Slide
Slide
Slide

اچھا کپتان؛ عظیم انسان بھی ہو!

✍️ ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز، حیدرآباد

________________

ہاردک پانڈیا اور روہت شرما اِن دنوں موضوع بحث ہیں۔ روہت شرما کے ساتھ عوامی ہمدردی ہے اور ہاردک پانڈیا عوامی غیض و غضب کا شکار ہیں۔
روہت شرما ہندوستان کے چند کامیاب ترین کپتانوں میں سے ایک ہیں۔ وہ خود ایک بہترین کھلاڑی ہیں۔ اور ایک مہان کپتان بھی جنہوں نے حالیہ عرصہ کے دوران ہندوستان کو ٹسٹ، ونڈے، ٹی20 میاچس میں کامیابی دلائی۔ 10000 سے زیادہ ونڈے انٹرنیشنل رنز، 31سنچریاں جن میں تین ڈبل سنچریاں شامل ہیں۔ T20 میں ان کے پانچ سنچریاں بھی شامل ہیں۔ وہ 6مرتبہ آئی پی ایل چمپئن شپ ممبئی انڈینس کے لئے جیت چکے ہیں جن میں سے پانچ مرتبہ وہ ممبئی انڈین کے کپتان رہے ہیں۔ روہت شرما حالیہ عرصہ کے دوران اپنی بیاٹنگ اور قائدانہ صلاحیت کی بناء پر اپنے آپ کو دنیا کے عظیم کھلاڑیوں میں شامل کرچکے ہیں۔ انہیں شاندار پرفارمنس کے باوجود ممبئی انڈین کی مالکن انیتاامبانی نے کپتانی سے ہٹادیا اور ہاردک پانڈیا کو کپتانی سونپی جس سے نہ صرف ممبئی انڈین کے فیانس بلکہ ملک و بیرون ملک میں ہندوستانی کرکٹ ٹیم کے چاہنے والے سخت ناراض ہیں۔
ہاردک پانڈیا ایک اچھے آل راؤنڈر ہیں بہت محنت کرکے ہندوستانی ٹیم میں شامل ہوئے اور ممبئی انڈینس کی کپتانی تک پہنچے۔ مگر آئی پی ایل کے پہلے ہی میچ میں انہوں نے اپنے سینئر ساتھی اور کپتان روہت شرما کے ساتھ جس طرح کا سلوک کیا اس نے جہاں تمام شائقین کرکٹ کو ان کے خلاف کردیا بلکہ ہاردک پانڈیا کو گھٹیا انسان ثابت کیا۔ روہت شرما کے سامنے ہاردک کی کوئی حیثیت نہیں یا اہمیت نہیں ہے۔ کپتانی کے جوش اور غرور میں انہوں نے جس طرح سے بار بار روہت شرما کو باؤنڈری لائن کی طرف دوڑایا اور ان کا جو طرز عمل رہا اس نے اس قدر روہت کے چاہنے والوں کو ناراض کیا کہ جب ایک کتا احمدآباد میں مودی اسٹیڈیم میں داخل ہوگیا تو پورا اسٹیڈیم ایک آواز ہوکر ہاردک ہاردک کے نعرے لگانے لگے۔ احمدآباد کے عوام کو اس بات پر غصہ تھاکہ گزشتہ مرتبہ ہاردک پانڈیا نے گجرات کی ٹیم کی قیادت کی تھی۔ اسے چھوڑ کر وہ ممبئی انڈینس میں شامل ہوئے تو ان کی نظر میں غدار ہوگئے۔ پورے میاچ کے دوران ہجوم روہت روہت زندہ باد اور ہاردک پانڈیا مردہ باد کے نعرے لگاتے رہا اور یہ پہلا موقع تھا جب ممبئی انڈینس کے کپتان پانڈیا آؤٹ ہوئے اور ممبئی کی ٹیم ہارگئی تو اس ٹیم کے مداحوں نے اپنی ٹیم کی شکست کا جشن منایا۔ انیتا امبانی اور ان کا پریوار سکتہ کے عالم میں نظر آیا۔ انہیں شاید اپنی بھیانک غلطی کا احساس ہوگیا تھا مگر کافی دیر ہوچکی تھی۔ روہت شرما کے ساتھ جس طرح سے سلوک کیا تھا اس کے باوجود اس نے اپنے ظرف کو کم ہونے نہیں دیا اور ہندوستان کی T20ورلڈ کپ کے لئے ایک پندرہ رکنی ٹیم کے لئے اپنے پسند کے جن کھلاڑیوں کا انہوں نے نام پیش کیا اس میں انہوں نے ہاردک پانڈیا کا نام بھی شامل رکھا۔
ہاردک پانڈیا بھلے ہی اچھے آل راؤنڈر ہوں گے مگر وہ کبھی بھی ایک اچھے انسان کے طور پر سامنے نہیں آئے۔ ان کا شخصی کردار ہمیشہ سے گھناؤنا رہا۔ ”کافی وتھ کرن“ پروگرام میں انہوں نے صنف نازک سے متعلق جس قسم کے غیر شائستہ ریمارکس کئے تھے اس پر ان کی کافی ذلت ہوئی تھی اور بی سی سی آئی نے ان کے خلاف ایکشن بھی لیا تھا۔ اور بھی کئی ایسے نجی معاملات میں ان کا کردار مشکوک رہا۔ ان کا متکبرانہ اعزاز گجرات کی ٹیم کی کپتانی کرتے ہوئے محمد سمیع سے گالی گلوج‘ ان کا چھچھورے انداز کا ہیئر اسٹائل، اور بھی بہت سی باتیں ہیں جس سے ہاردک پانڈیا معیار کی کسوئی پر کبھی بھی پورے نہیں اُترے۔ اس کے برعکس روہت شرما ایک سنجیدہ اور سلجھے ہوئے کھلاڑی اور مدبر کپتان کے طور پر اپنے آپ کو منوانے میں کامیاب رہے۔ سرفراز خان نے ان کی کپتان میں اپنے ٹسٹ کیریئر کا آغاز کیا تو وہ جس انداز میں پیش آئے اس سے تمام گلے شکوے دور ہوگئے جو سرفراز کے کیریئر کے آغاز میں تاخیر سے پیدا ہوئے تھے۔ سرفراز کے والد نوشاد خان کو انتہائی ادب و احترام کے ساتھ انہوں نے مشورہ دیا کہ سرفراز کا رکھیں۔ اور فیلڈنگ کے دوران سرفراز کو ہیلمٹ پہن کر رہنے کا مشورہ دینا ان کی اعلیٰ ظرفی ہے کا ثبوت ہے۔ یہی نہیں بلکہ آخری ٹسٹ میں جب سرفراز خان نے جو کلوز اِن فیلڈر تھے وکٹ کیپر جوریل کو مشورہ دیا کہ وہ اسٹمپ کرنے کے لئے تیار رہے کیوں کہ بیاٹسمین آگے بڑھنے والا ہے اور اگلی گیند پر ایسا ہی ہوا۔ سرفراز کی اس دور اندیشی اور کھیل اور کھلاڑی پر گہری نظر سے روہت شرما اس قدر متاثر ہوئے کہ باقاعدہ انٹرویو میں سرفراز کی تعریف کی۔ ساتھ ہی ساتھ DRS کے معاملہ میں بھی انہوں نے سرفراز خان سے مشورہ کیا۔ ایک سینئر ترین کھلاڑی اور کپتان اپنا تیسرا ٹسٹ کھیلنے والے کھلاڑی سے مشورہ لیتا ہے تو وہ اس کا قد چھوٹا نہیں بلکہ بلند ہوجاتا ہے۔ ہاردک پانڈیا نے کپتانی کے جوش اور غرور میں روہت کو فیلڈ پر دوڑایا اور اس نے یہ الفاظ کہے وہ اسٹمپ مائک سے ریکارڈ ہوگئے‘ جس سے پانڈیا کی ساکھ بہت زیادہ متاثر ہوگئی۔
عام کھلاڑی سے کپتانی بننے تک کا سفر آسان نہیں ہوتا۔ ہر عظیم کھلاڑی کامیاب کپتان نہیں ہوسکتے۔ اور یہ ضروری نہیں کہ ہر کامیاب کپتان ایک اچھا کھلاڑی ہو۔ کپتان تو اُسی کو بنایا جاتا ہے جس میں قائدانہ صلاحیت ہوتی ہے۔ کپتان وہی کامیاب ہوتا ہے جو اپنے کھلاڑیوں کی صلاحیتوں سے پوری طرح سے نہ صرف واقف ہوں بلکہ ان صلاحیتوں کا زیادہ سے زیادہ استعمال کرے۔ بعض کپتانوں نے اچھے کھلاڑیوں کی بہترین صلاحیتوں کو ضائع کیا اور ان کے کیریئر کو برباد کیا۔ جب کوئی اچھا بولر فارم میں ہو اور وہ وکٹ لے رہا ہو ایسے موقع پر بعض کپتان اس بولر کے بجائے کسی اور بولر کو موقع دے کر اُسے ہیرو بنانے کی کوشش کرتا ہے اور جب بیاٹسمین بولرس کی دھلائی کی موڈ میں ہو تو جس بولر سے کپتان کو دشمنی نکالنی ہو اُسے بولنگ دے دی جاتی ہے۔ اس کے نتیجہ میں ان کا کیریئر ختم ہوجاتا ہے۔
کپتانوں کا جب ذکر آتا ہے تو کامیاب اور اچھے کپتانوں میں نواب منصور علی خاں پٹوڈی، کلایو لائڈ، عمران خان اور رکی پانٹنگ کا ذکر ضرور آتا ہے۔ نواب پٹوڈی جنہیں ٹائیگر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے‘ تاریخ کے کم عمر ترین کپتان رہے۔ اعلیٰ خاندان سے تعلق تو تھا ہی ان کے عمدہ کردار بھی  اعلیٰ تھا۔ انہوں نے 4اسپنرس بیدی، پرسنا، وینکٹ راگھون اور چندر شیکھر کی چوکڑی سے لے کر کرکٹ کی دونیا میں تہلکہ مچادیا تھا۔ انہوں نے اسپنر سے نئی گیند سے بولنگ کروائی۔ اور ساری دنیا میں ہندوستانی اسپنرس کا ڈنکا بجنے لگا۔ کھلاڑیوں کی چھپی ہوئی صلاحیتوں سے وہ واقف تھے۔ اور اس کا صحیح استعمال کیا کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی ان کا نام احترام سے لیا جاتا ہے۔ کلایو لائڈ ویسٹ انڈیز کے کامیاب ترین کپتان، ان کی قیادت میں ویسٹ انڈیز نے 74میں سے 36ٹسٹ اور 84ونڈے میں سے 64ونڈے جیتے۔ انہوں نے مختلف جزائر سے تعلق رکھنے والے کھلاڑیوں سے ایک پلیٹ فارم پر متحد کیا۔ ان میں ٹیم اسپرٹ پیدا کی۔ ہندوستان میں نواب پٹوڈی اسپنرس کی چوکڑی سے دھوم مچارہے تھے لائڈ نے فاسٹ بولرس کی چوکڑی کے ساتھ کرکٹ کی دنیا پر راج کیا۔ رکی پانٹنگ کی قیادت میں آسٹریلیا نے دو مرتبہ ورلڈ کپ جیتا۔ عظیم کھلاڑی عظیم کپتان رہے۔ البتہ جب ورلڈ کپ ٹیم کے ساتھ بی سی سی آئی کے صدر کی حیثیت سے شرد پوار بھی فوٹو لینے کے لئے آگئے تو پانٹنگ نے انہیں وہاں سے ہتک آمیز انداز میں ہٹادیا۔ یہ منظر لائیو ٹیلی کاسٹ ہوا اور زیادہ تر کرکٹ شائقین اور عام ہندوستانیوں کی نظر سے پانٹنگ گرگئے۔ مشتاق محمد پاکستان کے کامیاب ترین کپتانوں میں سے ایک ہیں۔ انہیں ٹسٹ کرکٹ میں بہت کم عمری میں سنچری بنانے کا اعزاز حاصل ہے۔ اس کے علاوہ چار محمدبرادران کو ایک ساتھ ٹسٹ میاچ کھیلنے کا بھی اعزاز حاصل ہے۔ وزیرمحمد، حنیف محمد، مشتاق محمد اور صادق محمد۔ مشتاق محمد بہت بڑے کھلاڑی تو نہیں رہے مگر اچھے کپتان ضرور رہے۔1978ء میں ہندوستانی ٹیم نے 17برس بعد پاکستان کا دورہ کیا اور سیریز کھیلی تو یہ مشتاق محمد کی کپتانی تھی جس نے پاکستان کو کامیابی دلائی۔بشن سنگھ بیدی کے ایک اوور میں عمران خان نے دوچھکے لگاکر پاکستان کو تاریخ ساز کامیابی دلائی تھی۔ عمران خان اس وقت اٹھارہ بیس سال کے نوجوان تھے اور ساتویں آٹھویں نمبر پر بولنگ کرتے تھے۔ مشتاق محمد نے انہیں تیسرے نمبر پر بھیج کر اپنی ذہانت کا ثبوت دیا اور اُسی دن سے عمران خان ہیرو بن گئے اور خود عمران ایک عظیم کپتان رہے ہیں۔ اگرچہ کہ اپنی کپتانی کے دور میں ان کی جاوید میاں داد، ظہیر عباس سے اَن بن رہی‘ان کی زبان کی اکثر غیرشائستہ ہوتی تھی مگر ان کا رعب اس قدر تھا کہ ان کی گالیوں کو بھی ان کی ٹیم کے کھلاڑی مصری کی ڈلیاں سمجھتے تھے۔ انہوں نے کئی ہونہار کھلاڑیوں کو متعارف کروایا۔ انضمام الحق نے ورلڈ کپ 1992ء کے میاچ میں صرف چار رن بنائے تھے اور وہ عمران کا سامنا کرنے سے ڈر رہے تھے۔ اتفاق سے فلائٹ میں عمران کے بازو انہیں بیٹھنے کا موقع ملا اور منتظر تھے کہ کسی بھی وقت عمران خان کی ڈانٹ ڈپٹ ہوگی تاہم عمران نے ان سے کہا کہ بھائی انضمام تم نے جو شاٹ لگایا ویسا کوئی اور نہیں لگاسکتا۔ ان کے اس جملے نے انضمام الحق کو ورلڈ کپ 1992ء کا کامیاب ترین کھلاڑی بنایا اور وہ پاکستان کے کپتان بنے۔ عمران خان کی سب سے خاص بات یہی تھی کہ وہ بدترین حالات میں ہمت کے ساتھ مقابلہ کرتے تھے اور اپنے کھلاڑیوں کو اس کے لئے تیار کرتے تھے۔ 1992ء ورلڈ کپ میں پاکستانی ٹیم کی کامیابی کا کوئی امکان نہیں تھا مگر عمران خان بار بار اپنی ٹیم سے کہتے کہ ہم ورلڈ کپ جیت رہے ہیں اور انہوں نے اپنے الفاظ کو ثابت کردکھایا۔ میاں داد دنیا کے عظیم ترین کھلاڑی اتنے ہی خراب کپتان رہے جن کی بداخلاقی او ربدتمیزی سے سب ہی نالاں رہے۔ایک دور وہ بھی تھا جب ٹیم کے سات کھلاڑی ان سے بات نہیں کیا کرتے تھے اور میاں داد کو ایک درمیانی کھلاڑی کے ذریعہ بولرس اور فیلڈرس کو ہدایت دینی پڑتی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ میاں داد کرکٹ کے سورما تھے مگر تعلیم و تربیت میں کمی کی وجہ سے عمران جیسے شائستہ کپتان نہیں بن سکے۔
ہندوستانی ٹیم کے کامیاب کپتانوں میں دھونی اور گنگولی شامل ہیں۔ دھونی کی کپتانی میں دو ورلڈ کپ جیتے گئے یہ اور بات ہے کہ انہوں نے کئی بار ہندوستانی ٹیم کو سیریز جیتانے میں ناکام رہے۔ انہیں کیپٹن2 کہا جاتا تھا۔ بہترین بیاٹسمین، عظیم کرکٹر مگر ٹیم کے بعض کھلاڑیوں سے ان کی سردجنگ رہی اور کئی ابھرتے کھلاڑیوں کو ٹیم انڈیا میں کھیلنے کا موقع نہیں مل سکا۔ اس کے باوجود وہ عظیم کھلاڑی ہیں۔ گنگولی ایک مایہ ناز بیاٹسمین، کامیاب ترین کپتان جن کے دوران میں سہواگ، ظہیرخان، یووراج سنگھ اور ہربھجن جیسے کھلاڑی منظر عام پر آئے۔ راہول ڈراویڈ کھلاڑی بہترین‘ اوسط درجہ کے اور تنگ نظر کپتان اور محمد اظہرالدین کامیاب کپتان جن کی قیادت میں پانچ سابق کپتانوں نے کھیلا۔ ان میں آپس میں کوئی ٹکراؤ نہیں تھا۔ شاستری اور نوجوت سدھو سے اَن بن ضرور ہوئی مگر آج بھی اچھے دوست ہیں۔ کپتان کیسا بھی اُس کے اخلاق اچھے ہونے چاہئے۔ جس کھلاڑی نے پچاس فیصد صلاحیت ہو اسے 100فیصد استعمال کرنے کی صلاحیت ہونی چاہئے۔ تبھی عمران، لائڈ اور روہت جیسے کپتان بن سکتے ہیں۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: