Site icon

صدقہ فطر کی اہمیت ،حکمت اور ادائیگی کا معیار

✍مفتی محمد خالد حسین نیموی قاسمی

رکن الاتحاد العالمی لعلماء المسلمین دوحہ ،قطر

_______________

رمضان المبارک اپنی تمام تر رحمتوں اور برکتوں کے ساتھ اہل ایمان پر سایہ فگن ہے، اہل ایمان روزہ، تلاوت تراویح قیام اللیل سمیت کئی عبادات میں سرگرم عمل ہیں، رمضان المبارک میں جو عبادتیں انجام پذیر ہوتی ہیں ان میں سے ایک اہم عبادت صدقہ فطر بھی ہے،، ہر کھاتے پیتے انسان پر صدقہ فطر کی ادائیگی لازم ہے، اپنی طرف سے بھی اور اپنے زیر کفالت افراد کی طرف سے بھی.
حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اﷲ عنہما نے فرمایا کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صدقہ فطر کو لازم فرمایا ہے، ایک صاع کھجوریں، یا ایک صاع جَو، ہر غلام اور آزاد مرد اور عورت، ہر چھوٹے اور بڑے مسلمان کی طرف سے اور حکم فرمایا کہ اسے نماز عید کے لیے نکلنے سے پہلے ہی ادا کر دیا جائے۔‘‘ (متفق علیہ)
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم صدقۂ فطر میں ایک صاع کھانا نکالا کرتے تھے، یا ایک صاع جَو، یا ایک صاع کھجوریں، یا ایک صاع پنیر یا ایک صاع کشمش نکالتے تھے ۔‘‘ (متفق علیہ)
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ  نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم فرمایا کہ صدقہ فطر نماز عید کے لیے جانے سے پہلے ادا کیا جائے۔‘‘
(مسلم، ابو داؤد، نسائی)
عبد اللہ ابن عباس رضی اﷲ عنہما نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صدقہ فطر کو فرض فرمایا. جو روزہ داروں کی لغویات اور بیہودہ باتوں سے پاکی ہے اور غریبوں کی پرورش کے لیے ہے۔ جس نے نماز عید سے پہلے اسے ادا کیا تو یہ مقبول زکوٰۃ ہے اور جس نے اسے نماز عید کے بعد ادا کیا، تو یہ دوسرے صدقات کی طرح ایک صدقہ ہوگا. (ابو داؤد، ابن ماجہ)
حضرت جریر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "صوم شهر رمضان معلق بين السماء والأرض ولا يرفع إلّا بزكاةالفطر“  (الترغيب والترهيب: 2/157)
(رمضان کے روزے آسمان او رزمین کے درمیان معلق (لٹکے) رہتے ہیں، جنہیں (اللہ کی طرف) صدقہ فطر کے بغیر نہیں اٹھایا جاتا۔)
حضرت عبدالله بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ارشاد فرمایا، "فرض رسول الله صلى الله عليه وسلم زكاة الفطر، وقال: أغنوهم في هذا اليوم.” (دار قطنی) (اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر کو فرض (یعنی واجب) قرار دیا اور فرمایا: ”غریبوں کو اس دن مستغنی کردو (یعنی ان کے ساتھ اس طرح مالی معاونت کرو کہ انھیں کسی سے مانگنا نہ پڑے )
صدقہ فطر میں بے شمار دنیا وآخرت کے فوائد مضمر ہیں، عام طور پر روزہ دار وں سے روزے کی حالت میں دانستہ یا نادانستہ کوئی غلطی  سرزد ہوجاتی ہے، جس کی تلافی کا انتظام صدقہ فطر ذریعے کیا گیا ہے۔ اسی طرح وہ فقراء ومساكين جن کے لیے نئے جوڑے اور کپڑے تو درکنار، اپنی دن بھر کی خوراک وغیرہ کا  انتظام کرنا بھی مشکل ہوتا ہے ، ان کے لیے خوراک وغیرہ کا انتظام بھی صدقہ فطر کے ذریعے ہوجاتا ہے تاکہ وہ بھی کسی درجے میں عام مسلمانوں کے ساتھ عید کی خوشیوں میں شریک ہوجائیں ۔
مذکورہ احادیث سے معلوم ہوا کہ صدقہ فطر میں دو جہات ہیں. ایک تو یہ کہ اس سے غرباء، فقراء اور محتاجوں کی دادرسی ہوتی ہے اور ان کے ساتھ دست تعاون دراز کرکے انسانیت کی خدمت ہوتی ہے. ساتھ ہی عید کی خوشیوں میں مفلوک الحال افراد کو شامل کرکے عید کی خوشیوں کو دوبالا کیا جاتا ہے. جب سب لوگ خوشی میں شریک ہوں گے تو اجتماعیت کا اظہار بھی ہوگا اور جشن کا سماں بھی قائم ہوگا؛ لیکن اگر ایک گھر سے مختلف قسم کے لذیذ کھانوں کی خوشبو آرہی ہو اور دوسرے گھر کے چولہے میں راکھ پڑی ہو تو ظاہر ہے اجتماعی خوشی کا احساس نہیں ہوگا؛ اس لیے عید کے دن خاص طور پر یہ صدقہ فطر رکھا گیا ہے.
ساتھ ہی اس سے خود روزہ دار کا بڑا فائدہ ہوتا ہے کہ اس کے روزے میں جو نامناسب حرکتیں یا لغو اعمال ہوجاتے ہیں، صدقہ فطر سے ان کی تلافی ہوجاتی ہے..
البتہ سوال یہ ہے کہ صدقہ فطر کی مقدار کیا ہے،،، اس سلسلے میں درج بالا احادیث سے روشنی ملتی ہے کہ صدقہ فطر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جن اشیاء اور غلوں کا استعمال ہوتا تھا ان میں سے ایک صاع ادا کرنے ہیں، موجودہ اوزان کے اعتبار سے نصف صاع ایک کلو چھ سو تینتیس گرام (1.633) ہوتا ہے اور مکمل ایک صاع برابر تین کلو دو سو چھیاسٹھ گرام (3.266) ہوتا ہے۔
صدقۂ فطر میں اناج یا اس کی قیمت میں سے جو (انفع للفقراء) محتاجوں کے لیے فائدہ مند ہو وہ دینا بہتر ہے۔
زمانۂ نبوی میں صدقۂ فطر میں  کھجور، منقی، پنیر اور جَو وغیرہ غذائی اجناس دی جاتی تھیں۔
بعض روایات میں گیہوں کا تذکرہ بھی آیا ہے.
گیہوں کے علاوہ دوسری اجناس سے صدقۂ فطر کی مقدار ایک صاع ہونے پر فقہا کا اتفاق ہے، البتہ گیہوں کے سلسلے میں اختلاف ہے، جمہور فقہاء دوسرے غلوں کی مانند گیہوں میں بھی ایک صاع صدقۂ فطر کے قائل ہیں ، لیکن گیہوں کی مقدار کے سلسلے میں امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالی کا جمہور فقہاء سے اختلاف ہے، آپ کے نزدیک گیہوں سے صدقۂ فطر کی مقدار نصف صاع ہے۔. حنفیہ کے نزدیک فتویٰ گیہوں میں نصف صاع کے قول پر ہے. اور اس کے مستقل دلائل ہیں.
اس سلسلے میں حدیث حضرت ابن عباس کی ذیل کی روایت قابلِ ذکر ہے ،وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے صدقہ فطر میں ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو یا نصف صاع گیہوں کو متعین فرمایا. پھر ایک مرتبہ حضرت علی تشریف لائے اور انہوں نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے اب وسعت دے دی ہے. کیا ہی بہتر ہو کہ تم ہر چیز سے ایک صاع نکالو ، (ابوداؤد حدیث نمبر : ۱۶۲۲) )
اسی طرح ایک روایت حضرت ابوہریرہ کی ہے جس میں ایک صاع گیہوں کا تذکرہ ہے.
گیہوں کا رواج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں نہیں تھا یا کم تھا، حضرات خلفائے راشدین کے زمانے میں حجاز مقدس اور جزیرہ عرب میں اس کا استعمال عام ہوا، اور پھر دیگر اشیاء کے ساتھ اس کے قدر کا تعین بھی ہوا… اس سلسلے میں کتب حدیث میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے تعلق سے یہ روایت موجود ہے..
جسے امام بخاری، مسلم، ابو داود، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ نے  حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے ، 
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں :  رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اور اس کے بعدہم ہر چھوٹے، بڑے، آزاد اور غلام کی طرف سے صدقۂ فطر میں کھانے، پنیر، جو، کھجور اور کشمش میں سے ایک ایک صاع دیتے تھے، پھر جب ہمارے پاس معاویہ ابن ابی سفیان (رضی اللہ عنہما) حج یا عمرہ کرنےکی غرض سے آئے اور آپ نے منبر پر دوران خطاب فرمایا کہ میری رائے میں دو (2)مُد، شامی گندم ایک صاع کھجور کے برابر ہیں، تو لوگوں نے آپ کی رائے پر عمل کرنا شروع کردیا، لیکن میں پوری زندگی ایک صاع گندم ہی فطرہ نکالتا رہوں گا جیسے پہلے نکالتا تھا..
ایک سوال یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کھانے میں عمومی طور پر کن چیزوں کا استعمال ہوتا تھا.
اس سلسلے میں
حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں حضرت  ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی روایت نقل کی ہے آپ فرماتے ہیں:
کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور مبارک میں عید الفطر کے دن کھانے سے ایک صاع صدقہ فطر نکالتے تھے، اس وقت ہمارے کھانے جو، کشمش، پنیر، اور کھجور ہی ہوا کرتےتھے۔
مشہور محدث امام محمد بن خزیمہ علیہ الرحمۃ (م311/ھ)نے بطریق فضیل بن غزوان، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کی کہ:
لم تكن الصدقة على عهد رسول الله صلي الله عليه وسلم إلا التمر، والزبيب، والشعير، ولم تكن الحنطة.
ترجمہ:رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ اقدس میں صدقۂ فطر کھجور، منقی، اور جو ہی دیا جاتا تھا۔گیہوں اس وقت عام مروج نہ تھا۔
(صحیح ابن خزیمہ، ج 4/ص 85/ حدیث : 2406/)
حضرت ابو سعید خدری کی روایت میں واضح طور اس کا ذکر ہے کہ گیہوں سے صدقہ فطر کی مقدار نصف صاع حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے متعین کی تھی.
حافظ ابن حجر نے اس حدیث کی شرح میں ایسے اقوال بھی نقل کیے ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہےکہ پہلے بھی صحابہ کرام اسی طرح کا فیصلہ کر چکے تھے. چناں چہ حضرت عمرکے زمانے میں جب شام کے علاقے سے حجاز کے علاقے میں گیہوں آنے لگا تو انھوں نے بھی یہی فیصلہ کیا تھا کہ گیہوں کا ایک مد دوسرے اجناس کے دو مدکے برابر ہے اور یہی فیصلہ حضرت عثمان نے بھی اپنے عہد خلافت میں کیا تھا۔حافظ ابن حجر نے کئی دوسرےصحابہ کی رائے بھی اسی کی موافقت میں نقل کی ہے۔
ان تمام روایات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ صدقۃ الفطر میں مقدار کے تعین کے لیےاصل جنس نہیں ہے، بلکہ مالیت ہے۔یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے دور میں ایک صاع کھجور، ایک صاع جویا ایک صاع کشمش وغیرہ (جن چیزوں کا ذکر حدیث شریف میں ہے) ان کی مالیت مساوی تھی
حضرت حسن کہتے ہیں کہ حضرت  ابن عباس رضی اللہ عنہما نے رمضان کے اخیر میں بصرہ کے منبر پر خطبہ دیا اور کہا: ”اپنے روزے کا صدقہ نکالو“، لوگ نہیں سمجھ سکے تو انہوں نے کہا: ”اہل مدینہ میں سے کون کون لوگ یہاں موجود ہیں؟ اٹھو اور اپنے بھائیوں کو سمجھاؤ، اس لیے کہ وہ نہیں جانتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ صدقہ فرض کیا کھجور یا جَو سے ایک صاع، اور گیہوں سے آدھا صاع ہر آزاد اور غلام، مرد، عورت، چھوٹے اور بڑے پر“، پھر جب علی رضی اللہ عنہ آئے تو انہوں نے ارزانی دیکھی اور کہنے لگے: ”اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے کشادگی کر دی ہے، اب اسے ہر شے میں سے ایک صاع کر لو ، یعنی گیہوں سے بھی ایک صاع ادا کرو.
مذکورہ بالا حدیث سے یہ واضح ہے کہ رسول اکرم کے زمانے میں صدقہ فطر کھجور، منقی،جو ،سے ادا کیا جاتا تھا
بعض روایات ہیں جن میں گیہوں سے نصف صاع مقرر کرنے کی نسبت رسول اللہ کی طرف کی گئی ہے،ان میں سے بعض روایات صحیح ہیں اور بعض کی اہل علم نے تضعیف کی ہے مثلاً حضرت حسن بصری کی مذکورہ روایت میں ہے چونکہ ان کا سماع حضرت عبد اللہ بن عباس سے ثابت نہیں ہے اس لیے اس روایت کی اہل علم نے تضعیف کی ہے.
علمی دیانت کا تقاضہ ہے کہ ان تمام اشیاء سے صدقہ فطر کی ادائیگی کا اعلان کیا جائے جن اشیاء سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر ادا فرمایا، یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن چیزوں سے صدقہ فطر ادا کرنے کا حکم فرمایا..
آج کا دور ہوش ربا گرانی کا دور ہے. اس دور کی تمام غذائی اجناس کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے۔کھجور کی قیمت کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے. کشمش بھی چھ سو روپیے فی کلو کے پار ہی رہتا ہے ۔پنیر بھی دوسو روپیے کے ارد گرد رہتا ہے۔ اس لیے مناسب بات یہ ہے کہ ادا کرنے والے کی وسعت کے اعتبار سے تین کٹیگری قائم کی جائے.
(١)اعلی وسعت رکھنے والے افراد کشمش اور منقی کی قیمت سے صدقہ فطر ادا کریں.
(٢) اسی طرح معاشرے کے درمیانی وسعت رکھنے لوگوں کے لیے پنیر، اور کھجورسے صدقہ فطر نکالنے کا موقع ہے۔وہ معاشرے کے فقراء کی رعایت کرتے ہوئے ان اجناس سے صدقۃ الفطرنکالیں۔
(٣) عام آدمی کے لیے یہ گنجائش رکھی جائے کہ وہ جو، یا گیہوں سے صدقہ نکالے۔ اس میں بھی دو مساوی اجناس گیہوں اور جو میں سے جو کے ایک صاع کی قیمت کواحتیاطا ترجیح دی. جواز کی حد تک نصف صاع گیہوں یااس کی قیمت کا بھی تذکرہ کیا جائے تاکہ  عمل رسول کی اصل شکل کی فی الجملہ اتباع بھی ہوجائے اور عام افراد کے لیے آسانی بھی رہے، اس لیے کہ جو شخص ۵۰ روپیے دے سکتا ہے اس کے لیے سو روپیے دینا بھی مشکل نہیں ہوگا۔
یہ معروضات عصر حاضر کے تناظر خاص طور پر گیہوں کی گھٹتی ہوئی قیمت اور بعض  اہل کے گیہوں کی قیمت کو معیار بنانے پر مسلسل اصرار کے پس منظر میں پیش کی گئی ہیں؛مقصد صرف اتنا ہے صدقہ فطر کے تعلق سے  مکمل بات صدقہ دہندگان کے سامنے ہو اور کھجور، کشمش، منقی جو یا گیہوں میں سے جس کی قیمت کو اپنے مناسب حال پائے، اسے ادا کرے… یہ نہ ہو کہ صدقہ فطر کا مطلب صرف نصف صاع گیہوں یا اس کی قیمت رہ جائے.. اس میں بھی احتیاط اور کثرت ثواب کے پہلو کو ترجیح دی جائے. امید ہے کشادہ ذہنی وقلبی کے ساتھ اس پر توجہ دی جائے گی اور امت کی بہتر رہنمائی کی جائے گی. خاص طور پر صدقہ فطر کے مقاصد اور عید کے دن غرباء کو خوشی فراہم کرنے اور انھیں بے نیاز کرنے کی جہت کو پیش نظر رکھا جائے گا. سالہائے گذشتہ بھی اس عاجز نے اہل علم کے سامنے یہ معروضات پیش کی تھیں.. الحمدللہ اہل علم نے اتفاق کیا ہمارے مشورے کو قبول کیا اور مختلف دینی ملی اداروں نے اپنے صدقہ فطر کے اعلان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت تمام اشیاء اور ان کی قیمتوں کو ذکر کیا… اس حوالے سے مزید ذہنی وفکری تربیت کی ضرورت ہے. اللہ تعالیٰ رمضان المبارک کے ہمارے اعمال اور صدقہ خیرات کو قبول فرمائے.

Exit mobile version