Slide
Slide
Slide

اجنبی راہوں کا تنہا مسافر:مدرسہ دارالقرآن نیابستی بَرچوندی

✍ظفرامام قاسمی

________________

    20/فروری 2024؁ء بروز منگل بوقت بعد نماز مغرب رفیقِ محترم افقِ شعر و ادب کا ایک پُرنور ستارہ،نوجوانوں کے دلوں کا ساز اور مدرسہ دارالقرآن نیابستی برچوندی ٹھاکرگنج کشن گنج بہار کے نومنتخب ناظم جناب مولانا حسان احسن صاحب قاسمی مدظلہ العالی کی پُرخلوص دعوت پر ادارہ کے نونہالوں کے اختتامی و انعامی پروگرام میں شرکت کی سعادت نصیب ہوئی،یہ ناچیز کی خوش بختی ہے کہ اپنی منزل سے  دور پار کے گاؤں تک رسائی ممکن ہوئی،یہ محض توفیقِ ایزدی اور آپ احباب کی دعاؤں کا ہی ثمرہ ہے ورنہ:
               ؎  کہاں میں؟ اور کہاں یہ نکہتِ گُل؟
                       نسیمِ صبح! تیری مہربانی
      استاذ الاساتذہ حضرت قاری محبوب عالم صاحب (سابق مدرس دارالعلوم بہادرگنج و ناظم اعلی مدرسہ مظاہر علوم پواخالی) کے منجھلے فرزندِ ارجمند،صالحیت و صلاحیت سے سے معمور بہترین عالمِ دین رفیقِ گرامی جناب مولانا و مفتی حنظلہ صاحب قاسمی دامت برکاتہم العالیہ کے توسط سے عرصۂ دراز سے ”برچوندی“ گاؤں کے نام سے واقف تھا مگر یہ گاؤں کشن گنج کے جس خطے میں واقع ہے اس خطے سے ہمارا خطہ افق سے افق تک کا راستہ رکھتا ہے،درمیان میں کئی شہرہ آفاق ندیوں کی حیلولت نے اس فاصلے کو مزید مستبعد بنادیا ہے،بریں بنا چاہ کر بھی درج بالا تاریخ سے پہلے مذکورہ گاؤں کی زیارت سے محروم رہا اور تب تک دل کی حسرت دل ہی میں کروٹیں لیتی رہی،پھر مفتی حنظلہ کے چھوٹے بھائی صدیقِ گرامی مولانا حسان احسن صاحب قاسمی کے دل میں اللہ نے مجھ نابکار کو اپنے ادارے کے عظیم الشان اختتامی و انعامی پروگرام میں مدعو کرنے کی بات ڈالی اور یوں تمناؤں کے دریا میں ہچکولے کھاتی میری کشتئ حسرت  ساحل تک پہونچ سکی۔
    ٹھاکرگنج علاقے سے تعلق رکھنے والے برچوندی گاؤں کا محل وقوع نہایت خوبصورت اور من پُربہار ہے،مہانندا نامی دریا کی جلترنگ بجاتی لہروں کی مصاحبت نے اس گاؤں کے حسن کو دوبالا کردیا ہے،دریا کنارے آباد یہ گاؤں نہایت حسین لگتا ہے،پورا علاقہ سرسبز و شاداب ہے،تاحدنگاہ ہریالی ہی ہریالی نظر آتی ہے،دھان،گیہوں،سرسوں اور جوار کی کونپلوں سے اٹھتی ہواؤں کے پُرنم جھونکوں نے پورے علاقے پر خوش گواری کی ردا تانی ہوئی ہے۔
    مگر ان ظاہری حسن و جمال کے باوجود پورے علاقے کے آسمان پر ساون کے بادلوں کی طرح تنی بدعات و خرافات کی دبیز چادر نے اس جمالیاتی فضا کو مکدر بنایا ہوا ہے،اس پورے خطہ میں سوائے دو چار گاؤں کے کوئی ایک بھی گاؤں ادارے کا ہم خیال نہیں ہے،ہرنکڑ پر جہالت و ضلالت کا پڑاؤ ہے،ہر گلی میں رسم و رواج کا چراغ روشن ہے،ہر سمت بدعات و خرافات کا راج ہے،اعتقادی و عملی کمزوریاں شباب پر ہیں،غرض یہ کہ اس علاقے کے سارے جغرافیائی جمال کو بدعات و خرافات کی نحوست نے گدلا کردیا ہے۔
     جہالت و ضلالت کا ٹھاٹھیں مارتا سیلاب رہے سہے  علاقے کو بھی اپنے بہاؤ میں سمو لینے کے لئے بڑی سرعت کے ساتھ آگے بڑھ رہا تھا اور قریب تھا کہ وہ اسے خاشاک کی طرح بہا بھی لے جاتا مگر ”ہرشرارِ بولہبی کے لئے چراغِ مصطفوی“ کی ستیزہ کاری قدرت کی  کافی قدیم روایت ہے،ہر دور میں فرعون کے جابر پنجوں کو مروڑنے کے لئے یدِ موسوی کا وجود ہوتا ہے،چنانچہ جہالت و ضلالت کے اسی سیلاب کے سامنے بند باندھنے کے لئے اسی علاقے کے برچوندی گاؤں سے تعلق رکھنے والی ایک عبقری،دور اندیش،مایہ ناز،اور جہاں دیدہ شخصیت،بےپناہ صلاحیتوں کے حامل انسان،ہزاروں شاگردوں کے استاذِ وحید حضرت مولانا و قاری محبوب عالم صاحب قاسمی مدظلہ العالی سنتِ موسوی کو زندہ کرنے کا عزم لیکر میدانِ عمل میں قدم فرما ہوئے، آپ کی فکرِ فلک پیما نے تاڑ لیا کہ اگر اس اندھیر نگری میں قرآن و سنت کے چراغ کو روشن نہ کیا گیا تو کہیں ایسا نہ ہو کہ ہماری آنے والی نسل کو ایمان کے لالے پڑجائیں۔
     اسی فکر کو سامنے رکھتے ہوئے آپ نے کئی بیگھہ پر مشتمل اپنی ذاتی زمین مدرسے کے لئے وقف کردی،اور پھر نہایت بےسامانی کے عالم میں 2010؁ء میں اس ویران جگہ پر مدرسے کی شکل میں ایک چھوٹے سے پودے کی کاشت کر ڈالی،آپ چونکہ جسمانی اعتبار سے قدرے کمزور ہوچکے تھے،اور اس علاقے میں کام کرنے کے لئے پہاڑ جیسی ہمت کی ضرورت تھی،ادھر آپ کے تینوں صاحبزادے قاری حمزہ صاحب،مفتی حنظلہ صاحب قاسمی اور مولانا حسان احسن صاحب قاسمی تعلیمی راہوں کے مسافر بنے ہوئے تھے،سو آپ نے خود کے ہاتھوں میں ادارے کی سرپرستی کی ڈور رکھتے ہوئے  اہتمام کی ذمہ داری اپنے لائق و فائق،نہایت جفاکش اور محنتی داماد جناب حضرت مولانا شاہ عالم صاحب کے سپرد کردی،اس علاقے میں اہتمام کا سنبھالنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا،مگر آپ نے بھی ہمت نہ ہاری اور نئی نسل کی بقائے ایمان کی خاطر پوری مستعدی کے ساتھ اپنے اہتمامی کاز کو آگے بڑھانا شروع کردیا۔
     انسان اگر عزم کا پختہ اور ارادے کا کامل ہو تو پھر بڑے سے بڑا پہاڑ بھی اس کا غبارِ قدم بن جاتا ہے،حالات کی نامساعدی اور اہل علاقہ کی سردمہریوں  کے باوجود آپ نے اس ویران نگری میں اس ننھے سے پودے کے بال و پر اگانے شروع کردئے،کئی بار زمانے کی تند آندھیوں نے آپ کے عزائم کے کل پرزے ادھیڑنے کی کوشش کی،بادِ مخالف نے آپ کے آگے روڑے اٹکائے مگر یہ ساری چیزیں آپ کے عزم کے سامنے غبارِ راہ سے زیادہ باحیثیت نہ بن سکیں،اور پھر چشمہائے بینا نے دیکھا کہ تھوڑے ہی عرصے میں کس طرح اس ویرانے میں اس ننھے سے پودے نے اپنے برگ و بار کھلائے،آج بتدریج وہ پودا ایک شمشاد قامت درخت کا روپ دھار چکا ہے،جس کے سایۂ دراز میں علاقہ و غیر علاقہ کےسینکڑوں طلبہ و طالبات اپنی علمی آسودگی حاصل کرتے اور اپنے قلب و جگر کو شادکام کرتے ہیں۔
    اسی درخت کے سایہ تلے بڑی آن،بان اور شان کے ساتھ 20/فروری 2024؁ء بروز منگل وہاں زیر تعلیم طلبہ و طالبات کا انعامی و اختتامی پروگرام منعقد ہوا،جس میں مجھ ناچیز سمیت علاقے کی کئی نامور ہستیاں مدعو تھیں،جن میں ادیبِ کامل،بےباک صحافی حضرت مولانا آفتاب اظہر صاحب صدیقیؔ چھترگاچھ،مظاہر علوم پواخالی کے ناظم اعلی حضرت مولانا اقبال قمر صاحب،دارالعلوم نعمانیہ شیشہ گاچھی پواخالی کے جواں سال مہتمم حضرت مولانا اخلاق صاحب اور مدرسہ مظاہر علوم پواخالی کے نائب ناظم حضرت مفتی حنظلہ صاحب قاسمی وغیرہم کے اسماء سرفہرست ہیں،مفتی حنظلہ صاحب نے مہمانی اور میزبانی دونوں کا ذمہ نبھایا،آپ بیک وقت مہمان بھی تھے اور میزبان بھی، نظامت کا فریضہ آپ ہی نے انجام دیا۔
     اولِ وقت میں عشاء کی نماز پڑھ لی گئی،اور اس کے بعد باقاعدہ پروگرام کا سلسلہ شروع ہوا،ادارہ کے نو منتخب ناظم جناب مولانا حسان احسن صاحب قاسمی نے بڑے ذوق کے ساتھ پروگرام کو سجایا تھا، آپ کے ذوقِ آراستگی کو دیکھ کر دل مسرت سے جھوم اٹھا،مدرسے کے لان میں خوبصورت شامیانے اور دیدہ زیب قناتیں نصب کی گئی تھیں،دیکھتے ہی دیکھتے مردوں اور عورتوں کا ایک سیلاب پروگرام گاہ میں امڈ آیا،یہ سب اپنے نونہالوں کے فن اور کمال کو دیکھنے آئے تھے،تلاوتِ کلام اللہ اور مدحتِ رسول اللہ ﷺ کے بعد طلبہ و طالبات کا پروگرام شروع ہوا،میں نے اس چھوٹے سے مدرسے میں بچوں کا جو پروگرام دیکھا اس نے میرے دل پر ایک گہرا تاثر نقش کیا، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اس چھوٹے سے جنگل میں ان نونہالوں نے منگل کا سماں پیدا کردیا تھا،انوکھی تعبیرات سے مرصع ان کی دلکش تقریر،دل پر نقش ہوتا ہوا ان کا اچھوتا انداز، بےباک لہجہ،نشیب و فراز کا بھر پور لحاظ،دورانِ تقریر ان کے برمحل اشارے اور حالاتِ حاضرہ پر مشتمل ان کے دلچسپ اور نصیحت آمیز مکالمے نے ہمیں ورطۂ حیرت میں ڈال دیا تھا،مجھ سے تو رہا نہ گیا اور اپنے تاثراتی خطاب میں میں نے برملا یہ اعتراف کیا کہ”ہمارے بچپن میں اس طرح کا پروگرام تو ہمارے تصور کا بھی حصہ نہیں تھا“۔
    واقعة مدرسہ دارالقرآن نیا بستی برچوندی کے نونہالوں کے پروگرام کو دیکھ کر جو خوشی ملی اسے میں لفظوں کا جامہ پہنانے سے قاصر ہوں،یقینا یہ سب ادارے کے مہتمم،بانی اور اساتذہ کی شب و روز کی محنتوں اور آہِ سحرگاہیوں کا ثمرہ ہے کہ اس بھٹی سے خاک کندن بن کر نکل رہی ہے،چند مہینے پہلے رفیقِ گرامی مولانا حسان احسن صاحب کا بطور ناظم انتخاب نے ادارے کی تعلیم و تربیت پر چار چاند لگا دیا ہے،موصوف ایک باکمال شاعر، ماہر انشاء پرداز، خوش گلو اور بےپناہ تخلیقی صلاحیتوں کے حامل نوجوان عالم دین ہیں،آپ کے اندر ایک ولولہ ہے،ایک جنون ہے اور علاقے کے لئے کچھ نہیں بلکہ بہت کچھ کرنے کا جذبہ موجزن ہے،خدا کرے کہ آپ کا وجود ادارے کے لئے خیر و برکات کے در وا کرے۔
    پروگرام کے بعد مدعو مہمانانِ کرام کا پرمغز خطاب ہوا اور انہی ہاتھوں سے طلبہ کرام کو حسبِ مراتب گراں قدر انعامات سے نوازا گیا۔
   الغرض اجنبی راہوں کا یہ تنہا مسافر رفتہ رفتہ اپنی مشنی راہ پر گامزن ہے،ایسے بے کس و کسمپرس ادارے بہت زیادہ توجہات کے محتاج ہوتے ہیں،اہل خیر حضرات کو زیادہ سے زیادہ ایسے اداروں کی جانب دھیان دینے کی ضرورت ہے،تاکہ یہ ادارے اپنی کوکھ سے ایسے جانباز سپاہیوں کو جنم دیتے رہیں جو اس تختۂ جہاں سے بدعات و خرافات اور جہالت و ضلالت کے گھروندوں کو ملیامیٹ کرنے کے لئے ہمہ وقت تیار رہیں۔
      بڑی ناسپاسی ہوگی اگر میں اپنی اس تحریر کا اختتام اس مخلص دوست کی دوست نوازی پر نہ کروں جنہوں نے اس سفر میں میرے تئیں بڑی گرمجوشی اور دریا دلی کا مظاہرہ کیا،سوشل میڈیا پر جب میرے نام پر مشتمل اس پروگرام کا اشتہار وائرل ہوا تو دارالعلوم دیوبند کے میرے رفیقِ دیرینہ اور اب میرے کئی منزلہ کے بہنوئی جناب مولانا شاہ کامل صاحب قاسمی نے مجھے فورا فون کیا،مگر بروقت میں فون نہ اٹھا سکا،کافی دیر بعد جب موبائل کھولا تو موصوف میسیج گاہ پر میرے جواب کے منتظر تھے،موصوف کا میسیج تھا”آپ برچوندی آ رہے ہیں کیا“؟ موصوف کا یہ میسیج مجھے اس وقت نظر نواز ہوا جب میں برچوندی پہونچ چکا تھا،میں نے جوابا لکھا ” میں تو پہونچ چکا ہوں“ اس پر موصوف نے کہا کہ: میں ابھی گھر پر ہوں،اچھا موقع ہے،چاہے پانچ منٹ کے لئے ہی سہی میرے گھر پر صبح ضرور آئیےگا “ میں نے کہا بھائی: مجھے آغاز سحر ہی کشن گنج کے لئے نکلنا ہے،صبح مشکل ہے،کیوں نہ میں ابھی آجاؤں کہ ابھی پروگرام شروع ہونے میں دیر ہے“موصوف نے کہا:ٹھیک ہے ابھی آجائیے“پھر کیا تھا میں نے اجازت لی اور وہاں سے رات کے سات بجے مولانا شاہ کامل کے گھر کے لئے نکل پڑا۔
       مولانا شاہ کامل کا تعلق بھنکردواری سے ہے،جس کا محل وقوع برچوندی سے پانچ کیلو میٹر پیچھے ہی ہے،میرا گزر ادھر سے ہی ہوا تھا،مگر مجھے آپ کے گھر کا علم اور آپ کے گھر پر ہونے کا خیال نہیں تھا،رات کا وقت،تاروں بھرے آسمان کا پرنور نظارہ،فروری کی خنک ہوائیں اور گیہوں کے ننھے ننھے پودوں کی شبنمی خوشبو دل کو سرور عطا کر رہی تھی،اس خوش گوار موسم میں میری بائک خوش گامی کے ساتھ بڑھتی چلی جا رہی تھی کہ تھوڑی ہی دیر میں موصوف کا دولت کدہ آ پہونچا،موصوف رئیس گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں،آپ کا دیدہ زیب بنگلہ استقبال کے لئے کھڑا تھا،موصوف سمیت آپ کے گھر والے بڑے تپاک سے ملے اور پُرتکلف ناشتہ کی میز پر لے بٹھایا،مٹھائی،ممبئ کی نان کھٹائی اور کئی نوع کے میووں سے کام و دہن کو لذت بہم پہونچاتا ہوا مولانا شاہ کامل کو ساتھ لے کر واپس برچوندی پہونچا اور پھر پروگرام کے اختتام کے بعد بھنکردواری میں آکر قیام کیا،صبح مجھے رابطہ کے امتحان کے لئے جلدی کشن گنج نکلنا تھا،سو فجر کے فورا بعد چائے سے فارغ ہوتے ہی یادوں کی بےبہا سوغات کے ساتھ میں کشن گنج کے لئے روانہ ہوگیا،جزاہ اللہ عنا احسن الجزاء
   دعا ہے کہ اللہ پاک میرے اس مختصر سے سفر کو ادارے کے حق میں خیر کا ذریعہ بنائے اور ادارے کو دن دوگنی رات چوگنی ترقیات کی دولت سے سرفراز کرے۔آمین
     

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: