✍ محمد شہادت حسین فیضی
____________
انجام سے پہلے ہی آغاز بدل ڈالو
دشمن کے ارادوں کو ظاہر ہے اگر کرنا
تم کھیل وہی کھیلو انداز بدل ڈالو
علماء کرام و دانشوران قوم و ملت اس پر غور کریں، کمنٹ کریں، پھر قبول کریں یا مسترد کریں۔
ہندوستان میں چار طرح کے مدارس ہیں اور ہر ایک کے بارے میں کچھ ناقص مشورے پیش ہیں۔
(١) اعلی درجے کے مدارس:
وہ بڑے مدارس جہاں مولوی، عالم، فاضل، تخصص و تحقیق کی تعلیم ہوتی ہے۔
(الف) ان بڑے مدرسوں میں صرف عربی اور انگلش میڈیم سے خالص قرآن و سنت کی اعلی تعلیم کے لیے بہتر سے بہتر انتظام کیا جائے۔ ایسے اساتذہ رکھے جائیں جو دینیات عربی میں اور عصریات انگلش میں پڑھا سکیں۔
(ب) ان اداروں میں تعلیم کا دورانیہ گیارہ (11) سال کا ہو:
چار سال عالم (BA)
دو سال فاضل (MA)
دو سال کامل (M.fil)
(اس میں ماسٹر تھیسیس/ رسالہ لکھواکر سند تفویض کی جائے)
تین سال تحقیق و تخصص (Ph.D)
(اس میں ڈاکٹریٹ تھیسیس/ رسالہ لکھوا کر سند تفویض کی جائے)
(ج) ان اداروں میں دینیات کے ساتھ انٹرمیڈیٹ پاس امیدواروں کا داخلہ ٹیسٹ کے بعد ہی لیا جائے۔
(د) ان اداروں کے اسناد کو اگر مرکزی حکومت اور ریاستی حکومت تسلیم کرتی ہیں تو ٹھیک ہے ورنہ مولانا آزاد یونیورسٹی یا مولانا مظہر الحق عربی فارسی یونیورسٹی بہار، یا جامعہ اور ہمدرد وغیرہ سے پرائیویٹ یا کسی اور ملحقہ مدارس سے امتحان دلایا جائے۔
اگر ایسا ہو سکا تو ان شاءاللہ علمائے کرام بحیثیت علماء، معزز و مکرم ہوں گے۔ اور مدارس دینی مراکز کے ساتھ عصری علمی مراکز بھی کہلائیں گے۔
(٢) اوسط درجے کے مدارس:
(الف) ان مدارس میں حفظ و قرأت یا ابتدائی عربی وغیرہ کے ساتھ لازمی طور پر دینیات کے فرض علوم کی تعلیم دی جائے۔ ساتھ ہی میٹرک یا انٹرمیڈیٹ تک کی تعلیم لازمی طور پر فراہم کی جائے۔ اور ان تمام بچوں کو کسی بھی تعلیمی بورڈ سے (جہاں جیسی سہولت ہو) میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کاامتحان دلایا جائے۔
انٹرمیڈیٹ میں کامیابی کے بعد یہ بچے اپنے ذوق کے مطابق بڑے مدارس کا رخ کریں۔ یا یونیورسٹی کا یا پھر کوئی ہنر کی تعلیم (Professional Education) حاصل کریں.
(٣) چھوٹے مدارس:
ان مدارس میں حفظ و قرأت، دینیات کے ساتھ کم از کم اٹھویں کلاس تک کی تعلیم لازمی طور پر فراہم کی جائے۔ اور مقامی تعلیمی محکمہ سے رابطہ کر کے اٹھویں کلاس تک کے لیے یو ڈائس کوڈ حاصل کر لیا جائے۔
(٤) معذرت کے ساتھ وہ نام نہاد مدارس جو قرآن خوانی، شہرت اور شکم پروری کے لیے بیس پچیس بیرونی بچے رکھ کر چلائے جا رہے ہیں۔ ان کے لیے بھی ہمیں سنجیدہ ہوکر سوچنے اور انہیں فعال بنانے کی تحریک چلانے کی ضرورت ہے۔ مثلاً
(الف) ان مدارس کو ترقی دے کر کم از کم چھوٹے مدارس کی خوبیوں کے ساتھ اٹھویں کلاس تک چلایا جائے.
(ب) انہیں جز وقتی مکتب میں تبدیل کر دیا جائے اور عمارتوں کو دوسرے دینی مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے۔
(ج) اس طرح کے مدارس جس شہر، قصبہ یا علاقے میں ہیں، وہاں کے مقامی علمائے کرام و دانشوران قوم و ملت ایسے اداروں کی خیر خواہی کے جذبہ سے خبرگیری کریں اور بہتر نظم و نسق پیدا کرنے کی کوشش کریں۔
حاصل کلام:- بھارت سرکار کی نئی تعلیمی پالیسی کی صد فیصد نفاذ سے پہلے یہ تدبیریں کر لیے جائیں تو بہتر ہے۔ ورنہ ہمارا ہی نقصان بھی ہوگا اور ہم ہی بدنام بھی ہوں گے
۔__________
نوٹ:- یہ ناقص اور نئی ذاتی تجویز ہیں۔ اس میں رد و بدل ترمیم و اضافہ کی مکمل گنجائش ہے۔
خوب تر