مسلم یونیورسٹی کا اقلیتی کردار بحال
مسلم یونیورسٹی کا اقلیتی کردار بحال

مسلم یونیورسٹی کا اقلیتی کردار بحال ✍️ معصوم مرادآبادی _______________________ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کی بحالی سے متعلق سپریم کورٹ کے تازہ فیصلے سے مسلمانوں میں خوشی کی لہر ہے۔ یونیورسٹی میں مٹھائیاں تقسیم کی گئی ہیں اورعلیگ برادری کے ساتھ عام مسلمانوں نے بھی اس فیصلے پر اطمینان کا اظہار کیا […]

ٹرمپ کی جیت کے بعد۔!
ٹرمپ کی جیت کے بعد۔!

ٹرمپ کی جیت کے بعد۔! از:ڈاکٹرسیدفاضل حسین پرویز ___________________ ڈونالڈ ٹرمپ توقع کے مطابق دوبارہ امریکہ کے صدر منتخب ہوگئے۔ وہ 1897سے لے کر اب تک تاریخ میں ایسے دوسرے صدر ہیں، جو متواتر دوسری میعاد کے لئے منتخب نہ ہوسکے تھے۔ ٹرمپ گذشتہ الیکشن ہار گئے تھے، اور 2024کا الیکشن جیت گئے۔ اس سے […]

مدارس سیکولرازم کے منافی نہیں
مدارس سیکولرازم کے منافی نہیں

– مدارس سیکولرازم کے منافی نہیں ✍️محمد نصر الله ندوی ___________________ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس چندر چوڑ نے جاتے جاتے مدرسہ بورڈ کے حوالہ سے اہم فیصلہ دیا،مدرسہ ایکٹ 2004 پر فیصلہ سناتے ہوئے انہوں نے جو کچھ کہا،وہ بہت معنی خیز ہے،انہوں نے ہائی کورٹ کی لکھنؤ بینچ کے فیصلہ کو پوری طرح […]

شمالی بنگا ل کے مسلمان اور 2024 پارلیمانی انتخابات

✍محمد شہبازعالم مصباحی

سیتل کوچی کالج، کوچ بہار، مغربی بنگال

________________

جمہوری ملک میں ایک ووٹ کی قیمت کیا ہوتی ہے، عام طور سے مسلمان اور خاص طور پر اتر بنگال کے مسلمان اس سے واقف نہیں ہیں، اتر بنگال کے مسلمان کے نزدیک ووٹ کا مطلب یہ ہے کہ پنچایتی الیکشن کے دوران کسی امیدوار سے بازار یا ہاٹ کے کسی ہوٹل میں دو چار بار ناشتہ اورچائے پی لی جائے یا ایک دو بار کھانا یا پھر دو چار سو روپے لے لیے جائیں اور اسے ووٹ دے دیا جا ئے ۔اس کے بعد ووٹ دینے والا بھی بے فکر اور ووٹ لے کر جیتنے والابھی فری۔ تقریبا یہی حال ریا ستی اور پارلیمانی الیکشن میں بھی ہو تا ہے،البتہ اس وقت امید وار نہیں،بلکہ امید وار کا ایجنٹ /دلال چائے ناشتہ کراتا یا روپیہ پیسہ دیتا ہے۔ ووٹ جیسی بھاری چیز کو دو چار چائے یا دو چار سو روپے کے بدلے بیچ دینا اتنی بڑی حماقت ہے کہ اس پر سر ہی پيٹا جا سکتا ہے۔
جب کہ ووٹ در اصل اس لیے دیا جا تا ہے تا کہ آ پ پنچایتی الیکشن ہو تو پنچایت سے،اسمبلی الیکشن ہو تو ایم ایل اے سے اور پارلیمانی الیکشن ہو تو ایم پی سے اپنے آس پاس کی عوامی اور جمہوری پریشانیاں دور کراسکیں اور حکومتی رعایتوں سے فائدہ اٹھا کر ایک خوش حال جمہوری زندگی گزار سکیں۔
میرے خیال میں ووٹ کی قیمت نہ سمجھنے کے پیچھے سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ اتر بنگال کے خواندہ لوگ بھی پنچایتی الیکشن اور پنچایت کو تو جانتے ہیں،لیکن یہ سادہ لوگ چندچالاک پڑھے لکھے لوگوں کو چھوڑ اسمبلی الیکشن اور پارلیمانی الیکشن کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ایسے لوگوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ اسمبلی الیکشن آپ کے صوبے کا الیکشن ہوتا ہے ،جس میں ووٹ دینے سے آپ کے صوبے کی حکومت بنتی ہے اور جس امید وار کو آپ ووٹ دیتے ہیں ،اگر وہ جیت جاتا ہے تو وہ شخص آپ کا نمائندہ ہو تا ہے جو آپ کی پریشانیوں کو صوبہ کے وزیر اعلی تک پہنچا نے کا ذریعہ ہو تا ہے،وہ آپ کے علاقے کے مسائل کو اسمبلی ہاؤس میں بھی بیان کر سکتا ہے اور اس کے لیے ایک بڑا مالی فنڈ پاس کراکے ان مسائل کو ختم کر سکتا ہے ،اسی طرح ایک ایم ایل اے کو یہ بھی پاور ہو تا ہے کہ وہ حکومت سے اپنے علاقے کی ترقی کے لیے نئی نئی اسکیمیں حاصل کرے جیسے اگر کوئی علاقہ بہت زیادہ خستہ حال اور پچھڑا ہوا ہے تو اس علاقے کا ایم ایل اے اس علاقے کی ترقی کے لیے اس کو دیے گئے سالانہ فنڈ کے علاوہ بھی فنڈ لے سکتا ہے اور اس علاقہ کو ترقی کے دھارے سے جوڑ سکتا ہے،یوں ہی وہ ایم ایل اے ناگہانی صورت حال کے وقت بھی مزید اسکیمیں حکومت سے پاس کراسکتا ہے مثال کے طور پر اگر کسی علاقے میں قحط سالی ہو گئی اور وہاں کے کسان بھوکوں مر رہے ہیں تو اس علاقے کا ایم ایل اے اس مخصوص پریشانی کو اسمبلی میں بیان کر کے اس کے لیے ایک خاص بجٹ لے سکتا ہے۔
اسمبلی الیکشن کی طرح پارلیمانی الیکشن بھی ہوتا ہے،البتہ اس میں فرق یہ ہوتا ہے کہ پارلیمانی الیکشن سے آپ کے صوبہ کی حکومت نہیں بنتی،بلکہ پورے دیس کو چلانے والی ایک حکومت بنتی ہے،جو دلی سے پورے ملک پر حکومت کرتی ہے،اس الیکشن میں جس امید وار کو آپ ووٹ دیتے ہیں ،اگر وہ جیت جاتا ہے تو وہ شحض آپ کاایسا نمائندہ ہوتا ہے جو آپ کے مسائل کو ملک کے وزیر اعظم تک پہنچا سکتا ہے اورجس طرح ایم ایل اے آپ کے علاقے کے مسائل کوصوبہ کے اسمبلی ہاؤس میں بیان کر سکتا ہے اسی طرح ایم پی بھی اس قسم کے مسائل کو دلی کے پارلیمنٹ(لوک سبھا)میں بیان کر سکتا ہے اور ایک بڑا مالی فنڈ پاس کراکے ان مسائل کو ختم کر سکتا ہے ،اس کے علاوہ اسے بھی نئی نئی اسکیموں کے پاس کرانے اور ناگہانی ضرورتوں کے وقت مزید فنڈ لینے کا اختیار ہوتا ہے۔
حکومت مغربی بنگال کی طرف سے جاری گائڈ لائن کے مطابق ایک ایم ایل اے کو اپنے حلقۂ انتخاب کی تعمیراتی و ترقیا تی اسکیموں کے لیے ہر سال پچاس لاکھ روپے دیے جا تے ہیں،ہر ایم ایل اے ہر سال کچھ اسکیموں کو تیار کر کے حکومت کو دیتی ہے اور حکومت اسے پچاس لاکھ روپے دے دیتی ہے،ایک ایم ایل اے ان روپیوں کو زراعتی ترقی،بجلی ،سڑک،حکومتی و حکومت منظور یافتہ تعلیمی اداروں کی مرمت و عمارت سازی،دیہاتوں اور شہروں میں پیاؤ پانی سپلائی اور پاخانے کی فراہمی،ہاؤ سنگ اور دیگر رفاہی و عوامی کاموں میں خرچ کر سکتا ہے۔
جبکہ مرکزی حکومت کے لوکل ایریا ڈیولپمنٹ اسکیم کے مطابق ایک ایم پی کو اپنے حلقۂ انتخاب کے تعمیراتی و ترقیا تی کاموں کے لیے ہر سال پانچ کروڑ روپے دیے جا تے ہیں،ایک ایم پی ان روپیوں کواسکولوں،ہوسٹلوں،لائبریریوں اور دوسرے تعلیمی اداروں کی عمارتیں بنانے، زراعتی ترقی،بجلی ،پل سڑک،دیہاتوں اور شہروں میں پیاؤ پانی سپلائی اور پاخانوں اور غسل خانوں کی فراہمی،نالے اور گٹرس بنانے ،بے گھر یا خستہ حال لوگوں کو گھر دینے،عوامی پارک،کھیل میدان،کلب،جانوروں کے طبی (Veterinary Centres) بنانے اور دیگرتعلیمی و ترقیاتی و رفاہی و عوامی کاموں میں خرچ کر سکتا ہے۔
آپ کے ایم ایل اے اور ایم پی کو ملنے والے روپیوں کی درج بالاتفصیل کو پڑھنے کے بعد آپ سوچ رہے ہوں گے کہ جب ایک ایم ایل اے ہمارے نام پر ہر سال پچاس لاکھ روپے کی اتنی بڑی رقم پاتا ہے اور ایک ایم پی پانچ کروڑ روپے ،توپھر ہمیں ان روپیوں کا کام کیوں نہیں دکھتا،تو اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ نے چونکہ پہلے ہی اپنا ووٹ بیچ دیا ہوتا ہے اور پھر دوسری جانب آپ کو اس رقم کی خبر بھی نہیں،پس یہ ایم ایل اے اور ایم پی متعلقہ آفسوں سے ساٹھ گاٹھ کر کے حکومت کو کاغذی طور پر مطمئن کر دیتے ہیں کہ ہمارے علاقے میں کام ہو چکا ہے اور اتنی بڑی رقم کا کچھ حصہ ان آفسوں کے بے ایمان آفیسروں کو دے دیتے ہیں، جو ہر طرف سے ریاستی اور مرکزی حکومت کے متعلقہ ڈپارٹمنٹ کو اس ایم ایل اے اور ایم پی کی جانب سے مطمئن کردیتے ہیں اور بقیہ سار ا روپیہ یہ ایم ایل اے اور ایم پی اپنی جیب میں رکھ لیتے ہیں جس میں سے ایک بہت ہی چھوٹی سی مقدار گاؤں گاؤں پھیلے اپنے دلالوں میں بانٹ دیتے ہیں اور کہیں کہیں تھوڑا بہت کام بھی کردیتے ہیں تاکہ کوئی شکایت نہ درج کردے۔
علاقے کے وہ پڑھے لکھے لوگ جو مفاد پرست نہیں ہیں اور اتر بنگال کے مسلمانوں کی پستہ حالی کی انہیں کافی فکر ہے،لیکن وہ کچھ کر تے نہیں،ان کو چاہیے کہ وہ آگے آئیں اور عام لوگوں کو ان تمام باتوں کو سمجھائیں اور ان سے کہیں کہ وہ اپنا ووٹ نہ بیچیں ،بلکہ مفت ڈالیں،تا کہ وہ اپنے ایم پی اور ایم ایل اے پر اپنا دباؤ بنا سکیں،لیکن جس کو بھی اپنا مفت ووٹ دیں اس سے کہ دیں کہ تمہیں اپنی ذمہ داری ایمان داری سے نبھانی ہوگی اور خاص طور سے ہمارے ان ان مسائل کو حل کر نا ہوگا،تبھی تم کو ہم لوگ ووٹ دیں گے۔
اب رہی یہ بات کہ ایک ایم ایل اے یا ایم پی کے وعدے کاکیا بھروسہ،تو اس کے لیے حل یہ ہے کہ پہلے یہ اندازہ لگایا لیا جائے کہ اس بار کس پارٹی کے امیدوار کے جیتنے کی زیادہ توقع ہے،اس سے ہی ان باتوں کا مضبوطی سے وعدہ لیاجائے،یوں تو یہ باتیں ہر ایک ووٹ مانگنے والے ایم پی یا ایم ایل اے سے دہرائی جائیں،لیکن جیتنے والے امید وار کے ساتھ مضبوطی سے دہرائی جائیں۔ہر ایک ووٹر کی زبان پر صرف یہی ہو کہ ہم ووٹ دیں گے اور فری دیں گے،کوئی روپیہ پیسہ نہیں لیں گے،لیکن ہاں اس ووٹ کے بدلے ہم جو چیز لیں گے وہ ہمارے علاقے کی ترقی ہوگی اور اس کی پریشانیوں کاخاتمہ
اگر آپ کا مفت ووٹ لینے کے بعد ایم پی یا ایم ایل اے آپ کاکام نہیں کرتا ہے تو آپ دس بیس آدمیوں کا ایک گروپ بنا کر اس ایم پی یا ایم ایل اے سے مل سکتے ہیں،اگر ملنا ممکن ہو،اور اس سے کہ سکتے ہیں کہ ہم سے آپ نے جو وعدہ کیا تھا وہ پورا کیوں نہیں کر رہے ہیں؟ یا ہمارے یہاں فلاں فلاں پریشانیاں ہیں انہیں آپ کو دور کرناہے،آپ اس کے لیے کوئی ایکشن لیجیے،ویسے اپنے ایم پی یا ایم ایل اے سے ملنا ضرور چاہیے اور گروپ بناکر ہی ملنا چا ہیے،کیو نکہ اکیلے آدمی کو کوئی بھاؤ نہیں دیتا،اور اگر ایم پی یا ایم ایل اے آپ سے بہت دور ہوں اور اس سے ملاقات مشکل ہوتو ایسی صورت میں آپ اس کے دلی یا کولکاتا والے ایڈریس پر عوامی درخواست (Mass Application) روانہ کر سکتے ہیں،جس میں گاؤں کے سو ڈیڑھ سو لوگوں کے دستخط ہوں اور وہاں کے مسائل،اور اگر اب بھی وہ ایم پی یا ایم ایل اے نہ سنے تو پھر آپ اپنے مطالبوں کو لے کر روڈ پر اتر سکتے ہیں،پر امن احتجاج کر سکتے ہیں،چکا جام کر سکتے ہیں یہ کہ کر کے کہ ہمارا علاقہ بہت ہی پچھڑا ہوا ہے ،ہمیں ان ان چیزوں کی ضرورت ہے ،لیکن ہمارا ایم پی یا ایم ایل اے ہم پر دھیان نہیں دے رہا ہے،جبکہ ہم نے اسے مفت ووٹ دیا ہے اور اس سے مل کر یا درخواست روانہ کر کے کہا بھی ہے،ظاہر ہے ایسی صورت میں پولیس آئے گی اورآپ کی باتوں کو سنے گی اور پھر وہ ایم پی یا ایم ایل اے آپ کی باتوں کو سننے پر مجبور ہوگا۔
لیکن یہ اسی وقت ہوگا جبکہ آپ نے ووٹ فری دیا ہوگا ،تبھی وہ آپ کا خوف رکھے گا، ورنہ وہ اپنی من مانی کرے گا اور آپ کی کچھ نہ سنے گا ،لہذا اس بار موقع نہ گنوائیں،ووٹ فری ہی دیں،لیکن اپنے ایم پی یا ایم ایل اے سے اپنے حقوق ضرور لیں۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: