عبرانی زبان جاننے والے مسلم علماء

از:- ڈاکٹر ظفردارک قاسمی

zafardarik85@gmail.com

علم و تحقیق کا میدان بہت وسیع ہے ۔ اس میں جو غوطہ لگاتا ہے وہ علم کے لعل و گوہر سے اپنی جیب بھرتا ہے ۔ تحقیق کا بنیادی تقاضا یہ ہے کہ محقق کے اندر توسع ، رواداری ، توازن اور فکری و نظریاتی اعتدال آتا ہے ۔ ظاہر ہے یہ وہ صفات اور خصوصیات ہیں جس سے ہر محقق کا تحقیقی عمل اور افکار و نظریات مشعل راہ بنتے ہیں۔ بر عکس اس کے اگر تحقیق و تفتیش جانبداری ، تعصب اور تنگ نظری کی بنیاد پر کی جائے تو یہ تحقیق اور مطالعہ سماج میں بد امنی لاتا ہے ۔ اس لیے تحقیق کو معیاری اور سماج کے تیئں مفید بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم ان روایات اور قدروں پر عمل کریں جو سماجی اور تحقیقی دونوں سطح پر مفید و معاون ثابت ہوں ۔

یہ سچ ہے کہ تحقیق کا بنیادی کردار توسع ہے اور یہ بذات خود ایک ایسا رویہ ہے جو محقق کی سوچ اور اس کے نظریہ کو ہی پختہ نہیں بنا تا ہے بلکہ یہی پختگی سماج میں بھی آتی ہے ۔ ایک متوازن محقق کا یہ بھی کردار سامنے آتا ہے کہ وہ علم و حکمت اور دانش و بینش کی باتیں یعنی حکمت کو اپنے لیے متاعِ گمشدہ سمجھتا ہے ۔ جہاں اس کو نئی بات ملتی ہے وہ اسے بلا تفریق و امتیازحاصل کرتا ہے ۔ خواہ وہ زبان و ادب کا مسئلہ ہو یا فکری و نظریاتی پہلو ہو۔ اس تناظر میں جب ہم ماضی میں اپنے اسلاف کی کار کردگی اور ان کی متنوع علمی فتوحات کو دیکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے دوسرے ادیان کی مذہبی زبانوں کو بھی سیکھا اور ان کے مذاہب کا مطالعہ بھی توسع سے کیا، نیز کوئی اچھی بات کسی قوم یا دوسرے مذاہب میں ملی تو اسے بھی حاصل کرنے میں کسی طرح کا کوئی گریز نہیں کیا ۔ علم و ادب اور تحقیق در اصل ایک ایسا عمل ہے جو فطری طور انسان کو مہذب بھی بناتا ہے اور سماجی و معاشرتی طور پر بھی رتبہ بڑھاتا ہے، ساتھ ہی ساتھ اگر محقق بے لوث اور غیر جانبدار ہے تو پھر مزید اس کی عظمت میں چار چاند لگتے ہیں ۔ مذاھب و ادیان کا مطالعہ جن علماء نے بھی برائے تحقیق اور علمی فائدہ کی غرض سے کیا ہے دوسرے الفاظ میں معروضی انداز میں کیا ہے۔ خواہ ان کا تعلق کسی بھی دین و دھرم سے رہا ہے ، ان کے علمی و تحقیقی کارناموں اور سرگرمیوں کو ہر دور میں عزت کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے۔ تحقیق، مذاھب و ادیان کے حوالے سے ہو یا پھر کسی سماجی ، سیاسی ، تاریخی اور تہذیبی موضوع پر ہو،وہی تحقیق زندہ اور حساس سمجھی جاتی ہے جو متوازن رویوں کی علمبردار ہو ۔ مسلم علماء اور مشائخ و صوفیاء نے بڑا دل دکھاتے ہوئے علم و حکمت اور تحقیق و تفتیش کے میدان میں ایسے نمایاں کارنامے انجام دییے ہیں جو ارباب علم و ادب کے لیے بہت کچھ سکھاتے ہیں۔
علماء اور ارباب ذوق کی تحقیق کا ایک پہلو یہ رہا ہے کہ انہوں نے دیگر مذاہب و ادیان کو سمجھنے کے لیے ان کی مذہبی اور دینی زبان کو سیکھا ۔ مثلا ہندو دھرم کو سمجھنے کے لیے سنسکرت زبان پر عبور حاصل کیا اور یہودیت و عیسائیت کو سمجھنے اور ان کے مذہبی لٹریچر کا براہِ راست مطالعہ کرنے کے لیے عبرانی اور سریانی زبانوں کو سیکھا ۔ اس کا ایک فائدہ تو یہ ہوا کہ اس سے اصل مذہب کی معلومات اور علم حاصل ہوگیا جو کہ بہت ضروری ہے ۔ دوسرا فائدہ یہ ہوا کہ معاشرے میں مذاہب کے نام پر غلط فہمیوں کا ازالہ بھی آسانی سے ہو گیا ۔ عبرانی زبان سیکھنے والے مسلم علماء کی ایک بڑی تعداد ہے جنہوں نے عبرانی زبان سیکھ کر مطالعہ مذاہب یا تقابل ادیان اور مکالمہ بین المذاھب کے فروغ میں بنیادی کردار ادا کیا ہے ۔ ذیل میں ان علماء اور مفکرین کی خدمات کو پیش کیا جائے گا جنہوں نے عبرانی زبان سیکھی اور مطالعہ مذاہب کے موضوع پر گراں قدر کام بھی کیا ۔

مولانا عنایت رسول چریا کوٹی

عبرانی جاننے والے ماہرین علماء میں ایک اہم نام مولانا عنایت رسول چریا کوٹی کا آتا ہے ۔ مولانا عنایت رسول چریا کوٹی نے عبرانی زبان کس سے سیکھی اس بابت درج ذیل واقعہ ملتا ہے:

” مولانا عنایت رسول چریا کوٹی جب کلکتہ میں عبرانی زبان سیکھنے کے لیے پہنچے تو جو یہودی وہاں موجود تھا اس نے عبرانی زبان سکھانے سے انکار کر دیا ۔ پھر آپ نے ایک عیسائی سے استفادہ کیا ،اس نے عذر کیا کہ میں اردو سے پوری طرح واقف نہیں ہوں ، اس لیے آپ اتنی انگریزی سیکھ لیجئے کہ میں اس کی وساطت سے آپ کو عبرانی کی تعلیم دے سکوں ۔چنانچہ آپ کے شوق نے اس منزل کو بھی طے کیا اور آپ نے تھوڑے ہی دنوں میں اتنی انگریزی سیکھ لی کہ معلم اور متعلم کے درمیان شرکت ہو سکے۔ اس سلسلے میں آپ نے یونانی زبان بھی سیکھی ۔ اسی اثنا نصرانی نے آپ کو عبرانی زبان سکھانے سے انکار کر دیا ، اس دوران آپ نے مختلف یہودیوں کے دروازے کھٹکھٹائے ،اخیر میں ایک تیار ہوا اور اس نے آپ کو عبرانی کی تعلیم دی ۔تین سال میں آپ نے عبرانی پر عبور حاصل کر لیا ۔اس بیچ آپ نے کلدانی زبان بھی سیکھی”

مولانا عنایت رسول چریا کوٹی عبرانی زبان کے بڑے عالم تھے مولانا مناظر احسن گیلانی لکھا ہے کہ عبرانی زبان میں مولانا کو دستگاہ حاصل تھی اس کا اندازہ ان کی کتاب ” بشریٰ” اور اس رسالہ سے ہوسکتا ہے جو حضرت ہاجرہ ام اسماعیل علیہ السلام کے متعلق آپ نے عبرانی حوالوں سے مرتب فرمایا تھا ۔
مولانا عنایت رسول چریا یقیناً عبرانی زبان کے ایک بڑے عالم تھے انہوں نے ” بشریٰ ” نام سے جو کتاب لکھی ہے وہ ان کی عبرانی زبان دانی کا جیتا جاگتا ثبوت ہے ۔ مولانا عنایت رسول چریا کوٹی نے عبرانی زبان سیکھ کر جو بنیادی اور اہم کارنامہ انجام دیا وہ” بشریٰ” کی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہے ۔ اس کتاب کی اہمیّت اور معنویت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ مولانا نے عیسائیت اور یہودیت کو سمجھنے کے لیے ان کی مذہبی کتابوں کی زبان سیکھی تاکہ حقائق کا انکشاف ہوسکے اور صحیح بات عوام تک پہنچ سکے ۔ مولانا عنایت رسول چریا کوٹی کے بارے میں یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ وہ عبرانی زبان کے ایک بڑے عالم تھے تو وہیں وہ دیگر مذاہب و ادیان پر گہری نظر رکھتے تھے۔

سر سید احمد خاں

سرسید کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے سر سید نے عبرانی زبان سیکھی اور پھر یہودی و عیسائی مآخذ و مراجع کا مطالعہ کیا ۔ سر سید نے غازی پور قیام کے دوران مولانا عنایت رسول چریا کوٹی سے استفادہ کیا تھا اور عبرانی زبان بھی سیکھی تھی ۔ اسی طرح حیات جاوید میں لکھا ہے کہ سر سید نے سالم نامی یہودی کو عبرانی زبان سکھانے کے لیے معاوضہ پر رکھا ۔ اس بحث کے تناظر میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ سر سید احمد خاں عبرانی زبان کو سمجھتے تھے یہی وجہ ہے کہ انہوں نے تورات کی تفسیر پر ایک جامع کتاب بھی تصنیف کی ہے جسے ہم ” تبیین الکلام فی تفسیر التوراة و الانجیل علی ملة الاسلام ” کے نام سے جانتے ہیں۔ اس کے علاوہ سر سید کی مطالعہ مذاہب اور مکالمہ بین المذاھب پر دو اور اہم کاوشیں سامنے آئیں ایک ” رسالہ احکام طعام مع اہل کتاب ” دوسرے ” تحقیق لفظ نصاریٰ ”
ان کے علاوہ جب ہم سر سید کے مقالات پڑھتے ہیں جنہیں مولانا اسماعیل پانی پتی نے جمع کیا ہے تو اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے مکالمہ بین المذاھب یا تقابل ادیان کے دیگر کئی اہم گوشوں پر بڑی علمی اور مستند گفتگو کی ہے ۔ علاوہ ازیں سر سید نے اپنی” تفسیر القرآن ” میں بھی مطالعہ مذاہب سے متعلق بیش قیمت گفتگو کی ہے ۔

مولانا حمید الدین فراہی

معروف مفسر مولانا حمید الدین فراہی گوناگوں شخصیت کے مالک اور مختلف علوم و فنون کے ماہر تھے ۔ مولانا فراہی ترجمہ و تفسیر قرآن ، عربی فارسی ادب ، انگریزی زبان ، علم کلام و فلسفہ جیسے موضوعات پر اپنی فکر کی گہری چھاپ چھوڑی ہے ۔ البتہ آپ کی شخصیت کا نمایاں پہلو قرآن کریم اور علوم قرآن سے گہرا تعلق تھا ۔ اس تناظر میں آپ نے علوم القرآن کے حوالے سے ” نظم قرآن” کے نام سے جو کام کیا ہے اور جو نطریہ پیش کیا وہ بڑی اہمیت کا حامل ہے ۔ مولانا حمید الدین فراہی کا ایک امتیاز یہ بھی ہے کہ انہوں نے عبرانی زبان سیکھی تھی اور یہ اس وقت کی بات ہے جب آپ کا قیام علی گڑھ میں تھا ۔ در اصل علی گڑھ میں مولانا فراہی کی زندگی کا دوسرا دور فروری 1907 میں ایم ۔ اے ۔او کالج کے شعبہ عربی میں اسسٹنٹ پروفیسر کی حیثیت سے شروع ہوا ۔ عربی تعلیم کے لیے حکومت ہند وقت کی ایک مخصوص گرانٹ کے تحت کالج میں عربی پوسٹ گریجویٹ تعلیم کا اہتمام کیا گیا ۔ اسی کے لیے اس شعبہ کے پروفیسر و صدر کی حیثیت سے مشہور جرمن عالم جوزف ہورویز کی تقرری عمل میں آئی اور مولانا فراہی اسسٹنٹ پروفیسر مقرر ہوئے ۔اس زمانہ میں مولانا فراہی کی دیگر مصروفیات کے علاوہ ایک اہم بات یہ ہے کہ مولانا نے پروفیسر ہورویز سے عبرانی زبان سیکھی اور خود پروفیسر موصوف مولانا سے عربی زبان و ادب کے میدان میں استفادہ کرتے رہے ۔ اس طرح مولانا حمید الدین فراہی نے عبرانی زبان سیکھ کر مطالعہ مذاہب کے فروغ میں حصہ لیا ۔ مولانا چونکہ قرآنی علوم و معارف پر گہری نظر رکھتے تھے اور اس حوالے سے انہوں نے قرآن مجید کی تفسیر بھی ” نظام القرآن” کے نام سے لکھی ہے ۔ اس تفسیر میں انہوں نے کتب سابقہ کے حوالے دیئے ہیں ۔ جو ان کا مطالعہ مذاہب پر دلچسپی کی واضح علامت ہے ۔ اسی طرح انہوں نے باضابطہ ایک اور کتاب تقابل ادیان پر لکھی ہے ” الرائ الصحیح فی من ھو الذبیح” کے نام سے ۔ مولانا کا عبرانی زبان سیکھنا اور پھر اس موضوع پر گفتگو کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ آپ دیگر مذاہب و ادیان سے واقفیت رکھتے تھے ۔
متذکرہ علماء اور مشائخ کے علاوہ اور بھی بہت سارے اکابر علماء ہیں جنہوں نے دیگر مذاہب و ادیان کی زبانوں کو سیکھا اور ان کا بڑی گہرائی سے مطالعہ کیا اور پھر جو نتائج برآمد ہوئے ہیں اس نے سماج میں امن و امان اور قومی ہم آہنگی پیدا کرنے میں بنیادی کردار ادا کیاہے۔

مطالعہ مذاہب سے یا عبرانی اور دیگر مذہبی زبانیں جن مسلم علماء نے سیکھی ہیں ان کا ایک مقصد تو یہی تھا کہ سماج میں ہم آہنگی قائم رہے اور مذہب کے معاملے میں کسی طرح کی کوئی غلط فہمی سماج میں نہ پھیل سکے ۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں جو موضوعات ماضی میں پڑھائے جاتے تھے ان میں بڑا تنوع تھا۔ اسی وجہ سے ان اداروں سے فارغ ہونے والے علماء اور محققین مختلف میدانوں میں کام کرتے تھے اور سماج کے دینی ، فکری ، علمی اور تحقیقی تقاضوں کو پورا کرتے تھے ۔ مگر آج جب ہم اپنے دینی اداروں اور تحقیقی مراکز کی سرگرمیاں دیکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ نہ ان میں تنوع ہے اور نہ ایسے اسکالر تیار ہورہے ہیں جو سماج کے بنیادی تقاضوں اور ضرورتوں یا عصری مسائل کے حل میں کوئی بنیادی کردار ادا کرسکیں ۔ المیہ یہ بھی ہے کہ ہم اپنی تمام تر کاوشوں اور محنتوں کو اپنے مسلک کی ترویج و اشاعت میں صرف کر رہے ہیں ۔ اسی حساب سے ہم نصاب تیار کرتے ہیں۔ ہر ایک ادارے والے کی پہلی اور بنیادی خواہش یہ ہوتی ہے کہ جب ہمارے ادارے سے کوئی تعلیم حاصل کرکے نکلے تو وہ صرف اور صرف انہی نظریات اور خیالات میں محدود رہے جو اسے یہاں سکھائے گئے ہیں تبھی جاکر وہ صحیح معنوں میں مسلک کی ترجمانی کرسکے گا ۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے اکابر نے جس طرح کی کاوشیں کی ہیں اور وہ متنوع علوم کے ماہر ہونے کے ساتھ ساتھ لسانی تنوع سے بھی مزین ہوتے تھے یا اس زبان کو وہ سیکھنے کی سعی کرتے تھے جو زبان اس وقت میں رائج ہوتی تھی ۔ آج بھی ہمارے اداروں کو اسی طرح کی کوشش کرنی ہوگی تاکہ سماج میں رواداری اور مشفقانہ برتاؤ کی فضاء ہموار ہوسکے ۔ سابقہ سطور میں مطالعہ مذاہب کے حوالے سے جن علماء کا تعارف کرایا گیا ہے وہ یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ یہ ہماری روایت اور تاریخ کا سنہرا دورہے۔ بدقسمتی سے آج ہم نے اپنی روشن تاریخ کو پس پشت ڈال دیا ۔ مذاہب کے معروضی مطالعہ کی روایت کو پھر سے ہمیں زندہ کرنا ہوگا تاکہ ہم تحمل و برداشت کے ساتھ رہ سکیں اور تکثیری قدروں کا بھی احترام کرسکیں یہ سب اسی وقت ممکن ہوگا جب ہم اپنے متشددانہ مزاج کو چھوڑ کر آگے بڑھیں گے ۔

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔