مسلم یونیورسٹی کا اقلیتی کردار بحال
مسلم یونیورسٹی کا اقلیتی کردار بحال

مسلم یونیورسٹی کا اقلیتی کردار بحال ✍️ معصوم مرادآبادی _______________________ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کی بحالی سے متعلق سپریم کورٹ کے تازہ فیصلے سے مسلمانوں میں خوشی کی لہر ہے۔ یونیورسٹی میں مٹھائیاں تقسیم کی گئی ہیں اورعلیگ برادری کے ساتھ عام مسلمانوں نے بھی اس فیصلے پر اطمینان کا اظہار کیا […]

ٹرمپ کی جیت کے بعد۔!
ٹرمپ کی جیت کے بعد۔!

ٹرمپ کی جیت کے بعد۔! از:ڈاکٹرسیدفاضل حسین پرویز ___________________ ڈونالڈ ٹرمپ توقع کے مطابق دوبارہ امریکہ کے صدر منتخب ہوگئے۔ وہ 1897سے لے کر اب تک تاریخ میں ایسے دوسرے صدر ہیں، جو متواتر دوسری میعاد کے لئے منتخب نہ ہوسکے تھے۔ ٹرمپ گذشتہ الیکشن ہار گئے تھے، اور 2024کا الیکشن جیت گئے۔ اس سے […]

مدارس سیکولرازم کے منافی نہیں
مدارس سیکولرازم کے منافی نہیں

– مدارس سیکولرازم کے منافی نہیں ✍️محمد نصر الله ندوی ___________________ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس چندر چوڑ نے جاتے جاتے مدرسہ بورڈ کے حوالہ سے اہم فیصلہ دیا،مدرسہ ایکٹ 2004 پر فیصلہ سناتے ہوئے انہوں نے جو کچھ کہا،وہ بہت معنی خیز ہے،انہوں نے ہائی کورٹ کی لکھنؤ بینچ کے فیصلہ کو پوری طرح […]

شرک: ناقابل معافی جرم

از قلم: مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

نائب ناظم امارت شرعیہ،پھلواری شریف پٹنہ

________________________

روئے زمین پر انسانوں کے ذریعہ کیا جانے والا سب سے بڑا گناہ اللہ کی ذات وصفات میں کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا ہے، اللہ رب العزت نے اسے ’’ظلم عظیم‘‘ (سورۃ لقمان : ۱۳) قرار دیا ہے ۔ اس نے قرآن کریم میں یہ بات بھی واضح کر دی ہے کہ وہ شرک کو معاف نہیں کریں گے، البتہ اللہ اگر دوسرے گناہ معاف کرنا چاہیں تو وہ بخش دیں گے۔ (النساء : ۴۸) قرآن کریم میں اس گناہ کبیرہ اور ظلم عظیم کی سزا اللہ نے بیان کی کہ جو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرے گا، اس پر اللہ رب العزت جنت کو حرام کر دیں گے ، اس کا ٹھکانا جہنم ہوگا، اور اس ظلم کرنے والے کا کوئی مددگار نہیں ہوگا۔ (المائدہ : ۷۲)


حدیث میں بھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے شرک کو اکبر الکبائر کہا ہے فرمایا کہ سات ہلاک کرنے والی چیزوں سے بچو، ان میں سے ایک اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرنا ہے، بعض روایتوں میں کبیرہ گناہوں کی تعداد نو (۹) بتائی گئی ہے، ان میں سے ایک شرک ہے ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر بن خطاب ؓ کو حکم دیا کہ وہ اعلان کردیں کہ صرف ایمان والا ہی جنت میں جائے گا ، یعنی کافر ومشرک جنت میں نہیں جائے گا۔ اسی وجہ سے حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو خصوصی طور  سے اس بات کی نصیحت کی کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرانا، کیوں کہ یہ ظلم عظیم ہے۔


ہمیں یہ بات خوب اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ اللہ رب العزت نے شرک کو نا قابل معافی جرم کیوں قرار دیا ، اس لیے کہ ساری کائنات اور تمام مخلوقات کو اللہ نے بنایا ، تخلیق کے اس عمل میں اللہ کا کوئی ساجھی نہیں ہے ، اللہ روئے زمین کی تمام مخلوقات کو رزق فراہم کرتا ہے، حقیقی معنوں میں کوئی دوسرا رزاق ہوہی نہیں سکتا، اللہ ہی بندوں کو عزت اور ذلت دیتا ہے کوئی دوسرا یہ کام نہیں کر سکتا ، حیات وموت سب اللہ کے ہاتھ ہے وہ محی وممیت ہے، کسی دوسرے کی کیا مجال کہ وہ اس میں دخل اندازی کرے، اللہ ہی کی ذات ہے کہ وہ لڑکا دیتا ہے، لڑکی دیتا ہے ، کسی کو دونوں دیدیتا ہے، اور کسی کو اس نعمت سے محروم کر دیتاہے ، دوسرا کوئی ہے جو اولاد کی دولت سے مالا مال کردے ، وہ اول وآخر ہے، جب کچھ نہیں تھا تو اللہ تھا، اور جب ساری دنیا فنا کے گھاٹ اتر جائے گی تب بھی وہ حی القائم رہے گا، اس لیے اس کا کوئی شریک ہو ہی نہیں سکتا، اس بات کو آپ اس طرح بھی سمجھ سکتے ہیں کہ مریض کو جب خون کی ضروت ہوتی ہے تو کسی نہ کسی طرح اس کا بلڈ گروپ ملایا جاتا ہے ، چاہے خون دینے والے کا گروپ اس سے مل جائے یا کیمیکل دے کر اسے بدلا جائے، اگر بغیر بلڈ گروپ ملائے مریض کے جسم میں خون داخل کر دیا جائے تو مریض کے دنیا چھوڑ دینے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں، اسی طرح گردے وغیرہ کی منتقلی دوسرے کے جسم میں کرنی ہو تو ٹشوز ملائے جاتے ہیں، خلیات دیکھے جاتے ہیں، ٹشوز اور خلیات نہ ملیں تو اس شخص کا گردہ منتقل نہیں کیا جا سکتا ، اسی طرح جب آپریشن ہوتا ہے تو زخم بھرنے کے لیے الگ سے چمڑے کی ضرورت ہوتی ہے تو مریض کے جسم سے کاٹ کر دوسرا چمڑہ لگایا جاتا ہے، اگر مریض کا باپ یا کوئی تیماردار یہ کہے کہ ایک زخم تو میرے بچے کو ہے ہی ، دوسرا مت کیجئے، میرا چمڑہ  لے کر اسے لگا دیجئے ، ڈاکٹر کے پاس اس مشورہ کا علاج ، دماغ کے علاج کے سوا اورکیا ہو سکتا ہے ، جب ہمارا جسم دوسرے کے چمڑے کو قبول کرنے کو تیار نہیں ، حالاں کہ دونوں کا ڈی این اے ایک ہی ہے ، بغیر گروپ اور خلیات کے ملے نہ خون چڑھایا جاسکتا ہے اور نہ گردے اوردیگر اعضاء کی پیوند کاری ہو سکتی ہے، وجہ صرف یہ ہے کہ گروپ نہیں مل رہا ہے ، اللہ رب ا لعزت نے واضح کر دیا ہے کہ ہمارے گروپ سے کسی کا گروپ نہیں ملتا ہے ، اس لیے کہ ہم بے نیاز ہیں، ہمیں کسی چیز کی حاجت نہیں ہے۔ دوسرا گروپ فقراء اور محتاجوںکا ہے ، بڑا سے بڑا آدمی مالی اعتبار سے یا بڑاآدمی جاہ ومنصب کے اعتبار سے کیوں نہ ہو، وہ سب کے سب حاجت مند ہیں، ایسے میں جو حاجت مند ضرورت مند ہے ، وہ بے نیاز ذات کے ساتھ کس طرح مل سکتا ہے۔ اب اگر کسی نے ملا دیا تو اس نے اتنا بڑا ظلم اپنے اوپر کر لیا کہ اس کی تلافی ممکن نہیں اور جس طرح بغیر گروپ ملائے خون کی منتقلی اور اعضاء کی پیوند کاری موت کا سبب ہوتی ہے اسی طرح بندہ محتاج کو اللہ غنی کے ساتھ شریک ٹھہرانے سے ایمان کی موت ہوجاتی ہے، اب ایسا شخص یا تو کافر ہوگا یا مشرک ہوگا یا مرتد، تینوں حالتوں میں اللہ بخشش کا سامان نہیں کرے گا، وہ جنت سے محروم ہوگا اور جہنم اس کا مقدر قرار پائے گی۔ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے۔ کہہ دیجئے اللہ ایک ہے، اللہ بے نیاز ہے، اس نے کسی کو اس طرح نہیں پیدا کیا، جیسے مائیں جنتی ہیں اور نہ اس کو کسی نے پیدا کیا ولم یکن لہ کفوا احد۔ اس کا ہم سر یعنی اس کی کیٹگری کا کوئی نہیں ہے۔


شرک کی قباحت کو اس سے بھی آسان طور پر سمجھنا چاہیں تو اس طرح سمجھئے کہ شوہر کے نزدیک بیویاں عام طور پر اس کی پسندیدہ ہوتی ہیں، اس کی کمی کوتاہی اور غلطیوں کو معاف کرنایا بیوی پر شوہر کے ذریعہ کوئی ظلم ہو تو ہر دو کے لیے یہ ممکن ہے کہ اس کی معافی تلافی ہوتی رہے اور ہوتی بھی ہے ، ہر دن اختلافات ہوتے ہیں اور اگلے دن کا سورج رات کی تاریکی کو ہی دور نہیں کرتا، میاں بیوی کے دلوں کی کدورت ، کینہ اور غصہ کو بھی ختم کر دیتا ہے ، تبھی پوری زندگی گذرتی ہے، لیکن اگر کسی شوہر کے بارے میں بیوی کو اور بیوی کے بارے میں شوہر کو معلوم ہو جائے کہ اس کی زندگی میں کوئی دوسرا مرد یا کوئی دوسری عورت بھی ہے تو یہ شرکت مرد وعورت دونوں کے لیے نا قابل برداشت ہوتی ہے اور رشتہ اس حالت میں عام طور سے آخری سانس لے لیتا ہے، مرد کی اس معاملہ میں حساسیت اپنی جگہ ، ہندوستان کے خاص ماحول میں تو عورت دوسری ، تیسری ، چوتھی نکاحی عورت کو بھی قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتی اور گھر پانی پت کا میدان اور جنگ کا اکھاڑہ بن جاتا ہے ، جب انسان جو محتاج ہی محتاج ہے، اپنے میاں بیوی کے رشتے کے درمیان کسی تیسرے کو قبول کرنے کو تیار نہیں تو بھلا جو اللہ انتہائی غیرت مند اور غیور ہے، بندے کی غیرت سے اس کی غیرت کا موازنہ اور مقابلہ دوسرے صفات کی طرح کیا ہی نہیںجا سکتا ، وہ اللہ کس طرح اس کو برداشت کر سکے گا کہ سب کچھ اس نے دیا اور گن گان کسی اور کا کیا جائے۔
اللہ رب العزت نے تخلیقی طور پر سجدے کے لیے استعمال ہونے والے سر کو سب سے اوپر رکھا ہے کہ بڑھاپے میں کمر جھک جائے، پر واہ نہیں، لیکن یہ سر جو ہمارے جسم کے سب سے اوپر ہے وہ کسی اور کے آگے نہ جھکے، یہ جب جھکے تو صرف خدا کے سامنے جھکے بندہ کچھ مانگے تو خدا سے مانگے ، منور رانا نے کتنی پیاری بات کہی ہے۔
گڑگڑا ئے نہیں ہاں حمد وثنا سے مانگی بھیک بھی ہم نے جو مانگی تو خدا سے مانگی


صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے دربار نبوی علیہ السلام سے جو تربیت پائی تھی اس کا خلاصہ یہی تھا کہ گھوڑے کی لگام بھی گرجاتی تو وہ کسی کو اٹھا کر دینے کو نہیں کہتے ، خود سے اتر کر لے لیا کرتے وہ اس مجازی مانگنے کو بھی دوسرے سے برا سمجھتے تھے، صوفیا کے یہاں تو اگر کسی نے جلی ہوئی روٹی کھائی اور پیٹ میں درد ہونے لگا ، ایسے میں کہا کہ جلی روٹی کھانے کی وجہ سے درد ہو رہا ہے تو وہ اسے بھی شرک ٹھہراتے ہیں کہ درد دینے کی طاقت صرف اللہ میں ہے، روٹی کی کیا بساط کہ وہ درد پیدا کر دے، مسلمانوں کے نزدید دوا بھی مؤثر حقیقی نہیں ہے اس میں تاثیر اللہ پیدا کرتا ہے، یہ بڑے لوگوں کی باتیں ہیں، لیکن حقیقت سے بہت قریب ہے، آپ کو معلوم ہے کہ آگ جلاتی ضرور ہے، لیکن اللہ نے نہیں چاہا تو آگ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جلا نہیں سکی، چاقو اور چھری کا کام کاٹنے ہی کا ہے، لیکن اللہ نے نہیں چاہا تو چھری چلنے کے باوجود حضرت اسماعیل ؑ کی گردن سلامت رہی ، پانی ڈوبوتا ہے، لیکن اللہ کی مرضی ہوئی تو حضرت موسیؑ کو نہیں ڈوبایا اور فرعون اسی پانی میں اسی راستے پر غرق ہو گیا ، معلوم ہوا کہ کرنے والی ذات حقیقتاً اللہ کی ہے، وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے ،جو نہیں چاہتا نہیں ہوتا ، قاری صدیق صاحب ؒ کا بہت مشہور شعر ہے۔
نبی سے یاولی سے یا رِشی سے کچھ نہیں ہوتا

خدا جب تک نہیں چاہے کسی سے کچھ نہیں ہوتا


مسلمانوں میں اس احساس کی کمی ہو گئی ہے، سیاسی حضرات قومی یک جہتی کے نام پر پتہ نہیں کیا کیا تماشے کرتے ہیں، مسجد میں نماز کو بھی جاتے ہیں اور مندر میں گور بھی لگ آتے ہیں، دوسروں کے شرکیہ اعمال میں برابر کے شریک ہوجاتے ہیں، یہ اسلامی اور ایمانی تقاضوں کے خلاف ہے، اس لیے اس سے ہر حال میں بچنا چاہیے، ۲۲؍ جنوری ۲۰۲۴ء کو رام للا پران پرتشٹھا کے موقع سے مزاجی ہم آہنگی اور قوی یکجہتی کے نام پر مسلمانوں نے جو پھول مالا چڑھایا ، رضامندی سے رام کے بھگوان ہونے کے نعرے لگائے ، یہ قومی یک جہتی نہیں، دین وایمان کا سودا ہے، اس کا ایک بڑا نمونہ آر ایس ایس اور موہن بھاگوت کے منظور نظر عمیر الیاسی ہیں، جو اس تقریب میں شریک ہوئے اور مزیدقربت حاصل کرنے کے لیے خوب خوب لن ترانیاں کیں، اسلام نے اظہار یک جہتی کے جو طریقے بتائے ہیں و ہ اعتدال اور توازن پر مبنی ہیںاور وہ یہ کہ برادران وطن کے مذہبی اور ثقافتی پروگراموں میں شرکت نہ کی جائے، لیکن کمزوروں کی مدد، یتیموں کی خبر گیری ، انسانی اکرام واحترام میں کمی نہ کی جائے، مریضوں کی تیمار داری بھی کی جائے اور مرجائے تو تعزیت بھی ، اعتدال کی انتہا یہ ہے کہ ان کے معبودوں کو جو ہمارے عقیدہ کے خلاف ہیں اور جن کی وہ عبادت کرتے ہیں، انہیں بھی برا بھلا نہ کہا جائے، معلوم ہوا کہ اسلام میں شرکیہ اعمال سے پرہیزہے، احترام آدمیت اور رواداری سے نہیں۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: