ظفر امام قاسمی
18/جنوری 2024ء بروز جمعرات حضرت مفتی شارب ضیاء صاحب قاسمی دامت برکاتہم العالیہ کی دعوت پرکشن گنج کے معروف گاؤں بھنکردواری کے رو بہ ترقی ادارہ ”مدرسہ دارالتعلیم و الصنعہ“ کے مسابقتی،اختتامی اور انعامی پروگرام میں بطور حکم شرکت کی سعادت میسر ہوئی،میں اپنے آپ کو کافی طالع بیدار سمجھتا ہوں کہ خداوندِ قدوس نے مجھ بےمایہ کے لئے ایک چھوٹے سے مگر تاریخی پروگرام میں حاضری کو مقدر کیا،بطورِ حکم میرا یہ پروگرام اب تک کا سب سے کامیاب اور یادگار پروگرام رہا اور کافی گل و بوٹے اپنے دامن میں سمیٹنے کا موقع فراہم ہوا،اور کیوں نہ ہو کہ اس پروگرام کی اول کڑی سے آخری کڑی تک جس شخصیت کی رفاقت حاصل رہی وہ کسی اور کی نہیں بلکہ افقِ ادب و صحافت پر زرتاب کرنیں پھیلانے والے حضرت مولانا آفتاب اظہر صاحب صدیقی آزاد نگری (چھترگاچھ) کی شخصیت تھی،آپ کی ذات چنداں محتاج تعارف نہیں،یارانِ علم و فن آپ کی شخصیت سے بخوبی واقف ہیں،آپ ” نظامِ نظامت“ اور” فنِ مضمون نگاری سیکھئے“ جیسی رہبری اور شاہکار تصنیف کے مصنف ہیں، اور اپنے ”صدائے حق“ نامی الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے قومی سطح پر آزاد صحافت کا فریضہ بحسن و خوبی انجام دیتے ہیں۔
یہ مسابقتی،اختتامی اور انعامی پروگرام مذکورہ مدرسے کی انجمن” بزم صبیح“ سے منسلک طلبہ کا تھا،یوں تو تقریبا ہر مدرسے میں سال کے اخیر میں اس عنوان کے ساتھ پروگرام منعقد ہوا کرتے ہیں،مگر جس رعنائی و خوبصورتی اور سج و دھج کے ساتھ اس پروگرام کو آراستہ کیا گیا تھا اختتامی پروگرام کے ایسے پرکیف اور دلآویز منظر کی دید سے اب تک میری آنکھیں محروم تھیں،مجھے جب دعوت ملی تو میں نے سوچا کہ بس ویسے ہی پروگرام ہوگا جیسے اور جگہوں پر ہوتا ہے،مگر جب سرزمین پر جاکر دیکھا تو وہاں کے طلبہ،اساتذہ اور منتظمین خاص کر مفتی شارب ضیاء صاحب قاسمی کے ذوقِ آراستگی کو دیکھ کر دل مسرور اور نگاہیں مسحور ہوگئیں، مدرسے کے وسیع لان میں قناتوں سے مرصع شامیانے لگائے گئے تھے،جس کے سامنے کے رخ پر ایک چھوٹا مگر خوبصورت سا اسٹیج اس کےضروری لوازمات کے ساتھ سجایا گیا تھا اور اس کے اندرونی حصے پر کرسیوں کی چادر بچھائی گئی تھیں،کڑاکے کی اس سردی میں کہ سورج اپنی آنکھ دکھانے کے لئے بھی روادار نہ تھا،شبنم کی پھواریں تسلسل کے ساتھ برس رہی تھیں مگر معصوم طلبہ ( کیونکہ مدرسے میں دو چار طلبہ کو چھوڑ کر سب ہی معصوم تھے) کے جذبۂ تنافس اور ولولۂ تسابق کا یہ عالم کہ وہ پوری مستعدی کے ساتھ ان کرسیوں پر ٹھٹھرتے جسموں اور کپکپاتے وجود کے ساتھ فروکش تھے۔
موسم کے پیشِ نظر تقریبا دن کے ساڑھے دس بجے پروگرام کا باضابطہ آغاز ہوا،سائل مولانا آفتاب اظہر صدیقی صاحب مقرر ہوئے، پروگرام چونکہ کئی فروعات پر مشتمل تھا اس لئے باری باری ہر فرع کے مساہم کو الگ الگ دعوتِ اسٹیج دی گئی،تلاوت ہو کہ نعت،ادعیۂ ماثورہ ہوں کہ چہل احادیث اور خطابت ہو کہ خطبہ ہر فرع کے مساہمین نے پوری کمربستگی و عالی حوصلگی، خاطرجمعی و نستعلیقی،ہمت و شجاعت اور انوکھے و البیلے انداز میں اپنے جوہر دکھائے اور کمالِ بہادری کے ساتھ اپنے مافی الضمیر کو ادا کیا،بعض ننھے طالب علموں نے اس پرکیف ترنم اور خوش الحانی کے ساتھ نعت خوانی کی کہ سماں بندھ گیا اور بعض معصوم اور بےشعور طلبہ نے اس شعلہ فشانی کے ساتھ تقریریں کیں کہ دل کا رواں رواں جھوم اٹھا،ان کے طرز کی نشست و برخاست میں اتنی کشش اور ملاحت ہوتی کہ جی کرتا کہ یہ سلسلہ دراز سے دراز تر ہوتا چلا جائے اور کبھی ختم ہونے کا نام نہ لے،بعضے دفعہ مجھ پر ایسی محویت طاری ہوجاتی کہ میں قلم کا رشتہ نمبرات کے خانے سے منقطع کرکے ان پر ٹکٹکی لگادیتا اور بےساختہ میرے لب ان کے نیک مستقبل کے لئے وا ہوجاتے۔
پروگرام کا یہ سلسلہ تقریبا عصر تک چلا،جس نے کوتاہ دستی سے کام نہ لیا جام بھی اسی کے ہاتھوں میں آیا،اس لئے کہ
یہ بزم مئے ہے یاں کوتاہ دستی میں ہے محرومی
جو بڑھ کر تھام لے ہاتھ میں مینا اسی کا ہے
اب انہیں انتظار تھا اپنے نوشتۂ تقدیر کا جن کی پہونچ سے وہ ابھی کافی دور تھے،انتظار کی یہ کربناک گھڑیاں ان پر کافی بار ہو رہی تھیں ان باتوں سے پرے کہ ان کی امیدیں بھی بَر بھی آئیں گی یا نہیں مگر پھر بھی وہ سراپا انتظار بنے ہوئے تھے۔
تیرے آنے کی کیا امید مگر
کیسے کہہ دوں کہ انتظار نہیں
مگر جیسا کہ میں نے سطورِ بالا میں بھی عرض رسانی کی کہ یہ پروگرام انفرادی نوعیت کا تھا،تقسیمِ انعامات کے لئے مشفق و مربی حضرت الاستاذ مولانا غلام مصطفیٰ صاحب قاسمی مہتمم مدرسہ ابراہیمیہ گیراماری چھترگاچھ اور حضرت اقدس مولانا و مفتی عیسی جامی صاحب قاسمی مہتمم مدرسہ حسینیہ اسلامپور وغیرہم کو مدعو کیا گیا تھا،حضرت الاستاذ کی صدارت میں مغرب کے بعد تقسیمِ انعامات کا باضابطہ پروگرام شروع ہوا،جس میں ادارہ کے منتخب طلبہ نے اپنی وجدآفریں تلاوت،روح پرور نعت، دلکش تقریریں،خوبصورت نظمیں اورنصیحت انگیز مکالموں کے ذریعہ پروگرام کے حسن کو دوچند کردیا،پروگرام کے شروع ہوتے ہی کہرآلود موسم کی ردا کو چیرتے ہوئے اطرافی گاؤں کے لوگوں کا ایک ٹھٹھ مارتا ہجوم وہاں اکٹھا ہوگیا،اچھی خاصی تعداد میں خواتین بھی شریکِ بزم ہوئیں:
شکریہ تیرا ترے آنے سے رونق تو بڑھی
ورنہ یہ محفل جذبات ادھوری رہتی
غرض یہ کہ ایک خصوصی پیمانے پر شروع ہونے والا یہ پروگرام عمومی صورت اختیار کرگیا اور یوں لگنے لگا جیسے کوئی جلسہ منعقد ہو رہا ہو،اسی مجمعِ عام کے سامنے اکابرین کے ہاتھوں ممتاز طلبہ کے مابین گھریلو استعمالی چیزوں پر مشتمل شاندار چیزوں کی تقسیم عمل میں آئی، علاوہ ازیں تمام مساہمین،اساتذہ اور منتظمین کو بھی انعامات سے نوازا گیا۔
بھنکردواری سرزمین کشن گنج کا ایک معروف گاؤں ہے،یہاں کی فضا کافی خوشگوار اور یہاں کا سماں کافی پُربہار ہے،پورا علاقہ شاداب نظر آتا ہے،ہرطرف کھیتیاں لہلہاتی اور ہرسمت ہریالیاں رقص کرتی نظر آتی ہیں کیونکہ یہ گاؤں دو ندیوں کے درمیان واقع ہے،جہاں اس کے عقب میں میچی ندی کی طغیانی ٹھاٹھیں مارتی ہیں تو وہیں اس کے مُقابل میں مہانندا دریا کی روانیاں موجیں لہراتی ہیں،اس گاؤں سے کشن گنج شہر کی دوری فقط پندرہ کیلو میٹر کے فاصلے پر ہے مگر کار سے جانے والوں کے لئے پندرہ کیلو میٹر کی یہ دوری اسی (80) کیلو میٹر کا پہاڑ بن جاتی ہے،بالخصوص موسمِ برسات میں آمد و رفت کے لئے وہاں کے باشندوں کو کافی صعوبتیں جھیلنی پڑتی ہیں۔
اسی دوآبہ سرزمین پر اس ادارے کی بنیاد آج سے دس سال پہلے یعنی 2013ء کو اسی عالی مغز سپوت حضرت مفتی سلمان صاحب مدظلہ کی قیادت اورمفکر ملت حضرت مولانا اسرارالحق صاحب قاسمیؒ کی زیر سرپرستی (حضرت سرپرست رحمة اللہ علیہ کے وصال کے بعد سے سرپرستی کی باگ ڈور نمونہ سلف حضرت مفتی صبیح اختر صاحب قاسمی مدظلہ شیخ الحدیث جامعہ جلالیہ ہوجائی آسام کے ہاتھوں میں ہے،اور الحمدللہ اب ادارے کو حضرت کا فیض حاصل ہے،خداکرے یہ فیض ابدالآباد تک برقرار رہے) اکابرین کے ہاتھوں اس عزم کے ساتھ رکھی گئی کہ اس دیہی علاقے میں بھی قرآن و سنت کی شمع روشن ہو،اس وقت کسے پتہ تھا کہ چند ہی سالوں میں اس ننھے سے شجر کا قد بڑھتے بڑھتے اتنا بڑا ہوجائےگا کہ اس کی شہرت صرف کشن گنج ہی نہیں بلکہ دوسرے اضلاع تلک بھی جا پہونچے گی،لیکن کہتے ہیں نا کہ جب بندہ کے اندر اخلاص اور جذبۂ صادق ہو اور پُراخلاص لگن تو پھر خدائے متعال بھی اس کی ایسی راہوں سے مدد کرتا ہے کہ ان تک بندے کے گمان کی رسائی بھی ممکن نہیں ہوتی،آج اس دریائی علاقے کے اس مدرسے میں صرف کشن گنج ہی نہیں بلکہ دربھنگہ اور مدھوبنی وغیرہ جیسے دور دراز علاقے کے طلبہ موجود ہیں جو اس بات کی غماز ہے کہ اس نومولود ادارے نے اس مختصر سی مدت میں تعلیم و تربیت کی جن ترقیاتی شاہراہوں کو جس تیزگامی کے ساتھ قطع کیا ہے وہ بہت کم ہی اداروں کے نصیب میں آتی ہیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ مدرسہ دارالتعلیم و الصنعہ اس جھیل کا ایک خوش رنگ کنول ہے،اس ریگزار کا ایک خوشنما گلزار ہے،اور اس نگری میں اس ادارے کی اہمیت ویسی ہی ہے جیسے جھیل کے کنول اور ریگزار کے گلزار کی ہوتی ہے کہ جس طرح آدمی کا دل کنول دیکھ کر اور گلزار کے دامن میں پہونچ کر خوشی سے دمک اٹھتا ہے ایسے ہی اس ادارے کی آغوش میں پہونچ کر انسان کے قلب پر خوشگوار ہواؤں کے جھونکے چلنے لگتے ہیں۔
اور اس کے لئے اس کے مہتمم جناب حضرت مفتی سلمان صاحب اور آپ کے چھوٹے بھائی حضرت مفتی شارب ضیاء صاحب قابلِ مبارکباد ہیں کہ انہوں نے مکمل جذبہ اور لگن کے ساتھ اولِ دن سے ہی اس ادارے کے خاکے میں رنگ آمیزی کی سعیٔ ممدوح کی ہے جس کا نتیجہ یہ ہے آج یہ ادارہ بتدریج ترقی کی منازل طے کرتا چلا جا رہا ہے:
صدقے اس ابرفیض کے جس کی بہار نے
پُرخار وادیوں کا خیاباں بنا دیا
اسی طرح جملہ اساتذۂ کرام(قاری شاداب صاحب،قاری فیضان صاحب،قاری سلمان صاحب قاری اسماعیل صاحب وغیرہم) کارکنان اور اہل خیر حضرات بھی قابل مبارکباد ہیں کہ ان کی مشترکہ محنت،جد وجہد اور توجہاتِ عالیہ نے ادارے کی ترقی میں ناقابل فراموش کردار ادا کیا ہے،مدارس میں اصل کردار تو اساتذہ ہی کا ہوتا ہے،اساتذہ اگر مخلص اور محنتی ہوں اور ان کے اندر جذبۂ صادق اور سچی لگن ہو تو پھر کسی بھی ادارے کو پھلنے اور پھولنے میں وقت نہیں لگتا،بحمداللہ مدرسہ دارالتعلیم و الصنعہ کو ایسے مخلص اور جفاکش اساتذہ کی خدمات حاصل ہیں،ان ہی کی محنتوں اور کد و کاوشوں کا یہ ثمرہ ہے کہ چھوٹے چھوٹے بچے اس روانی کے ساتھ اپنے مافی الضمیر کو ادا کرتے ہیں کہ اسے سن کر سماعت کبھی بور نہیں ہوتی، اللہ پاک ان تمام حضرات کو بہتر بدل عنایت کرے اور اس ادارے کا فیض تا قیامت جاری و ساری فرمائے۔
تم سلامت رہو قیامت تک
اور قیامت کبھی نہ آئے شادؔ