از:- محمد عمر فراہی
کل کے مضمون میں میں نے جاوید اختر صاحب کی اس دلیل پر کہ Nature میں انصاف نہیں ہے مختصر تبصرہ کیا ہے۔اس Nature اور قدرت کی تخلیق پر اگر تفصیل سے بحث کی جاۓ تو انسانی عقل حیران رہ جائے کہ ایک ایسی کائنات جو اپنے آپ میں مختلف تخلیقات کا مجموعہ ہے اور جسے انسانی سائنس حادثہ قرار دیتی ہے کیا یہ حادثہ اتنا منظم اور مربوط ہو سکتا ہے ؟
جبکہ حادثاتی طور پر عمل میں آنے والی یہ تخلیق خود انسانوں کو دعوت دیتی ہے کہ دیکھو یہ تخلیق یوں ہی عمل میں نہیں آئی ہے بلکہ یہ تخلیق باقاعدہ ایک نظم اور ضبط کی پابند ہے ۔اس کا کوئی نہ کوئی خالق یا نگراں ضرور ہونا چاہیے اور یہ جو بھی ہے اس کے بارے میں صدیوں سے یہ بحث جاری ہے کہ یہ تخلیق بغیر کسی Inteligent design یا divine Power عمل میں آہی نہیں سکتی ۔
اب یہ بحث الک ہے کہ یہ طاقت جس نے اس تخلیق کو عملی شکل دی وہ بذات خود کیسے عمل میں آئی ؟
یہ سوال ہر ذی شعور کے ذہن میں آنا لازمی ہے اور آتا بھی ہے لیکن اس کا جواب نہ ملنے سے اس بات پر کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہم اس کائنات کے خالق کا انکار کر دیں ۔مولانا مودودی نے اپنی کتاب قضا اور قدر میں لکھا ہے کہ قدرت نے جہاں اس کائنات کی ہر مخلوق کی اپنی حد اور اوقات مقرر کی ہے انسانوں کو بظاہر اشرف المخلوقات بنانے کے باوجود اس کے علم کی بھی ایک حد مقرر کی ہے ۔انہوں نے اپنی اس کتاب میں ایک مثال پیش کی ہے کہ ایک کمپنی یا کمپنی کا مالک ایک پروجکٹ تیار کرتا ہے اور پھر اس پروجکٹ کی تکمیل کے لئے بے شمار انجینیر مزدور اور راج گیروں کا نظم تیار کیا تاکہ وہ اپنے اس پروجکٹ کی تکمیل کا منصوبہ آگے بڑھا سکے ۔انہوں نے لکھا ہے کہ کمپنی کا مالک اس بات کا پابند نہیں کہ وہ ایک مزدور یا انجینیر یا اکاؤنٹنٹ یا اس پروجکٹ مینجمنٹ میں شامل ہر فرد کو ہر بات بتاۓ ۔پھر وہ لکھتے ہیں کہ مزدور کو انجینیر کو یا اکاؤنٹنٹ کو جتنا کام سونپا گیا ہے وہ اپنے حصے کا کام کرکے اپنا محنتانہ لے کر رخصت ہو جاتا ہیں۔ انہیں اس بات کا کوئی حق نہیں کہ کمپنی جو سڑک یا پل تعمیر کر رہی ہے یہ کہاں جاۓ گا یا اس پر صرف کاریں چلیں گی یا بسیں بھی دوڑیں گیں یا مالک کا خاندان کیا ہے ۔ہاں جو کمپنی کے ڈائیریکٹر یا مالک کے ہاتھ کے نیچے بہت قریب سے اس کے جانشین کے طور پر کام کرتا ہے اسے بہت کچھ پتہ ہوتا ہے لیکن وہ بھی کسی پر ٹوکول کے تحت ساری باتیں اپنے ماتحتوں کو نہیں بتاتا ۔اسی طرح کائینات کے مالک نے دنیا کے نظام کی پابندی کے لئے اپنے انبیاء کرام کو کتاب کے ساتھ بھیجا جسے ہم بینات اور دلیل کہتے ہیں اور پھر اس کے اچھے برے عمل کے تحت جنت و جہنم کی اطلاع دے کر اجر کی نشاندھی بھی کر دی ۔مفتی شمائل ندوی نے اسی فانی دنیا اور کائینات کو contingent کہا ہے جس کے اصل معنی عارضی کے ہوتے ہیں یا اسے اصل ٹھکانے کا عارضی متبادل کہہ سکتے ہیں جسے ایک دن فنا ہو جانا ہے ۔ایمانداری سے کہیں تو یہ بات نہ صرف خود جاوید اختر کو سمجھ میں آئی اور نہ ہی نناوے فیصد عام آدمی اور مولوی حضرات کو ہی سمجھ میں آئی لیکن مفتی شمائل ندوی صاحب نے جو کہ پوری تیاری کے ساتھ آئے تھے جاوید اختر صاحب پر انگلش کے اس الفاظ کا استعمال کر کے ایسا نفسیاتی دباؤ بنایا کہ خود جاوید اختر بھی احساس کمتری کا شکار نظر آۓ ۔جبکہ مفتی صاحب نے اگر اس contingent لفظ کی آسان لفظوں میں تشریح کر دی ہوتی تو جاوید اختر جو کہ نہ صرف خدا کے منکر ہیں جنت جہنم اور آخرت کے بھی منکر ہیں اور کائینات کو eternal یعنی کبھی نہ ختم ہونے والی شئے مانتے ہیں کبھی اس کے عارضی ٹھکانا ہونے کی دلیل نہ مانتے ۔جبکہ سچائی یہ ہے کہ جدید سائنس اور نیوٹن کے تحریکی فارمولے کے مطابق بھی کائینات ایک contingent ہی ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ جو چیز حادثاتی طور پر کسی دور میں وجود میں آ گئی وہ چاہے جیسے بھی آئی ہو اس کا کبھی نہ کبھی فنا ہونا بھی یقینی ہے ۔
خیر ہم بات کر رہے تھے کہ کائینات کے مالک نے عام انسانوں کو بھی صرف اتنا ہی علم دیا ہے جتنا اسے ضرورت ہے اور اسے صرف اس اجر سے مطلب ہونا چاہئے جتنا کہ اسے جنت اور جہنم کی شکل میں بتا دیا گیا ہے ۔اب یہ الگ بات ہے کہ کچھ سرکش اور باغی قسم کے انسان ابلیس کے نقش قدم پر چلتے ہوۓ اپنے مالک اور خالق کے خلاف باغیانہ روش اختیار کریں تو وہ خود اپنے انجام کے ذمہ دار ہیں ۔
جبکہ سچائی یہ بھی ہے کہ خود خالق کائینات نے آسمانی کتابوں کے ذریعے ابلیس کا ذکر کر کے انسانوں کو واضح ہدایت کر دی ہے کہ کسی کی گمراہی کا اصل وجہ علم نہیں بلکہ اسی کی ہٹ دھرمی اور تکبر ہے جیسا کہ ابلیس نے کیا۔ ورنہ کیا وجہ ہے کہ جس شخص سے خدا نے خود مکالمہ کیا اور جس پر حق پوری طرح واضح تھا پھر بھی اس نے اپنے لئے گمراہی کا انتخاب کیا ۔
جہاں تک حق کے واضح ہونے کے لئے علم اور دلیل کی بات ہے تو دلیل کی بھی ایک حد ہوتی ہے ۔تاریخ ،انسانی مشاہدات اور وقوع پزیر ہونے والے بہت سے ماضی کے سانحات بھی بذات خود ایک دلیل ہیں ۔قرآن میں ایک تاریخی واقعے کے حوالے سے آتا ہے کہ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ ہم نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا کیا اور ان کے اوپر گروہوں کی شکل میں پرندے بھیجے جو ان پر پتھر پھینک رہے تھے یا کچھ مقام پر یہ بات بھی آتی ہے کہ کیا تم نے زمیں کی سیر نہیں کی کہ ہم نے انکار کرنے والوں کا کیا حال کیا ۔سچ کہا جاۓ تو بہت سارے راز خدا اپنے انبیاء کرام سے بھی مخفی رکھتا ہے ۔سورہ کہف میں حضرت موسی اور اللہ کے ایک قریبی بندے کا ذکر آتا ہے جسے مفکرین خضر کا نام دیتے ہیں ۔غور کرنے کی بات ہے کہ خدا نے جس نبی حضرت موسی علیہ السلام سے براہ راست بات کی اور تاریخ میں اسے کلیم اللہ کی حیثیت حاصل ہےاسے بھی مکمل علم نہیں دیا ۔حضرت خضر جب ایک لڑکے کا قتل کر دیتے ہیں تو حضرت موسی علیہ السلام سے برداشت نہیں ہوتا بلکہ یوں کہیں کہ خدا کے اس نیک بندے نے تین بار جو حرکتیں کیں تینوں ہی برحق تھیں لیکن حضرت موسی جو غیب کی اصل صورتحال سے واقف نہیں تھے انہوں نے ہر بار اپنا اعتراض درج کیا ۔بعد میں جب خضر نے اس کا خلاصہ کیا تو وہ نادم ہوۓ ۔
خدا ایک لامحدود علم اور طاقت کا نام ہے جس کی قدرت اور وسعت کا اندازہ ایک اور واقعے سے ہم اپنی بات ختم کرتے ہیں ۔
معروف اسلامی اسکالر اور کئی کتابوں کے مصنف ڈاکٹر حمیداللہ نے اپنی سیرت کی کسی کتاب میں حضرت موسی علیہ السلام کے بارے میں لکھا ہے کہ ایک بار حضرت موسی علیہ السلام نے خدا سے گفتگو کرتے ہوۓ کہا کہ اۓ اللہ مجھے کوئی ایسی بات بتا جس کا علم دنیا میں کسی اور کو نہ ہو ۔اللہ نے کہا فلاں مقام پر جاؤ وہاں تمہیں ایک کنواں ملے گا تم وہاں پہنچ کر اس کنویں میں پتھر پھینکنا ۔جب موسی اس کنویں کے پاس پہنچے تو انہوں نے کنویں میں پتھر پھینکا تو کنویں سے آواز آتی ہے کہ کون ؟
حضرت موسی علیہ السلام نے کہا میں موسی ۔کنویں سے پھر آواز آتی ہے کہ کون موسی ؟
موسی نے کہا میں وقت کا نبی موسی کلیم اللہ ۔کنویں سے پھر آواز آتی ہے کہ میرے پاس نناوے موسی ا چکے ہیں اور مجھے اسی طرح آواز دی ہے ۔کہو کس لئے آئے ہو ۔اس کے بعد حضرت موسی وہاں ٹھہر نہیں سکے اور انہیں یہ سن کر حیرت ہوئی کہ اگر میرے بعد یہ کائینات اپنی تمام مخلوقات کے ساتھ نناوے بار تباہ ہو چکی ہے تو اس کا مطلب کائینات کی اسی طرح مسلسل نناوے بار ابلیس آدم اور فرشتوں کی جماعت کے ساتھ تخلیق بھی ہوتی رہی ہو گی ۔یہ سلسلہ پتہ نہیں کب تک چلے گا ۔یقینا خدا کی قدرت لامحدود ہے۔دنیا خدا کے نزدیک مچھر کے پر سے بھی زیادہ حقیر ہے مگر جو ناستک ہیں وہ کائینات کو ہی لا محدود تصور کئے ہوئے بیٹھے ہیں ۔ڈاکٹر حمیداللہ صاحب کی اس دلیل سے یہ بات اور بھی واضح ہو جاتی ہے کہ کائینات eternal نہیں contingent یعنی عارضی ہے اور اس کی تخلیق کئی بار ہو چکی ہے اور کئی بار اسے تباہ کیا جا چکا ہے ۔
نوٹ ؛_ڈاکٹر حمیداللہ صاحب کی اس بات کو آپ چاہیں تو رد کر سکتے ہیں کیوں کہ میں نے یہ بات ان کی کس کتاب میں پڑھی ہے فی الحال اس کا حوالہ دینا مشکل ہے ۔