خلافتِ عثمانیہ: تاسیس،عروج وزوال اور خاتمہ کی مختصر تاریخ
✍️ مفتی شکیل منصور القاسمی
______________
اک خراسانی الاصل ترک قبیلہ "ترکان غز ” سلیمان خان کی سرداری میں ہجرت کرکے ” آرمینا "میں آباد ہوا،سلجوقی سلطنت کے حکمراں علاء الدین کیقباد پر اس کے پایہ تخت "قونیہ” میں سن 621 ہجری میں چنگیزخان نے فوج کشی کی، سلیمان خان نے اپنے جانباز بیٹے "ارطغرل ” کی سپہ سالاری میں چار سو چوالیس 444 جنگجووں کو مدد کے لئے بھیجا، ارطغرل نے تاتاریوں کو عبرتناک شکست دی، اس پہ خوش ہوکے سلجوقی سلطان نے ارطغرل کو انتہائی زرخیز علاقہ ” سغوت ” جاگیر میں دیا، علاء الدین کیقباد کی وفات کے بعد اس کے بیٹے غیاث الدین کیخرو سلجوقی سن 634ہجری میں تخت نشیں ہوا۔ سن 687ہجری میں ارطغرل کے گھر ایک لڑکا تولد ہوا جسکا نام عثمان خان رکھا گیا۔ پھر سلطان غیاث الدین نے اپنی بیٹی کی شادی بھی عثمان خان سے کردی۔
تاتاریوں کے حملے میں غیاث الدین جب مقتول ہوگیا تو عثمان خان سن 1299ء میں قونیہ پہ مسند نشیں ہوگیا، اور یہیں سے سلطنت عثمانیہ کے نام سے ایک خود مختار سلطنت کی بنیاد پڑ گئی، اور اسرائیل بن سلجوق کی اولاد کی جو سلطنت 470 ہجری میں قائم کی گئی تھی اس کا چراغ گل ہوگیا ۔خلافتِ راشدہ، خلافت امویّہ اور خلافتِ عباسیہ کے بعداسلامی تاریخ کی چوتھی بڑی خلافت عثمانیہ تھی،جوتقریبا۲کروڑ مربع کلومیٹر پر محیط تھی، سلطنت عثمانیہ سن 1299ء سے 1922ء تک قائم رہنے والی ایک مسلم سلطنت تھی جس کے حکمران ترک تھے۔ اپنے عروج کے زمانے میں (16 ویں – 17 ویں صدی) یہ سلطنت تین براعظموں پر پھیلی ہوئی تھی اور جنوب مشرقی یورپ، مشرق وسطٰی اور شمالی افریقہ کا بیشتر حصہ اس کے زیر نگیں تھا۔ اس عظیم سلطنت کی سرحدیں مغرب میں آبنائے جبرالٹر، مشرق میں بحیرۂ قزوین اور خلیج فارس اور شمال میں آسٹریا کی سرحدوں، سلوواکیہ اور کریمیا (موجودہ یوکرین) سے جنوب میں سوڈان، صومالیہ اور یمن تک پھیلی ہوئی تھی۔ مالدووا، ٹرانسلوانیا اور ولاچیا کے باجگذار علاقوں کے علاوہ اس کے 29 صوبے تھے۔ زیر تبصرہ ( ’’تاریخ سلطنت عثمانیہ ‘‘ ڈاکٹر محمد عزیر ،مطبوعہ دار المصنفین شبلی اکیڈمی ، اعظم گڑھ)
سلاطین عثمانی کی مجموعی تعداد سینتیس 37 ہے۔ عثمانی سلطنت کے تیسرے سلطان‘ مراد اوّل نے یورپ میں فتوحات کے جھنڈے گاڑے،اورساتویں عثمانی سلطان، محمد فاتح نے قسطنطنیہ (شہرِ قیصر) فتح کر کے گیارہ سو سال سے قائم بازنطینی سلطنت کا خاتمہ کر کے حدیثِ رسول اللہﷺ میں فتح قسطنطنیہ کے حوالے سے وارد ہونے والی بشارت کا مصداق بنے ۔
سلطنت عثمانیہ کا دائرہ دن بہ دن بڑھتا ہی جارہا تھا، دار السلطنت قسطنطنیہ(استنبول ) تھا، مصر، اردن، عراق، شام، اور حجاز مقدس کے علاوہ اکثر عربی علاقے خلافت عثمانیہ کے زیر نگیں تھے ، فلسطین بھی اسی کی ریاست تھی، شہر بیت المقدس بھی اسی کے شہروں میں تھا ۔ برطانوی استعماروں اور صہیونیوں نے اسرائیلی ریاست کے قیام ،یہودیوں کی آباد کاری اور مسجد اقصی کی جگہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر کے لئے عالمی پلان تیار کیا، سلطنت عثمانیہ باہمی اختلافات ،غیرملکی قرضوں کے غیرمعمولی بوجھ ،مالی بدعنوانیوں اور بے اعتدالیوں کےرواج ،درباری غلام گردشوں اور سازشوں کی وجہ سے اندورنی طور پر کھوکھلا اور مالی طور پر خستہ حال ہوچکی تھی ، صہیونیوں کے وفد سلطان عبد الحمید کے پاس ایک دو نہیں بلکہ مختلف بہانوں سے مختلف اوقات میں تین بار آیا اور فلسطین میں آباد ہونے/تعلیمی ادارے کھولنے اور آخری ملاقات میں دوگنی چوگنی قیمت کے عوض فلسطین کی اراضی خریدنے یا سارا ملکی قرضہ اتارنے کے لئے ملینوں کی رقم کی پیش کش کی لیکن سلطان عبد الحمید جرات ، حمیت ، غیرت اسلامی اور دور اندیشی کے سبب ان کے یہودی آباد کاری جیسے مکروہ عالمی صہیونی عزائم سے واقف تھے اس لئے انہوں نے اس کی اجازت نہ دی،اور ان کے زمانے میں یہودی ایجنڈے کی تکمیل نہ ہوسکیی ، جس کے بعد سے ہی ان کی خلافت کے خلاف سیاسی تحریک کی آبیاری کی جانے لگی ۔اور عوام کو خلافت کے خلاف اکسانے کی سازشیں کی جانے لگیں۔ صہیونیوں نے مختلف عرب گروپوں میں عصبیت ابھارنے کے لئے نجد پہ صدیوں سے حکمرانی کرنے والے آل سعود اور ترکوں کی طرف سے متعین کردہ مکہ کا والی حسین بن علی (شریف مکہ ) کو سلاطین عثمانی سے علیحدگی اور بغاوت پہ اکسایا، شریف مکہ کو ترکوں سے بغاوت کرنے اور اس کی افواج کو حجاز سے نکال باہر کرنے کے عوض حجاز کے امیر المومنین بننے کا خواب دکھایا گیا جبکہ آل سعود کو نجد کے علاوہ دیگر علاقوں پہ حکومت کی لالچ دی گئی تھی، شریف مکہ نے 1817میں خلافت عثمانیہ کے خلاف بغاوت کردی۔ جب دونوں گروپوں کی بغاوت سے عرب دنیا خلافت عثمانیہ کے دائرہ سے باہر ہوگئی تو اب برطانیہ نے 1924 میں سعود کے بیٹے عبد العزیز کو نجد کے ساتھ حجاز کا علاقہ دیدیا اور سعودی حکومت قائم ہوگئی اور شریف مکہ کے ایک بیٹے کو عراق اور دوسرے کو اردن پہ متمکن کردیا گیا۔
خلافت عثمانیہ کے ڈوبتے سورج کے تحفظ کے لئے علماء دیوبند نے ہندوستان میں بے مثال سعی کی ، اس کے لئے ہندوستان میں تحریک چلائی گئی ، نجدیوں کی حکومت کی تائید سلفیوں کی طرف سے ہوئی جبکہ احمد رضا خان بریلوی نے خلافت عثمانیہ کے خلاف شریف مکہ کے فتوی پہ دستخط وتائید کی ۔
یکم نومبر 1922ء کومصطفی کمال پاشا نے استعماری طاقتوں کی ایما پر ترکی کی گرینڈ نیشنل اسمبلی کے ذریعے سلطنتِ عثمانیہ کے خاتمے کی قرارداد منظور کی ، اس وقت کے خلیفہ اسلام، عثمانی سلطان محمد وحید الدین ششم کو اٹلی کی طرف ملک بدر کردیا گیا۔
ان کے قریبی رشتہ دار عبدالمجید آفندی کو آخری وعلامتی عثمانی خلیفہ بنایا ،مگر 3 مارچ 1924ء کو ترکی کی قومی اسمبلی نے ایک مرتبہ پھر اسلام دشمنی اور مغرب پروری کا ثبوت دیتے ہوئے اتاترک کی قیادت میں اسلامی خلافت کے خاتمے کا قانون بھی منظور کرلیا۔ سلطنت عثمانیہ ختم ہوگئی اور یوں دنیائے اسلام رحمت عظیمہ خلافت اسلامیہ سے محروم ہوگئی، اسلامی شریعت کو معطل کر کے سرزمین خلافت کو چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم کر نے کے بعد ہر ایک کو اپنا آئین ، قانون، قومیت اور جھنڈا تھمانے کے ساتھ امت کا شیرازہ بکھیردیا گیا،اسلام کی عادلانہ نظام معیشت کو مغربی سرمایہ دارانہ نظام سے ، اور لادینیت واشتراکیت کو جمہوریت کے حسین لبادہ میں پیش کردیا گیا ۔
سقوط خلافت عثمانیہ کے بعد فلسطین پر برطانیہ نے قبضہ کر کے اپنا گورنر بٹھا دیا جس نے یہودیوں کو اجازت دے دی کہ وہ فلسطین میں آکر جگہ خرید سکتے ہیں اور آباد ہو سکتے ہیں۔ چنانچہ دنیا کے مختلف ممالک سے منظم پروگرام کے تحت یہودیوں نے فلسطین میں آکر آباد ہونا شروع کیا۔ وہ فلسطین میں جگہ خریدتے تھے اور اس کی دوگنی چوگنی قیمت ادا کرتے تھے۔ فلسطینی عوام نے اس لالچ میں جگہیں فروخت کیں اور علماء کرام کے منع کرنے کے با وجود محض دگنی قیمت کی لالچ میں یہودیوں کو فلسطین میں آباد ہونے کا موقع فراہم کیا۔ اس وقت عالم اسلام کے سرکردہ علماء کرام نے فتویٰ صادر کیا کہ چونکہ یہودی فلسطین میں آباد ہو کر اسرائیلی ریاست قائم کرنا چاہتے ہیں اور بیت المقدس پر قبضہ ان کا اصل پروگرام ہے اس لیے یہودیوں کو فلسطین کی زمین فروخت کرنا شرعاً جائز نہیں ہے۔ یہ فتویٰ دیگر بڑے علماء کرام کی طرح حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے بھی جاری کیا جو ان کی کتاب ’’ بوادر النوادر‘‘ میں موجود ہے۔ مگر فلسطینیوں نے اس کی کوئی پروا نہ کی اور دنیا کے مختلف اطراف سے آنے والے یہودی فلسطین میں بہت سی زمینیں خرید کر اپنی بستیاں بنانے اور آباد ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ حتیٰ کہ 1945ء میں اقوام متحدہ نے یہودیوں کو فلسطین کے ایک حصے کا حقدار تسلیم کر کے ان کی ریاست کے حق کو جائز قرار دے دیا اور فلسطین میں اسرائیل اور فلسطین کے نام سے دو الگ الگ ریاستوں کے قیام کی منظوری دے دی جس کے بعد برطانوی گورنر نے اقتدار یہودی حکومت کے حوالہ کر دیا۔(حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب )
خلافت عثمانیہ کے سقوط کے اس سارے سازشی تانے بانے کے پیچھے گریٹر اسرائیل کا قیام ، مسجد اقصی کی جگہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر اور مسلمانوں کے قبلہ اول پہ ناپاک تسلط وقبضہ کار فرما تھا۔ مسلمانوں کے باہمی اختلاف اور گروہی عصبیتوں نے صہیونیوں کو اپنے مقصد میں کامیاب کردیا :
چاک کر دی ترک ناداں نے خلافت کی قبا
سادگی مسلم کی دیکھ ، اوروں کی عیاری بھی دیکھ
صورت آئینہ سب کچھ دیکھ اور خاموش رہ
شورش امروز میں محو سرود دوش رہ