Slide
Slide
Slide

ایودھیا یے میں پران پرتسٹھان کی سیاسی اہمیت

 

از قلم:ڈاکٹر حسن رضا

کل 22جنوری 2024 کو ایودھیا میں "رام کی پران پرتسٹھا ” کی  نیم مذہبی و  سیاسی تقریب  پورے  سرکاری تزک واحتشام ،  اور ہندتوا عزایم و حوصلے کے ساتھ  منایی گئی  ۔ رام کی پران پرتسٹھان کا سادہ مطلب یہ ہے  کہ ہندو مذہب میں اوتار واد کا جو  عقیدہ ہے  اس  کے تحت   اودھ کے  راجا دشرتھ جی کے  چار بیٹوں میں سے  ایک بیٹا رام چندر جی کو جو  بڑے پاکباز ،صادق ، ایثار پیشہ ،دلیر  اور بہادر  تھے ان کو وشنو کے ساتویں اوتار کے طور پر بھگوان کے اسم صفت  رام سے متصف کرکے  تقدس عطا کرنے کی ایک ہندوانہ رسم   ۔ اس طرح کسی مورتی میں ہندو  مذہبی رسومات کے ذریعے تقدس کی روح پھونکنا  پران پرتسٹھان کہلاتا ہے ۔

اسی پہلو سے کل کی تقریب کا سب سے افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ ایو دھیا کا یہ پروگرام  ہندو مذہب کے چاروں  روحانی و مذہبی پیشوا یعنی شکریہ آچاریہ کی مخالفت کی وجہ سے  دھارمک نہیں رہا بلکہ  اس کا تقدس ہمیشہ کے لئے سوالیہ نشان بنا رہے گا جس طرح  اس کے مقام کے بارے میں سپریم کورٹ نے فیصلے میں حقیقت واقعہ کا ذکر کرکے    اس کو تشنہ چھوڑ دیا ہے  جس کی نزاکت کو محسوس کرتے ہویے مودی جی نے کل اس موقع پر بھی سپریم کورٹ کاشکریہ اداکیا تاکہ مسجد کی جگہ پر مندر کی تعمیر کا گناہ سپریم کورٹ کے سر جایے اور کویی یہ نہ کہ سکے کہ مندر کی تعمیر کی تاریخ میں ایک حادثہ تخریب  مسجد بھی شا مل ہے ۔

بہرحال  سپریم کورٹ کے فیصلے کی عبارتیں اور موجودہ شنکر اچاریہ کے بائکاٹ کی وجہ سے پرتسٹھان کا  یہ عمل ایک  سیاسی پارٹی بھارتی جنتا پارٹی کی الکشنی حکمت عملی اور ہندتوا کے نظریات کی بالا دستی کے منصوبے  کا فقط ایک جزو   بن کر رہ گیا ہے ۔

بلکہ صحیح بات یہی ہے کہ اب تک رام مندر کی تحریک پر ہندو دھرم  کا جو ایک مجازی اور مصنوعی رنگ چڑھا ہوا تھا وہ بالکل واضح ہوگیا اور یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوگئی کہ اس تحریک میں ہندتوا پالیٹکس نے ہندو مذہب کے اوتار واد اور اس کی مذہبی شخصیت رام سے جو عام ہندو کو مذہبی  روحانی تعلق ہے اس کا  استحصال کیا تھا 

نادان تھے وہ سناتن مذہب کے ماننے والے ہندو بھائی جو ہندو دھرم کے نام پر  حصول اقتدار کی نفرت و  تشدد کی سیاست اور  رام راجیہ کی  روحانی واخلاقی سیاست میں فرق نہیں کرتے رہے ۔ ۔آج رام ہوتے تو اپنی پوری فوج کے ساتھ ایسے تمام لوگوں سے جنگ کرتے جو راج پاٹ اقتدار وحکومت میں ایسے اندھے ہوگئے ہیں کہ راج رھرم کی کوئی پرواہ نہیں کرتے بلکہ  اہنکار کی سیاست کرتے ہیں ۔ 

اصل میں اس ملک میں گاندھی جی رام کے سچے بھگت تھے وہ سیاست کو اخلاقی و روحانی اقدار کا پابند رکھنا چاہتے "۔سو راجیہ” کا نعرہ اپنے آپ میں تکریم بنی آدم کے شعور پر کھڑا ہے ۔ وہ رام راجیہ یعنی  خدائی حکومت کے طرفداربھی  تھے تاکہ کوئی کسی کا غلام نہ ہو اور  سارے ہندوستانیوں کو حقیقی آزادی نصیب ہو ۔ گاندھی جی کی سیاست کا مول منتر  امن  ،اہنسا  اور مذہبی رواداری تھا ، سچے ہندو ستانی کی  سیاست کی یہی اصل  بنیاد  ہونی چاہئے خیر ،جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ ہر ازم اور نظریات کا ایک مزاج ہوتا ہے ہندتوا اپنے آپ میں ایک سیاسی نظریہ ہے جو کلچرل نیشنلزم کی اندھی عقیدت پر کھڑا ہے اس ازم میں مذہب اس نیشن کے کلچر کا ایک جزو ہونے کی وجہ سے اہمیت رکھتا  ہے ۔اس عقیدے کے وابستگان کسی مذہب کی روحانی اور اخلاقی قدروں پر ایمان نہیں رکھتے   ہیں ۔بلکہ حصول  اقتدار میں جس حد تک  مذہبی روایات معاون ہوتی ہیں  اسی حد تک ان  کی اہمیت محسوس کرتے ہیں ۔اس لئے ان  کی آخری لڑایی خود اپنے ہم مذہب سے ہوتی ہے ۔کل کے واقعے نے بتادیا کہ اب موجودہ حکمران طبقے کی  ایک اہم لڑایی سچے سناتن مذہب کے اصل ماننے والوں سے ہونیوالی ہے 

کل اجودھیااور اس کے حوالے سے پورے ہندوستان میں جو پروگرام بی جے پی اور اس کے حواریوں کے  تعاون  سے انجام پایا ۔اس کی حکمت عملی ،منصوبہ بندی ، ڈسپلن ، اجتماعیت سیاسی چالاکی سرشاری  لگن ،وفاداری اور ہند و راشٹر کے لئے سمرپن کی بڑی اچھی مثال ہے ۔اور یہ پہلو قابل غور ہے کہ آنیوالے پارلیمانی الیکشن کے مد نظر پورے ملک میں اپنے کارکنوں کو منظم طور پر متحرک کرنے ، شمال وجنوب دونوں کو جوڑنے ،حکومتی اداروں اور اقتدار کو اس میں شریک کرنے کی زبردست منصوبہ بندی تھی ۔ جو کامیاب رہی ۔میں اس وقت بنگلور میں ہوں اور جس مقام پر ہوں   وہاں اپارٹمنٹ کا سلسلہ ہے  ان اپارٹمنٹس میں چھوٹے چھوٹے مندروں میں رات شاندار پروگرام اور بھوج ہویے نشستیں ہویی مشورے اور تبادلۂ خیال ہویے جوش اور فاتحانہ انداز سے پٹاخے پھوڑے گئے دھرم کی باتیں ہویی ۔یہاں کے بعض  میڈیکل کالجز میں بھی پروگرام ہویے کرناٹک میں کانگریس کی حکومت ہے ۔ کانگریس پارٹی نے کیا کیا مجھے نہیں معلوم ہے لیکن سیاسی پارٹیوں میں  ایک جھجھک تو ہے کہ عوام کیا کہے گی کہ رام اور مندر کے پروگرام کی مخالفت  یہ لوگ  کرتے ہیں  ۔اور اسی سے بی جے پی  کو آسانی سے اسپیس مل جاتا ہے ۔تمام سیاسی پارٹیوں میں اس طرح کے بظاہر مذہبی اور بباطن سیاسی پروگراموں میں ایک جھجھک ہے کہ وہ اس پروگرام کو مذہبی کے بجایے علی اعلان سیاسی اور الکشنی کہ کر مخالفت نہیں کرتے  ہیں ۔صحیح بات  یہ ہے کہ پیغمبر ہی "مسجد  ضرار” کو ڈھا سکتا ہے شر جب خیر کے بھیس میں ہو اور ادھرمی جب دھرم کا لبادہ اوڑھ لے تو اس سے لڑنا آسان نہیں ہوتا  ہے ۔ولی پیغمبر اور سچا انسان جو خدا کے نور سے دیکھتا ہے وہی اس لڑایی میں جیت سکتا ہے ۔

ہماری سیاسی پارٹیاں ووٹ بینک کی سیاست میں حق گویی سے گریز کرتی رہی ہیں ۔ یہی موجودہ سیاسی پارٹیوں کا المیہ ہے ۔ پران  پرتسٹھان پر آپ غور کریں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ہندو مذہب کے شنکر اچاریہ ہی پس پشت نہیں ہوگئے آر ایس ایس کے سرچالک کی حیثیت بھی وہ نہیں رہی جو پہلے تھی اور بی جے پی پارٹی میں مودی کی حیثیت ہی اصلا سب سے بلند اور اونچی ہے اس پرتسٹھان کے ذریعہ رام مورتی کے اندر صرف تقدس کی روح نہیں پھونکی گیی  بلکہ بہت جلد دیکھئے گا کہ مودی جی کی عظمت اور تقدس کے قصیدے بھی شروع ہوجائیں گے یہی آخری منزل ہوتی ہے کسی انتہا پسند  تحریک یا فاشزم کی ۔اس میں   ایک لیڈر  حق وباطل صحیح وغلط کا معیار بن جاتا ہے ۔اور اس کو فاتح رکھنا قوم ملک مذہب سب کے وقار کا مسئلہ بن جاتا ہے یہاں تک کہ  وہ تنقید سے بالاتر ہوجاتا ہے ۔اس نعرے کی رومانیت پر غور کیجئے جب کہا جایے گا کہ مودی جی نے دس گیارہ دنوں تک روزہ رکھا تمام اہم مذہبی مقامات جنوب وشمال میں سجدہ ریز ہویے ایک تپسیا اور مذہبی ریاضت سے گزرکر انہون نے ایک بڑی روحانیت کا مقام حاصل کرلیا ہے اور بھگوان نے ان کے دست مبارک سے رام کی پران پرستسٹھان کروایی ہی ۔ آئیے ہم سب ملکر رام کے سچے بھگت کو ووٹ دے کر رام کے کرپا  پاتر بنیں ۔

کل رام مندر کے اندرونی احاطے  میں کوئ لیڈر نہیں تھا بس رام کی مورتی اور نریندر جی کی شخصیت تھی اس کے بعد   سر چالک، چیف منسٹر گورنر اور ایک شخص تھے گویا  کل پانچ افراد تھے ۔ایک تقریب کو سیاسی مقاصد کے لئے ملک گیر وسعت دے دینا اور اس سے آیندہ الکشن کی راہ ہموار کرنے کے تمام سامان کو جمع کرکے استعمال کرلینا آسان کام نہیں ہے ۔یہ کام بی جے پی نے کر دکھایا ۔آنیوالا پارلیمانی الیکشن میں اس تقریب کا خاص رول ہوگا پورے ہندوستان کا ایک سروے بھی ہوجائے گا کہاں اس تقریب کا کتنا تعاون رہا کہاں سر دمہری رہی  سب کا اندازہ ہوجایے گا ۔شاید اس کے نتیجے میں بیشتر مندر اب ہندتوا کے ذیلی آفس کی طرح کام کرسکتے ہیں ۔آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔

(جاری)

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: