صادقین کی یاد میں
✍ معصوم مراد آبادی
________________
آج شہرہ آفاق مصور، نقاش اور شاعر صادقین کا یوم وفات ہے۔ ان کا انتقال 10فروری 1987کو کراچی میں ہوا۔وہ 30 جون 1930کو اترپردیش کے مردم خیزخطہ امروہہ میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے اپنی نقاشی اور مصوری کے ذریعہ عالمی شہرت حاصل کی اور کئی بین الاقوامی ایوارڈ بھی جیتے۔ آٹھویں دہائی میں جب راقم الحروف نئی دہلی کی غالب اکیڈمی میں ملک کے مایہ نازخطاط محمدخلیق ٹونکی کے قدموں میں بیٹھ کر خطاطی کافن سیکھ رہا تھا تو اسی دوران مجھے سید صادقین کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ وہ ان دنوں ہندوستان کے سفر پر تھے اور حکیم عبدالحمیدکی فرمائش پرتغلق آباد میں نوتعمیر شدہ اسلامک ریسرچ سینٹرکے گنبد کے لیے اپنے فن کا جادو جگارہے تھے۔اس دوران وہ غالب اکیڈمی کی لائبریری میں بیٹھ کر جب اسمائے حسنیٰ کی مصوری کرتے تھے تو ہم انھیں بڑے شوق سے دیکھتے تھے۔ حالانکہ ان کاکام ہمارے کام سے اس لیے مختلف تھا کہ ہم خطاطی اور کتابت کے اصولوں سے بندھے ہوئے تھے جبکہ صادقین کی نقاشی ان اصولوں سے آزاد تھی۔ وہ اپنے فن پاروں میں جدید آرٹ کی آمیزش بڑی خوبی سے کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے فن کی دھوم چہاردانگ عالم میں پھیلی۔ ان کا فن نامور پینٹر ایم ایف حسین کے فن سے زیادہ قریب تھا اور دونوں میں اسی لیے قربت بھی بہت تھی۔ صادقین کے انتقال پر ایم ایف حسین نے انھیں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ’السٹریٹیڈ ویکلی‘ میں جو مضمون لکھا تھا، اس کا پہلا جملہ ہی بڑا معنی خیزتھا ”میں برش کا آدمی ہوں اور ساری عمر اسی سے کام لیاہے، لیکن عجب مجبوری ہے کہ مجھے اپنے عہد کے ایک بڑے مصور کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے آج قلم کا سہارا لینا پڑرہا ہے۔“
بلاشبہ ایم ایف حسین اور صادقین نے اپنے فن میں جو کمال حاصل کیا، وہ برصغیر میں جدید آرٹ کے کسی اور فن کار کو حاصل نہیں ہوسکا۔ جس طرح تجریدی آرٹ میں ایم ایف حسین نے عالمی شہرت حاصل کی، اسی طرح صادقین نے اپنی مصوری اور نقاشی کی بدولت کمال پیداکیا۔ مگر اب ایسا لگتا ہے کہ ہم ان دونوں ہی فن کاروں کو بھولتے چلے جارہے ہیں۔
صادقین امروہہ کی جس مٹی سے اٹھ کر تقسیم کے جھمیلوں میں سرحد پارگئے تھے، اس کے بارے میں ممتازشاعر جون ایلیا نے اپنی آپ بیتی میں صادقین کو احاطہ تحریرمیں لاتے ہوئے لکھا ہے۔
”میں دوآبہ گنگ وجمن کے حالت خیز،رمزیت آمیزاور دل انگیز شہرامروہہ میں پیدا ہوا۔ امروہے میں نہ جانے کب سے ایک کہاوت مشہور چلی آرہی ہے کہ ’امروہہ شہرتخت ہے، گزراں یاں کی سخت ہے، جو چھوڑے وہ کم بخت ہے،…..مجھے نہیں معلوم کہ شمالی ہند کے پہلے مثنوی نگار سیداسمٰعیل امروہوی، شیخ غلام ہمدانی مصحفی، نسیم امروہوی،سیدمحمدتقی،سیدصادقین احمد، محمدعلی صدیقی اور اقبال مہدی نے امروہہ چھوڑکر اپنے آپ کو کم بخت محسوس کیا تھا یانہیں مگرمیں نے……بہرحال۔“ (مجموعہ کلام ’شاید‘صفحہ 14)
سید صادقین احمد کا تعلق اسی خانوادے سے تھا جس میں جون ایلیا اور ان کے بھائی رئیس امروہوی پیدا ہوئے تھے اوران فن کاروں کو تقسیم کی ہوائیں بہاکر سرحد پار لے گئی تھیں، مگر امروہہ کی مٹی سے انھیں جو پیار تھا، ان کا عکس ان قصے کہانیوں میں تلاش کیا جاسکتا ہے جو جون ایلیا کی امروہہ آمد پر زبان زد خاص وعام ہوتے تھے۔اسی طرح صادقین بھی جب ہندوستان آتے تو امروہہ کی مٹی سے بوس وکنار کرتے تھے۔شاعری میں بھی وہ طاق تھے۔ رباعی ان کا خاص میدان تھا۔ شاید ہی کسی نے ان سے زیادہ رباعیاں کہی ہوں۔ ایک روزغالب اکیڈمی کی ادبی نشست میں صادقین صاحب کو اپنا کلام سنانے کے لیے کھڑا کردیا گیا تو انھوں نے اپنی ایک رباعی سناکر محفل کو زعفران زار بنادیا۔ صادقین تاعمر کنوارے ہی رہے اور جب کسی نے ان سے شادی نہ کرنے کا سبب پوچھا تو انھوں نے جواب ایک رباعی میں دیا جو انھوں نے غالب اکیڈمی کی مذکورہ شعری نشست میں سنائی تھی۔ آپ بھی سنئے۔
وہ مطلع ہستی پہ ہویدا نہ ہوئی
میں اس پہ فدامجھ پہ وہ شید ا نہ ہوئی
میں صاحب اولاد بھی ہوسکتا تھا
اولادکی والد ہ ہی پیدا نہ ہوئی
صادقین سولہ برس کی عمر میں شعر کہنے لگے تھے۔ ان کا پہلا مجموعہ کلام ’جزوبوسیدہ‘ کے نام سے شائع ہوا تھا۔صادقین نے اردو شاعری کی سب سے مشکل صنف سخن رباعی کو اپنے افکار کے اظہارکا وسیلہ بنایااور کم وبیش ڈھائی ہزار رباعیاں کہیں۔ان کی رباعیوں کے دومجموعے شائع ہوچکے ہیں۔ایک اور رباعی ملاخطہ کیجئے۔
عاشق کے لیے رنج والم رکھے ہیں
شاہوں کے لیے تاج وعلم رکھے ہیں
”میرے لیے کیا چیزہے“ میں نے پوچھا
آئی یہ صدا لوح وقلم رکھے ہیں
صادقین صاحب کو مہینوں غالب اکیڈمی میں اپنے فن کا جادو جگاتے ہوئے دیکھ کر فخر کا احساس ہوتا تپا کہ ہم اپنے عہد کے ایک بڑے فنکار کے روبرو ہیں اور اس سے براہ راست استفادہ کررہے ہیں۔ وہ اپنی ٹیڑھی میڑھی انگلیوں سے جب قرطاس پر اپنے فن کا مظاہرہ کرتے تھے تو دیکھتے ہی رہنے کو جی چاہتا تھا۔صادقین بنیادی طورپر قلندرانہ صفات کے فن کار تھے۔ یہی وجہ ہے جس زمانے میں تجریدی آرٹ کے نمونے کروڑوں کی قیمت میں فروخت ہوتے تھے تو وہ انھیں مفت میں تقسیم کرتے تھے۔ انھوں نے جامعہ ہمدرد کے اسلامک انسٹی ٹیوٹ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور بنارس ہندو یونیورسٹی میں اپنے فن کو جو جوہردکھائے ہیں ان کا کوئی معاوضہ وصول نہیں کیا۔ حالانکہ بارہا انھیں سربراہان مملکت کی طرف سے خطیر رقم کی پیشکش ہوئی، لیکن انھوں نے اسے ٹھکرادیا۔انھیں بس اپنے کام سے ہی کام تھا اور اس کی ترجمانی ان کے اس شعر سے بھی ہوتی ہے۔
پھر کام سے تھک جاتا ہے اتنا مرا ہاتھ
روٹی جو میں توڑوں تو نہیں ٹوٹتی ہے
صادقین کے اعلیٰ ادبی ذوق کی گواہی وہ فن پارے بھی دیتے ہیں، جو انھوں نے غالب، اقبال اور فیض کی لازوال شاعری پر تیار کئے تھے۔ انھوں نے ان تینوں کی شاعری کو اپنی مصوری کے ذریعہ نئے معانی پہنائے۔صادقین کی مقبولیت صرف برصغیر ہندوپاک میں ہی نہیں تھی بلکہ انھیں عالمی سطح پر قبول کیا گیا۔یہی وجہ ہے کہ انھیں فرانس میں مصوری کے اعلیٰ اعزاز سے سرفراز کیا گیا۔16/اکتوبر1962کی اشاعت میں فرانس کے مشہوراخبار ’لی فگارو‘ نے صادقین کے فن پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھا۔”صادقین کے کام میں وسعت، کثافت، حجم اور حقیقت کا تاثر ملتا ہے، جو خیالی سوچ میں بھی حقیقت کا رنگ بھر دیتا ہے۔“یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں ہوگی کہ فرانس میں صادقین کے چاہنے والے انھیں پکاسو کے ہم پلہ فن کار قرار دیتے تھے۔انھوں نے فرانسیسی مفکر ومصنف کامو کی تصنیف ’دی آؤٹ سائڈر‘ کی تمثیل بھی پیش کی۔ انھوں نے یونانی فلسفیوں، عرب مفکرین اور یوروپی سائنسدانوں کی تصویرکشی کے ذریعہ ہر زمانے کے فکری، علمی اور سائنسی ارتقاء کو نہایت خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا۔یہی وجہ ہے کہ ان کے فن پاروں کی نمائشیں امریکہ، یوروپ اور مشرق وسطیٰ میں بھی منعقد ہوئیں اور ہرجگہ دادوتحسین پائی۔