ہندوستان میں مسلم قیادت کی تلاش اور مسلمان

از:- سرفرازاحمدقاسمی حیدرآباد

ملک میں جمہوریت اور جمہوری نظام کا مذاق بنا کررکھ دیا گیا ہے،مسلمان اس ملک میں مسلسل نشانے پر ہیں اور ان پر ظلم و زیادتی کے واقعات ہر روز بڑھتے جا رہے ہیں،مسلمانوں کو اپنا وجود خطرے میں محسوس ہونے لگاہے، ان حالات میں کچھ دوستوں کو لگتا ہے کہ یہ سب مسلم قیادت کے فقدان کی وجہ سے ہورہا ہے،بعض گوشوں سے یہ سوال اٹھایا جاتاہے کہ کیا ہندوستان میں مسلم قیادت کی راہیں مسدود ہو چکی ہیں؟مسلمانوں کو اپنی قیادت کے لئے جدو جہد نہیں کرنی چاہئے؟مسلمانوں کو اپنی قیادت کھڑی کرنے میں کیا برائی ہے؟ کیوں ہندوستان میں مسلمانوں کی اپنی قیادت نہیں ہوسکتی؟ اسطرح کے اوربھی بہت سے دیگر سوالات ہم جیسے لوگوں سے کئے جاتے ہیں۔ان سوالات کے جوابات جاننے کے لیے سب سے پہلے ہمیں یہ جاننا ضروری ہے کہ ہندوستان میں مسلمان اقلیت میں ہیں اور وہ یہاں کی دوسری سب سے بڑی اکثریت ہیں،قرآن کریم کے مطابق حکومتوں کا رد و بدل یا اس کا قیام و استحکام سب اسی مالک الملک کے ہاتھ میں ہے،اللہ تعالی کے یہ تصرفات اسباب کے پردوں سے جلوہ گر ہوتے ہیں اور یہ اسباب بظاہر بندوں کے ہاتھوں ظاہر ہوتے ہیں،اس لئے عام انسانی طبیعت اسباب کی تہوں میں جھانکتی اور غور کرتی ہے کہ وہ کیا اسباب ہیں جن کے پیچھے یہ نتائج نمودار ہوئے ہیں اور کیا ان اسباب کا بہتر سے بہتر استعمال انسانی اختیار و تصرف میں ہے کہ اس کے بہتر نتائج حاصل ہو سکیں،قران کریم میں ایک جگہ فرمایا گیا کہ” آپ کہہ دیجئے کہ اے اللہ! اے بادشاہت کے مالک،آپ جسے چاہیں بادشاہت بخشیں اور جس سے چاہیں ملک چھین لیں،جسے چاہیں غلبہ دیں اور جسے چاہیں بے سر و سامان کردیں،آپ ہی کے ہاتھ میں خیر ہے،بلاشبہ آپ ہر چیز پر قادر ہیں(آل عمران)
مسلم قیادت کا نعرہ آزادی سے پہلے ہی سے ملک میں اٹھایا جاتا رہاہے،جسکے نتیجے میں ملک دو نہیں بلکہ تین حصوں میں تقسیم ہو گیا،ایک چھوٹا سا حصہ مغرب میں اور ایک حصہ مشرق میں،اسکے بعد جو حصہ بچ گیا وہ ہندوستان کہلاتا ہے،جس میں تعداد کے لحاظ سے غیر مسلم اکثریت میں ہیں،یعنی سب سے زیادہ تعداد ہندوؤں کی ہے،اس کے بعد دوسرے نمبر پر مسلمان ہیں،مسلمانوں کے بعد سکھ اور عیسائی قدرے قابل ذکر ہیں،ایک بہت مختصر تعداد یہودی،فارسی،جین اور بدھ مذہب کی ہے، اس اکثریت اور اقلیتوں پر مشتمل ملک میں جمہوریت کی حکمرانی ہے،کہنے کو تو ہندوستانی جمہوریت میں متعدد مذاہب ہیں اور ہر ایک کے ماننے والے کم و بیش موجود ہیں اور ہندو مذہب کی اکثریت کے بعد سب کا شمار اقلیت کے دائرے میں ہے مگر اب تک جو کچھ تجربے میں آیا ہے اور یہی انسان کی فطری کمزوریوں کا لازمی نتیجہ بھی ہے کہ اس ملک میں دو ہی مذہب ہیں اور دو ہی گروہ ہیں ایک مسلم اور دوسرے غیر مسلم،جب تک مسلمانوں سے کوئی ظاہری مقابلہ نہیں ہے غیر مسلم متعدد گروپ میں تقسیم ہوتے ہیں اور جب کسی بھی مفاد میں مسلمانوں سے مقابلے اور ٹکراؤ کی صورت ہوتی ہے تو سارے غیر مسلم،فرقہ واحدہ بن جاتا ہے تو حاصل یہ ہے کہ اس ملک میں غیر مسلم اکثریت میں ہیں اور مسلمان اقلیت میں ہیں،بھارت جب آزاد ہوا تو یہاں کے باشندوں نے جمہوری حکومت بنائی اور اکثریت میں ہونے کی بنا پر حکومت کی باگ ڈور غیر مسلموں کے ہاتھ میں آئی گو کہ مسلمانوں کی بھی شرکت اس میں رہی مگر عملا وہ شریک مغلوب رہے،فرقہ واریت کا عفریت انگریزوں کے دور میں ہی ظاہر ہوچکا تھا،آزادی کے بعد یہ خوفناک دیو آہستہ آہستہ اپنے دست و باز و نکالتا رہا،کچھ حکمرانوں نے بھی اسے شہ دی،جمہوری حکومت کا شاید کوئی دور ایسا نہیں گزرا جس میں فرقہ پروری اور جاہلانہ عصبیت کی پرورش نہ کی گئی ہو اور اقلیت کے سامنے نئے نئے مسائل نہ کھڑے کیے گئے ہوں،ہزاروں فسادات کے ذریعے نسل کشی اور دل شکستگی قید و بند کی بے رحمیاں،اسلامی احکام و نظریات پر حملے،مساجد و مدارس کی شہادت،ان پر شکوک و شبہات کی نگاہیں اور ان پر الزام تراشیاں،اسطرح کے حالات مسلسل آتے رہے،جسکا سلسلہ آج بھی جاری ہے،جمہوری حکمرانوں کا یہ تشدد اور ان کا یہ نازیبا سلوک صرف مسلم اقلیت کے ساتھ نہیں،ہندوستان میں بسنے والے دیگر طبقات کے ساتھ بھی جاری رہا،جس کے رد عمل میں حکمراں پارٹی سے بددلی عام ہوئی، اس پر جو اعتماد کیا گیا تھا وہ جاتا رہا،چنانچہ حکمراں پارٹی کو متعدد بار دھکے لگے اور اس کے پرزے اڑتے رہے،نئی نئی پارٹیاں وجود میں آئی فرقہ پرستی بھی بڑھتی رہی اور اب ہمارا ملک مختلف چھوٹی بڑی پارٹیوں کا ملغوبہ بن گیا ہے،ہر پارٹی اپنی طرف لوگوں کو کھینچتی ہے،اس وقت ملک میں کوئی پارٹی ایسی نہیں ہے جو تنہا اپنی حکومت بنا سکے،جب کوئی پارٹی اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر ایک مجموعی محاذ بناتی ہے،تب وہ اس لائق ہوتی ہے کہ وہ اپنی حکومت بنائے،ان مختلف چھوٹی بڑی سیاسی پارٹیوں کا فائدہ ملک کے مختلف طبقات کو تو پہنچا مگر مسلمانوں کے مسائل جوں کے توں رہے بلکہ کئ سنگین اور نئے مسائل کا اضافہ ہو گیا،کئی مسلم تنظیمیں اس ملک میں ہیں جو ان مسائل کے حل کے لئے کوشش کرسکتی ہیں اور بعض کررہی ہیں مگر سب کے کچھ داخلی مسائل الجھے رہتے ہیں جس کی وجہ سے وہ کما حقہ توجہ نہیں دے پاتی،حقیقت یہ ہے کہ یہ دور خودغرضی اور مفاد پرستی کا دور ہے،جسکو جس راستے سے اپنا مفاد دکھائی دیتا ہے وہ ادھر ہی چل پڑتا ہے،اس لیے کب کون کیا تحریک لے کر کھڑا ہو اور کب کون کس سے پہلو تہی کرجائے کچھ کہا نہیں جا سکتا،نیتیں مشتبہ ہیں،سامنے کچھ، پیچھے کچھ،ظاہر کچھ اور باطن کچھ کا اتنا تماشہ ہوتا ہے کہ کون کس پر اعتماد اور بھروسہ کرے۔
حضرت مولانا اعجازاحمد اعظمی صاحب ایک جگہ لکھتے ہیں کہ” گزشتہ کچھ سال پہلے الیکشن کی گہما گہمی تھی،اسی درمیان یوپی کے اعظم گڑھ اور مسلمانوں کے خاص خطے میں نئی ہلچل شروع ہوئی اور یہ دیکھا گیا کہ کچھ لوگ جن کا کوئی خاص سیاسی پس منظر نہیں ہے وہ یہ کہتے ہوئے اٹھے کہ یہاں کی کوئی پارٹی مسلمانوں کی ہمدرد نہیں ہے،اتنے اتنے فسادات ہوئے، گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام ہوا، مسلم نوجوانوں کو جہاں تہاں سے ایک ہی طرح کے الزام میں بڑی تعداد میں گرفتار کیا گیا،لیکن کوئی پارٹی منظم طور پر اس کا نوٹس نہیں لے رہی ہے، نوجوان جیلوں میں سڑ رہے ہیں، ان کی زندگیاں برباد ہورہی ہیں،ان کے ماں باپ تصویر غم اور ان کے گھر ماتم کدے بنے ہوئے ہیں مگر کوئی ان کے آنسو پوچھنے والا نہیں، لہذا یہ سب پارٹیاں ناقابل بھروسہ ہیں۔اب خود ہمیں اپنی تنظیم بنانی ہے اور اپنی لڑائی خود لڑنی ہے،اپنی قیادت کھڑی کرنی ہے، چنانچہ دیکھتے ہی دیکھتے ایک تنظیم علماء کے نام پر وجود میں آگئی،یہ تنظیم مسلم نوجوانوں کے قتل اور قیدوبند کے مسئلے کو لے کر اٹھی اور چونکہ یہ جذباتی مسئلہ تھا، اسلئے مسلم نوجوانوں کا ایک طبقہ،ایک خاص جوش و خروش کے ساتھ وابستہ ہو گیا،اس نے مسلم نوجوانوں کے قتل اور قید و بند کے مسئلے کو لے کر ابتدا ہی میں دہلی اور لکھنو پر ٹرین سے دھاوا بول دیا،اس سے مسلمانوں کو کیا فائدہ پہنچا؟ یہ تو محل غور ہے، کوئی مسلم نوجوان قید اور الزام سے رہائی تو نہ پا سکا، البتہ مسلم نوجوانوں کے اس شور شرابے سے غیرمسلم عوام چونک پڑی، ابھی یہ ہوہی رہا تھا کہ اس تنظیم نے پارلیمنٹری الیکشن میں حصہ لینے کا اعلان کردیا پھر اس تنظیم کی طرف سے اور اس کے لیڈروں کی طرف سے مسلسل اشتعال انگیز بیانات کا ایسا آتش فشاں دہانہ کھل گیا کہ ہرطرف ماحول گرم ہو گیا، سنجیدہ اور ہوشمند افراد متحیرہوئے اور کوئی تدبیر سمجھ میں نہیں آئی کہ یہ آتش فشاں دہانہ کیوں کر اور کیسے بند ہو؟ عوام کا مزاج اتنا جذباتی ہو گیا کہ جیسے مسلمانوں کی نجات دہندہ تنظیم وجود میں آگئی ہو، ماحول کی ہولناکی کا یہ عالم ہو گیا کہ یہ تنظیم مدار کفر و ایمان بن گئی،اگر کسی نے اس تعلق سے کچھ کہنا چاہا تو اس کی عزت و آبرو خطرے میں پڑ گئی،یہ تو ایک خاص حلقے کی مسلم عوام کا حال ہوا اور اس حلقے کے غیر مسلموں کا حال یہ ہوا کہ وہ سمٹ سمٹ کر فرقہ وارانہ تنظیم کی طرف بڑھنے لگے اور انہیں اطمینان ہو گیا کہ جو کام پہلے کبھی نہیں ہوا تھا،اب ہو جائے گا،میں نے عرض کیا تھا کہ مسلمانوں سے اگر تصادم کی راہ نکلی تو غیر مسلم ملت واحدہ ہوگا، چنانچہ تمام دوسری پارٹیوں کے وہ سمٹ کر فرقہ پرور پارٹی بھاجپا کی جھولی میں گرنے لگے۔ پھر جب الیکشن ہوا اور نتیجہ ظاہر ہوا تو پتہ چلا کہ اس مسلم تنظیم کا کوئی امیدوار کامیاب نہیں ہوا،اتنا ہی نہیں مشرقی یوپی میں کوئی بھی مسلم امیدوار کسی بھی پارٹی سے کامیاب نہیں ہوا، گویا پارلیمنٹ میں مشرقی یوپی کے مسلمانوں کا صفایا ہو گیا اور اس تنظیم نو کا جو مرکزی مقام ہے یعنی اعظم گڑھ شہر کا حلقہ اس میں جن سنگھ یا بھاجپا کا کوئی امیدوار آزادی کے بعد سے کبھی کامیاب نہیں ہوا تھا،بھاجپا کی نظریں اس پر کافی عرصے سے لگی ہوئی تھیں، اس الیکشن میں اس تنظیم کی برکت،بھاجپا کو ملی اور پارلیمنٹ کا بھاجپائی ممبر کامیاب ہو گیا،اس تنظیم نے مسلمانوں کا ووٹ بڑی تعداد میں اپنی طرف پھیرلیا، حالانکہ اسے خوب معلوم تھا کہ غیر مسلم انہیں مطلقا ووٹ نہ دے گا اور صرف مسلمانوں کے اکثر ووٹ سے اس کے امیدواروں کا کامیاب ہونا ممکن نہیں، لیکن بہرحال اسے ضد تھی،مسلمانوں کے ہزاروں ہزار ووٹوں کو اس نے بے اثر کردیا،ان نادانوں نے مسلمانوں کو تو کوئی فائدہ پہنچایا یا نہیں،دوسروں کو ضرور متحد و مضبوط کردیا،یہ کہتے تھے کہ ہم اپنی طاقت دکھانا چاہتے ہیں،اللہ جانے کس کو دکھانا چاہتے تھے اور طاقت تو دکھا نہیں سکے البتہ ملک کی تمام تر نگاہوں کے سامنے یہ منظر آگیا کہ بلند دعوؤں سمیت چاروں شانے چت ہیں اور انہوں نے مسلمانوں کا مزاج اتنا بگاڑ دیا کہ شاید اب کوئی سنجیدہ بات ان کے کان تک بھی نہ جا سکے”۔

مسلمان کے نام پر بننے والی قیادت اور تنظیم کا حال دیکھئے کیا سے کیا ہوگئے دیکھتے دیکھتے، کچھ اسی طرح کے حالات آج بھی پیدا کئے جارہے ہیں، جب کہ واقعہ یہ ہے کہ ہندوستان جیسے جمہوری ملک میں خواہ جتنی پارٹیاں ہوں اور خواہ جتنی قومیں اور برادریاں ہوں اقلیت اکثریت کا مدار یہاں ان ٹکڑیوں پر نہیں ہے بلکہ مذہب پر ہے اور جہاں مذہب اسلام اپنے ماننے والوں کی بڑی تعداد کے ساتھ موجود ہو وہاں گو کہ بہت سے مذاہب ہوں مگر تقابل ہمیشہ دو ہی مذہب کا ہوگا،ایک اسلام اور دوسرے کفر و شرک کا،چاہے جتنی متحارب شکلیں ہوں وہ سب اسلام کے مقابلے میں ایک ہیں،پس یہاں مسلمان عددی اعتبار سے اقلیت میں ہیں اور اہل کفر و شرک اکثریت میں ہیں،اس ماحول میں غیر مسلم اکثریت اپنے مفاد یا مجبوری کے تحت مسلمانوں کا کام کر سکتی ہے مگر اس کو کبھی مسلمانوں کے مفاد سے براہ راست کوئی دلچسپی نہیں ہو سکتی،لہذا ان سے کام لینے اور انہیں اپنے حق میں مفید بنانے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ ہے اخلاق،حسن سلوک اور انسانیت،اسلام نے اخلاق و احسان کو بڑی اہمیت دی ہے،ہمارا پڑوسی ہمارے اخلاق کا بہترین موقع فراہم کرتا ہے، کسی غیر مسلم کی خوشامد نہیں،اسلامی تعلیم پر عمل کرنے کے جذبے سے اللہ کی خوشنودی کے لیے اگر اخلاق کا برتاؤ کیا جائے تو امت مسلمہ کے لیے بڑا زبردست ہتھیار ہے لیکن افسوس یہ ہے کہ مسلمانوں نے اسلام کی اس اہم تعلیم کو چھوڑ دیا اور دوسرے راستے سے اپنا غلبہ چاہتے ہیں۔

ایسے میں سوال تو ہوگا نا کہ یہاں مسلم قیادت کی تلاش کیوں کرہو؟ اس امکان پر غور کیسے کیا جائے؟ آخر مسلم قیادت کے تصور کی بنیاد کیاہے؟ مسلم قیادت کی بات جب بھی آئے گی تو کیا اسلامی تاریخ اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو بنیاد نہیں بنایا جائے گا؟ اسے اس پیمانے پر پرکھنے کی کوشش نہیں کی جائے گی؟اسلام اپنے ابتدا میں اقلیت میں تھا،اللہ نے انہیں غلبہ کیسے عطا کیا؟کن وجوہات کی بنا پر اسلام اور مسلمان غالب ہوتے گئے، کیا ہندوستان کے مسلمان اور مسلم قیادت کے خواہشمند لوگ ان حالات پر غور نہیں کریں گے اور کوئی لائحہ عمل تیار نہیں کریں گے؟صرف مسلم قیادت کا نعرہ لگا کر آپ کوئی قیادت کھڑی کرسکتے ہیں کیا یہ ممکن ہے؟ ہندوستان میں مسلمان کوئی سیاسی پارٹی بناتا ہے اور اسی بنیاد پر دوسروں کو للکارا جائے گا تو رد عمل کے طور پر لازم ہے کہ کفر و شرک میں بھی اجتماعیت پیدا ہوجائے،موجودہ صورتحال میں مسلمانوں کی سیاسی پارٹی ان کے حق میں مضر ہی ہوگی،آزادی کے بعد جمیعت علماء ہند نے سیاست میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ اسوجہ سے کیا کہ اگر مسلمانوں کی کوئی سیاسی پارٹی بنی اور وہ الیکشن میں حصہ لیتی رہی تو ہندوستان کی جمہوریت ختم ہو کررہ جائے گی اور یہ ملک ہندو راشٹر بن جائے گا، کیونکہ پاکستان بن جانے کے بعد بعض علاقوں کے علاوہ کہیں بھی مسلم اکثریت نہیں ہے اور جہاں ہے بھی تو الیکشن میں اسے بندر بانٹ کر کے مسلم اکثریت کو اقلیت میں لوٹا دیا جائے گا،پھر کہیں سے کوئی مسلمان کبھی کامیاب نہ ہوگا،پارلیمنٹ ہو یا اسمبلی ہرجگہ صرف ہندو ہی ہندو ہوں گے،پھر اسے ہندو راشٹر بننے سے کون روک سکے گا؟ آج جب کہ کچھ گوشوں سے ہندو راشٹر کے قیام کی آواز اٹھائی جارہی ہے،شاید اسی خطرے کو ہمارے بزرگوں نے پہلے ہی بھانپ لیا تھا۔ایسے میں ملک بھر میں پھیلی امت مسلمہ نہ کوئی سیاسی پارٹی بنائے اور نہ بھاجپا کو مضبوط کرے،اپنے گرد و پیش ایسی پارٹی اور ایسے امیدوار کو سپورٹ کریں جو فرقہ واریت کا مقابلہ کر سکے،اس سلسلے میں اپنے حلقے کے سنجیدہ اور باوقار ذمہ داروں سے رابطہ رکھے اور وہ جس کی سفارش کریں،اسے ووٹ دے اور بلا وجہ طاقت کی نمائش نہ کرے،نہ شور شرابہ کرے،خاموشی سے اپنی رائے دے دیں،اسلام نے قدم قدم پر حکمت،مصلحت اور دوراندیشی کو اپنانے کی تعلیم دی ہے،اسٹیج سے اشتعال انگیزی،بدزبانی، بداخلاقی و بدتمیزی اور اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنا ان حالات میں بالکل مناسب نہیں،مسلمان ووٹ تو کسی ایک ہی کو دیں لیکن اخلاق و انسانیت کا برتاؤ سب کے ساتھ کریں،اصل فتح اخلاق و انسانیت کے ساتھ ہوتی ہے،بداخلاقی،لڑائی،جھگڑا،گالی گلوچ، کذب بیانی اور بےجا اعلان بے گناہی،اشتعال انگیزی سے کسی کی نجات نہیں ہوتی اور نہ ان سے کوئی غلبہ حاصل ہوتا ہے،آدمی اللہ کا حق ادا کرے، پھر اللہ تعالی اس کے لیے راستہ آسان کرتے ہیں،قران کریم میں ہے” اگر تم صبر کرو اور تقوی اختیار کرو تو ان کی سازش سے تمہارا کچھ نہ بگڑے گا،بے شک جو کچھ وہ کرتے ہیں،سب اللہ کی قدرت میں ہے(آل عمران)

خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے مسلمانوں کو دو کام کرنے کا حکم دیا ہے،ایک صبر ہے اور دوسرا تقوی ہے،صبر کا مطلب یہ ہے کہ ناگواریوں کے باوجود اپنے طریقے پر جمے رہنا،نہ گھبرانا،نہ طیش میں آنا، نہ میدان چھوڑ کر بھاگنا،نہ اپنے عمل کو ترک کرنا،صبر کا دوسرا نام استقلال بھی ہے اور دوسری چیز تقوی ہے،تقوی کا مطلب یہ ہے کہ نقصان دہ چیزوں سے بچنا،اور یہ بچنا صرف اللہ کے احکام کی تعمیل و تکمیل اور معاصی سے اجتناب کے ذریعے ہوتا ہے،جس قدر اللہ کی فرمانبرداری ہوگی،اسی قدر اللہ کی رحمت آئے گی، کاش مسلمان اس پر کسی درجے میں عمل کرلیتے تو بہت کچھ کام آسان ہوجاتا،صبر کے طویل اور مشکل مرحلے سے گزرنے کے بعد جو میٹھا پھل کھانے کو ملے گا اس کو ہم وقت سے پہلے توڑ کر کھانا چاہتے ہیں،تلك الايام نداولها بین الناس یہ صرف ایک جملہ نہیں ہے بلکہ خدا کا مقرر کردہ قانونِ فطرت ہے ۔سورہ یوسف غور سے پڑھیں،اس میں بہت سے سیاسی و ملکی مسائل کا حل ہے۔جب اولاد یعقوب علیہ السّلام دوبارہ مصر کے لئے رخت سفر باندھ رہے تھے تو چونکہ پہلے سفر میں عزیز مصر کی الطاف و عنایات سے بہرمند ہوچکے تھے اور ان کی نوازشات کو وہاں کے باشندوں اور سرکاری عملے نے دیکھا تھا پھر دوبارہ ایک جتھے کی شکل میں مصر میں انکا داخلہ،لوگوں کی نگاہوں میں آنے کا سبب ہوسکتا تھا اور اس میں خطرے کا پورا امکان تھا کہ ان کی مقبولیت سے کچھ حاسدین پیدا ہوجائیں گے جو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔تو حضرت یعقوب علیہ السّلام نے مشورہ دیا (یا بنی لا تدخلوا من باب واحد وادخلوا من ابواب متفرقہ) اس کا بس یہی مقصد تھا کہ ان کی جمعیت اور عنایات شاہی حاسدین کی نگاہوں میں آنے کا سبب نہ بنے،اس سے ہمیں یہی سبق ملتا ہے کہ ہم قبل از وقت اپنی عددی طاقت و جمعیت دکھا کر اپنے لئے مخالف اور حاسد نہ پیدا کریں بلکہ اپنی ہر طاقت کو پوشیدہ رکھیں،بندوق کی طرح بنیں جس سے آواز اس وقت نکلتی ہے،جب گولی نشانے پر لگ چکی ہوتی ہے،واضح رہے کہ ہر قوم کی کچھ فطری خصوصیات ہوتی ہیں،ہندو قوم کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ بہت کینہ پرور،تنگ دل اور بزدل قوم ہے،جس قوم میں یہ چیزیں موجود ہوں وہ اپنے تحفظ کو لیکر ضرورت سے زیادہ چوکنا رہتی ہے اور چھوٹے چھوٹے خطرات کو بھی ختم کرنے کے لئے سرگرم ہوجاتی ہے،ایسے میں ہم کیوں بلا وجہ قبل از وقت اپنی طاقت کا مظاہرہ کرکے اپنی ہی جڑ کھودنے کا انھیں ٹھیکہ دیں،صبر و استقامت اور خاموشی ان تین لفظوں میں ہمارا منصوبہ چھپا ہونا چاہئیے،اس پر اگر پورے طور پر عمل کرلیا جائے تو دشمنوں کا کوئی داؤ فریب کارگر نہ ہو،جو کاروائیاں وہ کرتے ہیں،سب خدا کے علم میں ہے اور ان کو ہر وقت قدرت حاصل ہے کہ ان کی جڑ اکھاڑ کررکھ دیں،مسلمان اپنا معاملہ ہرحال میں خدا سے صاف رکھیں پھر ان کے راستے سے سب کانٹے صاف کردیے جائیں گے انشاءاللہ۔

(مضمون نگار معروف صحافی اور کل ہند معاشرہ بچاؤ تحریک کے جنرل سکڑیٹری ہیں)

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔