Slide
Slide
Slide

رمضان مبارک ہو!

✍️ زین شمسی

________________

غالباً 4 سال قبل رویش کمار نے آفیشیل  طور پر  عوام سے گزارش کی تھی کہ آپ ٹی وی دیکھنا چھوڑ دیں تاہم ان کی اس گزارش سے ایک سال پہلے سے ہی میں نے ٹی وی دیکھنا چھوڑ دیا تھا۔ مگر ان لوگوں کو ضرور دیکھ رہا تھا جو ٹی وی دیکھتے تھے اور پریشان رہتے تھے، بعد ازاں وہاٹس ایپ نفرت پھیلانے کا سب سے بڑا آلہ کار بنا تو ٹی وی کے اینکر کی روزی روٹی بھی ماری جانے لگی اور اس نے سیدھے سیدھے بغیر حکم کے ہی احکام ماننے  کا فیصلہ لے لیا اور پوری طرح سر بسجود ہوگئے۔ وہاٹس ایپ پر چلائی جانے والی مہم زیادہ  کارگر ثابت ہوئی کہ جاہلوں سے لے کر عالموں تک اینڈروائڈ فون کی رسائی ہو چکی تھی ۔اس کی دھار اتنی تیز تھی کے بغیر کسی حوالہ کے تاریخ بیان کی جانے لگی اور بغیر کسی حقیقت کے  سماج بیان کیا جانے لگا۔ شدت اتنی کہ سارے جہلا ڈاکٹریٹ کی ڈگری لے کر گھومنے لگے اور سارے ڈاکٹر اتیہاس کی جگہ مہابھارت اور رامائن کو تاریخ کا حوالہ بتانے لگے۔ مسلمانوں کی مخالفت میں  مسلم آبادیوں میں پوجا پاٹھ  ہونے لگا، اذان کے وقت بھجنوں کے ساونڈ بڑھاٸے جانے لگے اور  دلت اور  درج فہرست ذاتیں شری رام  کا جھنڈا اٹھا کر ہندوتو کے علم بردار برہمن بننے لگے۔
مسلم دشمنی میں یہ سمجھنے کی فرصت ہی کسی کو نہیں ملی کہ وہ مسلمانوں کی مخالفت میں دیش کے مخالف ہو گئے۔ جب مسلمانوں نے یہاں تک دیکھ لیا کہ عوام  تو عوام پولیس بھی نمازیوں کو روندنے لگی ہے تو انہوں نے اپنے آپ کو بیک فٹ پر رکھنا ہی مناسب سمجھا کہ ابھی ان کا وقت آیا ہے ۔ شور ہے زور ہے اور سب سے بڑی بات کہ جاہلیت کا دور ہے۔ اس جہالت کی دنیا میں ایک بات حیران کردینے والی تھی کہ بڑی بڑی مسلم شخصیتیں بھی ہوا کے دوش میں بہہ کر پتل یعنی پتے پر کھانا کھانے بیٹھ گئیں، اخبارات میں خبر شائع ہوئی کہ رام کو نبی ماننے والے والے مسلمانوں نے رام للا کے درشن کئے اور پتل پر کھانا کھایا۔ یہی نہیں  عہدہ اور منصب کے لالچ میں قطار بند کئی مسلمان خود بی جے پی کے بڑے بڑے لیڈروں سے پھٹکار سنتے آئے۔ ایک بار اٹل بہاری واجپئی نے ایسے ہی مسلمانوں کے بارے میں کہا تھا کہ آپ مسلمان ہیں  آپ اپنی  شناخت کے ساتھ بی جے پی میں آیئے نہ کہ وہ کر کے جو  بی جے پی والے کرتے رہتے  ہیں۔
الیکشن  سے پہلے رمضان آ چکا ہے ۔ مسلمان ووٹر کے طور پر  ایک صف میں پولنگ بتھ پر جمع ہوں گے یا نہیں ، مگر رمضانی مسلمانوں کی طرح مساجد میں ضرور قطار بند نظر آتے ہیں۔ تاہم  اگر ہم فاقہ اور روزہ کا تقابلی مطالعہ کریں تو شاید فاقہ کو  ترجیح دینی پڑ جائے گی اور تقوی مرزا دبیر کی طرح میر انیس کے  انداز بیاں میں دب کر رہ جائے گا۔ رمضان کے بارے میں آکسفورڈ یونیورسٹی کے  پروفیسر  مورپالڈ نے کبھی کہا تھا جب میں اسلامی تعلیمات کا مطالعہ کر رہا تھا تو روزہ کے باب پر پہنچتے ہی بری طرح چونک پڑا۔ میں نے اس فارمولے کو  آزمایا۔ میں عرصہ دراز سے  Stomach Inflamation یعنی پیٹ کے مرض میں مبتلا تھا۔ کچھ دنوں بعد ہی میں نے محسوس کیا کہ  اس میں کمی واقع ہوگئی ہے ۔ جب میں نے یہ مشق جاری رکھی تو اس مرض میں انقلابی  تبدیلی پیدا ہوگئی۔ ان کا ماننا ہے کہ  اسلام نے اپنے ماننے والوں کے لئے کتنا عظیم فارمولہ دیا ہے۔ اگر اسلام اپنے ماننے والوں کو اور کچھ نہ دیتا  صرف یہی روزہ کا فارمولہ دیتا تو بھی اس کے پاس اس سے بڑی نعمت نہیں ہوتی۔  معاملہ صرف مورپالڈ کا نہیں ہے بلکہ  دنیا کے تقریباً تمام ممالک  میں تمام مذاہب کے ماننے والوں کی کچھ تعداد ایسی ہے جو پورے ماہ روزہ کا اہتمام کرتی ہے۔
اس بار سب سے بڑی خوشی اس بات کی ہوئی کہ یونیسکو نے بھی اپنے ثقافتی ورثہ کے زمرے میں افطار  کو جگہ دی ہے۔ یعنی افطار اب یونیسکو کے کلچرل ہیریٹیج کا حصہ بن گیا ہے۔ یونیسکو کا ماننا ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں ہزاروں لاکھوں لوگوں کا ایک ہی وقت میں دسترخوان پر بیٹھ کر مختلف انواع و اقسام کا کھانا تناول کرنا حیرت کی بات ہے اور یہ سلسلہ  صدیوں سے چلا آرہا ہے۔ یونیسکو  نے  دیر سے ہی سہی مگر اسلامی روایت کو تسلیم تو کر ہی لیا ہے  اور کیوں نہ کرے کہ جہاں فوڈ سیکورٹی آرڈیننس افلاس زدہ طبقہ کے لئے پیٹ بھر اناج مہیا کرانے کی کوشش میں ہے، وہیں اسلامی روایات میں رمضان کا روزہ اناج بچانے کا سب سے کارگر نسخہ دے چکا ہے۔ جس طرح دنیا بھر کے مسلمان ایک مہینہ روزہ رکھتے ہیں اگر دنیا بھر کے لوگ ایک ماہ روزہ رکھ لیں تو فوڈ سیکورٹی ڈپارٹمنٹ کا سر درد اپنے آپ ہی ختم ہو جائے گا۔ سارے انسان کے لئے اناج کا ذخیرہ جمع ہو جائے گا۔ نشہ کی لت سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے سرکار کتنا پیسہ خرچ کرتی ہے۔ کتنے این جی اوز  اس کام میں مصروف ہیں۔ نشہ نے کتنے گھروں کو تباہ کر دیا ، لیکن حیرت کی بات ہے کہ یہی نشہ کے عادی لوگ رمضان  میں خود بخود  اس لت کو  ترک کر دیتے ہیں۔ یہ مقدس مہینہ انسان کی بہتری اور معاشرہ کے اصلاح کا سب سے بڑا موقع ہے۔
دنیا میں ایسے کئی دور آئے ہیں جب  اسلام اور مسلمانوں پر زندگی تنگ  کی گئی ہے ، مگر اسلام کے ماننے والے سچے مسلمان جب اسلامی روایت کے ساتھ  آگے بڑھتے گئے تو ان کی مشکلات حل ہوتی گئیں۔ مسلمانوں کو اس بات کو سمجھ لینا ضروری ہے  کہ صرف اسلام ہی جو دنیا کو  انصاف پرور اور ایماندار بنا سکتا ہے اس کا فارمولہ ہی انسانیت کو جلا بخشنے والا ہے۔ روزہ تو ایک سرپرائز ہے جس کا صلہ اللہ بندے کو خود دے گا، مگر بندہ  اللہ کو اس کے بدلے کیا دے گا ، یہ سوچنا ہی  اسلامی عمل پر  چلنا سکھاتا ہے۔ چاہے لاکھ مصیبت آئے ، چاہے  دائرہ کتنا بھی تنگ کر دیا جائے اگر مسلمان اسلامی روح کی پیروی کرے گا تودنیا میں عزت و عظمت کاحصہ دار ہوگا۔ اس لئے وہاٹس ایپ مسیج ہو یا ہندوستانی میڈیا اس سے گھبرانے کی بات نہیں ہے ۔ بس اپنے اصولوں پر قاٸم رہنا ضروری ہے۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: