۔ پاکستانی اپنے ملک میں نالائق ہیں اور بیرونی ممالک میں انتہائی متحرک اور سرگرم اور مضبوط لابی کے حامل ہیں۔ لگ بھگ 11 ملین پاکستانی مختلف ممالک میں آباد ہیں۔ انہوں نے امریکہ،برطانیہ، نیوزی لینڈ، کنیڈاجیسے ممالک کی سیاست میں بھی اہم رول ادا کیا ہے۔ اگر یہ وفود صرف دوسرے ممالک کی حکومت تک اپنی بات پہنچانے تک محدود ہے تو ٹھیک ہے۔ اس کے برخلاف اگر یونیورسٹیز، انٹلیکچیول فورمس اور عوامی نمائندوں کے اجتماعات سے ملاقات ایجنڈے میں شامل ہیں تب انہیں ہندوستانی حکومت کے مسلمانوں دیگر اقلیتوں اور دلتوں کے ساتھ سلوک حالیہ عرصے کے دوران این آر سی، سی اے اے، مأب لنچنگ، ہندوتوا انتہا پسندوں کے مسلم دشمن تحریکات، فسادات بی جے پی کے زیر اقتدار ریاستوں میں معمولی واقعات پر بہانہ بناکر مسلمانوں کے گھر وں پر بلڈوزر کاروائی وقف ترمیمی بل جیسے موضوعا ت پر سوالات کے جواب دینے میں یقینی طور پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ مسلم ارکان اس سوال کا کیا جواب دیں گے کہ اظہا ررائے کی آزادی کو سلب کرتے ہوئے، اشوکا یونیورسٹی کے پروفیسر علی خاں کو گرفتار کرتے ہوئے جیل بھیج دیا جاتا ہے۔ صوفیہ قریشی جیسی ہندوستانی فضائیہ کی شیرینی کو پہلگام حملے کا ذمہ دار دہشت گردوں کی بہن کہنے والے بی جے پی کے ریاستی وزیر کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی جاتی۔9 مسلم ارکان میں سے صرف بیرسٹر اسد الدین اویسی ہی ایک ایسے قائد ہیں جو مسلمانوں کی مسائل پر عوامی پلیٹ فارم سے لے کر ایوان پارلیمنٹ تک آواز اٹھاتے ہیں اور پہلگام سانحہ کے بعد انہوں نے جس طرح سے پاکستان کی مذمت کی اس نے ان کی شبیہ کو بدل کر رکھ دیا۔ کٹر ہندو بھی انہیں محب وطن تسلیم کرنے کے لئے مجبور ہوگئے ہیں۔ ملک سے باہر بھی وہ اپنے خیالات کا اظہار پوری جرات کے ساتھ کریں گے، اس بات کا یقین ہے البتہ ان کے ہر لفظ پر ہر ایک کی توجہ مرکوز ہے کیونکہ حکومت کی مسلم دشمن پالیسیوں پر وہ جو کچھ کہتے رہے ہیں وہ سوشیل میڈیا کے ذریعہ ساری دنیا میں اپنی بات پہنچا چکے ہیں۔ بیرونی ممالک میں انہیں میڈیا کے ہر سوال کا جواب محتاط انداز میں دینا ہوتا ہے۔ وہ یا کوئی اور مسلم رکن کسی سوال کے جواب کو ہندوستان کا اندرونی معاملہ کہہ کر ٹا ل نہیں سکتا۔ چنانچہ مسلم ارکان جن میں سابق سفارتکار بھی شامل ہیں۔ اگر مسلمانوں سے متعلق حکومت ہند کے سوالات کے جوابات میں محتاط انداز اختیار کرتے ہیں تب بھی انہیں تنقید کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ان قائدین کی امیج اور وقار داؤ پر لگا ہوا ہے۔ کیونکہ حکومت کی تائید اور تعریف کی صورت میں ان ارکان سے متعلق کئی شکوک و شبہات جنم لے سکتے ہیں۔ اور مستقبل میں جب کبھی وہ حکومت پر تنقید کرتے ہیں تو ان کے چاہنے والوں میں ان کی قدر و منزلت میں کمی واقع ہوسکتی ہے۔ اگر بیرونی ممالک میں بھی وہ حکومت پر تنقید کرتے ہیں تب حکومت کے نظر میں پہلے بھی کھٹک رہے تھے مزید کھٹکنے لگی ہے ہندوتوا طاقتیں ان کے خلاف تحریک شروع کردیں گی۔ غلام نبی آزاد سے بہتر توقع نہیں کی جاسکتی، زندگی کا بیشتر حصہ کانگریس سے وابستہ رہے، مرکزی وزیر بنے، جمو کشمیر کے چیف منسٹر رہے اور پھر عمر کے آخری حصہ میں ان کا ساتھ چھوڑ دیا۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے ان کی تعریف کی، راجیہ سبھا کی رکنیت ختم ہونے پر ان سے جدائی کا احساس کرتے ہوئے آنسو بھی بہائے۔ لہذا غلام نبی آزاد ایک طرح سے موافق بی جے پی لیڈر ہیں، کشمیر سے ان کا تعلق ہے اور کشمیر کے خصوصی موقف دفعہ 370 کی برخواستگی سے متعلق اگر بیرونی ملک ان سے سوال کرتا ہے تو وہ کیا جواب دے سکتے ہیں یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ ایم جے اکبر کبھی جید صحافی کے طور پر جانے جاتے تھے۔ بی جے پی سے وابستگی اور بعض معاملات میں ملوث ہونے کے بعد وہ قوم کی نظروں سے گر گئے۔ ای ٹی بصیر کیرالا کے مقبول سیاسی قائد ہیں۔ یقینا کیرالا کے مسلمانوں کے جذبات و احساسات کی ترجمانی کرتے ہیں۔ اکبر الدین کامیاب سفارتکار رہے، اقوام متحدہ میں ہندوستان کے مستقل نمائندہ کے طور پر خدمات انجام دیں اور ان کی صاف ستھری امیج رہی ہے۔ سفارتی سطح پر وہ اپنی ذمہ داری بخوبی نبھا سکتے ہیں۔ جاوید اشرف آئی ایف ایس فرانس اور مراقش میں ہندوستانی سفیر رہے ہیں، صاف ستھری امیج کے مالک ہیں۔

وزارت خارجہ میں جوائنٹ سکریٹری بھی رہے۔ صاف ستھری امیج کے مالک ہیں۔ سفارتی سطح پر وہ کیا کرسکتے ہیں؟ وقت بتائے گا۔ سلمان خورشید جہاں دیدہ سیاست دان اور سپریم کورٹ کے وکیل ہیں وزیر خارجہ بھی رہ چکے ہیں کس موقع پر کیا کہنا چاہئے وہ جانتے ہیں۔ ویسے مسلم ارکان کسی بھی وفد کی قیادت نہیں کر رہے ہیں اس لئے بہت زیادہ ذمہ داری ان پر عائد نہیں ہوگی۔ پھر بھی دنیا کی نظریں ان پر مرکوز ہیں کہ وہ دیکھنا چاہتی ہیں کہ وہ پاکستان کے خلاف مسلم ارکان کا موقف کیا ہوتا ہے۔ مرکزی حکومت نے ان ممالک کا دورہ کرنے والے وفود کی تشکیل اور جن تواریخ کا انتخاب کیا ہے اس میں اس کی کیا حکمت عملی ہے؟اہل سیاست اچھی طرح جانتے ہیں۔ اسد اویسی، سلمان خورشید جیسے قائدین ایسے وقت ملک سے باہر ہیں، جب ملک میں وقف ترمیمی بل کی مخالفت عروج پر ہوگی۔ اگرچہ کے مقدمہ کی سپریم کوڑٹ میں سماعت جاری ہے۔ بہار کے الیکشن سرپر ہیں، ویسے ملک و قوم کامعاملہ س سے زیادہ اہم ہیں۔ اسی لئے سبھی نے لبیک کہا، 7 وفود کے 59 ارکان کا ایک دوسرے کو سمجھنے اور بعض موقع کو فراموش کرنے کا موقع ہوسکتا ہے۔ ہر وفد میں مختلف جماعتوں کے ارکان بھی شامل ہیں جو ایک دوسرے کے خلاف، زہر اگلتے رہے، تنقید کرتے رہے، سفر اور کچھ عرصہ قیام کے دوران دشمنیاں دوستی میں بدل سکتی ہے۔ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ اسد الدین اویسی اوربی جے پی کے زہر اگلنے والے نشی کانت دوبے ایک ہی وفد میں شامل ہیں۔اسی طرح کئی حریف قائدین جو ایک دوسرے سے لڑتے جھگڑتے رہے ہیں انہیں ایک جگہ ایک وفد میں شامل کیاگیا ہے۔ ایک جمہوری ملک میں صحت مند جمہوریت کے لئے یہ ایک اچھا اقدام ہے۔ خدا کرے کہ ہمارے وفود دیار غیر سے فاتح لوٹیں…

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔