Slide
Slide
Slide

مودی کا دورہ سرینگر اور انتخابی بگل

✍️ افتخار گیلانی

__________________

بھارت میں جلد ہی عام انتخابات کا بگل بجنے والا ہے اور امید ہے کہ اپریل اور مئی میں کئی مرحلوں میں ان کو مکمل کیا جائے گا۔ ویسے تو حکمران ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) تو ہمیشہ ہی انتخابی مہم کے موڈ میں رہتی ہے، مگر اس بار 7 مارچ کو سرینگر کے بخشی اسٹیڈیم میں عوامی جلسہ سے خطاب کرکے وزیر اعظم نریندر مودی نے یہ عندیہ دے دیا کہ اس بار ووٹروں کو لبھانے کے لیے کشمیر کا بھرپور استعمال کیا جائےگا۔
سال 2019 کے انتخابات میں پاکستان کو سبق سکھانے کو انتخابی موضوع بنایا گیا تھا۔ گو کہ ہندوستان کے وزرائے اعظم سرینگر تو آتے ہی رہے ہیں۔ مودی کے پیش رو منموہن سنگھ نے اپنے دس سالہ دور اقتدار میں چار بار سرینگر کا دورہ کیا۔ مودی نے اس سے قبل 2015 میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ مفتی محمد سعید، جن کی پپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کے ساتھ انہوں نے ریاست میں مخلوط حکومت بنائی تھی، کی معیت میں سرینگر میں عوامی ریلی سے خطاب کیا تھا۔
مگر اس بار خصوصیت یہ تھی کہ اس خطے کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد ان کا سرینگر کا پہلا دورہ تھا۔دوم یہ خالصتاً بی جے پی کی اپنی ریلی تھی۔ ہندوستان کی ملک گیر پارٹیوں میں ماضی میں اس طرح کی ریلیاں صرف کانگریس پارٹی ہی اندرا گاندھی کے لیے اپنے بل بوتے پر کشمیر میں منعقد کراتی تھی۔
ورنہ ان کے بعد راجیو گاندھی سے لے کر منموہن سنگھ تک، جن وزرائے اعظم نے سرینگر میں کسی ریلی سے خطاب کیا ہے، ان کومقامی پارٹیوں یعنی نیشنل کانفرنس یا پی ڈی پی نے ان کے لیے منعقد کیا تھا۔
اندرا گاندھی نے تو ہمارے قصبہ سوپور میں بھی دو بارعوامی جلسہ سے خطاب کیا ہے۔ 1983 میں کانگریس نے جب فاروق عبداللہ کی نیشنل کانفرنس کے خلاف انتخابات میں پوری طاقت جھونک دی تھی، تو اس انتخابی مہم کی کمان وزیر اعظم اندرا گاندھی نے خود ہی سنبھالی تھی۔ وہ ایک کھلی جیپ میں ہمارے گھر کے سامنے سے ہی گزر کر جلسہ گاہ میں پہنچی۔
مودی کی ریلی کے حوالے سے جموں و کشمیر روڈ ٹرانسپورٹ کارپوریشن کے ایک عہدیدار نے خود اعتراف کیا کہ شرکاء کو لے جانے کے لیے 900 سرکاری بسوں کا انتظام کیا گیا تھا۔ اس سے قبل یہ اطلاع بھی دی گئی تھی کہ تقریباً 7000 سرکاری ملازمین، اساتذہ اور جے اینڈ کے بینک کے عملے کو ریلی میں شرکت کا حکم دیا گیا تھا، انہیں فجر سے پہلے مختلف مخصوص جگہوں پر جمع ہونے کو کہا گیا تھا، جہاں سے ان کو بسوں میں لاد کر اسٹیڈیم پہنچایا گیا تھا۔ ان میں سے 145 بسیں بارہمولہ ضلع سے لوگوں کو جلسہ گاہ تک پہنچانے کے لیے وقف کی گئی تھیں۔
جس طرح ماضی میں اندرا گاندھی کے دور میں کانگریس کو شوق چرایا تھا کہ مسلم اکثریتی علاقہ وادی کشمیر سے سیٹیں جیت کر ایک طرح کا پیغام دیا جائے، وہی شوق اب مودی کے دور میں بی جے پی نے پال رکھا ہے۔
وادی کشمیر میں انٹری کے لیے کانگریس بھی اپنی بھر پور طاقت جنوبی کشمیر یعنی اننت ناگ کی سیٹ حاصل کرنے کے لیے لگاتی تھی، بی جے پی بھی اسی سیٹ کو حاصل کرنے کے لیے پر تول رہی ہے۔
کشمیر میں عوام کی اس دورہ کے تئیں دلچسپی کی ایک وجہ یہ تھی کہ وہ اس کو ایک سیاسی عمل کے احیاء کا ذریعہ سمجھتے تھے اور سیاسی گھٹن سے نجات  چاہتے تھے۔ 1987کے اسمبلی انتخابات میں دھاندلیوں کے بعد عوام کا جمہوری نظام پر سے اعتبار اٹھ گیا تھا اور ووٹر ٹرن آؤٹ عدم دلچسپی اور آزادی پسند پارٹیوں کے بائیکاٹ کال کی وجہ تو بہت ہی کم ہوتا تھا۔
مگر پھر بھی حکومتی عہدوں پر جو افراد براجمان ہوتے تھے، وہ کسی حد تک ان کے مسائل سے آگاہ ہوتے تھے۔ 2018 کے بعد یعنی پچھلے سات سال سے جموں و کشمیر کی انتظامیہ کو مرکزی بیور کریسی چلا رہی ہے۔ اس وقت 20 اضلاع کے ڈپٹی کمشنروں میں سے صرف آٹھ ہی مقامی ہیں۔ خطے کے 112اعلیٰ پولیس افسران میں صرف 24مقامی ہیں، ان میں سے بھی تین ڈیپوٹیشن پر باہر ہیں۔
جموں و کشمیر کو چھ پارلیامانی نشستوں میں تین وادی کشمیر، دو جموں اور ایک لداخ کے لیے مختص کی گئی تھی۔ چونکہ اب لداخ کو علیحدہ کر دیا گیا ہے، اس لیے یہ سیٹیں اب پانچ ہی رہ گئی ہیں۔ 2018 میں ہوئے پنچایتی انتخابات کا نیشنل کانفرنس اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی نے بائیکاٹ کیا تھا۔ کیونکہ وہ وزیر اعظم سے دفعہ 370 اور 35-اے کو برقرار رکھنے کی یقین دہانی چاہتے ہیں تھے۔
اس وجہ سے بی جے پی نے غیر متعلقہ افراد کو کھڑا کرے اور ان کو جتوا کر سیاسی کارکنوں کی ایک نئی پود پیدا کردی، جو اب ان کو چیلنج دے رہے ہیں، گو کہ ان میں سے کئی تو مزاحیہ کردار لگتے ہیں۔
اس وقت ان دو بڑی مقامی پارٹیوں کے علاوہ سید الطاف بخاری کی اپنی پارٹی، غلام نبی آزاد کی ڈیموکریٹک آزاد پارٹی اور سجاد غنی لون کی پیپلز کانفرنس بھی میدان میں ہے۔ سابق ممبر اسمبلی انجینیر رشید، جو پچھلے پانچ سالوں سے دہلی کے تہاڑ جیل میں ہیں کی عوامی اتحاد پارٹی بھی انتخابا ت میں اترنے کے لیے پر تول رہی ہے۔ یعنی بی جے پی سمیت سات پارٹیاں انتخابات میں قسمت آزمائی کریں گی۔
چونکہ بی جے پی جنوبی کشمیر یعنی اننت ناگ سیٹ پر نظریں ٹکائے ہوئے ہے، اس لیے حد بندی کمیشن کے ذریعے اس کا حلیہ تبدیل کرکے رکھ دیا گیا ہے۔ اس میں اب جموں ڈویژن کے دو اضلاع یعنی راجوری اور پونچھ کو شامل کیا گیا ہے۔ یہ دونوں اضلاع اس سے قبل جموں—توی سیٹ کا حصہ ہوتے تھے۔ ریاسی ضلع کو ادھم پور سیٹ سے الگ کر کے جموں حلقہ میں شامل کیا گیا ہے۔
اسی طرح شوپیان، جو جنوبی کشمیر کے بالکل وسط میں ہے، کو سرینگر کی سیٹ کے ساتھ ملایا گیا ہے۔ اس کی سرینگر حلقہ کے ساتھ بارڈر ہی نہیں ملتی ہے۔ اننت ناگ کو راجوری—پونچھ سے ملانے کا واحد ذریعہ شوپیان کے راستے مغل روڈ ہے۔ یہ راستہ سردیوں میں بند رہتا ہے۔ کسی بھی امیدوار کو اسی انتخابی حلقہ کے پیر پنچال کے دوسری طرف کے علاقوں کی طرف انتخابی مہم کے لیےجانا ہو، تو پہلے ڈوڈہ، پھر ادھم پور اور پھر جموں یعنی تین اضلاع کو کراس کرکے اپنے حلقہ کے دوسری طرف پہنچ سکتا ہے۔
جنوبی کشمیر ایک واحد ایسا خطہ ہے، جو خالصتاً کشمیری نژاد نسل پر مشتمل تھا۔ ورنہ چاہے سینٹرل کشمیر ہو یا شمالی کشمیر، اس میں دیگر نسل کے افراد بھی آباد ہیں۔ اب  پونچھ، راجوری کو شامل کرکے اس میں گوجر اور پہاڑی آبادی کو شامل کیا گیا ہے، تاکہ کشمیر آبادی کے اثر و رسوخ پر لگام لگائی جائے۔
اعداد و شمار کے مطابق اب اس حلقہ کی کل 26لاکھ 31ہزار کی آبادی میں 14لاکھ80ہزار کشمیری یعنی 56.25فیصد، گوجرو بکروال 19.81فیصد، پہاڑی 19.84فیصد، ڈوگرہ 0.47فیصد اور پنجابی 0.49فیصد ہونگے۔
بی جے پی کو یقین ہے کہ حال ہی میں پہاڑی آبادی کو  شیڈول ٹرائب (ایس ٹی) کی فہرست میں شامل کرنے سے یہ آبادی ایک مشت اس کے امیدوار کو ووٹ کرے گی۔ پہلے یہ سہولیت صرف گوجربکروال کمیونٹی کو ہی مہیا تھی، جو پسماندہ قوم تصور کی جاتی تھی۔ اس سہولیت کی وجہ سے پہاڑی کمیونٹی، جو جموں و کشمیر کی آبادی کا سات فی صد یعنی کل 9.7لاکھ ہیں، کے لیے اسمبلی، ملازمتوں اور تعلیمی اداروں میں نشستیں مخصوص ہوں گی۔ مگر اس کی وجہ سے گوجر بکروال کمیونٹی ناراض ہے، کیونکہ ابھی تک وہ اکیلے ہی ان نشستوں کی دعویدار تھی۔
خیر سیاسی مبصرین بھی خبردار کر رہے ہیں کہ ایک لمبے عرصے تک کسی خطے کو سیاسی عمل سے دور رکھنا، خطرناک عوامل کا حامل ہوسکتا ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ کشمیر میں سبھی روایتی سیاسی قوتوں کی ایک طرح سے زبان بندی کرکے ان کو بے وزن کر دیا گیا ہے۔ کشمیر میں واقعی ایک امن ہے، مگریہ قبرستان کی خاموشی ہے۔
اگر اطمینان کی خاموشی درکار ہے، تو اس کے لیے سیاسی عمل کے ساتھ سیاسی زمین بھی واپس دینی ہوگی، اور مسئلہ کے دیرپا حل کے لیے کوششیں بھی کرنی پڑیں گی۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: