از: مفتی محمد شبیر انور قاسمی
نائب قاضی ضلع بیگوسرائے
__________
شفقت پدری سے اب ہمیشہ کے لئے محروم ہوچکا سیہ رو پسر جم غفیر کے ہم راہ, زیست کی تیز دھوپ کا سائبان اپنے والد و مربی بل کہ مثالی باپ, بافیض استاد, باکمال مدرس استاذ العلماء حضرت مولانا عبد الجلیل قاسمی نور اللہ مرقدہ معروف بہ ” بڑے مولانا” کو گزشتہ 4 جنوری 2024 جمعرات دن گزار کر شب جمعہ ابدی نیند سوجانے کے بعد جمعہ کو دائمی آرام گاہ آبائی”شہر خموشاں” میں نم آنکھوں سے پہنچا کر اور پھر مسلسل ایک ہفتہ بعد نماز فجر زیارت و فاتحہ خوانی کرکے یہ دعا کرتے ہوئے واپس جائے ملازمت بیگوسرائے آگیا کہ
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزہ نورستہ اس گھرکی نگہبانی کرے
کوئی تین ہفتے بعد 28 جنوری 2024 بروز اتوار زیارت و فاتحہ خوانی کے لئے دوبارہ والد بزرگوار کے مرقد مبارک پر سرجھکائے دست بستہ حاضر ہوا, دل بے قرار قرار تو پایا پر آنکھیں برستی رہیں, بے سائیگی کے غم و فکر کی بدلی جو چھائی ہوئی ہے, زندگی کی تیز دھوپ کے اس مسافر پر۔ حیرت تو تب ہوئی جب مرقد مبارک پر یہاں کی عام روایات کے برعکس اتنی جلد خوشنما ہریالی اور نادیدہ سبزہ نورستہ کی نگہبانی کا زیبا منظر ان آنکھوں نے دیکھا, ویرانے میں رحمت و انوار کی کیفیت محسوس کی, گاوں باشندگان میں بھی یہ چرچا کا موضوع ہے کہ برسوں سے بے آب و گیاہ پڑے اس چٹیل اور بنجر زمیں کی خاک میں اتنی جلدی سبزہ و ہریالی کیسے؟ کچھ کی قیاس آرائیاں تھیں کہ قاضی صاحب یعنی راقم سطور نے کوئی بیج قبر پر ڈال دی ہے شاید, کوئی کچھ , جتنے منہ اتنی بات, چناں چہ ان قیاس آرائیوں کے بیچ آخرکار والدہ محترمہ نے اس بابت مجھ سے استفسار کر ہی لیا, میرے جواب پر کہ میرے فرشتے کو بھی پتا نہیں, والدہ محترمہ نے اطمینان کی سانس لی, کہ یہ کرشمہ خداوندی ہے, رب کی مہربانی سے سبزہ نورستہ کی نگہبانی ہے, باقی سب نادانوں کا فسانہ اور کہانی ہے۔
دین کی دیوار گرگئی:
بات چل پڑی ہے تو والد محترم کی وفات سے متعلق ایک دلچسپ خواب بھی سن لیجئے, گرچہ خواب دلیل اور حجت نہیں, تاہم ایک خوش عقیدہ انسان کی دل بستگی کا سامان ضرور ہے۔
گاوں کے ہی سماجی و ملی خدمت گار عبد القدوس انصاری کی والدہ محترمہ, جو خواتین میں دینی بیداری اور اجتماع کے حوالے سے گاوں محلہ میں اہم کردار نبھاتی ہیں, دینی حمیت سے سرشار, خوش مزاج, ملنسار, بے لوث اور پاک طینت خاتون ہیں(رشتہ میں میرے والد کے پھوپی زاد بھائی سلطان انصاری مرحوم کی دختر نیک اختر ہیں, تاہم ہم سب بھائی بہن بچپن سے اپنی والدہ کے واسطہ سے انھیں نانی کہتے آئے ہیں) وہ مرحوم والد ماجد سے والہانہ عقیدت اور ٹوٹ کر محبت کرتی ہیں, شرعی مسائل و مشکلات میں والد صاحب ان کے درد کے درما تھے, والد صاحب کی وفات کے بعد برائے تعزیت وہ والدہ محترمہ سے ملنے آئی, راقم بھی اس وقت وہاں پر موجود تھا, حسرت و افسردگی کا آئینہ اداس چہرہ, خود بھی شریک غم و مستحق تعزیت, ٹوٹ رہی نرم آواز میں انھوں نے صبر و تحمل کے کلمات کہہ کر ڈھارس بندھائی اور کہا کہ ادھر کئی ماہ سے وہ اپنی بیٹی کے یہاں پرسا گاوں میں تھی, بڑے مولانا کے انتقال سے تین چار روز قبل سے لگاتار ایک ہی خواب دیکھ رہی تھی, لیکن کچھ سمجھ نہیں پاتی تھی کہ اس کا مطلب کیا ہے, رات خواب دیکھتی, صبح اٹھ کر بے چینی میں اس کا اظہار اپنی بیٹی سے بھی کرتی, مگر عقدہ لاینحل تھا کہ آخر ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ وہ خواب میں دیکھتی کہ کوئیآواز لگاتا ہے اور ان سے کہتا ہے : "دین کی دیوار گر گئی۔” اور پھر نیند ٹوٹ جاتی۔ اسی بے کلی کے بیچ "بڑے مولانا” کے انتقال کی صاعقہ خبر آئی, دل دھک سے رہ گیا, قلب مضطر نے گواہی دی, زبان سے برجستہ نکلا : بیٹی دیکھ لی ! یہی مطلب تھا خواب کا, اب سمجھ میں آیا کہ دین کی دیوار گر گئی۔ اللہ کے خاص بندہ کا سایہ ہم سب کے سروں سے اٹھ گیا, دین کی روشنی ملتی تھی جن سے وہ چراغ گل ہوگیا۔
قبر تیری نور سے معمور تا ساعت رہے
تیرے منسوبین پر اللہ کی رحمت رہے
آخرت کی فکر میں مشغول کردے تیری یاد
ایں دعا از من و از جملہ جہاں آمین باد
رب کریم والد بزرگوار کو اپنی شایان شان خلد بریں کا مکیں بنائے, ان کی خدمات جلیلہ کو قبول فرمائے اور ہم سب کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین