میری سنو جو گوشِ نصیحت نیوش ہے
✍️: شکیل منصور القاسمی
مركز البحوث الإسلامية العالمي
خود رو گھاس وحشائش کی تطہیر سے ہی باغ کا حسن دوبالا ہوتا ہے ، اس میں پھل اور پھول لگتے ہیں ، بلا کی کشش وخوش نمائی پیدا ہوتی ہے ، اگر بے ہنگم اور غیر ضروری حشائش کی تطہیر نہ کی جائے تو باغ کی ساری بہار ، آب وتاب اور حسن ونکھار بھسم ہوجائے ، انسانی ذہن ودماغ بھی لہلہاتے باغ کے مانند ہیں ،ان میں مثبت ومنفی ہر طرح کے خیالات وتصورات جنم لیتے ہیں ، عاقل کو ضروری ہے کہ تخریبی ومنفی خیالات کو کھرچ کھرچ کے صاف کرتا رہے ؛ تاکہ اس کا ذہن تعمیر واصلاح کے “گل جاں فزا” کھلائے ، تخریب واِفساد کے “کانٹے” نہیں ۔ جب انسان پہ منفی سوچ کا پوری طرح” تسلط” ہوجاتا ہے تو یہ اس کی روح کو دریدہ کردینے ، اس کے ذہن کو مخلتف الجھنوں اور بے چینیوں کا شکار کرنے کے ساتھ اس کا دماغی توازن بھی بری طرح متاثر کردیتا ہے ؛ پھر اس کے اعصاب پہ تخریبی رجحانات ، طنز وتوہین ، تحقیر وتنقیص ، ذہنی انتشار ، افسردگی ومایوسی ، بیزاری ، اداسی ، حوصلہ شکنی ، بغض ، تعصب ، کینہ ، حقد وحسد ، عدم اطمینان وعدم استحکام کا قبضہ ہوجاتا ہے اور ایسا شخص ہمہ وقت ذہنی تنائو اور ڈپریشن کا شکار رہتا ہے ۔
منفی ذہنیت انسان کی تعمیری صلاحیتوں کے شیش محل کو مسمار وزمین بوس کر تخریبی فکر وعمل کو ارتقاء بخشتی ہے ، انسان کی زندگی کا ہر زاویہ اس کی سوچ وفکر ہی سے جنم لیتا ہے ، پھر اسی سوچ سے انسانی جذبات کی پرداخت ہوتی ہے اور انہی کی بنیاد پر انسان کا عمل شروع ہوتا ہے، جیسی سوچ ہوگی ویسا عمل ہوگا ۔
لہٰذا انسان کو ، بالخصوص اہل علم ودانش کو ہمیشہ مثبت سوچ ، مثبت رویے، تعمیری رجحانات رکھنے چاہیئں،اپنی توانائیاں ہمیشہ تعمیری امور میں صرف کرنے چاہئیں ۔
آج کے پُر آشوب ، ناگفتہ بہ اور ہنگامی حالات میں ، جبکہ ملت اسلامیہ کے دشمن اس کے دروازے پہ دستک دے رہے ہوں ، مساجد ومعابد بت خانوں میں تبدیل کئے جارہے ہوں ، ملی قیادت کے حوالے سے شکوک وشبہات اور بے اعتمادی کی فضاء ہموار کرنا ، عوامی غم وغصہ کو ابھارنا ، ملت میں غلط فہمیوں ، بدگمانیوں اور نت نئی الجھنوں کو پیدا کرنا یقیناً دشمن کے ہاتھ مضبوط کرنا ہوگا ، جو شریعت تو شریعت ؛ علم ودانش کے اعتبار سے بھی ٹھیک اور معقول نہیں ہے ، ملی قائد کوئی مافوق البشر ہستی نہیں ہوتا ، بشری خامیاں اس کے ساتھ بھی لگی ہوئی ہیں ؛ لیکن کسی فرد، جماعت ، قیادت یا شخصیت سے ناپسندیدگی یا محض اختلافِ رائے کے باعث صرف اپنی شخصی بالادستی اور ابلتے جذبات کی تسکین کے لئے اس کی مخالفت، اس کے خلاف اہانت آمیز ریمارکس ، رکیک تبصرے ، درشت گوئی اور سخت وسنگلاخ الفاظ کے استعمال پہ سارا زور صرف کرنا انتہائی مذموم عمل ہے ، ایسے حالات میں ملت کا ہر فرد اپنے دائرۂِ عمل میں رہتے ہوئے “ خدمت گزارِ قوم “ کے تصور اور دوسروں کے لئے خیر سگالی کے جذبات کے ساتھ دست تعاون بڑھاکر کام میں جٹا رہے تو قوم وملت کے لئے بہتر اور مفید کام انجام پاسکتے ہیں ۔
یہ وقت آپسی “شیرازہ بندی” اور ملت کے مختلف اجزاء میں ، خلوص نیت ، پاک طینت ، حکمت وبصیرت اور پیار ومحبت کے ساتھ ربط وتعاون بڑھانے کا ہے ، ایک دوسرے سے الگ اور متصادم ہونے سے ملت کا بہت بڑا نقصان ہوگا ۔ادارے اور افراد وشخصیات کی افادیت وخدمات کے اعتراف (اختلاف رائے کے باوجود )کے ساتھ ان کے مفید کاموں کو قدر کی نگاہوں سے دیکھنے اور باہمی اختلاف ، ضد ، اور نفسانیت سے ازبس گریز کی ضرورت ہے ؛ تاکہ “گھر کے چراغ سے گھر کو آگ لگنے “ کی کوئی تکلیف دہ صورت سامنے نہ آسکے !
حضور آقا علیہ الصلوۃ والسلام کا ارشاد مبارک ہے :
لا تَكونوا إمَّعةً ، تَقولونَ: إن أحسنَ النَّاسُ أحسنَّا ، وإن ظلَموا ظلَمنا ، ولَكِن وطِّنوا أنفُسَكُم ، إن أحسنَ النَّاسُ أن تُحسِنوا ، وإن أساءوا فلا تظلِموا(سنن الترمذي 2007)
حضرت حذیفہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:’’تم لوگ امّعہ نہ بنو کہ یہ کہنے لگو کہ لوگ اچھا سلوک کریں گے تو ہم بھی اچھا سلوک کریں گے اور لوگ براکریں گے تو ہم بھی ان کے ساتھ برا سلوک کریں گے، بلکہ اپنے آپ کو اس کا خوگر بناؤ کہ لوگ اچھا سلوک کریں، تب بھی تم اچھا سلوک کرو اور لوگ براسلوک کریں تو تم ان کے ساتھ ظلم نہ کرو۔