از: ڈاکٹر محمد اکرم ندوی
آکسفورڈ
_____________
مولانا فضل الرحمان محمود صاحب مدظله لاہور كے ايكـ جيد عالم ہيں، اور وسيع المطالعه، حديث شريف سے خاص اشتغال ہے، وقتا فوقتا ان كے استفسارات موصول ہوتے رہتے ہيں، كل انہوں نے درج ذيل مكتوب لكها:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
شیخ محترم!
مولانا شبلی کے اس قول سے متعلق ایک سوال ہے: "دنیا کی مختلف قوموں کے لباس میں اختلاف کے آثار جتنے مٹتے جائیں گے، تمدن کو اتنی ہی ترقی ملے گی”۔ (سفرنامہ مصروروم وشام، شبلی نعمانی: ص: ۴۳)۔
مولانا شبلی کے مندرجہ بالا قول کا کیا مطلب ہے؟ یعنی لباس میں اختلاف کے آثار مٹنے سے تمدن کو کیسے ترقی ملے گی؟
جواب:
اس سے خوشى ہوئى كه آپ نے درسيات اور نصابى كتابوں كے محدود دائره سے نكل كر علوم وفنون كى وسعتوں كو سميٹنا شروع كرديا ہے، شبلى كى كتابيں علماء كے لئے مختلف حيثيتوں سے بيحد نافع ہيں، تاريخ نويسى، سيرت نگارى، كلام، تحقيق وتنقيد، اور زبان، شعر وادب وغيره موضوعات پر شبلى يگانه روزگار وبے مثال ہيں، عصر حاضر ميں جماعت علماء پر ايكـ بڑا اشكال يه كيا جاتا رہا ہے كه وه ادبى زبان ميں اظہار خيال سے عاجز ہوتے ہيں، شبلى كى تحريريں علم وادب كى جامع ہيں، ان كى ہر كتاب ادب كے اعلى معيار پر ہوتى ہے، مفكر اسلام حضرت مولانا سيد ابو الحسن على ندوى رقمطراز ہيں:
"عالموں اور محققوں ميں مولانا شبلى كى خصوصيت يه ہے كه "شعر العجم” اور "موازنۂ انيس ودبير” جيسى خالص ادبى وتنقيدى تصنيف ہو، يا "الفاروق” و”سيرة النبى” جيسا ثقه، پر شوكت وبا عظمت موضوع، يا "الكلام” و”علم الكلام” جيسا سنگين وخشكـ مضمون، ہر جگه ان كى تحرير كى شگفتگى ورعنائى قائم رہتى ہے، اور ادب وزبان كا دامن ہاتهـ سے چهوٹنے نہيں پاتا” (پرانے چراغ جلد دوم ص 131)۔
آمدم بر سر مطلب، آپ كے اشكال كے متعلق عرض ہے:
شبلى كى مندرجه بالا عبارت: "دنیا کی مختلف قوموں کے لباس میں اختلاف کے آثار” ميں "لباس” كا لفظ مقحم ہے، ميں نے سفرنامه كے جتنے نسخے ديكهے ان سب ميں عبارت يوں ہے: "دنیا کی مختلف قوموں میں اختلاف کے آثار جتنے مٹتے جائیں گے، تمدن کو اتنی ہی ترقی ملے گی”۔
جو نسخه آپ كے پاس ہے اس ميں غلطى سے "لباس” كا لفظ بڑهاديا گيا ہے۔
شبلى نے تركوں كا لباس ذكر كرنے كے بعد تمدن كے متعلق يه ايكـ عام تبصره كيا ہے، تمدن كى تشريح ميں شديد اختلاف پايا جاتا ہے، بظاہر شبلى نے تمدن كا لفظ معاشرتى اور اجتماعى ترقى كے مفہوم ميں استعمال كيا ہے، جس مين ثقافت، فكر اور دين شامل نہيں، ايكـ ملكـ ميں بسنے والى قوميں جس قدر ايكـ دوسرے سے قريب ہوں گى، اسى قدر ان كى باہمى كشمكش كم ہوگى، اور معاشرتى واجتماعى ترقى كى راہيں ہموار ہوں گى۔
يه تبصره بالكل درست ہے، اور اجتماعيات كے ماہرين اس كى وكالت كرتے رہتے ہيں، شبلى نے اسى طرف اشاره كيا ہے، مگر شبلى نے اسے جوں كا توں قبول نہيں كيا ہے، ان كى عبارت كا سابقه ولاحقه ظاہر كرتا ہے كه وه اس تمدن كے حق ميں نہيں ہيں۔
تركوں اور دوسرى قوموں كے لباس ميں مماثلت بيان كرنے كے بعد شبلى نے لكها ہے: "يه طريقه ايكـ اعتبار سے تو اچها ہے، كيونكه دنیا کی مختلف قوموں میں اختلاف کے آثار جتنے مٹتے جائیں گے، تمدن کو اتنی ہی ترقی ملے گی”۔
شبلى نے اس مماثلت كو ايكـ اعتبار سے اچها قرار ديا ہے، اور اس "اعتبار” سے ماہرين عمرانيات كا نقطۂ نظر مراد ہے۔
شبلى تركوں اور دوسرى قوموں كى اس مماثلت كے مداح نہيں ہيں، چنانچه اس تبصره كے بعد فورا لكهتے ہيں:
"ليكن سوشل ضرورتوں ميں اس سے سخت ہرج ہوتا ہے، مجھ کو اس كى وجه سے اكثر دشوارياں پيش آئيں، اور ہميشه خيال آتا تها كه حضرت عمر رضي الله عنه نے اگر عيسائيوں كو قومى لباس كى پابندى كا حكم ديا تو بہت بجا كيا، تعجب ہے كه يہاں مذہبى گروه يعنى علماء اور مدرسين بهى يورپ كے اثر سے نہيں بچ سكے”۔
اس كے بعد شبلى نے علماء كے لباس كى تصوير كشى كى ہے۔
حاصل يه ہے كه شبلى نے ماہرين عمرانيات كے نقطۂ نظر سے وه تبصره كيا ہے جس پر آپ كو اشكال ہے، ورنه وه لباس وغيره ميں دوسرى قوموں سے مماثلت باعث ہرج سمجهتے ہيں، اور حضرت عمر رضي الله عنه نے ذميوں كو جس طرح اپنے قومى لباس كا پابند بنايا تها اسے مستحسن قرار ديا ہے۔
هذا ما عندي، والله أعلم بالصواب۔