شکیل رشید ( ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز)
______________
یتی نرسمہانند کو کون ہے جو نہیں جانتا ! سب ہی جانتے ہیں کہ یہ ایک ایسا ہندو دھرم گرو ہے جو اپنے دل میں مسلمانوں کے لیے نفرت لیے پھرتا ہے ۔ کہنے کو تو یتی نرسمہانند مسلمانوں سے نہیں ، اسلام مذہب سے نفرت کا اظہار کرتا ہے ، کہ اس کا کہنا ہے اسلام کو وہ دنیا بھر سے ختم کردے گا ! لیکن کیا ہی بےتکا بیان ہے ، اسلام سے نفرت کا مطلب ہی مسلمانوں سے نفرت ہے ! خیر یہ یتی نرسمہا نند کا اپنا فلسفہ ہے ، وہ اِس فلسفے کو لیے گھومتا رہے ، اسلام نہ ہی کسی شخص کی کوشش سے ، جبکہ بے شمار لوگوں نے یہ کوشش کی ہے ، ختم ہوا ہے اور نہ ہی ختم ہوگا ۔ یتی نرسمہا نند کا ذکر اس لیے ہے کہ وہ دارلعلوم دیوبند جا رہا تھا لیکن میرٹھ میں پولیس نے اسے روک لیا ، اور تھانے لے جاکر اس کا سواگت کیا ، مٹھائی کھلائی اور تین دنوں کے لیے اسے ڈاسنہ کے مندر میں نظربند کر دیا ! پولیس کے ذریعے سواگت اور مٹھائی کھلانے کا مطلب یہ ہے کہ خاکی وردی پوشوں نے اپنے دھرم گرو کے احترام میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ، حراست میں تو لیا لیکن عزت اور احترام کے ساتھ ۔ کیا ایک ایسے دھرم گرو کو ، جس پر مسلمانوں کے قتلِ عام کے لیے لوگوں کو اُکسانے کا الزام ہو ، جو دھرم سبھاؤں میں کھلے عام شرانگیزی کرتا پھرتا ہو اور ہندو نوجوانوں کو تلقین کرتا ہو کہ وہ بھنڈران والا اور پربھاکرن بن جائیں ، پولیس تھانے لے جا کر مٹھائی کھلانا لائقِ تحسین کام کہا جا سکتا ہے ؟ اور اہم سوال یہ کہ کیا یتی نرسمہانند دارالعلوم دیوبند ہندوؤں اور مسلمانوں کے بیچ بھائی چارہ کے قیام کی کوشش کے لیے جا رہا تھا کہ اس کو مٹھائی کھلانا ضروری تھا ؟ یتی کا دارالعلوم دیوبند جانے کا مقصد شرانگیزی پھیلانا تھا ۔ یتی غزوۂ ہند کے فتوے پر بحث کرنے اور اسی بہانے سارے اترپردیش میں کشیدگی پھیلانے کے لیے جا رہا تھا ۔ گزشتہ دنوں غزوۂ ہند سے متعلق ایک حدیث شریف پر دارالعلوم کا ایک کئی سال پُرانا فتویٰ سوشل میڈیا پر گردش میں تھا ، جس کی بنیاد پر ہندتوادی تنظیمیں دارالعلوم کو نشانہ بنائے ہوئے تھیں ، یتی نرسمہانند نشانہ بنانے میں سب سے آگے تھا ۔ یتی نے اترپردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کو یہ انتباہ دیا تھا کہ ایک مہینے میں دارالعلوم پر بلڈوزر چلایا جائے بصورت دیگر ہندو خود جاکر دارالعلوم کو منہدم کر دیں گے ۔ یہ ایک انتہائی زہریلا بیان تھا ، یہ حد سے بڑھی ہوئی شرانگیزی تھی ۔ دارالعلوم دیوبند اس شرانگیزی پر خاموش رہا ، اس کے ذمے داران نے چائلڈ کمیشن کے نوٹس اور تفتیش کا سامنا کیا ۔ سہارنپور کی پولیس نے باقاعدہ تفتیش کے بعد ضلع مجسٹریٹ کو اپنی رپورٹ پیش کر دی ہے ، اور یہ بات سامنے آئی ہے کہ رپورٹ میں دارالعلوم دیوبند کے خلاف کسی بھی طرح کی کارروائی کے جواز یا مقدمہ قائم کرنے کی بنیاد کے نہ ہونے کی بات کی گئی ہے ۔ مطلب یہ کہ غزوۂ ہند سے متعلق فتویٰ میں ایسی کوئی بات نہیں پائی گئی ہے جس کی بنیاد پر کارروائی ممکن ہو سکتی ہے ۔ اسے کہتے ہیں ’ کلین چِٹ ‘۔ سوال یہ ہے کہ اعلیٰ سرکاری اہلکاروں کی طرف سے دارالعلوم دیوبند کو ’ کلین چِٹ ‘ ملنے کے بعد یتی نرسمہا نند نے شرانگیزی کرنے کی ضرورت کیوں محسوس کی ؟ اس سوال کا بس ایک جواب ہے ؛ لوک سبھا الیکشن ۔ یہ سارا کھڑاگ الیکشن کے مدنظر ہے ، یتی ہندو مسلم تفرقے کو مزید ہوا دے کر بی جے پی کے لیے ہندو ووٹوں کو متحد کرنے کے لیے کوشاں ہے ۔ ٹھیک ہے کوشاں رہے ، بس مسلمان یہ کریں کہ صبر سے کام لیں ، ایسے شرانگیزوں کی باتوں کا جواب نہ دینا ہی ان کو ٹھکانے لگانے کا بہتر طریقہ ہے ۔ انہیں نظرانداز کریں ان کی ہوا خود نکل جائے گی ۔ مزید ایک سوال ؛ کیا ہندوتوادی دھرم گروؤں کو واقعی نفرت پھیلانے کی چھوٹ دے دی گئی ہے ؟ یہ سوال اس لیے کہ ان کی شرانگیزی کو پولیس اور انتظامیہ نطرانداز کر دیتی ہے لیکن اگر مولانا توقیر رضا خان اور مفتی سلمان ازہری وغیرہ کوئی جائز بات بھی کہہ دیں تو انہیں نوٹس تھما دی جاتی ہے یا گرفتار کر لیا جاتا ہے ، ایسا کیوں ہے ؟ کیا انتظامیہ اور پولیس جواب دے گی ؟