۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام
۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام

۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس، اور تعطیلِ عام از ـ محمود احمد خاں دریابادی _________________ ہندوستان جمہوری ملک ہے، یہاں مختلف مذاہب کے لوگ بستے ہیں، ہر مذہب کے بڑے تہواروں اور مذہب کے سربراہوں کے یوم پیدائش پر مرکز اور ریاستوں میں عمومی تعطیل ہوتی ہے ـ ۱۲ ربیع الاول کو چونکہ پیغمبر […]

فارغینِ جامعۃ الفلاح کی ادبی خدمات کا اشاریہ

تبصرہ نگار: نایاب حسن

________________

ہندوستان میں دیوبند، سہارنپور، لکھنؤ، بنارس اور اعظم گڑھ (بلریاگنج، سراے میر، مبارکپور) وغیرہ میں قائم مرکزی دینی تعلیمی ادارے اپنی غیر معمولی  خدمات کی طویل تاریخ رکھتے ہیں اور ان میں سے ہرایک کے کچھ امتیازات  و اختصاصات بھی ہیں۔ جامعۃ الفلاح بلریاگنج اس اعتبار سے انفرادی شان کا حامل ہے کہ یہ  اپنے فضلا کو زمانہ شناسی و عصری آگہی کی تربیت بھی دیتا ہے،ان میں ادبی ذوق و شعور کی تخم ریزی بھی کرتا ہے،خدمتِ دین کے ایک خاص  مزاج و منہاج سے بھی لیس کرتا ہے،مشرقی علوم کے ساتھ ضروری عصری علوم کی تحصیل کی بھی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور مستقبل بینی و مستقبل سازی کی صلاحیتوں سے بھی ہم کنار کرنے کی کوشش کرتا ہے؛یہی وجہ ہے کہ یہ ادارہ رجال سازی  و برومندی کی بڑی خوش آگیں تاریخ رکھتا ہے اور روز بہ روز اس کی سرخ روئی میں اضافہ ہورہا ہے۔

اپنے اپنے ذوق و دلچسپی، شعبۂ اختصاص اور مواقع کی دستیابی کے اعتبار سے دیگر اداروں کی طرح فضلاے الفلاح کی خدمات کی بھی مختلف جہتیں ہیں،جن میں سے ایک اہم جہت ان کی ادبی جولانیوں کی ہے۔ بہت سے فلاحی فضلا نے مدرَسی تعلیم سے فراغت کے بعد عصری اداروں سے زبان و ادب کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی،مختلف ادبی، علمی، تحقیقی و تنقیدی موضوعات پر ریسرچ کیا اور اپنے نتائجِ تحقیق سے اردو کے تحقیقی و تنقیدی سرمایے میں اضافہ کیا ہے۔ان کے انھی کارناموں کو  نمایاں کرنے اور ان کا ایک اجمالی منظرنامہ پیش کرنے کی سعیِ مشکور  ڈاکٹر عمیر منظر اور ڈاکٹر امتیاز وحید نے حال ہی میں اشاعت پذیر اپنی کتاب’اشاریہ فارغینِ جامعۃ الفلاح کی ادبی خدمات‘ کے ذریعے کی ہے۔ دونوں حضرات  خود بھی الفلاح کے خوشہ چیں رہے،پھر عصری جامعات سے علمی تشنگی بجھائی اور اب لکھنؤ اور کولکاتا میں اردو زبان و ادب کی تدریس میں سرگرم ہیں۔عمیر منظر صاحب  تدریس کے ساتھ ساتھ تنقیدیں لکھتے ہیں،شاعری کرتے ہیں،تحقیقی شغف بھی قابلِ قدر ہے،منچندا بانی پر  ان کا کام اہمیت کا حامل ہے،لکھنؤ کے فراموش کردہ فکشن نگار خان محبوب طرزی پر 2020 میں ان کی کتاب آئی تھی،جسے بڑی پذیرائی حاصل ہوئی، ’شبلی، مکاتیبِ شبلی اور ندوۃ العلما‘ بھی ان کی بڑی دلچسپ کاوش ہے،جس میں انھوں نے  شبلی کے ان خطوط کو جمع کیا ہے،جن میں ندوے سے متعلق معاملات و موضوعات پر انھوں نے گفتگو کی ہے،ان کے علاوہ بھی ان کی متعدد کتابیں ہیں،تنقیدی مضامین کا ایک مجموعہ بھی ’باتیں سخن کی‘نام سے منظر عام پر آچکا ہے۔امتیاز وحید صاحب کا قلم بھی خاصا پختہ ہے، پیروڈی پر ان کا کام قابلِ توجہ ہے۔ کل ہی عالمی کتاب میلے سے میں نے ان کی مدونہ و مرتبہ کتاب’ہیون سانگ دہلی میں‘ خریدی ہے، جو اردو کے معروف طنزو مزاح نگار فکر تونسوی کی ان  تحریروں  پر مشتمل ہے،جو ستمبر1979سے ستمبر 1980 کے دوران ماہنامہ’بیسویں صدی‘ میں شائع ہوئی تھیں۔امتیاز وحید نے بڑی کاوش سے انھیں جمع کیا،ایڈٹ کیا اور مغربی بنگال اردو اکیڈمی سے شائع کروایا ہے۔فکر تونسوی کی دوسری تحریروں کے مانند یہ بھی نہایت چٹخارے دار اور خاصے کی چیز ہے۔

زیر تبصرہ کتاب کی ایک تصویر

زیر نظر کتاب عرضِ ناشر، پیغامات اور سپاس نامہ و پیش لفظ کے بعد جامعۃ الفلاح کے تعارف سے شروع ہوتی ہے،جس میں بالاختصار مؤلفین نے اس ادارے کی تاریخ،خدمات،اس کے شعبوں، نصاب و نظامِ تعلیم،اس کے شعبہ جات اور نمایاں اساتذہ کا ذکر کیا ہے۔اس کے بعد ان فارغینِ جامعہ کا اجمالی تعارف پیش کیا گیا ہے،جنھوں نے وہاں سے فراغت کے بعد اردو زبان و ادب،تراجم اور صحافت وغیرہ کے شعبوں میں خدمات انجام دی ہیں ،ان کی تعداد ۱۴۰ سے زائد ہے ۔اس کے بعد ’فلاحی برادران بحیثیت نگراں(ایم فل ،پی ایچ ڈی)‘ کے تحت انھوں نے مختلف ہندوستانی جامعات کے شعبۂ اردو میں برسرِ کار فلاحی فضلا کی نگرانی میں ایم فل اور پی ایچ ڈی سطح کے تحقیقی کاموں، تحقیق کرنے والوں کی تفصیلات مہیا کی ہیں۔اسی طرح جن فلاحی فضلا نے مختلف یونیورسٹیز میں  تحقیقی  کام کیے ہیں،ان کے نام،کام، موضوعات،ان کے نگراں اور تحقیق کی تکمیل کس سال ہوئی؛یہ ساری معلومات فراہم کی ہیں۔اس کے بعد ’پی ایچ ڈی مقالات کی تلخیص‘ کے عنوان سے مرتبین نے فلاحی فضلا کے ذریعے لکھے گئے پی ایچ ڈی کے مقالوں کی تلخیصیں پیش کی ہیں،یہ حصہ بڑی اہمیت کا حامل ہے،کہ اس کے مطالعے سے ۴۵تحقیقی و تنقیدی موضوعات پر لکھے گئے مقالوں کے مشمولات،ان کے امتیازی نکات  اور ان میں برتے گئے طریق ہاے تحقیق و تنقید سے واقفیت حاصل ہوتی ہے۔خاص طورپر ریسرچ کے طلبہ و طالبات کے لیے یہ حصہ قابلِ مطالعہ و استفادہ ہے۔اس کے بعد  ’ادارتی خدمات‘ کے تحت پچاس سے زائد اُن فلاحی فضلا  کا ذکر ہے، جنھوں نے مختلف رسائل کی ادارت کی یا اب بھی ان  کے ادارۂ تحریر میں شامل ہیں،ان  کے نام اور زمانۂ ادارت  کی بھی نشان دہی کی گئی ہے۔

اس کے علاوہ بچوں کا ادب، تاریخ، تحقیق و تنقید،تدوین و ترتیب، تراجم، جغرافیہ،سفرنامہ، خودنوشت، سیرت و سوانح،شعر و سخن،صحافت،فرہنگ سازی، فکشن، لائبریری سائنس،معاشیات، مونوگراف، نصابی کتب جیسے عنوانات کے تحت فلاحی فضلا و اسکالرز کے ذریعے لکھی گئی کتابوں کے نام اور ان کی اشاعت کی تفصیلات بھی دی گئی ہیں۔

صاحب کتاب: ڈاکٹر عمیر منظر

اس طرح محض 240 صفحات پر مشتمل یہ کتاب جامعۃ الفلاح کے فضلا کی اردو زبان و ادب سے متعلق خدمات کی اجمالی،مگر خاصی ہمہ گیر تصویر پیش کرتی ہے اور اس کتاب کے مطالعے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جامعۃ الفلاح کے فضلا نے نہ صرف ملک کی درجنوں یونیورسٹیز سے اردو زبان و ادب کے مختلف گوشوں پر تحقیقیں کی ہیں؛بلکہ اس وقت ان کی ایک بڑی تعداد ہندوستان بھر کی مختلف دانش گاہوں میں درس و تدریس کی خدمت بھی انجام دے رہی ہے اور انھوں نے اردو کے تصنیفی و تالیفی سرمایے میں بھی بیش بہا اضافے کیے ہیں۔یہ کتاب فلاحی فضلا کے لیے تو قابلِ قدر ہے ہی،مگر عام پڑھنے لکھنے والے،تحقیق و تنقید سے دلچسپی رکھنے والے یا تحقیقی عمل میں مصروف طلبہ و طالبات کے لیے بھی اس کتاب کا مطالعہ نہایت نفع بخش اور معلومات افزا ثابت ہوگا۔

صاحب کتاب: امتیاز وحید

یہ کتاب خصوصاً دوسرے دینی تعلیمی اداروں کے لیے مشعلِ راہ اور سمت نما کا بھی کام کر سکتی ہے،کہ ان کے فضلا بھی ہمت کریں اور اپنی مادرِ علمی کی خدمات کی مختلف جہتوں کو اِس سائنٹفک،مختصر اور جامع انداز میں منظرِ عام پر لانے کی سعی کریں، البتہ اس سلسلے میں خود ان اداروں کے اربابِ بست و کشاد کی وہ دلچسپی و آمادگی اولین شرط ہوگی ، جس کا مظاہرہ جامغۃ الفلاح کے اربابِ اہتمام نے کیا ہے۔یہ حقیقت ہے کہ اس قسم کے سنجیدہ  ومفید علمی و تحقیقی  کام کرنے والوں کی کمی نہیں،مگر اپنے فضلا کی خدمات کو اجاگر کرنے،ان کی کامرانیوں کو فی الحقیقت ادارے کی کامرانی و فتح مندی سمجھ کر خوش ہونے اور ان کی علمی،قلمی و تحقیقی فتوحات کو  آشکارا کرنے میں اُس سرپرستانہ  ، مشفقانہ و مخلصانہ تعاون  اور ذہن و دل کی کشاد کا مظاہرہ کرنے والوں کی کمی ضرور ہے،جس سے جامعۃ الفلاح کے اکابر بہرہ ور ہیں؛چنانچہ اس کتاب کی تالیف و تشکیل کے مختلف مراحل میں عملی تعاون کے علاوہ اپنے فرزندوں کی اس وقیع کاوش پر جامعہ کے ناظم مولانا محمد طاہر مدنی اور جامعہ کے شعبۂ تعلیم و تربیت کے سربراہ ڈاکٹر جاوید سلطان فلاحی نے مؤلفین کو پیغامات کی شکل میں گراں قدر تشجیعی کلمات سے بھی نوازا ہے، اس کتاب کی دیدہ زیب اشاعت بھی جامعۃ الفلاح کے ہی تحقیقی و اشاعتی شعبے’ادارۂ علمیہ‘ کے زیر اہتمام عمل میں آئی ہے ،اس کے سکریٹری مولانا  انیس احمد مدنی کی ’عرضِ ناشر‘ کے عنوان سے شامل تحریر بھی کتاب کے مؤلفین کے حوصلوں کو مہمیز کرنے والی اور ان کی اس غیر معمولی پیش کش کی تحسین و ستایش سے مملو ہے۔  کتاب کی قیمت محض 200 روپے ہے اور ادارۂ علمیہ جامعۃ الفلاح بلریاگنج کے علاوہ اس کے مؤلفین ڈاکٹر امتیاز وحید (8583870891) اور ڈاکٹر عمیر منظر (9818191340) سے رابطہ کرکے بھی حاصل کی جاسکتی ہے۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: