۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام
۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام

۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس، اور تعطیلِ عام از ـ محمود احمد خاں دریابادی _________________ ہندوستان جمہوری ملک ہے، یہاں مختلف مذاہب کے لوگ بستے ہیں، ہر مذہب کے بڑے تہواروں اور مذہب کے سربراہوں کے یوم پیدائش پر مرکز اور ریاستوں میں عمومی تعطیل ہوتی ہے ـ ۱۲ ربیع الاول کو چونکہ پیغمبر […]

علم اور اہل علم کی قدر

🖋️محمد فرمان الہدیٰ فرمان

علم اللہ تعالی کی وہ عظیم نعمت ہے جس کی فضیلت اور اہمیت ہر دور میں تسلیم کی گئی ہے ۔ یہ ان انعامات میں سے ہے جن کی بناء پر انسان دیگر مخلوقات سے افضل ہے۔ علم ہی ہے جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو عطا فرما کر اس کے ذریعے فرشتوں پر ان کی برتری ثابت فرمائی۔


دینِ اسلام میں حصولِ علم کی بہت تاکید کی گئی ہے اور علم و اہلِ علم کی متعدد فضیلتیں وارد ہوئی ہیں اور مسلمانوں کو علم کے حصول پر ابھارا گیا ہے۔ اور جس طرح علم کی اہمیت و فضیلت مسلّمہ ہے، اُسی طرح اِس نعمتِ عظیم کے حامل افراد کی فضیلت سے بھی انکار ممکن نہیں۔ رسول اللہ ﷺ کی اس امت میں تو بالخصوص اہلِ علم بہت اعلی مقام کے حامل ہیں حتیٰ کہ انہیں انبیائے کرام کا وارث قرار دیا گیا ہے جیسا کہ فرمانِ نبوی ہے "العلماء ورثة الانبیاء” ۔ اور علم کو فرض قرار دیتے ہوئے نبی کریم ﷺ نے فرمایا”طلب العلم فریضة علی کل مسلم و مسلمہ” یعنی دین کا اتنا علم جس سے حلال و حرام کی پہچان ہوجائے، اسکا حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔


عصرِ حاضر میں ہم مسلمانوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم عصری تعلیم میں اتنا مصروف ہو چکے ہیں کہ دینی تعلیم میں وقت لگانے کو وقت کی بربادی سمجھنے لگے ہیں، اور اسمیں کہیں نا کہیں والدین کا بھی قصور ہے کیونکہ گھر ہی پہلا ادارہ ہوتا ہے ، جب بچہ گھر میں دینی علم اور علماء سے نفرت، عصری علم کیلئے جہد وجہد دیکھے گا تو یہی سیکھے گا اور جب انکی تربیت دینی نا ہو تو یقیناً یہ نیک اولاد نہیں بنیں گے۔ پھر یہی بچے اپنے والدین کو بیت المعمرین (Old age home) میں چھوڑتے ہیں تو والدین کو تکلیف ہوتی ہے کہ ہمارے بچے اتنے برے کیسے ہوگئے ؟ حالانکہ وہ یہ نہیں دیکھتے کہ یہ سب انکی دنیاوی تربیت کا خمیازہ ہے جو وہ بھگت رہے ہیں ۔


عصری تعلیم کی محبت اور دینی تعلیم سے دوری کے سبب ہی آج ہم دنیا میں آگے تو ہیں لیکن ہمارے پاس علم اور علماء کی قدر و عزت نہیں، آج ہم مسلمانوں کی صورتحال یہ ہے کہ ہم اہلِ علم حضرات بالخصوص ائمہ مساجد اور علماء کو بالکل حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، ہم منتظر ہوتے ہیں کہ ان سے کچھ غلطی ہو اور ہمیں ان پر طنز کرنے کا موقعہ ملے۔ اہلِ علم نیک ہوتے ہیں لیکن وہ بھی بشر ہوتے ہیں نا کہ کوئی فرشتے اور غلطی کرنا ہر بشر کی فطرت ہے۔ اللہ نے جہاں بھی اپنے نیک بندوں کا ذکر کیا وہاں کہا میرے نیک بندوں سے گناہ بھی ہوتے ہیں لیکن وہ فوراً توبہ کرلیتے ہیں۔ آج ہمارے دلوں سے علماء کی محبت بالکل ختم ہو چکی ہے، اگر دینی علم کے حصول کی بات کی جائے تو کچھ ایسی باتیں ہمارے گوش گزار ہوتی ہیں کہ گھر میں کوئی حافظ بنا لینگے، گھر میں اتنے سارے حفاظِ کرام موجود ہیں کسی کی بھی سفارش سے بخشش ہوجائے گی۔ ہمیں تو یہ جذبہ ہونا چاہیے تھا کہ ہم امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دے کر خود اس قابل بنیں کہ ہم امت کی سفارش کرسکیں ۔ اور جن کی سفارش کے بھروسے ہم بیٹھے ہیں ہم ان کی قدر کرنا بھی نہیں جانتے۔ اور اس غلط فہمی میں ہیں کہ کسی کی بھی سفارش سے ہماری بخشش ہو جائے گی۔ ذرا غور کریں کہ ہماری قبر کی اتنی لمبی زندگی میں ہماری سفارش کون کریگا ؟
یہاں صرف ہمارا دینی علم کام آئے گا اور وہ دینی علم جس پر ہم عمل پیرا ہوئے، دینی علوم کا حصول ہم پر فرض ہے اور فرض میں کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ ہم سب اس سے واقف ہیں کہ ہمارے معاشرے میں دینی تعلیم کو کس حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، جبکہ دینی علم کی فضیلت بھی ہم پر عیاں ہے، میرے کہنے کا مقصد یہ نہیں کہ عصری تعلیم سے کنارہ کشی اختیار کی جائے بلکہ میرا مقصد ہے کہ عصری اور دینی دونوں تعلیم کو حاصل کیا جائے کیونکہ دونوں کی اہمیت ہے، اس دار فانی میں رہنے کیلئے عصری تعلیم ضروری ہے جبکہ عالم برزخ اور آخرت کے لئے دینی تعلیم کا حصول لازم ہے، لیکن آج ہم مسلمان دینی تعلیم سے اس قدر دور ہیں کہ ہمیں حلال وحرام اور فرائض و واجبات کا علم تک نہیں۔ اگر ہم دینی علم نہیں حاصل کررہے تو ہمیں کم از کم اہلِ علم یعنی علماء کی قدر کرنی چاہیے کیونکہ یہ وہ وسیلہ ہے جو ہمیں اللہ کے ہاں محبوب اور مبغوض بنانے کی طاقت رکھتا ہے، اگر ہم علماء سے محبت کریں تو کوئی بعید نہیں کہ اللہ بھی ہم سے محبت کرے اور ہماری آخرت سنور جائے لیکن اگر ہم علماء سے نفرت کریں گے تو ہم ملعون ہوجائینگے، آج کل اکثریت علماء سے اسی لئے نفرت کرتی ہے کیونکہ وہ دینی علوم کے حامل ہیں، لیکن ہمیں سوچنا چاہیے کہ یہی لوگ ہیں جن کی وجہ سے قیامت رکی ہوئی ہے، جیسا کہ حدیث میں وارد ہوا ہے "لا تقوم الساعة حتى يقال الله الله” یعنی قیامت اس وقت تک نہیں آئی گی جب تک روئے زمین پر کوئی اللہ اللہ کہنے والا ہو ، اور حدیث قدسی میں ہے "من عادى لى وليا فقد آذنته بالحرب” یعنی جو شخص میرے کسی ولی سے دشمنی رکھے گا اسے میری طرف سے اعلان جنگ ہے ۔


ان احادیث سے عیاں ہے کہ کس طرح ہم علماء کی قدر کے ذریعے اللہ کے محبوب بن سکتے ہیں، اور کس طرح آج ہم علماء سے نفرت کرکے اللہ سے جنگ مول لے رہے ہیں۔ اور نبی کریم ﷺ نے تو یہ تک فرما دیا کہ جو ہمارے علماء کی قدر نا کرے وہ ہم میں سے نہیں، اس سے بڑی اور کیا وعید ہو سکتی ہے کہ ہم مسلمانوں اور دین اسلام کی صف سے نکال دیے جائیں، آج اللہ کو حاضر و ناظر رکھتے ہوئے یہ عہد کرلیں کہ ہم اللہ اور رسول کے متعین کردہ مقام و مرتبہ کو علمائے کرام کے سر کا تاج بنائیں گے اور اللہ اور رسول سے محبت و الفت کے ساتھ عمومی طور پر تمام مسلمانوں سے اور خصوصی طور پر علمائے کرام سے محبت و الفت رکھیں گے ان شاءاللہ عزوجل

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: