Slide
Slide
Slide

یہ وقت مسلکی اختلاف کو ختم کرنے کا ہے !

محمد قمرالزماں ندوی

استاد / مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ

_____________


متحد ہو تو بدل ڈالو نظام عالم
منتشر ہو تو مرو شور مچاتے کیوں ہو

اس وقت پوری امت مسلمہ اور خاص طور پر امت مسلمہ ہندیہ عجیب کشمکش سے دو چار دو راہے پر کھڑی ہے، ہم جیسے کم علم اور کم فہم لوگ تو مضطرب و پریشان ہیں ہی، لیکن ہم لوگوں سے زیادہ بیچارے سیدھے سادھے عوام جو بالکل سادہ لوح ہیں اور جو علماء کرام اور اہل علم و دانش کو اپنا مقتدیٰ اور مرجع تسلیم کرتے ہیں وہ سارے کے سارے بھی عجیب کشمکش میں مبتلا ہیں۔


علماء کرام رہبران قوم اور حضرات مقتدیٰ جس کو اللہ تعالی نے عقل و خرد ، فہم و بصیرت، علم و فراست اور صلاحیت و لیاقت کی بے پناہ نعمت اور دولت سے نوازا ہے ،ان سے امت کو یہ امید ہے کہ وہ ایسی مشکل اور نازک گھڑی میں ترجیحات کو طے کریں گے، اور اس کی روشنی میں امت کی رہنمائی کریں گے، ان کی تشنگی کو دور کریں گے اور امت مسلمہ ہندیہ کے موجودہ مرض کی تشخیص کرکے وہی ڈوز اور دوا دیں گے ،جس ڈوز اور دوا کی ان کو ابھی سخت ضرورت ہے ۔ لیکن افسوس کہ امت کا مرض کچھ اور ہے بیماری کی تشخیص کچھ اور ہے لیکن دوائی کچھ اور چلائی جا رہی ہے ۔


ہندوستان کی باطل طاقتیں اور فاشسٹ تنظیمیں خوش ہیں کہ بیچارے مسلمان کتنے بے شعور نادان اور بیوقوف ہیں کہ وہ اپنے دشمن کو خاموش اور بے حیثیت کرنے کے بجائے اور اپنے مذہبی سیاسی اور قانونی حقوق کو حاصل کرنے کے بجائے خود آپس میں ایک دوسرے سے دست و گریباں اور باہم الجھے ہوئے ہیں، آپس میں ہی ایک دوسرے سے برسر پیکار ہیں،ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں مست ہیں اور آپس ہی میں منتشر و دست و گریباں ہوکر ایک دوسرے کو کافر اور بد دین قرار دے رہے ہیں۔


ہمارے لئے یہ کہیں رکاوٹ نہیں بن رہے ہیں اور آرام سے ہمیں دو ہزار چوبیس میں پوری تیاری کا موقع دے رہیں ہیں ۔


اس نازک وقت میں مجھ سے اگر یہ سوال کیا جائے کہ امت کے کس طبقہ کی اصلاح اور علاج وقت کی اولین ضرورت ہے؟ تو چھوٹا منھ بڑی بات ہوگی، لیکن کہنا پڑے گا کہ اس وقت خواص امت کی خود اصلاح کی زیادہ ضرورت ہے،وہ خود دوا کے زیادہ محتاج ہیں کیونکہ ڈاکٹر اور طبیب جب خود بیمار ہوں گے تو وہ بھلا مریض کی کیا دوا و معالجہ کریں گے، وہ تو اس بیمار امت کو بدحواسی اور الجھن میں ایکسپائری دوائیاں کھلانے لگیں گے ،بلکہ کھلا رہے ہیں ۔ مرض کچھ ہے اور علاج کچھ کر رہے ہیں۔


ہم مسلمان کس قدر آپس میں منتشر ہیں اور مسلکی و مذہبی اختلافات نے کس قدر خلیج اور دوریاں پیدا کردی ہیں یہ کسی سے مخفی نہیں۔ دیوبندی اور بریلوی مسلک کی بنیاد پر کہیں شیعہ و سنی اور شوراء اور مرکز تقسیم کی بنیاد پر مسلمان ایک دوسرے کے دشمن بنے ہیں، ایک دوسرے کے لئے مساجد کو بند کر رہے ہیں بلکہ نوبت تو یہ ہے کہ آپس میں لاٹھی دنڈے چلا رہے ہیں اور ایک دوسرے کے خلاف جو زبان استعمال کر رہے وہ انتہائی سطحی اور بازاری ہے ،آپ جلسوں میں ان کی تقریروں اور نظموں میں ان کا لہجہ انداز اور اسلوب کو سنئیے کہ وہ کس طرح منفی اور زہر آلود ہوتا ہے ۔ اب تو بعض شاعر یہاں تک کہنے لگے ہیں ۔میں ہندو تو ہوں پر وہابی نہیں ہوں


دوستو !
اگر ہم عزت و احترام اور سربلندی چاہتے ہیں اور اپنی حیثیت اور وقار اس ملک میں باقی رکھنا چاہتے ہیں، تو ہمیں آپس میں متحد ہونا پڑے گا ،مسلکی اور مذہبی اختلاف کو ختم کرنا پڑے گا، اپنا ذہن و دماغ وسیع کرنا پڑے گا اور یہ جو خلیج ہے اس کو پاٹنا پڑے گا، ورنہ ہمارا حشر اور انجام مزید خراب ہوگا ، ایک شاعر نے بڑی صحیح اور درست بات کہی ہے کہ
متحد ہو تو بدل ڈالو نظام عالم
منتشر ہو تو مرو ،شور مچاتے کیوں ہو


دوستو !
آپ سب کو یہ معلوم ہے کہ اختلافات کی بنیاد ہمیشہ یاد تو غلط فہمی یا اپنی ذات کے سلسلہ میں تنگ نظری پر ہوتی ہے اسی لئے اختلافات کو ختم کرنے کا طریقہ ایک داعی دین اور خادم اسلام کے نزدیک ہمیشہ یہی رہا ہے کہ لوگوں کے سلسلے میں فراخدلی کی اور دوسروں کی غلطیوں اور لغزشوں سے چشم پوشی کرنے کی امتیازی صفت پیدا ہو،بہت پرانا قول ہے اپنے بھائی کے لئے ستر عذر تلاش کرو اگر کوئی عذر نہ ملے تو کہو کہ ہوسکتا ہے کہ اس کے پاس کوئی عذر ہو جو مجھے معلوم نہیں ہے۔ داعی دین اور خادم قوم و ملت کے عظیم مقصد اور ہدف پر نظر ڈالتے ہوئے ضروری ہے کہ وہ اپنے اندر چھوٹی چھوٹی غلطیوں سے چشم پوشی کی صفت پیدا کرے ۔ جو ایک قافلے کے مسافروں سے سرزد ہوتی رہتی ہے ۔ اللہ تعالٰی اپنے نبی ص کو مخاطب کرکے فرماتا ہے : و دع اذاھم و توکل علی اللہ و کفی باللہ وکیلا ۔ اور کوئی پروا نہیں کرو ان کی اذیت رسائی کی اور بھروسہ کرو اللہ پر اور اللہ ہی اس کے لئے کافی ہے کہ آدمی اپنے معاملات اس کے سپرد کرے” ۔


"کوئی عقلمند آدمی کسی بڑی اور نفع بخش چیز کو اس لئے ختم نہیں کر دیتا ہے کہ اس میں کچھ خرابی آگئی ہے، بلکہ سب سے پہلے وہ ان خرابیوں کی اصلاح کی کوشش کرتا ہے تاکہ بڑی چیز بیکار نہ ہوجائے ،اسی طرح بہترین اور نیک عناصر اس معاشرہ میں بہت کم ہوا کرتے ہیں اس لئے اگر ان سے غلطیاں ہوجائیں تو ایک بڑے نفع کی امید میں انہیں درگزر کر دینا چاہیے قرآن مجید میں ہے :فاعف عنہم و استغفر لھم و شاورھم فی الامر ۔ ان کے قصور معاف کردو ان کے حق میں دعائے مغفرت کرو اور دین کے کام میں ان کو بھی شریک مشورہ رکھو ۔ دعوتی اور دینی مزاج کی خصوصیت یہ ہے کہ اتحاد و اتفاق کو پسند اور افتراق و مخالفت ناپسند کرتی ہے ۔محبت پریم اخوت اور بھائی چارہ کے بیج بوتی ہے اور بغض نفرت حسد تعصب اور تنگ نظری کی بیخ کنی کرتی ہے ،قلیل کو قربان کرتی ہے تاکہ کثیر حاصل ہوسکے ۔یاد رکھئیے جو ان چیزوں کو سمجھ کر انہیں عملی جامہ پہنائے گا ،صحیح معنوں میں وہی صراط مستقیم کا پیرو ہے ۔


خدا تعالیٰ ان حقائق کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی ہمت ہم سب کو بخشے اور ہماری ذات سے قوم و ملت کو کبھی کوئی ضرر اور نقصان نہ پہنچے۔ آمین

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: