بہار کے نتائج اور الیکشن کمیشن

تحریر : شکیل رشید ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز

شک و شبہ مزید گہرا ہو گیا ہے ! بہار اسمبلی الیکشن کے یکطرفہ نتائج نے الیکشن کمیشن کو پوری طرح سے کٹگھڑے میں لا کر کھڑا کر دیا ہے، بھلے ہی چیف الیکشن کمشنر گیانیش کمار اپنی پیٹھ تھپتھپاتے پھریں، کہ ان کی سربراہی میں بہار میں ایک کامیاب، تشدد سے پاک الیکشن ممکن ہو سکا ۔ چند ایک کو چھوڑ دیں، جیسے کہ بے جے پی والے اور اسد الدین اویسی، جنہیں الیکشن کمیشن پر کامل ایمان ہے، اکثریت ایسے سیاست دانوں کی ہے، جنہوں نے بہار اسمبلی کے الیکشن نتائج کے بعد، این ڈی اے کی کامیابی کو ووٹ چوری کا نتیجہ قرار دیا ہے ۔ تیجسوی یادو اتنے کمزور نکلیں گے کہ ان کا مہا گٹھ بندھن صرف ٣٦ سیٹیں ہی حاصل کرسکے گا، بہار ہی نہیں ملک بھر میں ایسا کسی نے سوچا نہیں تھا ۔ انتخابی ریلیوں کے نظارے اور عوامی بول چال و سیاسی فضا تیجسوی یادو کے حق میں تھی ۔ نتیش کمار نے گزشتہ پانچ سالوں کے دوران بہار کو کچھ ایسا دے بھی نہیں دیا تھا کہ عوام انہیں ہی گدی پر بیٹھا ہوا دیکھنا چاہتی ۔ بہار والوں کو خوب اندازہ تھا کہ نتیش کمار بی جے پی کے اشارے پر ناچ رہے ہیں، ان کا سارا سیکولرازم اب بس دکھاؤا ہی ہے ۔ لوگوں نے یہ بھی دیکھا کہ نتیش کمار کی ذہنی حالت بہت اچھی نہیں ہے، ان کا گدی پر بیٹھنا نہ بیٹھنا ایک جیسا ہے ۔ تبدیلی کی لہر واضح تھی، اسی لیے جب ایک ایسا ریزلٹ آیا جس سے کچھ بھی نہیں بدلا، تو لوگوں کا حیرت میں مبتلا ہونا لازمی تھا ۔ لوگ سکتے میں ہیں، ایک دوسرے سے پوچھ رہے ہیں کہ یہ کیا ہوگیا ! ووٹ چوری ناممکن عمل نہیں رہا، راہل گاندھی نے تین پریس کانفرنسوں میں، اعداد و شمار کے حوالے سے یہ بات ثابت کر دی ہے ۔ مہاراشٹر میں مہا گٹھ بندھن کی شکست اتنی ہی حیرت ناک تھی جتنی کہ بہار کی شکست ہے ۔ مہاراشٹر میں بھی تبدیلی کی لہر تھی، مگر نتائج تبدیلی مخالف تھے ۔ راہل گاندھی نے حوالوں کے ساتھ اپوزیشن کا مقدمہ پیش کیا، اور یہ ثابت کیا کہ لاکھوں کی تعداد میں ووٹوں کی ہیرا پھیری کی گئی ہے ۔ ووٹروں کے نام حذف کیے گیے اور مشکوک ناموں کا اندراج کیا گیا، اس طرح الیکشن کے جمہوری نظام پر شب خون مارا گیا ۔ راہل گاندھی نے ہریانہ الیکشن کا معاملہ اٹھایا، جہاں الیکشن سے پہلے کانگریس کی لہر تھی، مگر جیت بی جے پی کی ہوئی تھی ۔ہریانہ میں بھی راہل گاندھی کے دعوے کے مطابق لاکھوں ووٹوں کی چوری کی گئی تھی ۔ انہوں نے اعداد و شمار پیش کرکے بتایا کہ جن ووٹروں کے نام حذف کیے گیے وہ مہا گٹھ بندھن کے روایتی ووٹر تھے اور جو مشکوک نام ووٹر لسٹ میں ڈالے گیے وہ سب بی جے پی کے کھاتے میں گیے ۔ انہوں نے کرناٹک کی مثال پیش کی، اور ابھی مزید انکشافات کرنے والے ہیں ۔ شاید وارانسی کا لوک سبھا کا الیکشن بھی ان کی فہرست میں شامل ہے، کہا جاتا ہے کہ پی ایم مودی ہار رہے تھے مگر ووٹ چوری سے انہیں جیت دلوائی گئی ۔ الیکشن کمیشن پر یہ سنگین الزامات ہیں، لیکن کمیشن کوئی جواب دینے کو تیار نہیں ہے، اور گیانیش کمار جواب دیتے بھی ہیں تو بے تکے ۔ بہار اسمبلی الیکشن کے نتائج الیکشن کمیشن کی ساکھ پر آخری کیل کی طرح ہیں ۔الیکشن کمیشن کو چاہیے کہ وہ صفائی دے اور الیکشن نتائج سے متعلق ہر دستاویز پیش کرے، اور ثابت کرے کہ کمیشن ہنوز ایک جمہوری ادارہ ہے ۔ ایک سوال سپریم کورٹ سے؛ بھلا آنکھ کیوں نہیں کھل رہی ہے؟

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔