Slide
Slide
Slide

موجودہ حالات مسائل اور حل: قرآن کریم کی روشنی میں

✍ وصی میاں خان رازی

____________________

ہر دور کے اندر قرآن کریم ہی مسلمان کی رہنمائی کرتا ہے، اس کی پریشانیوں، مشکلات کو آئینہ کی طرح اس کے سامنے پیش کرکے اس کا حل اس کو بتاتا ہے، موجودہ حالات کے تناظر میں جب ہم قرآن کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہم کیا پاتے ہیں؟ کیا اس میں آج کے مسائل کا ذکر ہے؟ اور اگر ہے تو ان کے اسباب وحلول کیا ہیں؟۔
سب سے پہلے یہ ذہن نشین کرنا ضروری ہے کہ دنیا کے اندر دارالاسباب ہونے کے سبب اللہ نے اشیاء، اعمال، اور اخلاق کے اندر کچھ خواص واصول رکھ دیے ہیں، یہ اپنا اثر ضرور کرتے ہیں، الا ما شاءاللہ، دنیا کے اندر جو ان اصولوں کو اپناتا ہے، سنت اللہ یہی ہے کہ وہ اس کے فوائد ونقصانات، نتائج وانجام کا سامنا بھی کرتا ہے۔سنت اللہ یہ ہے کہ مسلمان اگر اپنے دین پر عمل نہ کرے، نہ غیروں کو اس کی دعوت دے تو اللہ تعالیٰ غیروں کو اس کے اوپر مسلط کردیتا ہے جو مسلمانوں کے وجود کو ہرگز ہرگز برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے، مسلمانوں کے لئے ان کے درمیان رہنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ اپنے اخلاق، اپنے کردار، دین کے عملی مظاہر کے ساتھ وہ ان کو قالا وحالا اس کی طرف بلاتا رہے، کیونکہ اسی کام کے لئے اسے بھیجا گیا ہے، ایسے میں دو نتیجے ہوسکتے ہیں، یا تو وہ لوگ اس دعوت پر لبیک کہہ کر دین میں داخل ہو جائیں، یا پھر بھی اپنی سرکشی پر مصر رہ کر مسلمانوں کی مخالفت میں لگے رہیں، اورخدائی عذاب کو دعوت دے دیں، جیسا انبیاء کے سلسلے میں ہوا، ظاہر ہے کہ یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ جب مسلمان اپنا فرض تبلیغ ادا کرتے رہیں، اور دین ان کی عملی واخلاقی زندگی میں اس طرح پیوست ہو کہ انہیں زبانی تبلیغ کی ضرورت بھی کم ہی پڑے، لیکن اگر وہ بالکل ہی دین سے بے پروائی برتیں، نہ قول سے نہ عمل سے اس کی دعوت دیں تو اس صورت میں باطل کو ان پر غلبہ ہو جاتا ہے، اور وہ اپنا آخری حربہ وہی اپناتا ہے جو رسولوں کے ساتھ اس نے اپنایا تھا، کہ مسلمان کو اپنے علاقے، اپنے ارد گرد سے دور کرنے کی کوشش کرے، فرق اتنا ہے کہ رسولوں کو بھرپور تبلیغ کے بعد دنیا میں ہی عذاب کی مہر لگ چکے لوگوں نے نکالا، اور ان پر رسولوں کے نکلتے ہی فورا عذاب استیصال آگیا، جبکہ دعوت وتبلیغ سے بے پرواہ، اور عملا دین سے دور مسلمان کو جب نکالنے کی کوشش ہوئی تو نہ تو عذاب استیصال آیا نہ ہی ان مسلمانوں کو وہ شوکت وعظمت نصیب ہوئی جو پہلے انہیں حاصل تھی، ہاں اتنی بات مشترک ہے کہ عذاب کے مہر شدہ باطل پرستوں اور کمزور ایمان والے مسلمانوں کے مقابل باطل دونوں نے ہی اخراج و دیش نکالے کا فرمان تھما دیا،قرآن کریم میں ہمیں پہلی مثال کافی ملتی ہے، جبکہ دوسری مثال کا پتا تاریخ سے چلتا ہے ۔۔
سورۃ نمبر 14 ابراهيم آیت نمبر 13
وَقَالَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا لِرُسُلِهِمۡ لَـنُخۡرِجَنَّكُمۡ مِّنۡ اَرۡضِنَاۤ اَوۡ لَـتَعُوۡدُنَّ فِىۡ مِلَّتِنَا‌ ؕ فَاَوۡحٰۤى اِلَيۡهِمۡ رَبُّهُمۡ لَــنُهۡلِكَنَّ الظّٰلِمِيۡنَۙ
(آخر کار منکرین نے اپنے رسولوں سے کہہ دیا کہ “یا تو تمہیں ہماری ملت میں واپس آنا ہوگا ورنہ ہم تمہیں اپنے ملک سے نکال دیں گے” تب اُن کے رب نے اُن پر وحی بھیجی کہ “ہم اِن ظالموں کو ہلا ک کر دیں گے)
اس کے علاوہ حضرت لوط، حضرت شعیب، حضرت ابراہیم، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر خصوصیت کے ساتھ قرآن نے کیا کہ ان کواپنے گھروں، علاقوں،کو چھوڑ کر نکلنا پڑا۔

حضرت شعیب علیہ السلام کا ذکر
قَالَ الۡمَلَاُ الَّذِيۡنَ اسۡتَكۡبَرُوۡا مِنۡ قَوۡمِهٖ لَـنُخۡرِجَنَّكَ يٰشُعَيۡبُ وَالَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا مَعَكَ مِنۡ قَرۡيَتِنَاۤ اَوۡ لَـتَعُوۡدُنَّ فِىۡ مِلَّتِنَا‌ ؕ قَالَ اَوَلَوۡ كُنَّا كٰرِهِيْنَ ۞قَدِ افۡتَرَيۡنَا عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا اِنۡ عُدۡنَا فِىۡ مِلَّتِكُمۡ بَعۡدَ اِذۡ نَجّٰٮنَا اللّٰهُ مِنۡهَا‌ ؕ وَمَا يَكُوۡنُ لَـنَاۤ اَنۡ نَّعُوۡدَ فِيۡهَاۤ اِلَّاۤ اَنۡ يَّشَآءَ اللّٰهُ رَبُّنَا‌ ؕ وَسِعَ رَبُّنَا كُلَّ شَىۡءٍ عِلۡمًا‌ؕ عَلَى اللّٰهِ تَوَكَّلۡنَا‌ ؕ رَبَّنَا افۡتَحۡ بَيۡنَنَا وَبَيۡنَ قَوۡمِنَا بِالۡحَـقِّ وَاَنۡتَ خَيۡرُ الۡفٰتِحِيۡنَ ۞ (الأعراف آیت نمبر 88,89)
(اس کی قوم کے سرداروں نے، جو اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں مبتلا تھے، اس سے کہا کہ “اے شعیبؑ، ہم تجھے اور اُن لوگوں کو جو تیرے ساتھ ایمان لائے ہیں اپنی بستی سے نکال دیں گے ورنہ تم لوگوں کو ہماری ملت میں واپس آنا ہوگا” شعیبؑ نے جواب دیا “کیا زبردستی ہمیں پھیرا جائے گا خواہ ہم راضی نہ ہوں؟
ہم اللہ پر جھوٹ گھڑنے والے ہوں گے اگر تمہاری ملت میں پلٹ آئیں جبکہ اللہ ہمیں اس سے نجات دے چکا ہے ہمارے لیے تو اس کی طرف پلٹنا اب کسی طرح ممکن نہیں الا یہ کہ خدا ہمارا رب ہی ایسا چاہے ہمارے رب کا علم ہر چیز پر حاوی ہے، اُسی پر ہم نے اعتماد کر لیا اے رب، ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان ٹھیک ٹھیک فیصلہ کر دے اور تو بہترین فیصلہ کرنے والا ہے)
حضرت لوط علیہ السلام کا ذکر
۞ فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهِ إِلَّا أَن قَالُوا أَخْرِجُوا آلَ لُوطٍ مِّن قَرْيَتِكُمْ ۖ إِنَّهُمْ أُنَاسٌ يَتَطَهَّرُونَ (النمل آیت نمبر 56)
(مگر اُس کی قوم کا جواب اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ انہوں نے کہا “نکال دو لوطؑ کے گھر والوں کو اپنی بستی سے، یہ بڑے پاکباز بنتے ہیں)
حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ذکر
قَالَ اَرَاغِبٌ اَنۡتَ عَنۡ اٰلِهَتِىۡ يٰۤاِبۡرٰهِيۡمُ‌ۚ لَئِنۡ لَّمۡ تَنۡتَهِ لَاَرۡجُمَنَّكَ‌ وَاهۡجُرۡنِىۡ مَلِيًّا ۞ (مريم آیت نمبر 46)
(باپ نے کہا “ابراہیمؑ، کیا تو میرے معبُودوں سے پھر گیا ہے؟ اگر تو باز نہ آیا تو میں تجھے سنگسار کر دوں گا بس تو ہمیشہ کے لیے مجھ سے الگ ہو جا”)
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر
اۨلَّذِيۡنَ اُخۡرِجُوۡا مِنۡ دِيَارِهِمۡ بِغَيۡرِ حَقٍّ اِلَّاۤ اَنۡ يَّقُوۡلُوۡا رَبُّنَا اللّٰهُ‌ ؕ وَلَوۡلَا دَ فۡعُ اللّٰهِ النَّاسَ بَعۡضَهُمۡ بِبَـعۡضٍ لَّهُدِّمَتۡ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَّصَلَوٰتٌ وَّمَسٰجِدُ يُذۡكَرُ فِيۡهَا اسۡمُ اللّٰهِ كَثِيۡرًا‌ ؕ وَلَيَنۡصُرَنَّ اللّٰهُ مَنۡ يَّنۡصُرُهٗ ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَقَوِىٌّ عَزِيۡزٌ ۞(الحج آیت نمبر 40)
(یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے ناحق نکال دیے گئے صرف اِس قصور پر کہ وہ کہتے تھے “ہمارا رب اللہ ہے” اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے دفع نہ کرتا رہے تو خانقاہیں اور گرجا اور معبد اور مسجدیں، جن میں اللہ کا کثرت سے نام لیا جاتا ہے، سب مسمار کر ڈالی جائیں اللہ ضرور اُن لوگوں کی مدد کرے گا جو اس کی مدد کریں گے اللہ بڑا طاقتور اور زبردست ہے)
يُخۡرِجُوۡنَ الرَّسُوۡلَ وَاِيَّاكُمۡ‌ اَنۡ تُؤۡمِنُوۡا بِاللّٰهِ رَبِّكُمۡ ؕ اِنۡ كُنۡـتُمۡ خَرَجۡتُمۡ جِهَادًا فِىۡ سَبِيۡلِىۡ وَ ابۡتِغَآءَ مَرۡضَاتِىۡ ‌ۖ تُسِرُّوۡنَ اِلَيۡهِمۡ بِالۡمَوَدَّةِ ‌ۖ وَاَنَا اَعۡلَمُ بِمَاۤ اَخۡفَيۡتُمۡ وَمَاۤ اَعۡلَنۡتُمۡ‌ؕ وَمَنۡ يَّفۡعَلۡهُ مِنۡكُمۡ فَقَدۡ ضَلَّ سَوَآءَ السَّبِيۡلِ ۞ (الممتحنةآیت نمبر 1)
(اُن کی روش یہ ہے کہ رسول کو اور خود تم کو صرف اِس قصور پر جلا وطن کرتے ہیں کہ تم اپنے رب، اللہ پر ایمان لائے ہو تم چھپا کر اُن کو دوستانہ پیغام بھیجتے ہو، حالانکہ جو کچھ تم چھپا کر کرتے ہو اور جو علانیہ کرتے ہو، ہر چیز کو میں خوب جانتا ہوں جو شخص بھی تم میں سے ایسا کرے وہ یقیناً راہ راست سے بھٹک گیا)
دوسری مثال ہمیں تاریخ سے ملتی ہے کہ تاتاریوں نے مسلمان حکومت کی اینٹ سے اینٹ بجا دی، کمزوری ایمان کےاتنا خوف پیدا ہو گیا کہ ایک تاتاری عورت بازار میں مسلمان کو پکڑ کر یہ کہتی کہ رک جا میں ابھی تلوار لیکر تجھے مارنے آتی ہوں تو مسلمان ہلتا نہ تھا، اس دور میں عباسی حکومت( جو ایشیا کوچک سے افریقہ تک پھیلی ہوئی تھی) میں رہ رہے مسلمان اپنا گھر بار چھوڑ کر برصغیر میں پناہی لے رہے تھے، پھر اس کے بعد ان مسلمانوں کو وہ عروج حاصل نہ ہو سکا( تبلیغ کے زور سے تاتاری ہی مسلمان ہوئے)
تاریخ میں اسی طرح اندلس ( سپین)کی مثال ہے کہ مسلمانوں نے جب غیروں سے تبلیغ میں غفلت برتی، اپنی عملی زندگی میں دین کو رخصت کرکے مادہ پرستانہ عیش وعشرت کو جگہ دی تو پھر ایسے نکالے گئے کہ آج تک وہ سرزمین کلمہ اذان کو ترستی ہے۔
2)باطل کی فطرت میں اللہ نے یہ رکھ دیا ہے کہ وہ حق کو برداشت نہیں کرتا، خواہ حق کی صورت کتنی کی ضعیف اور دھندلی ہو،وہ ہر دم اس سے خوف میں رہتا ہے،کہ نہ جانے کب اس کے خاکستر میں دبی ہوئی ایک چنگاری اس کے خرمن کو جلا ڈالے، اس لئے وہ اہل حق کو اپنے میں داخل کرکے خود جیسا بنانا چاہتا ہے،اسے حق (اسلام) کا امتیاز،اس کی خصوصیات، اس کی علمی، عملی اخلاقی قوت، اس کی تعلیمات کا جمال وسحر، اس کی عالم گیریت وآفاقیت، اس کی اتحادی دعوت، اس کے پیمانہ مساوات وعدل ہر وقت خوف وہراس کی حالت میں رکھتے ہیں، وہ اس وقت تک اس کی طرف سے اطمینان نہیں کر سکتا جب تک حق بالکل اس کے اندر مدغم ہوکر اپنی ہستی کو نہ مٹا لے۔۔
وَدُّواْ لَوْ تَكْفُرُونَ كَمَا كَفَرُواْ فَتَكُونُونَ سَوَآءً ۖ فَلَا تَتَّخِذُواْ مِنْهُمْ أَوْلِيَآءَ حَتَّىٰ يُهَاجِرُواْ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ ۚ فَإِن تَوَلَّوْاْ فَخُذُوهُمْ وَٱقْتُلُوهُمْ حَيْثُ وَجَدتُّمُوهُمْ ۖ وَلَا تَتَّخِذُواْ مِنْهُمْ وَلِيًّا وَلَا نَصِيرًا(النساء، آیت نمبر89)
(وہ تو یہ چاہتے ہیں کہ جس طرح وہ خود کافر ہیں اسی طرح تم بھی کافر ہو جاؤ تاکہ تم اور وہ سب یکساں ہو جائیں لہٰذا ان میں سے کسی کو اپنا دوست نہ بناؤ جب تک کہ وہ اللہ کی راہ میں ہجرت کر کے نہ آ جائیں، اور اگر وہ ہجرت سے باز رہیں تو جہاں پاؤ انہیں پکڑو اور قتل کرو اور ان میں سے کسی کو اپنا دوست اور مددگار نہ بناؤ)
وَدَّ کَثِيۡرٌ مِّنۡ اَهۡلِ الۡكِتٰبِ لَوۡ يَرُدُّوۡنَكُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ اِيۡمَانِكُمۡ كُفَّارًا ۖۚ حَسَدًا مِّنۡ عِنۡدِ اَنۡفُسِهِمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الۡحَـقُّ‌ ۚ فَاعۡفُوۡا وَاصۡفَحُوۡا حَتّٰى يَاۡتِىَ اللّٰهُ بِاَمۡرِهٖ ‌ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى کُلِّ شَىۡءٍ قَدِيۡرٌ ۞(البقرة آیت نمبر 109)

(اہل کتاب میں سے اکثر لوگ یہ چاہتے ہیں کہ کسی طرح تمہیں ایمان سے پھیر کر پھر کفر کی طرف پلٹا لے جائیں اگرچہ حق ان پر ظاہر ہو چکا ہے، مگر اپنے نفس کے حسد کی بنا پر تمہارے لیے ان کی یہ خواہش ہے اس کے جواب میں تم عفو و در گزر سے کام لو یہاں تک کہ اللہ خود ہی اپنا فیصلہ نافذ کر دے مطمئن رہو کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے)
وَلَنۡ تَرۡضٰى عَنۡكَ الۡيَهُوۡدُ وَلَا النَّصٰرٰى حَتّٰى تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمۡ‌ؕ قُلۡ اِنَّ هُدَى اللّٰهِ هُوَ الۡهُدٰى‌ؕ وَلَئِنِ اتَّبَعۡتَ اَهۡوَآءَهُمۡ بَعۡدَ الَّذِىۡ جَآءَكَ مِنَ الۡعِلۡمِ‌ۙ مَا لَـكَ مِنَ اللّٰهِ مِنۡ وَّلِىٍّ وَّلَا نَصِيۡرٍ ۞(البقرة آیت نمبر 120)
(یہودی اور عیسائی تم سے ہرگز راضی نہ ہوں گے، جب تک تم ان کے طریقے پر نہ چلنے لگو صاف کہہ دوکہ راستہ بس وہی ہے، جو اللہ نے بتایا ہے ورنہ اگراُس علم کے بعد، جو تمہارے پاس آ چکا ہے، تم نے اُن کی خواہشات کی پیروی کی، تو اللہ کی پکڑ سے بچانے والا کوئی دوست اور مدد گار تمہارے لیے نہیں ہے)
یہ دو باتیں سنت اللہ اور خواص فطرت کے قبیل سے ہیں،کہ دعوت وتبلیغ اور عملی زندگی میں دینی کمزوری کا لازمی خاصہ ہے کہ باطل سر چڑھ کر حق کو یا تو در بدر کرنے کی کوشش کرے، یا اپنے اندر مدغم کرنے کی فکر میں رہے۔۔این آر سی اور گھر واپسی کو اسی تناظر میں دیکھے جانے کی ضرورت ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ فطرت کے مقاصد ان خواص اور اس پورے سایکل کے پیچھے کیا ہیں ؟ قرآن کی رو سے اس کے چند اسباب ہیں
مومن کامل وصادق کی پہچان اور منافق وبے ایمان سے اس کا امتیاز، قرآن بتاتا ہے کہ آزمائشیں اس لئے آتی ہیں کہ کھرے کھوٹے کا پتا چل جائے، کہ کچھ اللہ کے دین سے صرف رسما جڑے ہوئے تھے، ذرا بھی ابتلاء و آزمائش آئی تو فورا ہی اپنا پلہ جھاڑنے لگے، اور لوگوں کا فتنہ، ان کی دی ہوئی پریشانی، ان کی تکلیفوں کو یہ سمجھنے لگے کہ یہی سب کچھ ہے، اللہ کا عذاب بھی اس سے زیادہ کیا کچھ ہوگا، ہم تو دین حق پر قائم ہونے، اس پر عمل پیرا ہونے کے باوجود پس رہے ہیں، غیر ہی مزے میں ہیں کہ سب گناہ کرتے ہوئے بھی فوقیت انہیں کو ہے۔

(الف) اَحَسِبَ النَّاسُ اَنۡ يُّتۡرَكُوۡۤا اَنۡ يَّقُوۡلُوۡۤا اٰمَنَّا وَهُمۡ لَا يُفۡتَـنُوۡنَ  وَلَقَدۡ فَتَـنَّا الَّذِيۡنَ مِنۡ قَبۡلِهِمۡ‌ فَلَيَـعۡلَمَنَّ اللّٰهُ الَّذِيۡنَ صَدَقُوۡا وَلَيَعۡلَمَنَّ الۡكٰذِبِيۡنَ ۞اَمۡ حَسِبَ الَّذِيۡنَ يَعۡمَلُوۡنَ السَّيِّاٰتِ اَنۡ يَّسۡبِقُوۡنَا‌ ؕ سَآءَ مَا يَحۡكُمُوۡنَ ۞ (العنكبوت آیت نمبر 2 ,3،,4)
(کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ بس اتنا کہنے پر چھوڑ دیے جائیں گے کہ “ہم ایمان لائے ” اور ان کو آزمایا نہ جائے گا؟ حالاں کہ ہم اُن سب لوگوں کی آزمائش کر چکے ہیں جو اِن سے پہلے گزرے ہیں اللہ کو تو ضرور یہ دیکھنا ہے کہ سچّے کون ہیں اور جھوٹے کون،اور کیا وہ لوگ جو بُری حرکتیں کر رہے ہیں یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ وہ ہم سے بازی لے جائیں گے؟ بڑا غلط حکم ہے جو وہ لگا رہے ہیں)

ب) وَمِنَ النَّاسِ مَنۡ يَّقُوۡلُ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ فَاِذَاۤ اُوۡذِىَ فِى اللّٰهِ جَعَلَ فِتۡنَةَ النَّاسِ كَعَذَابِ اللّٰهِؕ وَلَئِنۡ جَآءَ نَـصۡرٌ مِّنۡ رَّبِّكَ لَيَـقُوۡلُنَّ اِنَّا كُنَّا مَعَكُمۡ‌ؕ اَوَلَـيۡسَ اللّٰهُ بِاَعۡلَمَ بِمَا فِىۡ صُدُوۡرِ الۡعٰلَمِيۡنَ ۞(العنكبوت آیت نمبر 10)
(لوگوں میں سے کوئی ایسا ہے جو کہتا ہے کہ ہم ایمان لائے اللہ پر مگر جب وہ اللہ کے معاملہ میں ستایا گیا تو اس نے لوگوں کی ڈالی ہوئی آزمائش کو اللہ کے عذاب کی طرح سمجھ لیا اب اگر تیرے رب کی طرف سے فتح و نصرت آ گئی تو یہی شخص کہے گا کہ “ہم تو تمہارے ساتھ تھے” کیا دنیا والوں کے دلوں کا حال اللہ کو بخوبی معلوم نہیں ہے؟)

ج) وَمِنَ النَّاسِ مَنۡ يَّعۡبُدُ اللّٰهَ عَلٰى حَرۡفٍ‌ ‌ۚ فَاِنۡ اَصَابَهٗ خَيۡرٌ اۨطۡمَاَنَّ بِهٖ‌ ۚ وَاِنۡ اَصَابَتۡهُ فِتۡنَةُ اۨنقَلَبَ عَلٰى وَجۡهِهٖ‌ۚ خَسِرَ الدُّنۡيَا وَالۡاٰخِرَةَ ‌ ؕ ذٰ لِكَ هُوَ الۡخُسۡرَانُ الۡمُبِيۡنُ ۞(الحج آیت نمبر 11)
(اور لوگوں میں کوئی ایسا ہے جو کنارے پر رہ کر اللہ کی بندگی کرتا ہے، اگر فائدہ ہوا تو مطمئن ہو گیا اور جو کوئی مصیبت آ گئی تو الٹا پھر گیا اُس کی دنیا بھی گئی اور آخرت بھی یہ ہے صریح خسارہ)

د) يَقُوۡلُوۡنَ هَلۡ لَّنَا مِنَ الۡاَمۡرِ مِنۡ شَىۡءٍ‌ؕ قُلۡ اِنَّ الۡاَمۡرَ كُلَّهٗ لِلّٰهِ‌ؕ يُخۡفُوۡنَ فِىۡۤ اَنۡفُسِهِمۡ مَّا لَا يُبۡدُوۡنَ لَكَ‌ؕ يَقُوۡلُوۡنَ لَوۡ كَانَ لَنَا مِنَ الۡاَمۡرِ شَىۡءٌ مَّا قُتِلۡنَا هٰهُنَا ‌ؕ قُلۡ لَّوۡ كُنۡتُمۡ فِىۡ بُيُوۡتِكُمۡ لَبَرَزَ الَّذِيۡنَ كُتِبَ عَلَيۡهِمُ الۡقَتۡلُ اِلٰى مَضَاجِعِهِمۡ‌ۚ وَلِيَبۡتَلِىَ اللّٰهُ مَا فِىۡ صُدُوۡرِكُمۡ وَلِيُمَحِّصَ مَا فِىۡ قُلُوۡبِكُمۡ‌ؕ وَاللّٰهُ عَلِيۡمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوۡرِ ۞(آل عمران آیت نمبر 154)

(یہ لوگ اب کہتے ہیں کہ، “اس کام کے چلانے میں ہمارا بھی کوئی حصہ ہے؟” ان سے کہو “(کسی کا کوئی حصہ نہیں) اِس کام کے سارے اختیارات اللہ کے ہاتھ میں ہیں” دراصل یہ لوگ اپنے دلوں میں جو بات چھپائے ہوئے ہیں اُسے تم پر ظاہر نہیں کرتے ان کا اصل مطلب یہ ہے کہ، “اگر (قیادت کے) اختیارات میں ہمارا کچھ حصہ ہوتا تو یہاں ہم نہ مارے جاتے” ان سے کہہ دو کہ، “اگر تم اپنے گھروں میں بھی ہوتے تو جن لوگوں کی موت لکھی ہوئی تھی وہ خود اپنی قتل گاہوں کی طرف نکل آتے” اور یہ معاملہ جو پیش آیا، یہ تو اس لیے تھا کہ جو کچھ تمہارے سینوں میں پوشیدہ ہے اللہ اُسے آزما لے اور جو کھوٹ تمہارے دلوں میں ہے اُسے چھانٹ دے، اللہ دلوں کا حال خوب جانتا ہے)

ح) مَا كَانَ اللّٰهُ لِيَذَرَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ عَلٰى مَاۤ اَنۡـتُمۡ عَلَيۡهِ حَتّٰى يَمِيۡزَ الۡخَبِيۡثَ مِنَ الطَّيِّبِ‌ؕ وَمَا كَانَ اللّٰهُ لِيُطۡلِعَكُمۡ عَلَى الۡغَيۡبِ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ يَجۡتَبِىۡ مِنۡ رُّسُلِهٖ مَنۡ يَّشَآءُ‌ ۖ فَاٰمِنُوۡا بِاللّٰهِ وَرُسُلِهٖ‌ۚ وَاِنۡ تُؤۡمِنُوۡا وَتَتَّقُوۡا فَلَـكُمۡ اَجۡرٌ عَظِيۡمٌ ۞(آل عمران آیت نمبر 179)
(اللہ مومنوں کو اس حالت میں ہرگز نہ رہنے دے گا جس میں تم اس وقت پائے جاتے ہو وہ پاک لوگوں کو ناپاک لوگوں سے الگ کر کے رہے گا مگر اللہ کا یہ طریقہ نہیں ہے کہ تم کو غیب پر مطلع کر دے غیب کی باتیں بتانے کے لیے تو وہ اپنے رسولوں میں جس کو چاہتا ہے منتخب کر لیتا ہے لہٰذا (امور غیب کے بارے میں) اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھو اگر تم ایمان اور خدا ترسی کی روش پر چلو گے تو تم کو بڑا اجر ملے گا)
2)دوسرا مقصد یہ یہ بھی ہوتا ہے کہ مسلمان اپنے اعمال سے، دین سے غفلت میں ہوتے ہیں تو ان کو جھٹکا دیا جاتا ہے،وہ غیروں کی اطاعت کرنے لگتے ہیں، ان کے طور طریقے، ان کی خاص تہذیب وکلچر کا رواج ان میں ہو جاتا ہے،شیطان کی خوشنودی کے کام وہ کرنے لگتے ہیں، مسلمان کے مقابلے غیر کو ترجیح دینے لگتے ہیں، تو ان کو جھنجھوڑا جائے، ان کو اپنی اصل کی یاد دلائی جائے۔
الف) يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنۡ تُطِيۡعُوا الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا يَرُدُّوۡكُمۡ عَلٰٓى اَعۡقَابِكُمۡ فَتَـنۡقَلِبُوۡا خٰسِرِيۡنَ ۞ (آل عمران آیت نمبر 149)
(اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر تم اُن لوگوں کے اشاروں پر چلو گے جنہوں نے کفر کی راہ اختیار کی ہے تو وہ تم کو الٹا پھیر لے جائیں گے اور تم نامراد ہو جاؤ گے)
ب)اَوَلَمَّاۤ اَصَابَتۡكُمۡ مُّصِيۡبَةٌ قَدۡ اَصَبۡتُمۡ مِّثۡلَيۡهَا ۙ قُلۡتُمۡ اَنّٰى هٰذَا‌ؕ قُلۡ هُوَ مِنۡ عِنۡدِ اَنۡفُسِكُمۡ ‌ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَىۡءٍ قَدِيۡرٌ ۞ (آل عمران آیت نمبر 165)
(اور یہ تمہارا کیا حال ہے کہ جب تم پر مصیبت آ پڑی تو تم کہنے لگے یہ کہاں سے آئی؟ حالانکہ (جنگ بدر میں) اس سے د و گنی مصیبت تمہارے ہاتھوں (فریق مخالف پر) پڑ چکی ہے اے نبیؐ! اِن سے کہو، یہ مصیبت تمہاری اپنی لائی ہوئی ہے، اللہ ہر چیز پر قادر ہے)

اس سے ہوتا یہ ہے کہ پہلے جو رعب ودبدبہ اللہ کی طرف سے ان کو حاصل تھا، غیر کے دل میں اسلام کی جو دھمک تھی وہ ختم ہونے لگتی ہے، الٹا مسلمان مرعوب ہونے لگتاہے، غیر کا خوف، دبدبہ اس پر حاوی ہونے لگتا ہے، تاتاریوں کی زبردست یلغار کے وقت ایسا ہوا تھا، یہ آیت:

سَنُلۡقِىۡ فِىۡ قُلُوۡبِ الَّذِيۡنَ كَفَرُوا الرُّعۡبَ بِمَاۤ اَشۡرَكُوۡا بِاللّٰهِ مَا لَمۡ يُنَزِّلۡ بِهٖ سُلۡطٰنًا ‌‌ۚ وَمَاۡوٰٮهُمُ النَّارُ‌ؕ وَ بِئۡسَ مَثۡوَى الظّٰلِمِيۡنَ ۞
(عنقریب وہ وقت آنے والا ہے جب ہم منکرین حق کے دلوں میں رعب بٹھا دیں گے، اس لیے کہ اُنہوں نے اللہ کے ساتھ اُن کو خدائی میں شریک ٹھیرایا ہے جن کے شریک ہونے پر اللہ نے کوئی سند نازل نہیں کی اُن کا آخری ٹھکانا جہنم ہے اور بہت ہی بری ہے وہ قیام گاہ جو اُن ظالموں کو نصیب ہوگی، اللہ نے (تائید و نصرت کا) جو وعدہ تم سے کیا تھا وہ تو اُس نے پورا کر دیا ابتدا میں اُس کے حکم سے تم ہی اُن کو قتل کر رہے تھے مگر جب تم نے کمزوری دکھائی اور اپنے کام میں باہم اختلاف کیا، اور جونہی کہ وہ چیز اللہ نے تمہیں دکھائی جس کی محبت میں تم گرفتار تھے (یعنی مال غنیمت) تم اپنے سردار کے حکم کی خلاف ورزی کر بیٹھے اس لیے کہ تم میں سے کچھ لوگ دنیا کے طالب تھے اور کچھ آخرت کی خواہش رکھتے تھے تب اللہ نے تمہیں کافروں کے مقابلہ میں پسپا کر دیا تاکہ تمہاری آزمائش کرے اور حق یہ ہے کہ اللہ نے پھر بھی تمہیں معاف ہی کر دیا کیونکہ مومنوں پر اللہ بڑی نظر عنایت رکھتا ہے)
3) اس کے بعد جب مسلمان غیروں کے طریقے پر ہی مصررہیں اور اپنی جڑوں کی طر واپس نہ آئیں، تو دوسری قوم سے کام لینے کے لیے ترک وانتخاب کا مرحلہ آتا ہے، خدائی منصوبہ کے اندر یہ چیز نہایت ہی نازک اور پرخطر ہے، اور ایمان والوں کو اس سے بے خوف نہیں رہنا چاہئے، یہ آخری کڑی ہے، کہ جب مسلمان قوم اپنی ذمے داریوں سے مکمل پہلو تہی کرے، اس کے دنیا و مافیہا کو دیکھنے، برتنے کے زاویئے اتنے بدل جائیں کہ عملا اس میں اور غیر میں کوئی فرق ہی نہ رہے تو اب دوسرے لوگوں کو حق کی قیادت، اس کی ذمہ داری سنبھالنے اور اس کے مشن کو آگے بڑھانے کا موقع ملتا ہے،قرآن کہتا ہے
1)وَلِلّٰهِ مَا فِى السَّمٰوٰتِ وَمَا فِى الۡاَرۡضِ ‌ؕ وَلَـقَدۡ وَصَّيۡنَا الَّذِيۡنَ اُوۡتُوا الۡكِتٰبَ مِنۡ قَبۡلِكُمۡ وَاِيَّاكُمۡ اَنِ اتَّقُوا اللّٰهَ‌ ؕ وَاِنۡ تَكۡفُرُوۡا فَاِنَّ لِلّٰهِ مَا فِى السَّمٰوٰتِ وَمَا فِى الۡاَرۡضِ‌ؕ وَكَانَ اللّٰهُ غَنِيًّا حَمِيۡدًا‏ وَلِلّٰهِ مَا فِى السَّمٰوٰتِ وَمَا فِى الۡاَرۡضِ ‌ؕ وَكَفٰى بِاللّٰهِ وَكِيۡلًا‏ ۞ اِنۡ يَّشَاۡ يُذۡهِبۡكُمۡ اَيُّهَا النَّاسُ وَيَاۡتِ بِاٰخَرِيۡنَ‌ؕ وَكَانَ اللّٰهُ عَلٰى ذٰلِكَ قَدِيۡرًا‏ ۞
(النساءآیت نمبر 131،133)
(آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے سب اللہ ہی کا ہے تم سے پہلے جن کو ہم نے کتاب دی تھی انہیں بھی یہی ہدایت کی تھی اور اب تم کو بھی یہی ہدایت کرتے ہیں کہ خدا سے ڈرتے ہوئے کام کرو لیکن اگر تم نہیں مانتے تو نہ مانو، آسمان و زمین کی ساری چیزوں کا مالک اللہ ہی ہے اور وہ بے نیاز ہے، ہر تعریف کا مستحق،ہاں اللہ ہی مالک ہے ان سب چیزوں کاجو آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں ہیں، اور کار سازی کے لیے بس و ہی کافی ہے،اگر وہ چاہے تو تم لوگوں کو ہٹا کر تمہاری جگہ دوسروں کو لے آئے، اور وہ اِس کی پوری قدرت رکھتا ہے)
2) وَاللّٰهُ الۡغَنِىُّ وَاَنۡـتُمُ الۡفُقَرَآءُ ‌ۚ وَاِنۡ تَتَوَلَّوۡا يَسۡتَـبۡدِلۡ قَوۡمًا غَيۡرَكُمۡ ۙ ثُمَّ لَا يَكُوۡنُوۡۤا اَمۡثَالَـكُم ۞ (محمد آیت نمبر 38)
(اللہ تو غنی ہے، تم ہی اس کے محتاج ہو اگر تم منہ موڑو گے تو اللہ تمہاری جگہ کسی اور قوم کو لے آئے گا اور وہ تم جیسے نہ ہوں گے)
3)وَرَبُّكَ الۡغَنِىُّ ذُو الرَّحۡمَةِ ‌ؕ اِنۡ يَّشَاۡ يُذۡهِبۡكُمۡ وَيَسۡتَخۡلِفۡ مِنۡۢ بَعۡدِكُمۡ مَّا يَشَآءُ كَمَاۤ اَنۡشَاَكُمۡ مِّنۡ ذُرِّيَّةِ قَوۡمٍ اٰخَرِيۡنَ ۞
(الأنعام آیت نمبر 133)
(تمہارا رب بے نیاز ہے اور مہربانی اس کا شیوہ ہے اگر و ہ چاہے تو تم لوگوں کو لے جائے اور تمہاری جگہ دوسرے جن لوگوں کو چاہے لے آئے جس طرح اُس نے تمہیں کچھ اور لوگوں کی نسل سے اٹھایا ہے)
اس کا نظارہ پہلے بھی چشم فلک نے دیکھا کہ اسلام کے دشمن تاتاری اسلام کے پاسبان بن گئے، اور آج بھی یہ تصویر ابھر رہی ہے کہ یورپ وامریکہ کے مادہ پرست، خدا بیزار ملکوں سے حق کی صدائیں اٹھ رہی ہیں، دین پر عمل وہاں زیادہ آسان ہوتا جا رہا ہے ۔میں دو مثالیں مظفرنگر کی دینا چاہوں گا کہ وہاں کی دو بے پردہ ماڈرن لڑکیاں جو یونیورسٹیوں میں پڑھیں، لبرل فیملیز سے متعلق تھیں، جب ایک شادی کے بعد پیرس اور دوسری لندن گئی تو حیرت انگیز طریقے پر باپردہ واپس ہوئیں۔

اب سوال ہوتا ہے کہ ہمارے زمانے میں کون سا مقصد اور منصوبہ چل رہا ہے؟
[ ] میرا ذاتی رجحان یہ ہے کہ تینوں ہی مقاصد بیک وقت کار فرما ہیں، مومن ومنافق کی چھٹنی اور امیتاز بھی ہو رہا ہے، آپ دیکھ سکتے ہیں کہ لوگ کس طرح عقیدہ، مذہب کی قیمت پر پالے بدل رہے ہیں، جو کل تک ایک امت کے دعویدار تھے، آج باطل کے ساتھ ہیں، لوگوں کو باطل کے تار عنکبوت سے ڈرا رہے ہیں، اور کہتے ہیں” إن الناس قد جمعوا لكم فاخشوهم” اللہ ایسا لوگوں کے لئے کہتا ہے إنما ذلكم الشيطان يخوف أولياءه فلا تخافوهم وخافوني إن كنتم مؤمنين” ۔

دوسری طرف باطل کی تقلید، اس کی اطاعت اس کے طور طریقے اپنانے کے سبب حق کا رعب و دبدبہ بھی باطل سے ہٹ گیا ہے، اس لئے حق کو جھنجھوڑا بھی جا رہا ہے، اسے اس کی حقیقت یاد دلائی جا رہی ہے، ہم دیکھ سکتے ہیں کہ کل تک حق کی جو جماعتیں جو تنازع وعصیان میں پڑ کر ایک دوسرے سے برسرپیکار تھی، وہ آج سب بھول کر متحد ہو رہی ہیں، ( ندوہ، دیوبند، یونیورسٹی مدرسہ، بریلوی دیوبندی، مودودی، اہل حدیث کے اس وقت کے اتحاد اور مل جل کر کام کرنے کی مثال دی جا سکتی ہے) وہیں باطل کی اطاعت میں سر سے پیر تک ڈوب چکے لوگوں کو اسی باطل کے ذریعے ان کی اصل یاد دلائی جا رہی ہے( شاہ رخ ، عامر، جاوید اختر، فرحان اختر، شہلا رشید، عمر خالد کی مثال دی جا سکتی ہے کہ جو اپنے اصول وعقائد سے انحراف کرکے نام کے سوا کچھ بھی اسلامی نہیں تھے لیکن وہی باطل نے انھیں دھتکار انہیں ان کی اصل یاد دلا رہا ہے)
تیسرا مقصد بھی واضح دکھ رہا ہے کہ کلیسا ومندر سے کعبہ کے پاسبان نکالے جا رہے ہیں( عبد الرحیم گرین، یوسف اسٹس، یوسف چیمبر، بلال فلپس، بابری کی شہادت میں ملوث بلبیر عرف عبداللہ۔۔اسلامی نام میں ڈاؤٹ ہے۔۔۔ اور یورپ امریکہ میں عمومی اسلام کے انتشار کی مثال دی جا سکتی ہے ۔)

سوال یہ ہے کہ حل کیا ہے، کیا سڑک پر نکلنا، مظاہرے کرنا حل ہے یا چپ چاپ اللہ اللہ کرنا؟؟
اس کے حل کے لئے ہمارے پاس دو نمونے ہیں، ایک تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کی مکی زندگی کا، دوسرا تاتاری فتنے کی زد میں آئے مسلمان دعاۃ، مصلحین اور غلام بنا لی گئی عورتوں کی دعوت واصلاح کا۔
یہاں یہ یاد رکھنا ضروری ہےکہ موجودہ حالات جو پیدا ہوئے ہیں وہ باطل کی لمبی جدوجہد، جی توڑ محنت، اور مسلسل لگن کا نتیجہ ہے، ایک دو دن یا 5-10 سال میں یہ حالات نہیں بن گئے، اس کی جڑیں نہایت گہری، اور مضبوط ہیں، لہذا اس کا حل بھی کوئی دو چار دن کا کام نہیں، لیکن ہائے توبہ مچانے سے بہتر ہے کہ حل کی طرف قدم ابھی سے بڑھایا جائے۔

حل کیا ہے؟:
اس دور کے اندر سب سے بڑی دقت افراد کے اوپر محنت کی کمی کی ہے، ایسے لوگ نہیں جو کردار، اخلاق، تقوی، اور علم وفراست میں بہت گہرائی، گیرائی رکھتے ہوں، کہنے کو تو یہ زمانہ تعلیم کے فروغ کا زمانہ ہے، اور ہماری خواندی مقدار ( literacy rate)بھی 70 فیصد سے تجاوز کر چکی ہے، لیکن اس دور میں جتنی علم وعمل وکردار میں جتنی سطحیت ہے شاید ہی اس کی مثال ملے، ہماری ترجیحات کا رخ بالکل الگ سمت پر یے، ہمارے کمپاس کی سوئی غلط ڈائریکشن میں لے جا ( nevigate) رہی ہے،مسلمان کو سب سے پہلے اس عالم میں اپنی پوزیشن سمجھنی ضروری ہے، اسے کائنات کی ہر شیئ سے اپنے تعلق کی صحیح نوعیت سمجھ کر اس کے مطابق اپنی خواہشات، ترجیحات، اور زاویہائے نظر کو مرکوز کرکے عملی زندگی میں اس کو استوار کرنےکی ضرورت ہے، اس کے لئے سیرت وکردار میں بلند، علم دین کے مصادر اور اپنے گرد وپیش سے صحیح اور بھرپور واقفیت رکھنے والے معلمین، داعی، اور دانشوروں کی ضرورت ہے، جو اسلام کی اپنے قول وعمل سے ایسی ترجمانی کر سکیں کہ اس سے بہتر نہ ہو سکتی ہو، ظاہر ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ متمول، اصحاب ثروت اور دانشور قسم کے حضرات اپنے بچوں کو دین کی تعلیم کے لئے وقف کریں، وہ صرف اسلام کی تبلیغ، اس کی تعلیم، اس کے نہج پر تربیت ہی سے وابستہ رہیں، اور اصحاب ثروت یہ برداشت کر سکتے ہیں، غریب گھرانے کے بچے کوفکر معاش ہی کھا جاتی ہے، اسی طرح عصری تعلیم یافتہ حضرات کی اولادیں اگر علم دین بھی اچھی طرح حاصل کریں، اور ماں باپ عصری تعلیم کی طرح اس کی نگاہ داشت کریں تو بہت جلد ایک اچھی تعداد تیار ہو سکتی ہے۔
یہ لمبی چوڑی بات میں کیوں کر رہا ہوں؟ اس لیے کہ مکہ کا نمونہ میرے سامنے ہے،کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت میں اپنی سیرت وکردار کو پکا کر کندن بنا چکے تھے، ایک ایک شخص عملی اسلام کا جیتا جاگتا نمونہ تھا، ان کی ترجیحات میں دین سب سے اوپر تھا، ان کے قطب نما( کم پاس) کی سوئی صحیح سمت تھی، انہوں نے دنیا میں انسان کی پوزیشن، اس کے مقصد تخلیق، اس کے مخلوق سے تعلق، اور اس کے انجام کا ادراک بخوبی کر لیا تھا، لہذا گھٹیا قسم کے مشاغل، سستی قسم کے مقاصد ان کے لئے ہیچ تھے، ان کا شعور ان سطحی چیزوں سے بلند ہو چکا تھا، لہذا جب وہ اسلام کی دعوت دیتے تو آواز وانداز میں ایک سوز ، تصور میں آخرت وخدا کے سامنے جواب دہی کا خوف، انسان کا زمین پر آنے کا مقصد نگاہوں میں گھوم جاتا، لگتا کہ لوگ آگ کی طرف جا رہے ہیں انہیں کسی بھی طرح بچانا ہے، جبکہ ہمارے لیے دین ایک پرسنل سی چیز ہے جو مسجد میں نماز، رمضان المبارک میں روزے، اور حج وزکاۃ کے اوپری مظاہر کی ادائیگی تک محدود ہے، جبکہ وہ لوگ ان امور کو آخرت کی کامیابی، اپنے مقصد تخلیق کی ادائیگی اور خالق کائنات کی رضا کے لئے کرتے تھے، ہماری ترجیحات کا نظام بالکل بگڑ گیا ہے، اس کو صحیح کئے بغیر ہم شاید کچھ وقتی کامیابی تو حاصل کر سکتے ہیں،سر پر آئی بلا کو کچھ وقت کے لئے شایدٹال سکتے ییں، لیکن پائے دار کامیابی جو دونوں جہاں میں سرخ رو کر دے وہ ممکن نہیں۔
میں اس لئے بھی کہہ رہا ہوں کہ میرے سامنے تاتاریوں کا نمونہ ہے، کہ جنہوں نے پورے عالم اسلام کو تاخت وتاراج کر دیا تھا، کہ ان پر غلبہ کا خیال بھی ایک دیوانے کا خواب تھا، اس کے باوجود چند سچے، مخلص، دین کا پختہ علم رکھنے والے، باکردار، متقی مصلحین کی دعوت وصحبت کےاثر نے یہ انقلاب برپا کر دیا کہ ” پاسباں مل گئے کعبہ کو صنم خانے سے” چنگیز خان کی نسل کے کاشغر سلطان ” تغلق تیمور” کے دل پر بخارا کے شیخ جمال الدین کے ایک جملے نے ایسا اثر کیا کہ ہزاروں بیان وکتب بھی نہ کر سکیں، اس نے ان کو پکڑ کر یہ کہا یہ کتا بہتر ہے یا تم ؟ انہوں نے جواب دیا کہ اگر دنیا سے بغیر ایمان چلا گیا تو کتا بہتر ہے ورنہ میں بہتر ہوں، اس نے فورا علیحدہ لے جاکر پوچھا کہ یہ ایمان کیا چیز ہے کہ جس کی اتنی اہمیت ہے، انہوں نے پرسوز انداز میں کفر وایمان، دنیا و آخرت ، عذاب نار کا وہ نقشہ کھینچا کہ ایمان سلطان کے اندر گھر کر گیا ۔۔ آج ہم میں سے کتنے لوگ حاکم وقت کو چھوڑیے ایک عام آدمی کے ایمان لانے کی فکر کرتے ہیں، اور اس کو اسلام کا صحیح مطلب سمجھا سکتے ہیں ؟
میں اس لئے بھی کہہ رہا ہوں کہ حق وباطل کی لڑائی میں باطل کے ساتھ شیطانی قوتیں ہوتی ہیں کیونکہ شیطان باطل کا ولی ہے، حق کے ساتھ خدا کی طرف سے فرشتوں، اور نفوس قدسیہ کی روحانی امداد ہوتی ہے، جو دل ودماغ کو خوف ورعب سے آزاد کرکے، صحیح سوچنے، تدبر کرنے اور ثابت قدم رہنے میں نہایت مددگار ثابت ہوتی ہے، جتنا حق مضبوط ہوتا ہے شیطانی قوتیں اسی قدر مضمحل پڑ جاتی ہے اور ان کے بغیر اہل باطل کی ہمت نہیں ہوتی کہ وہ حق کو للکار سکیں، لیکن جو اہل حق، حق سے منہ موڑ لیتے ہیں، خود باطل کی پیروی میں لگ جاتے ہیں تو فرشتوں کی خدائی مدد، نفوس قدسیہ کی روحانی طاقت ان کا ساتھ دینے کے لئے نہیں آتی، جبکہ اسی تناسب میں شیطانی طاقتیں اپنے اولیا کی مدد ونصرت کے لئے بے خوف وخطر آجاتی ہیں۔
فرشتوں کی غیر موجودگی اور خدائی امداد کے انقطاع سے ان کے حوصلے بلند ہو جاتے ہیں، جس سے ان کے اولیاء کو شہہ ملتی ہے اور وہ بھی اہل حق پر چڑھ دوڑتے ہیں۔
اِذۡ يُوۡحِىۡ رَبُّكَ اِلَى الۡمَلٰۤئِكَةِ اَنِّىۡ مَعَكُمۡ فَثَبِّتُوا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا‌ ؕ سَاُلۡقِىۡ فِىۡ قُلُوۡبِ الَّذِيۡنَ كَفَرُوا الرُّعۡبَ فَاضۡرِبُوۡا فَوۡقَ الۡاَعۡنَاقِ وَاضۡرِبُوۡا مِنۡهُمۡ كُلَّ بَنَانٍؕ ۞(الأنفال آیت نمبر 12)
(اور وہ وقت جبکہ تمہارا رب فرشتوں کو اشارہ کر رہا تھا کہ “میں تمہارے ساتھ ہوں، تم اہلِ ایمان کو ثابت قدم رکھو، میں ابھی ان کافروں کے دلوں میں رُعب ڈالے دیتا ہوں، پس تم ان کی گردنوں پر ضرب اور جوڑ جوڑ پر چوٹ لگاؤ”)
لیکن یہ خدائی امداد، یہ فرشتوں کی نصرت اتنی آسانی سے کہاں آتی ہے اَمۡ حَسِبۡتُمۡ اَنۡ تَدۡخُلُوا الۡجَـنَّةَ وَ لَمَّا يَاۡتِكُمۡ مَّثَلُ الَّذِيۡنَ خَلَوۡا مِنۡ قَبۡلِكُمۡؕ مَسَّتۡهُمُ الۡبَاۡسَآءُ وَالضَّرَّآءُ وَزُلۡزِلُوۡا حَتّٰى يَقُوۡلَ الرَّسُوۡلُ وَالَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا مَعَهٗ مَتٰى نَصۡرُ اللّٰهِؕ اَلَاۤ اِنَّ نَصۡرَ اللّٰهِ قَرِيۡبٌ ۞ (البقرة آیت نمبر 214)
(پھر کیا تم لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یونہی جنت کا داخلہ تمہیں مل جائے گا، حالانکہ ابھی تم پر وہ سب کچھ نہیں گزرا ہے، جو تم سے پہلے ایمان لانے والوں پر گزر چکا ہے؟ اُن پر سختیاں گزریں، مصیبتیں آئیں، ہلا مارے گئے، حتیٰ کہ وقت کارسول اور اس کے ساتھی اہل ایمان چیخ اٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی اُس وقت انہیں تسلی دی گئی کہ ہاں اللہ کی مدد قریب ہے)
میں یہ اس لئے بھی کہہ رہا ہوں کہ میرے سامنے آج اپنے ملک کا نقشہ ہے، کہ جس میں اسلام کی ہر ہر چیز کو مسلمانوں کے ذریعے ہی پس پشت ڈالا جا رہاآاآ ہے،ملک بھر میں ہو رہے مظاہرے اگر کامیاب بھی ہو گئے تو بھی اس کی جو قیمت ہوگی وہ کچھ کم نہیں ہوگی، خصوصا جامعات وکالجز سے اٹھنے والے مظاہرے، دین وغیر دین کے فاصلے کو کافی حد تک ختم کر سکتے ہیں، مظاہروں کی ناکامی سے ارتداد کے بڑھنے کا اندیشہ ہے( لا قدر اللہ ذلک) جبکہ کامیابی نئی نسل میں عقائد سے سمجھوتے کی طرف ایک بڑی پیش قدمی کا سبب بنے گی، اس کی وضاحت دوسرے موقع پر کروں گا ان شاءاللہ۔
لہذا لانگ ٹرم حل تو افراد وشخصیات کی تعمیر، جو دینی علم وعمل میں رسوخ رکھتے ہوں، سیرت وکردار بلند ہو، منفی سوچ وطریقہ کار سے بچتے ہوئے اسلام کی صحیح سچی صاف ستھری صورت علم وعمل میں پیش کر سکیں۔
جبکہ شارٹ ٹرم میں ہم اپنی بساط کی حد تک لوگوں میں اوئیرنیس پھیلانے، صحیح معلومات فراہم کرنے، مسلمانوں میں ہر شخص اپنے دائرہ کے اندر اتحاد کی کوششیں اس حد تک تیز کرنے پر لگ جائیں کہ جو بھی فیصلہ لیا جائے سبھی اس کو قبول کرنے کے لئے ذہنی طور سے تیار ہوں، نہ یہ کہ مختلف ٹکڑوں اور گروہوں میں بٹ کر اپنی قوت کو کمزور کر دیں، جیسا کہ کاغذات تیار کرانے یا نہ کرانے کے سلسلے میں مختلف رائے ہیں، دشمن ہمیشہ افتراق کا فائدہ اٹھاتا ہے، وہ آپ کی صفوں میں سے ہی کچھ افراد کو توڑ کر کام کرا لیتا ہے، جو افراد غیر مسلموں میں سے اس سلسلے میں ساتھ آنا چاہیں ان سے تعاون، لیکن عقیدے وفکر کی قیمت پر نہیں، معاشرتی مقاطعہ ہونے پر شعب ابی طالب میں سبھی مسلمان تھے تو ساتھ میں ان کے حلیف معتد غیر مسلم بھی موجود تھے۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: