بی جے پی الائنس کو شکست کیوں نہیں دی جاسکتی؟ مہاگٹھ بندھن کی شرمناک ہاراور این ڈی اے کی تاریخی فتح

از:- عبدالغفارصدیقی

بہار میں ایک بار پھر این ڈی اے کی بہار آگئی۔ اس بار اسے تاریخی فتح ملی۔ مہاگٹھ بندھن کو شرمناک شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ہار کایہ سلسلہ رکنے والا نہیں ہے۔ مزید آگے جائے گا۔چونکہ جے ڈی یو کو بی جے پی سے کم سیٹیں ملیں۔ اس لیے اس مرتبہ نتیش جی بی جے پی کے دباؤ میں رہیں گے۔ آئندہ ان کی پارٹی کا حال بھی آر جے ڈی جیسا ہوجائے گا۔ اس بار نتیش جی کو مکھیہ منتری کی کرسی اس لیے حاصل ہوجائے گی کہ مرکز میں ان کی بیساکھی کی وجہ سے ہی بی جے پی کی سرکار ہے۔جب تک مرکز میں ان کی ضرورت رہے گی یہ کرسی قائم رہے گی اور جیسے ہی ان کی ضرورت باقی نہیں رہے گی وہ بھی تاریخ کا حصہ بن جائیں گے۔بھارتیہ جنتا پارٹی کا مقابلہ یہ پارٹیاں نہیں کرسکتیں۔
سیاست کا میدان بھی پہلوانوں کا اکھاڑہ ہے۔جس طرح کُشتی کے میدان میں جب تک دونوں پہلوان ایک دوسرے کی کمزوریوں اور خوبیوں سے واقف نہیں ہوں گے، تب تک وہ ایک دوسرے کو چت نہیں کرسکیں گے۔دونوں میں سے جو اپنے مخالف کی کمزوریوں سے زیادہ واقف ہوگا،اس کی کامیابی کے امکان اسی قدر زیادہ ہوں گے۔اسی طرح جب تک آپ بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کی سرپرست آر ایس ایس کو نہیں سمجھیں گے،اس کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔یہاں اپنی خوبیوں اور کمزوریوں کے ساتھ ساتھ مخالف کی خوبیوں اور کمزوریوں سے واقفیت ضروری ہے۔صرف کسی امیدوار کی ذاتی خوبیاں اور کمزوریاں نہیں بلکہ وہ جس جماعت سے تعلق رکھتا ہے،اس کے بارے میں بھی پوری معلومات ہونا چاہئیں۔یہ جاننابھی ضروری ہے کہ مد مقابل فرد یا جماعت کی منصوبہ بندی کیا ہے؟وہ کیا کیا داؤچلنے والے ہیں؟ان کے پلان اے اور پلان بی کیا ہیں؟سیاست میں امیدوار کی ذات،مذہب،نظریات،اس کی مالی پوزیشن،اس کے ذریعہ کرائے گئے کچھ سماجی و رفاہی کام بھی اہمیت رکھتے ہیں۔اب میں آپ کو ملکی سیاست میں موجود چند حقیقتوں کی یاددہانی کراتا ہوں۔یاد دہانی اس لیے کہ آپ میں سے بیشتر ان سچائیوں سے کسی نہ کسی سطح پر واقف ہیں۔

آر ایس ایس نے اپنے قیام کے اول روز سے ہی ملک میں اپنا ایک تعلیمی نظام متعارف کرایا۔جس کے تحت چلنے والے تعلیمی اداروں کو،ششو مندر،ودھیا مندرکے نام سے جانا جاتا ہے۔اس کی تعلیمی تنظیموں میں بال بھارتی اور ودھیا بھارتی بہت مشہور ہیں۔ان کا یہ تعلیمی نظام پرائمری سے یونیورسٹی سطح تک ہے۔اس تعلیمی نظام میں جو نظریات اعلانیہ یا غیر اعلانیہ شامل ہیں ان میں یہ بھی شامل ہے کہ ملک میں مسلمان حملہ آوروں نے بھارتی تہذیب و ثقافت کوشدید نقصان پہنچایا،بے شمار مندر توڑے،لاکھوں ہندوؤں کا قتل عام کیا،ان کی زمینوں پر قبضے کیے،ان کی بہو بیٹیوں کے ساتھ بلاتکار کیا۔آزادی کے بعد ملک تقسیم کرلیا اور اپنا حصہ لے کر الگ ملک بنالیا۔یہی کچھ وہ عیسائیوں کے تعلق سے بھی کہتے رہے ہیں۔یہ تعلیم کبھی براہ راست تاریخ کی درسی کتابوں کے ذریعہ ہوتی ہے،کبھی وہ اپنی تقریروں اور ثقافتی پروگرام کے ذریعہ دیتے ہیں۔ان کا یہ تعلیمی نظام صرف اسکول کالج اور یونیورسٹی تک محدود نہیں رہا،بلکہ تقریباً آزادی کے بعدسے ہی انھوں نے سول سروسز کی کوچنگ کلاس کا بھی آغاز کیا۔جس کا مقصد اعلیٰ سرکاری مناصب کے لیے اپنے تربیت یافتہ افراد فراہم کرنا تھا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کا تعلیمی نظام نہایت مربوط و منظم ہے۔وہ اساتذہ کی تربیت کرتے ہیں، طلبہ کے سرپرستوں سے باقاعدہ ملاقاتیں کرتے ہیں،اپنے طلبہ کو ہندورسوم ورواج کی تعلیم دیتے ہیں۔میں یہ نہیں کہتا کہ آر ایس ایس کویہ سب نہیں کرنا چاہئے تھا۔انھوں نے ٹھیک ہی کیا کیوں کہ آر ایس ایس کے قیام کا مقصد ملک کو ہندو راشٹر بنانا ہے اور ملک کو ہندوراشٹر بنانے کے لیے سب سے ضروری چیز مقصد سے ہم آہنگ تعلیمی نظام ہے۔آج اسی کا نتیجہ ہے کہ ملک کے طول و عرض میں اور خاص طور پر پورے شمالی ہندوستان میں بیشتر اعلیٰ مناصب پر ان کی فکر کے حامل نمائندہ افراد بیٹھے ہیں۔

ان کے مقابلے پر جونظامہائے تعلیم بھارت میں موجود تھے یا ہیں،ان کی کیا صورت حال ہے؟کیا ان کی بنیاد میں کوئی مضبوط مثبت فکر پائی جاتی ہے؟سنگھ کا تعلیمی نظام ہندوراشٹر کے لیے مخلص اور وفادار کارندے پیدا کررہا ہے اور باقی لوگوں کا تعلیمی نظام صرف مادیت پرست،عیش پرست،خودپسنداور خود غرض افراد پیدا کررہا ہے،سنگھ کے تعلیمی نظام میں ڈسپلن،محنت،لگن،کمپٹیشن کا جذبہ اورامتحانات میں شفافیت پائی جاتی ہے جب کہ باقی (سرکاری ونیم سرکاری) میں کیاپایاجاتا ہے؟یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ سرکاری تعلیمی پالیسی ہمیشہ غیر واضح رہی،تعلیمی نظام میں کرپشن کا بول بالا رہا اورمسلمانوں کے پاس جو نظام تعلیم تھا یا ہے وہ مساجد کے امام ہی پیدا کرسکتا تھا۔یہ وہ محاذ ہے جس پر کسی دوسری تنظیم نے کوئی منظم کام نہیں کیا۔تعلیمی ادارے ہی افراد سازی کی وہ فیکٹریاں ہیں جہاں کسی انقلاب کے لیے کل پرزے ڈھالے جاتے ہیں۔جب آپ نے ایسی فیکٹریاں ہی نہیں لگائیں تو پھر اپنی پسند کے کل پرزے کیوں تلاش کرتے ہیں؟

ملک کے بیشتر اہم اور پالیسی ساز اداروں پر زعفرانی لوگ براجمان ہیں،اب آپ ان سے توقع کرتے ہیں کہ وہ سیاست میں ایسے افراد یا جماعتوں کی مددکریں جو ان کے نظریات کے مخالف ہیں۔دنیا میں کون اپنے مخالفوں کی طرفداری کرتا ہے؟گودی میڈیا سمیت مختلف جمہوری ادارے، کمیشنز،مختلف بورڈز،سب وہی کررہے ہیں،جس کی انھیں تعلیم و تربیت دی گئی تھی۔البتہ عدالتوں میں کبھی کبھی امید کی کوئی کرن نظر آجاتی ہے،مگر وہ بھی کب تک نظر آئے گی،پھر عدالتوں کا کام فیصلے کرنا ہے،ان کا نفاذ تو سرکاری مشینری کے ہاتھوں میں ہی ہے۔

دوسری حقیقت یہ بھی جان لیجیے کہ آر ایس ایس نے سماج کے ہر طبقہ میں اپنی انجمنیں قائم کی ہیں۔یہاں تک مسلمانوں میں بھی ان کی تنظیم ”مسلم راشٹریہ منچ“کام کرہی ہے۔حد تو یہ ہے کہ علماء کو جوڑنے کے ”جماعت علمائے ہند“ (زیر صدارت مولانا صہیب قاسمی)کی تشکیل کی گئی۔بس مدرسے کھولنے باقی ہیں۔کاغذوں میں تو کئی مدارس ایسے ملے ہیں جن کو غیر مسلم چلارہے تھے،مگریہ اس وقت کی بات ہے جب یہاں غیر بھاجپا حکومت تھی۔ کوئی بعید نہیں کہ مستقبل میں ان کی طرف سے مدارس دینیہ بھی سنچالت کیے جائیں۔یہ انجمنیں بھی ٹھیک انھیں نظریات پر قائم ہیں جن پر ان کاپورا تعلیمی نظام قائم ہے۔ہوسکتا ہے بعض انجمنوں کے بارے میں سادہ لوح افراد کو یہ بھی معلوم نہ ہو کہ وہ کسی آرایس ایس کی ذیلی تنظیم کے ممبر یا رکن ہیں۔ظاہر ہے ان سے وابستہ تمام افراد کی ہمدردیاں بی جے پی اور اس کی حلیف جماعتوں کے ساتھ ہی ہوں گی۔

تیسری حقیقت سے آشنا ہونا بھی ضروری ہے۔ وہ ہے آر ایس ایس کا طریقہ کار۔وہ کبھی عظیم الشان کانفرنسیں نہیں کرتی،اس کی طرف سے کوئی ریلی یا مہاریلی نہیں نکالی جاتی،وہ کبھی آل انڈیا مشاعرے یا کوئی سملین نہیں کرتی،ان کے یہاں وید یا رامائن کا گیان حاصل کرنے والوں کا جلسہ درستاربندی نہیں ہوتا،نہ ختم بخاری کے طرز پر ختم گیتا یا ختم ہنومان چالیسا ہوتا ہے،ان کے ذمہ داران کے ناموں کے ساتھ درجن بھر القاب نہیں ہوتے،یہاں تک کہ درجنوں اخبارات کے وہ مالک و مدیر ہیں لیکن ان کی خبریں شائع نہیں ہوتیں،ملک میں ان کی 83129شاکھائیں ہیں،بیشتر شاکھاؤں میں روزانہ پروگرام ہوتا ہے،لیکن آپ کسی اخبار یا ٹی وی چینلزپر ان کی سرگرمیاں نہیں دیکھتے،ان کے ذمہ داران میں اپنے کارکنان کے لیے محبت کا جذبہ پایا جاتا ہے۔یہ نظم اور ڈسپلن،اپنے مقصد کے تئیں یہ خلوص اور لگن،ذمہ داران اور کارکنان کے درمیان سمع و طاعت کی بے نظیر مثالیں کیا کسی دوسری تنظیم میں ہیں؟خاص طور پر کسی سیاسی تنظیم میں جو ان کو شکست دینے کا خواب دیکھ رہی ہیں،یا ان ملی و مذہبی تنظیموں میں جو ا ن سے نجات پانے کی امید لگائے بیٹھی ہیں۔یہاں تو سب نجی کمپنیاں ہیں،جہاں کام کرنے والوں کو مزدور سمجھاجاتا ہے۔مجلس سمیت کسی بھی قابل ذکرسیاسی جماعت میں (بی جے پی کو چھوڑ کر)داخلی جمہوریت اور شورائیت کا فقدان ہے۔جس کی وجہ سے مخلص کاریہ کارتاؤں کا حوصلہ ٹوٹ جاتا ہے۔
اب یہ بھی حقیقت جان لیجیے کہ بہار چناؤ میں اپوزیشن جماعتوں نے الیکشن سے کئی ماہ پہلے تک ووٹ چوری کے معاملہ پر بڑی بڑی ریلیاں کیں،خوب ہنگامہ برپاکیا،لیکن الیکشن قریب آتے ہی راہل گاندھی بہار سے غائب ہوگئے۔مہاگٹھ بندھن میں شامل پارٹیاں سیٹ شئیرنگ کو لے کر لڑتی نظر آئیں، جن کو ٹکٹ نہیں ملا،وہ باغی ہوگئے،اور دوسری طرف افکار و نظریات کے اختلاف کے باوجود اتحاد کا مظاہرہ کیا گیا۔الیکشن سے پہلے ہی آر ایس ایس کا کیڈر اوربی جے پی کے عہدیداران عوام کی ذہن سازی میں جٹ گئے،دوران الیکشن ایک ڈیڑھ ماہ تک دوسو ایم پی،کئی سو ایم ایل اے،کئی ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ میدان میں پہنچ گئے۔انھوں نے ہر گھر پر دستک دی،ہردل کو بیدار کیا،یہاں کہ جھگی جھونپڑیوں تک میں بی جے پی کے ایم پی گھومتے دیکھے گئے۔اس کے مقابلے پراپوزیشن نے کیا کیا؟

خلاصہ یہ کہ دفاتر میں کلرک سے لے کر آفیسر تک ان کے ہم درد اور بہی خواہ،جمہوری اداروں کے ذمہ داران، ان کے ہم نوا،چارملین آر ایس ایس کے ممبرس،جن میں چھ ہزار ہمہ وقتی کارکنان،کئی سوایم پی اور ایم ایل ایز،اتنی بڑی ہم فکر افرادی وقت کے ساتھ کوئی تنظیم یا سیاسی جماعت میدان میں ہو اور اس کے مقابلہ پر ”کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا۔۔بھان متی نے کنبہ جوڑا“ کی مصداق،ہر سطح پر منتشر جماعتیں ہوں تو بہار میں موجودہ نتائج کو آنے سے کیسے روکا جاسکتا تھا؟میں یہ بات بڑے وثوق سے کہتا ہوں کہ 2050 تک آپ بھارتیہ جنتا پارٹی کو مرکز اور ملک کی اہم ریاستوں میں شکست نہیں دے سکتے۔الا یہ کہ اپوزیشن ایک جسم اور ایک جان بن جائیں،اپنا موقف واضح کریں،اپنے مقاصد متعین کریں،ان مقاصد کے تحت تعلیمی ادارے قائم کریں،سماج کے ہر طبقے میں انجمن سازی کریں،ذمہ داران اپنے دلوں میں خلوص، ایثار اور توسع پیدا کریں،تنظیمی کیڈر ہر سطح پر تیار کریں،ان کی تربیت کریں اور سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائیں۔جس کے امکانات دور دور تک نظر نہیں آتے۔

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔