۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام
۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام

۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس، اور تعطیلِ عام از ـ محمود احمد خاں دریابادی _________________ ہندوستان جمہوری ملک ہے، یہاں مختلف مذاہب کے لوگ بستے ہیں، ہر مذہب کے بڑے تہواروں اور مذہب کے سربراہوں کے یوم پیدائش پر مرکز اور ریاستوں میں عمومی تعطیل ہوتی ہے ـ ۱۲ ربیع الاول کو چونکہ پیغمبر […]

مولانا محب اللہ لاری ندوی علیگ: حیات و خدمات

✍ ڈاکٹر محمد طارق ایوبی ندوی

____________

دار العلوم ندوۃ العلماء کے سابق خداترس مہتمم مولانا محب اللہ لاری ندوی علیگؒ کی حیات و خدمات پر مشتمل یہ کتاب ٦٧٢؍صفحات پر مشتمل ہے، اس کو ١٤؍ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے، پہلے باب میں ندوہ کے ذمہ داروں نے حضرت مہتمم صاحب کو خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔ دوسرے باب میں دو نمایاں ندوی فضلاء کے مضامین ہیں۔ تیسرے باب میں ندوہ کے اساتذہ کے مضامین ہیں۔ چوتھے باب میں سابق اساتذہ نے مہتمم صاحب کی شخصیت کی تصویر کشی کی ہے۔ پانچواں باب اس کتاب کی روح ہے اور وہی سب سے طویل ہے، اس باب میں عہدِ لاری کے فیض یافتہ طلبہ اورآج کے اساتذہ و مشاہیر اہل قلم کے مضامین ہیں۔ یہ وہ فرزندانِ ندوہ ہیں جو آج کہیں نہ کہیں اور کسی نہ کسی درجہ میں ندوہ کی شناخت ہیں اور عہد لاری کی یادگار و باقیات ہیں، اس کے بعد ایک باب کا عنوان ہے ’’شنیدہ کے بود مانند دیدہ‘‘ہے، جو مختصر مضامین پر مشتمل ہے، لیکن ان مضامین سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ مہتمم صاحب کی نیک نامی کے چرچے آج بھی ہوتے رہتے ہیں، ان کی مثالی زندگی طلبہ و اساتذہ کی مجلسوں میں موضوعِ گفتگو بنتی رہتی ہے۔ اس کے بعد والے باب میں غیرندوی فضلاء نے مہتمم صاحب کی شخصیت کے رعب و وقار اور خلوص و للّٰہیت کی شہادت دی ہے اور ان کی زندگی کے عملی پہلوؤں کو پیش کیا ہے، پھر اہلِ خانہ کے مضامین ہیں، پھر دو مضامین عربی کے ہیں، پھر اخباری تراشے، اور تعزیتی جلسوں کی رپورٹس ہیں، پھر مہتمم صاحب کی نگارشات کے کچھ نمونے ہیں، پھر چند اشخاص کے نام لکھے گئے مہتمم صاحب کے مکتوبات ہیں ، اور آخر میں دو دستاویزی ضمیمے ہیں۔
تدوین و ترتیب کے لحاظ سے یہ ضخیم کتاب علمی رنگ لیے ہوئے ہے، ابتدا میں حکیم جاوید احمد لاری کی ایک طویل تحریر داستانِ دل خراش سناتی ہے، اسے پڑھ کر ایک طرف حکیم صاحب کے اپنے نانا محترم سےتعلق خاطر، صبر و ضبط، محنت و لگن اور ان کی شخصیت و خدمات کو خراجِ عقیدت و تحسین پیش کرنےکے جذبہ و شوق کا اندازہ ہوتا ہے، تو دوسری طرف یہ دل خراش واقعہ سامنے آتا ہے کہ مجموعی طور پر امت میں مفاد پرستی کا رجحان عام ہے؛ ورنہ کیا وجہ تھی کہ ایک ایسی شخصیت جو شجرِ سایہ دار کی حیثیت رکھتی تھی، زہد و تقویٰ کا پیکر تھی، اخلاص و للّٰہیت جس کی طبیعت ثانیہ تھی، جس نے زندگی بھر دوسروں کے مسائل حل کیے، جس نے سادگی و جفا کشی کو اپنا شعار بنا کر انتظام و انصرام کی اعلیٰ صلاحیتوں کی مثال پیش کی اور دار العلوم کی علمی ،عملی، تعمیری و تربیتی تصویر کو خوشنما بنایا۔ اول تو اس کی حیات و خدمات پردۂ خفا میں رہیں اور ثانیاً جب ارادہ کیا گیا تو اس کام میں دہائیاں لگ گئیں۔ بالعموم دیکھا یہ جاتا ہے کہ جو لوگ جلوتوں کے عادی ہوتے ہیں، جلسوں میں نمایاں ہوتے ہیں، جن کی ذات سے مادی فائدے وابستہ ہو جاتے ہیں یا جو لوگ خاندانی وجاہت اور متعدد نسبتوں کے حامل ہوتے ہیں، وہ خواہ کچھ نہ ہوں اور کوئی اہلیت نہ رکھتے ہوں، مگر سب کچھ بن جاتے ہیں، پیکرِ زہد و تقویٰ اور سراپا علم و معرفت قرار پاتے ہیں، پھر ان پر تعزیتی جلسوں، رسائل کے نمبروں اور سمپوزیم و سیمیناروں کی ہوڑ لگ جاتی ہے، اس کے برعکس جو لوگ پردہ کے پیچھے رہ کر قومی ترقی کے لیے اپنی شخصیت و صلاحیت قربان کرتے ہیں، تعلیم و تربیت کی نازک ذمہ داری بڑی خوبی سے نبھاتے ہیں، خود تو گھٹتے ہیں،مگر دوسروں کو بڑھا دیتے ہیں، ان سے بے اعتنائی برتی جاتی ہے، ان کی زندگی کے مثالی گوشوں کو بھی سامنے نہیں لایا جاتا، ہمارے مہتمم صاحب (’’مہتمم صاحب‘‘ مولانا محبّ اللہ صاحب کے نام کا ایسا جز بن گیا تھا کہ بہت سے لوگ ان کا نام جانتے ہی نہ تھے) ان ہی لوگوں میں سے تھے کہ انھوں نے اپنا سب کچھ ندوہ پر نچھاور کر دیا، مگر کبھی ندوہ کا نام استعمال نہیں کیا، نہ ہی انھوں نے ندوہ کے نام پر کچھ حاصل کیا اور نہ ان کی آل اولاد نے، وہ ندوہ کے بے لوث خادموں میں تھے، ایسے کئی فرزندانِ ندوہ اور خدامِ ندوہ ہیں جن کی مثال اور خدا ترس زندگی بڑی سبق آموز تھی، لیکن افسوس کہ دنیا ان مثالی شخصیات، ان کی بے لوثی و امانت داری کی اعلیٰ ترین مثالوں سے واقف نہ ہو سکی، ان ہی میں مولانا معین اللہ ندوی، مولانا عمران خان ندوی، مولانا ابو العرفان خان ندوی، مولانا مفتی محمد ظہور ندوی، مولانا محمد عارف سنبھلی ندوی اور شیخ الحدیث مولانا ناصر علی خاں ندوی وغیرھم ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ حضرت مہتمم صاحب پر یہ کتاب آئی اور بھرپور آئی۔ حضرت مہتمم صاحب کی بے لوثی کی اس سے بڑی اور کیا دلیل ہو سکتی ہے؟ پردہ کے پیچھے رہ کر انتظام سنبھالنے کی اس سے بڑی اور کیا شہادت ہو سکتی ہے؟ کہ ان کے عہد میں اتنا بڑا جشن تعلیمی ہوا، اس کی طویل روداد پڑھ جائیے آپ کو صرف ایک کمیٹی میں ان کا نام نظر آئے گا، حالانکہ اس کی کامیابی میں ان کی عرق ریزی شامل تھی، اس میں کسے شک ہو سکتا ہے؟۔
ڈاکٹر جمشید احمد ندوی نے علم دوستی اور بے لوثی کا حق ادا کر دیا، ابتدا میں ان کا ’’لاری نامہ‘‘ بھی خوب ہے اور پھر اصل تو ان کا مقالہ ہے، جمشید صاحب سادہ مزاج اور قلندر صفت اسکالر ہیں، وہ کوئی کام کرتے ہیں تو دل سے کرتے ہیں، مفادات کے پہلو سے وہ بہت کم سوچتے ہیں، جو کچھ لکھتے ہیں دل لگا کر لکھتے ہیں اور بے جھجک لکھتے ہیں، اور شاید یہ ان پر ان کے استاد و محسن، عہد جدید کے سیرت نگار اعظم پروفیسر یٰسین مظہر صدیقیؒ کے اثرات ہیں، انھوں نے ۸۲؍صفحات پر مشتمل طویل مقالہ سپردِ قلم کیا ہے،مقالہ میں تحقیقی انداز اختیار کیا ہے، تفصیل سے مہتمم صاحب کی تعلیمی زندگی، حیات و خدمات، انتظامی صلاحیت اور علمی خدمات پر روشنی ڈالی ہے۔اس کتاب کے مضمون نگاروں میں کئی نام ایسے نظر آئے جو مزید تفصیل سے مہتمم صاحب کی زندگی کے کئی پہلوؤں کو اجاگر کر سکتے تھے، لیکن مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ بہت سے لوگوں نے محض تأثراتی مضامین یا ’’بھرتی کے مضمون‘‘ پر اکتفا کی ہے۔ جبکہ جمشید صاحب نے اپنے مضمون کے آخر میں اپنے اس احساس کا ذکر کیا ہے: ’’ان کی زندگی کے بہت سے گوشے ابھی بھی باقی ہیں جن کے متعلق معلومات دستیاب نہیں ہو سکی ہیں……‘‘۔ (ص: ۴۵۸) کاش کہ جمشید صاحب اس کام کو آگے بڑھاتے اور مزید تلاش و تحقیق کے بعد اپنے اس طویل مقالہ کو ایک مستقل تصنیف کی شکل میں پیش کرتے، اگر وہ ٹھان لیں اور ایک مستقل باب ’’عہد لاری کا ندوہ‘‘ قائم کر کے لکھیں تو بہت کچھ لکھ سکتے ہیں، امید ہے کہ وہ یہ کام ضرور کریں گے۔ جمشید صاحب کے علاوہ اکابر ندوہ کے مقالات اس کتاب کی اہمیت میں اضافہ کا باعث ہیں، جن مقالات کو پڑھ کر مہتمم صاحب کی عظمت و انفرادیت سامنے آتی ہے، ان میں جناب وقار عظیم ندوی، عرفان عامر حسنی، خورشید انور ندوی، ڈاکٹر محمد عالم ندوی، امین عثمانی، اور بعض دیگر حضرات کے مضامین قابل ذکر ہیں۔
مجموعی لحاظ سے یہ کتاب حضرت مہتمم صاحب کو بہترین خراجِ تحسین و عقیدت پیش کرتی ہے، ان کی شخصیت کے مختلف گوشوں کو روشن کرتی ہے، دھندلی ہی سہی، لیکن ان کے عہد کے دار العلوم کی تصویر دکھاتی ہے، بے لوث شخصیات سے اظہارِ عقیدت کا درس دیتی ہے، چوبیس سالہ طویل مدت اہتمام تاریخ ندوہ کا ایک مستقل اور ضخیم باب ہے، لیکن حیرت ہے کہ تقریباً اٹھائیس سال بعد اس لائق و فائق، مدبر و منتظم کی شخصیت پر یہ کتاب منظرِ عام پر آئی ہے، کتاب کے مطالعہ سے مہتمم صاحب کی قد آور شخصیت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے، وہ انتہائی بارعب شخصیت کے مالک تھے، با اختیار تھے، اپنے دائرۂ عمل کو اچھی طرح سمجھتے اور برتتے تھے، قوتِ فیصلہ رکھتے تھے، کم بولتے تھے مگر فیصلہ کن بات کرتے تھے، اعلیٰ انتظامی صلاحیتوں کے مالک تھے، ستھرا علمی ذوق رکھتے تھے، کتب بینی ان کا دلچسپ مشغلہ تھا، کئی زبانوں پر دسترس رکھتے تھے، لکھنے پڑھنے کی اعلیٰ صلاحیت کے باوجود اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے پر ہمیشہ توجہ مرکوز رکھی، کبھی ندوہ کی شہرت اور منصبِ اہتمام کو اپنی علمی، قلمی شہرت کے لیے استعمال کر کے اپنی شخصیت سازی کا شائبہ تک نہ پیدا ہونے دیا، تقویٰ و للّٰہیت، اخلاص و زہد، سادگی و خدا ترسی، قناعت و بے لوثی، جلوتوں اور نمائشوں سے بیزاری، خبرگیری و باخبری، مسائل کے حل میں دلچسپی، سب کو ساتھ لے کر چلنے کی صلاحیت،سب سے ربط و تعلق، طلبہ، اساتذہ، انتظامیہ اور ملازمین سب سے ہم آہنگی، سب کو اپنی بات کہنے کی آزادی اور سب کی بات سننے اور برداشت کرنے کا حوصلہ مہتمم صاحب کی قابل تقلیدخصوصیات ہیں، وہ بہترین مربی اور ہزاروں افراد کے محسن تھے، عزم و جزم کے پیکر تھے، ندوہ و علی گڑھ کے فیض و امتزاج نے ان کو وسیع الفکری عطا کی تھی، وہ اعلیٰ صلاحیتوں کے حامل، عظیم معلم اور ماہر تعلیم تھے، ایک مہتمم و منتظم اور ماہرِ تعلیم معلم میں جو خصوصیات ہونی چاہئیں وہ سب ان میں کسی نہ کسی درجہ میں موجود تھیں، در کفِ جام شریعت، در کفِ سندانِ عشق کا مظہر تھے، توافق و توازن کا پیکر تھے، اپنے اصل مقصد، ذمہ داری اور دار العلوم کے مفاد کو ہمیشہ ذاتی رجحان و نظریات پر ترجیح دیتے تھے، یہی وجہ ہے کہ توافق و ہم آہنگی میں وہ اور ان کا عہد ممتاز ہے، یہ خوبی ان کی شخصیت کا اصل جوہر ہے، اس پہلو اور دیگر خصوصیات پر یہ کتاب گواہی دیتی ہے، ان کی فطری و شخصی خصوصیات و صفات کی تصویر بھی اس میں آ گئی ہے اور ان کے عہد کے ندوہ کی داستان بھی، اساتذہ، ذمہ داران اور ان کے عہد کے فارغین کی شہادتیں بھی اس میں جمع ہو گئی ہیں۔ کتاب کے مطالعہ سے ایک سوال ذہن میں پیدا ہوتا ہے، یہ درست ہے کہ مہتمم صاحب کو شہرت و ناموری سے بیر تھا، یہ بھی صحیح ہے کہ انھیں اسٹیج سے تنفر تھا اور وہ عزلت پسند تھے، یہ بھی حقیقت ہے کہ انھوں نے اپنی شخصیت سازی کے لیے ندوہ کا نام اور وسائل کا استعمال نہیں کیا، یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ علمی ذوق رکھتے تھے، ملکی مسائل، عالمی سیاست و صحافت پر گہری نظر رکھتے تھے، بلا ناغہ انگریزی اخبار پڑھتے تھے، متعدد زبانوں کے ماہر تھے، سوال یہ ہے کہ اسٹیج اور جلسوں سے تنفر تو سمجھ میں آتا ہے، لیکن باوجود اعلیٰ علمی اور قلمی استعداد کے انھوں نے لوح و قلم سے بھی رشتہ استوار نہ رکھا، اس کی کیا وجوہات ہو سکتی ہیں؟ باوجود اس کے کہ یہ کتاب ان کی تحریر کے اعلیٰ نمونوں اور ترجمہ کی اعلیٰ صلاحیت کی شہادت دیتی ہے۔

زیر تبصرہ کتاب کی تصویر

راقم سطور نے مہتمم صاحب کا جو عہد پایا وہ ان کے دورِ اہتمام کا عہدِ اخیر تھا، ۱۹۸۸ءمیں سات سال کی عمر میں، میرا داخلہ ندوہ کے معہد کے درجہ سوم میں ہوا، جس معہد کی ندوہ سے منتقلی نے دار العلوم کی رونق کو پھیکا کر دیا ، ہمیں بس مہتمم صاحب کی وہ تصویر یاد ہے جب وہ موسمِ سرما میں دفتر اہتمام کے باہر دھوپ میں میز ڈالے دفتر کے اوقات میں بیٹھتے اور مصروفِ عمل ہوتے تھے، یا پھر ہم کبھی کبھی مہتمم صاحب کے گھر اس طرح جایا کرتے تھے کہ آپ کے احفاد میں حماد و حذیفہ ہمارے ہم عمر اور دوست تھے، اس دوستی میں واسطہ شعیب احسن بن شیخ الحدیث مولانا ضیاء الحسنؒ تھے، کچھ اور لڑکے بھی ساتھ ہوتے اور ہم لوگ چھت پر باقاعدہ ’’جلسہ کرنے‘‘ کا کھیل کیا کرتے تھے اور حماد و حذیفہ کچھ ضیافت بھی کر دیا کرتے تھے، ظاہر ہے کہ وہ ہماری بے شعوری اور بچپن کا عہد تھا، اس دور میں دار العلوم میں تعمیری کام جاری تھا اورہم لوگ مٹی سے کھیلا کرتے تھے، لیکن سنِ شعور کو پہنچنے کے بعد جب اس دور کی تصویر دیکھتے ہیں، بے شعوری کے عہد کی جو تصویریں ذہن میں موجود ہیں، ان کا تقابل شعوری عہد کے ندوہ سے کرتے ہیں، تو بجا طور پر کہہ سکتے ہیں اور کہتے ہیں کہ عہدِ لاری تعلیم و تربیت اور تعمیری ترقی کے اعتبار سے ندوہ کا بہترین دور ہے، اِس دور کے بہت سے مشہور ندوی فضلاء عہد لاری کے فیض یافتہ ہیں، مہتمم صاحب کی گرفت، عدالت اور سوال و جواب کی بڑی شہرت رہی ہے، ہر چند کہ طلبہ مہتمم صاحب کے رعب کے سبب ان کے سامنے پیشی سے گھبراتے تھے، لیکن ان کے عہد میں حدود و قیود اور پابندیوں کا بوجھ نہ تھا، فکری آزادی کے ساتھ شعور کی آبیاری اس عہد کی خصوصیت تھی، ندوہ کے سامنے بندھے پر متعدد ڈھابے تھے، کچھ طلبہ رات ۱۱؍بجے تک مرکزی کتب خانے میں رہتے تو کچھ سڑکوں پر اور میدان میں محوِ گفتگو ہوتے، کچھ جتھے بندھے پر رہتے، کہیں اس درمیان شعری نشست ہو جاتی، کہیں کسی کتاب کا خلاصہ پیش کر دیا جاتا، کہیں فکری نقاش ہوتا اور کہیں کسی مصنف اور کسی شخصیت پر دو تین گھنٹے کا سیمینار ہو جاتا، فکر و شعور کی آبیاری، علمی ذوق کی پرورش، مطالعہ اور لوح و قلم کی تربیت کے لحاظ سے عہدِ شبلی اگر ندوہ کا دورِ اوّل اور عہدِ زرّیں کہا جاتا ہے تو عہد لاری کو عہدِ ثانی اور عہد اخیر کہنا بے جا نہیں، یوں بھی مولانا لاری کو شبلیؒ اور عہد شبلی کے ندوہ اور شبلی کے تخیلات سے جو انسیت و نسبت تھی، اس کا اندازہ کتاب میں شامل مولانا کے مضمون ’’مولانا شبلی اور ندوہ کا متخیلہ‘‘ سے بخوبی کیا جا سکتا ہے، اور پھر یہ پوری کتاب، اس میں موجود تفصیلات اور اس کے مضامین و مقالات لکھنے والے سب اس کی شہادت کے لیے کافی ہیں۔
اس میں کیا شک کہ یہ کتاب ایک دستاویزی حیثیت اختیار کر گئی ہے، پروف کی متعدد غلطیاں نظر آئیں، جو یقیناً آئندہ ایڈیشن میں درست ہو جائیں گی، موجودہ ترتیب کے بجائے اگر ممدوح کی حیات و خدمات کے مختلف گوشوں میں کتاب کی تقسیم ہوتی تو زیادہ بہتر تھا، لیکن شاید یہ اس وجہ سے ممکن نہ ہو سکا ہو کہ ایک تو بیشتر مضامین تأثراتی نوعیت کے ہیں اور دوسرے یہ کہ مہتمم صاحب کی انتظامی صلاحیت اور عہدِ انتظام ہی اس کتاب کا مرکزی اور اصل موضوع بن گیا ہے، بالکل اسی طرح جیسے یہ پہلو ان کی شخصیت کے دیگر پہلوؤں پر غالب آ گیا، یہ کتاب یقیناً تاریخِ ندوہ میں ایک اضافہ ہے، ندوہ کی تاریخ، شخصیات اور مختلف ناحیوں سے کام کرنے والوں کے لیے مرجع ہے، حکیم جاوید احمد لاری اور ڈاکٹر جمشید احمد ندوی دونوں حضرات ندوی برادری کے بے پناہ شکریہ کے مستحق ہیں کہ انھوں نے بڑا کام کیا، بلکہ کفارہ اور فرض کفایہ ادا کیا۔ فجزاھم اللہ احسن الجزاء

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: