ایک ڈاکٹر اور ایک پروفیسر کا ارتداد
✍ خالد سیف اللہ صدیقی
_______________
دو تین دن پہلے ایک فکر مند ساتھی نے ایک خبر بھیجی تھی کہ ایک مسلم ڈاکٹر نے اسلام چھوڑ دیا ہے۔ میں نے کچھ اپنی مصروفیت اور کچھ اس سبب سے کہ اس طرح کے معاملات تو کبھی کبھار پیش آ ہی جاتے ہیں ، کوئی خاص توجہ نہیں دی ؛ لیکن پھر کل (15 مارچ 2024) کو اسی ساتھی نے ایک اور مسلم پروفیسر کے اسلام چھوڑنے اور ہندو دھرم اپنانے کی خبر دی تو میں سنجیدہ ہوگیا کہ یہ کوئی معمولی بات نہیں۔ دو چار دن کے اندر ہی دو دو مسلمان ، اور وہ بھی ڈاکٹر اور پروفیسر اسلام چھوڑ رہے ہیں ، یہ کوئی معمولی سانحہ نہیں۔
پہلا معاملہ سہارن پور علاقے کا ہے۔ جاگرن ڈاٹ کام (ہندی اخبار) نے 12 مارچ (2024) کو یہ خبر شائع کی ہے۔ ساجد احمد نام کے ایک شخص جن کی عمر 36 سال تھی ، اور بی ، یو ، ایم ، ایس ڈاکٹر تھے ، انہوں نے پیر کو ایک مندر میں جا کر اسلام کو خیر باد کہا ، اور ہندو دھرم اختیار کر لیا۔ اخبار کے مطابق ساجد احمد نے چار سال قبل علی گڑھ کی ایک غیر مسلم لڑکی سے پریم وواہ ( Love marriage) کیا تھا۔ اس کے بعد ہی مسلم حضرات بولنے لگے کہ وہ ہندو بن گیا ہے۔ ان کے گھر والوں نے بھی ان کو جائیداد سے بے دخل کر دیا تھا۔ یہ صورتِ حال چل ہی رہی تھی کہ ان کی بیوی (سابق معشوقہ) نے ان کو رائے دی کہ وہ اپنا دھرم بدل لیں! ساجد احمد نے اس کی رائے کو قبول کیا ، اور انہوں نے اپنا دھرم چھوڑ کر ہندو دھرم اپنا لیا۔
دوسرا معاملہ الہ آباد کا ہے۔ 15 مارچ (2024) کو پنچ جنیہ (ہندی اخبار) نے یہ خبر شائع کی ہے۔ اخبار کے مطابق احسان احمد نامی شخص الہ آباد میں ہی کسی ڈگری کالج کے شعبہ انگریزی میں پروفیسر تھے۔ 2020 کو وہ ہندو تنظیموں کے رابطے میں آئے تھے ، اور پھر انہیں ہندو دھرم کو جاننے اور سمجھنے کا موقع ملا۔ یہیں سے انہوں نے ہندو دھرم اپنانے کا فیصلہ کیا ، اور پھر بعد کو ہندو بن گئے ، اور اپنا نام انل پنڈت رکھ لیا۔ اخبار کے مطابق احسان احمد نے دھرم تبدیلی کے بعد ایک ہندو لڑکی سے ہندو رسم و رواج کے مطابق شادی کر لی۔
میرے خیال میں ہو نہ ہو اس شخص نے شادی اور لڑکی ہی کے لیے اپنا دھرم بدلا ہو۔ پہلے معاملے میں بھی لڑکی ہی سبب تھی ، اور یہاں بھی ایسا ہی کچھ محسوس ہو رہا ہے——ان معاملات کے علاوہ مسلم لڑکیوں کے جو ارتداد کے معاملات سامنے آتے ہیں ، ان میں بھی 99 فی صد معاملات شادی اور پیار محبت کی بنیاد پر ہی پیش آتے ہیں۔
ان سارے معاملات سے یہی سمجھ میں آتا ہے کہ اپنی نسلوں کو ایمان پر باقی رکھنے کے لیے ان کی صحیح دینی تربیت ہونی ضروری ہے۔ ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ ان کی آزادی ایک حد تک ہی ہونی چاہیے ، اس سے زیادہ آزادی نہیں دینی چاہیے۔ تیسری بات یہ کہ شادی میں جلدی کرنی چاہیے۔ شادی میں تاخیر کے کتنے نقصانات ہیں ، اس کا اندازہ کوئی مشکل نہیں ہے۔ آج کے دور میں شادی میں تاخیر پہلے سے زیادہ نقصانات کا سبب ہے ؛ لیکن افسوس کہ اس کے باوجود پہلے تو شادیاں جلدی ہوتی تھیں ؛ مگر اب شادیاں تاخیر سے ہوتی ہیں ، اور مزید تاخیر ہی ہوتی جا رہی ہے۔ خدا جانے ہمیں کب عقل آئے گی!