✍️ محمد رافع ندوی
استاذ جامعہ اسلامیہ مظفر پور اعظم گڑھ
____________________
ڈریم الیون ( Dream 11 ) کے نام سے آپ ناواقف ہوں تو ہوں بھائی صاحب آج بچے بچے کی زبان پر اس کا ذکر نامسعود ہے، بلکہ اگر میں کہوں کہ وہ نئی اور پرانی نسل کے سینوں میں دل بن کر دھڑکتا ہے تو شاید غلط نہ ہوگا، اس کی مثال کسی جادوئی چراغ کے جن کی سی ہے کہ جب مہربان ھوتا ہے تو فقیر کو کروڑ پتی بنادیتا ہے۔
دراصل ڈریم الیون اکیسویں صدی کی تیسری دہائی کا مقبول خاص وعام ایک ایسا موبائل ایپ ہے جو آپ کو دعوت گیم دیتا ہے، جس پر معمولی پیسے خرچ کرکے کرکٹ ٹیم بنانی ہوتی ہے، اب آپ نے کبھی ہاتھ میں بلا پکڑا ہو یا نہ پکڑا ہو اس سے کوئی غرض نہیں، یہاں بغیر بلے کی بیٹنگ اور بغیر گیند کی بالنگ اور بغیر فیلڈ کی فیلڈنگ ہوتی ہے، بس آپ کی قسمت اچھی ہونی چاہیے، اگر اوپر والے کی کرپا سے آپ کی ٹیم یا آپ کا کھلاڑی کھیل کے اندر اچھی کارکردگی پیش کرتا ہے تو پھر آپ کے وارے نیارے ہوسکتے ہیں، گھر بیٹھے آپ کروڑ پتی بن سکتے ہیں اور اگر قسمت خراب ہوئی تو کہاں پہلے ہی بہت اچھی ہے نو ٹینشن، تھوڑے سے پیسے چلے گئے پھر دیکھیں گے پھر قسمت آزمائیں گے، قسمت کا بند تالا کبھی نہ کبھی تو کھلے گا ہی، وہ ایک ڈائیلاگ آپ نے سنا ہوگا کہ اپنا بھی ٹائم آئے گا۔
تو بھائی صاحب ٹائم آیا ہے آج بہار کے حافظ مہربان صاحب کا (فرضی نام)، جن پر ڈریم الیون کا مہربان جن مہربان ہوگیا اور راتوں رات انہیں کروڑ پتی بنا دیا۔
حافظ مہربان صاحب دیکھتے دیکھتے ہر جگہ چھا گئے، مجھے بھی ایک ویڈیو میں نظر آئے، ایک چھپر نما کچے پکے اور ٹٹیوں والے تاریک اور چھوٹے سے اپنے گھر کے سامنے انٹرویو دیتے ہوئے، بہت خوش، پورا خاندان خوش۔
*مائک والے نے ان سے پوچھا کہ حافظ جی آج آپ کتنا خوش ہیں؟ فرمایا، ہم بہت خوش ہیں، سب اللہ کا کرم ہے، اماں اور ابا کی دعائیں آج اللہ نے سن لیں۔*
انٹرویو لینے والے نے ابا حضور سے پوچھا کہ آج بیٹا کروڑ پتی بن گیا، آپ کیسا محسوس کررہے ہیں، پہلے اور اب کیا فرق محسوس ہورہا ہے؟ *سر پر ٹوپی، کرتے اور پاجامے میں ملبوس اور چہرے پر چھدری داڑھی، فرماتے ہیں، کوئی کام نہیں کرتا تھا شادی ہو گئی ہے، ایک بیٹی بھی ہے، میں تو اس کو گالی بھی دیتا تھا کہ بے کار گھر میں پڑا رہتا ہے لیکن آج بیٹا کروڑ پتی بن گیا ہے تو بہت خوشی ہے، ہم نے آج تک بہت محنت کی ہے، پورا گاؤں گواہ ہے۔*
اماں سے ہنسی دبائے نہیں دب رہی ہے، بیچ میں کہنے لگیں کہ تین سال سے کھیل رہا تھا۔ آج بہت خوشی ہے۔
ظاہر ہے کسی ایسے خاندان کے لیے جس کے پاس کوئی معقول اور کافی آمدنی نہ ہو، خستہ حال کوٹھری نما مکان میں جس کے شب وروز یوں گزرتے ہوں جیسے زندان میں قیدی ہوتا ہے، اس کے لئے ایک کروڑ روپے بہت بڑی دولت ہے، ایک کروڑ روپے کم نہیں ہوتے، اتنی رقم میں زندگی کا نقشہ بدلا جاسکتا ہے، کسی مناسب جگہ زمین خرید کر بہترین کشادہ گھر بن سکتاہے، سواری کا انتظام ہوسکتا ہے، ٹھیک ٹھاک کاروبار شروع ہو سکتاہے، ضروری خرچے جو سالہا سال سے معاشی تنگی کی وجہ سے ٹلتے چلے آرہے تھے اب انہیں پورا کیا جاسکتا ہے، نئی زندگی کی شروعات کی جاسکتی ہے۔
*لوگ کہ رہے ہیں کہ آج حافظ مہربان پر قسمت مہربان ہے، اس سے پہلے ڈریم الیون کا یہ الہ دین کا جن اور بھی مہربانوں پر مہربان ہوچکا ہے، اور اب بھی گلی کے نکڑ، گاؤں کی پلیا، گاؤں کے مکھیا کے کوٹے والی سمنٹ کی لال سرخ کرسیوں کے گرد بہت سے مہربان اپنے اپنے موبائل کی اسکرین پر نظریں گاڑے مل جائیں گے، شاید انہیں بھی امید ہوگی کہ الہ دین کا یہ جن ایک نہ ایک دن ان پر بھی ضرور مہربان ہوگا۔*
*جیسے ہی موبائل ہاتھ میں لیجیے انڈین کرکٹ ٹیم کے قابل احترام کپتان کروڑ پتی روہت شرما سے لے کر ارب پتی یا کم از کم کروڑ پتی سلمان اور شاہ رخ خان تک کروڑ پتیوں کی پوری انڈسٹری کروڑوں فقیروں یعنی موبائل صارفین بلفظ دیگر اپ بھوکتاؤں کو یہ سمجھاتے اور باور کراتے مل جائیں گے کہ جاؤ اور ڈریم الیون پر اپنی ٹیم بناؤ، بیٹھے کیا ہو، ہماری طرح کروڑ پتی بن جاؤ۔*
اچھا ہے اس بے روزگاری اور مہنگائی کے مودیائی دور میں ہندوستان کی عوام کو جس میں بوڑھے جوان، ملا پنڈت، مرد عورت ہندو مسلم سکھ عیسائی سب ہی شامل ہیں ایک کام بلکہ روزگار مل گیا ہے، ایک کروڑ نہ سہی چائے ناشتہ اور موبائل ریچارج کی تو ٹینشن نہیں رہی، بڑا انعام نہ سہی چھوٹا انعام تو اکثر ہاتھ لگ ہی جاتا ہے۔
*امیروں نے بھی خوب دماغ لگایا ہے کہ غریبوں کا خون کیسے نچوڑا جائے، آخر یہ کیسے گوارا کرلیا جاۓ کہ غریب کے بدن کی شریانوں میں لہو کے چند قطرے بھی اس کو زندگی کی امنگ عطا کررہے ہوں، اس کی ایک مثال یہی ڈریم الیون ہے، ایک صاحب نے بتایا کہ قریب 44 لاکھ لوگ پیسہ لگاکر کھیلتے ہیں، 49 روپے لگانے ہوتے ہیں، اس میں گنتی کے چند لوگوں کو ایک کروڑ کی رقم انعام میں مل جاتی ہے، باقی چھوٹے موٹے انعامات ہوتے ہیں، اور قریب 16 لاکھ لوگوں کو ان کی اصل پونجی بھی گنوانی پڑتی ہے انعام تو چھوڑ دیجیے۔ اب آپ خود ہی حساب کتاب کرلیجیے 49 روپے کے گیم کے پیچھے کتنا بڑا کھیلا ہورہا ہے، قوم کے ساتھ، ملک کے ساتھ، صلاحیتوں کے ساتھ، مواقع کے ساتھ ، زندگیوں کے ساتھ ، دین وایمان کے ساتھ؟؟۔*
کروڑوں کے انعام کے لالچ میں جھوٹی امیدوں کے سہارے لاکھوں لوگ جن میں غریبوں کی تعداد ہی زیادہ ہوگی، اپنی گاڑھی کمائی کے کروڑوں روپے بڑی فیاضی کے ساتھ فقیر نما امیروں کی جھولی میں ڈالتے جارہے ہیں۔
*دیکھا جائے تو سب فقیر ہی تو ہیں اس لیے کہ مال دار اور غنی تو وہ ہے جس کا دل مال دار ہو، زبان رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم سے نکلا ہوا جوامع الکلم کی قبیل کا یہ جملہ حرف حرف سچا ہے کہ خير الغنى غنى النفس۔*
غور کریں تو یہ کوئی گیم نہیں بلکہ ایک ایسا خون چوسنے والا انجکشن ہے جو قوم کی رگوں سے اس کا خون اس صفائی اور مہارت کے ساتھ چوستا جارہا ہے کہ اسے محسوس بھی نہیں ہوتا، کبھی کبھی کوئی جھرجھری سی بدن میں دوڑ جاتی ہے اور آدمی چونک کر دائیں بائیں دیکھنے لگتا ہے لیکن وہاں کوئی نظر نہیں آتا۔
*آج جب حافظ مہربان کے گھر میں جنہوں نے قرآن کی یہ آیت بھی یاد کر رکھی ہوگی:*
*يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ إِنَّمَا يُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَنْ يُوقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ فِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ وَيَصُدَّكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ وَعَنِ الصَّلَاةِ فَهَلْ أَنْتُمْ مُنْتَهُونَ (91) وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَاحْذَرُوا فَإِنْ تَوَلَّيْتُمْ فَاعْلَمُوا أَنَّمَا عَلَى رَسُولِنَا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ ( مائدہ 90_92).*
*اے ایمان والو ! بے شک شراب ، جوا ، مورتیاں اور فال نکالنے کے تیر گندی باتیں اور شیطانی کام ہیں ، ان سے بچو ؛ تاکہ تمہارا بھلا ہو، شیطان تو یہی چاہتا ہے کہ تمہارے درمیان شراب اور جوے کے ذریعہ دشمنی اورنفرت پیدا کردے ، نیز تم کو اﷲ کے ذکر اور نماز سے باز رکھے ، تو کیا تم ( شراب اور جوئے سے ) باز آجاؤ گے ؟ اور اﷲ کی فرمانبرداری کرو ، رسول کی فرمانبرداری کرو ، نیز ( گناہوں سے ) بچتے رہو ، اگر تم نے اس سے بے رخی برتی تو ہمارے رسول پر تو صرف اچھی طرح پہنچادینے کی ذمہ داری ہے ۔*
*آج ان حافظ جی کے گھر پر چراغاں ہورہا ہے اور جشن کا سماں ہے، وہیں کتنے ہی گھروں کا آخری چراغ بھی بھبھک کر بجھ گیا ہے۔*
آج جب حافظ مہربان کے والد اپنی خوشی کا اظہار کر رہے ہیں تو کیا وہ کسی حافظ کسی مولوی کی کسی ملاقات میں یا ان کے کسی بیان میں بتائی یہ بات بھول چکے ہیں کہ جوا حرام ہے، اور حرام کا لقمہ کھانے والا غضب الٰہی کا مستحق ہوتا ہے، اس کی دنیا اور آخرت برباد ہوجاتی ہے، اس کا دل سخت ہو جاتاہے اور اس سے توبہ کی توفیق تک سلب ہوجاتی ہے، العیاذ باللہ۔
*جوا صرف یہی نہیں کہ لوگ اسے جوا کہتے ہوں، اس لیے کہ اعتبار شے کی حقیقت کا ہوتا ہے، کیا زنا کا نام لیو ان ریلیشن شپ رکھ دینے سے زنا زنا نہیں رہتا؟ کیا سود کا نام بدل کر انٹرسٹ رکھ دینے سے خدا سے جنگ کا جواز پیدا ہوجاتا ہے؟ کیا شراب کا نام کوک یا وہسکی رکھ دینے سے شراب حلال ہوگئی؟ کیا بے پردگی اور عریانیت پر جھوٹی روشن خیالی اور مارڈنلزم کا لیبل لگا دینے سے بے حیائی اور فحاشی کی اجازت مل گئی؟؟ کیا ڈریم الیون کا نام رکھ دینے سے قمار و میسر جائز ہوگیا؟! ہر گز نہیں، لفافے کو بدل دینے سے مضمون نہیں بدل جاتا ہے۔*
*جوے سے مراد یہ ہے کہ کسی چیز پر اس طرح رقم لگائی جائے کہ اس کا انجام معلوم نہ ہو۔ لہذا ہر وہ کمائی جوے کے زمرے میں آئے گی جو بیٹھے بٹھائے غیر یقینی طور پر دوسروں کا چھینا ہوا لقمہ آپ کی پلیٹ میں پہنچا دے جو آپ کے لیے تو شاید وقتی تنعم و آسائش کا کچھ ذریعہ بن جائے لیکن دوسروں کے لیے وہ موت کا پیغام ثابت ہو۔*
غیر تو غیر ہیں حیرت ہوتی ہے برادران اسلام پر!! آخر کس اسلام کو ماننے والے ہیں یہ؟! کس مکتب میں انہوں نے تعلیم پائی ہے؟! کس مدرسے میں پڑھا ہے کہ حرام کی دولت پر خدا کا شکر اس طرح ادا کررہے ہیں گویا شکر ادا کرکے حرام کی دولت میں اور حرام کی دولت کا اضافہ کرنا مقصود ہو العیاذ باللہ والیہ المشتکی۔
حیرت تو ان بدنصیبوں کو مبارک باد دینے والوں پر بھی ہے جو انہیں خدا کے غضب کو حاصل کرنے پر مبارک باد دے رہے ہیں اور ان پر رشک کررہے ہیں کہ خدا کا غضب جو تم پر نازل ہوا ہے وہ ہم پر کیوں نہ اترا۔
یہ مانا کہ حالات اچھے نہیں ہیں، معاشی بدحالی کا سامنا ہے، کوئی روزگار نہیں، زندگی کی ضروریات اور تقاضے منہ پھاڑے کھڑے ہیں، بنیادی ضرورتوں کی تکمیل مشکل ہے، غربت نے جینا دوبھر کردیا ہے،آنکھوں میں دنیا اندھیری معلوم ہوتی ہے، تو کیا جوئے اور قمار کی اجازت مل جانی چاہیے؟، کیا خدا کے حرام کو اب حلال کرلیا جاۓ گا؟ کیا حدود اللہ کو روند دیا جائے گا تو پھر کیا بچے گا آخر؟.
*یاد رکھئے اگر دنیاوی زندگی کی مشکلیں دور بھی ہوگئیں لیکن آخرت کی مشکلیں بڑھ گئیں تو یہ عقلمندی کا فیصلہ ہرگز نہیں ہوگا، یہ ایسا خسارہ ہوگا جسے خسران مبین کہنا بجا ہوگا۔ الكَيِّس مَنْ دَانَ نَفْسَهُ، وَعَمِلَ لِما بَعْدَ الْموْتِ، وَالْعَاجِزُ مَنْ أَتْبَعَ نَفْسَه هَواهَا، وتمَنَّى عَلَى اللَّهِ، عقلمند وہ ہے جو اپنا احتساب کرے اور مرنے کے بعد کی زندگی کے لیے عمل کرے اور احمق و عاجز وہ ہے جو اپنی خواہشات پر چلے اور اللہ سے امید رکھے۔*
کیا ضروری ہے کہ معیار زندگی کو اتنی اہمیت دی جائے کہ حق و باطل، خیر و شر اور حلال وحرام کی تمیز ہی اٹھ جائے۔ ایسے معیار زندگی اور لائف اسٹائل کو ہم جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں۔
*کیا روکھی سوکھی پر زندگی نہیں گزاری جاسکتی؟ کیا پر آسائش مکان بہت ضروری ہے؟ کیا گلے کا طوق بننے والا بینک بیلنس اتنا اہم ہے؟ کیا سونا چاندی، زرق برق لباس اور عمدہ اور قیمتی فرنیچر، پر تعیش سامان زندگی کے بنا زندگی کی گاڑی نہیں چل سکتی؟ ہرگز نہیں ، زندگی اس سے بلند ہے!! زندگی ان پابندیوں سے پرے ہے!!.*
غلط کو غلط ہی کہا جائے گا، حرام کو حرام ہی کہا جائے گا، کسی مسٹر یا مولوی کے عمل سے اللہ اور رسول کا مقرر کردہ معیار اور پیمانہ نہیں بدل سکتا۔
*کیا اکیسویں صدی قیامت تک مسلمانوں کے لیے وہی قانون وہی احکام قابل قبول ہوں گے جو خدا اور رسول کے بتائے ہوئے ہیں، جو قرآن و حدیث کی صاف و بے غبار تعلیمات پر مبنی ہیں، اور سچے مسلمان ہمیشہ اس پر دل و جان سے عمل پیرا رہیں گے۔*
*میری دعا ہے کہ حافظ مہربان کو آگ کا یہ الاؤ یعنی یہ کروڑ کی دولت نا مبارک ہو!!۔*
*اللهم أَرِنا الحق حقاً وارزقنا اتباعه، وأرِنا الباطل باطلاً وارزقنا اجتنابه، اللهم آمين۔*