Slide
Slide
Slide

تخلیقی ،تنقیدی اور تقلیدی ذہن کا فرق

✍ مسعودجاوید

___________________

مغربی دنیا کی دانشگاہوں میں علمی انداز کے اختلاف رائے کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔‌ سائینٹیفک ریسرچ یعنی علمی تحقیق کرنے والے اور  ادبی تنقید کرنے والے اسکالر  یعنی صحیح و سقیم کا خلاصہ کرنے والوں اور رطب و یابس کی نشاندہی کرنے والوں کو ماہانہ وظیفہ دیا جاتا ہے۔ ، ۔ ۔ ان کے یہاں یونیورسٹیوں اور بحث و تحقیق کے اداروں میں ایک مسلمہ عام ہے کہ  true until proven wrong یعنی اگلے کی بات ، جب تک مدلل غلط نہ ثابت کیا جائے ، وہ صحیح ہے۔
ان کے یہاں طلباء کے ذہنوں کو صیقل کرنے، اور تحقیق کی بنیاد پر صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط کہنے کی جرأت پیدا کرنے کا یہ بہترین طریقہ رائج ہے کہ  پروفیسر خواتین و حضرات اپنے طلباء کو کہتے ہیں کہ وہ ان کی اور ان کے اساتذہ اور اساتذہ کے اساتذہ کی تھیوری کو اپنی عرق ریز ریسرچ سے غلط ثابت کریں۔
بدقسمتی سے  ہمارے یہاں دینی درسگاہوں میں طلباء میں تحقیقی ذہن  اور تنقیدی مطالعہ کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی ہے. نہ صرف یہ بلکہ تحقیق کے لئے سوالات کرنا بھی بے ادبی سمجھا جاتا ہے۔ ،
قرآن کی تفسیر ہو، حدیث کی تشریح ہو یا فقہی مسائل کا استخراج ،جدید دور کی انفارمیشن ٹیکنالوجی،  جس میں سارے معتبر و غیر معتبر نصوص اور حوالے جات انگلیوں کے پوروں پر ہیں، کی مدد سے مزید فلٹر کی جا سکتی ہیں لیکن یہ جب ہی ممکن ہے جب آج کے دور کے شیوخ حضرات کی جمود والی باتوں کو عقیدت مندانہ نظر سے نہ دیکھا جائے۔
طلباء کے اندر ایسے پیران پیر اور بزرگان دین کی باتوں کو ، ادب کے دائرے میں رہتے ہوئے ، خارج کرنے جرأت ہونی چاہیۓ جو کہتے ہیں ” چائے پینا حرام ہے اس لئے کہ چائے مختلف امراض کے باعث ہوتی ہے۔ اور اللہ نے قرآن مجید میں کہا ہے لا تلقوا أيديكم إلى التهلكة اپنے آپ کو ہلاکت میں مت ڈالو۔۔۔ تو اس سے زیادہ مضر صحت تو تمباکو اور سگریٹ ہیں جن کے لیبل پر وارننگ بھی لکھی ہوتی ہے کہ اس کے استہلاک سے کینسر بھی ہو سکتا ہے ، اس کے باوجود علماء کی معتد  بہ تعداد پان میں تمباکو ، حقہ شیشہ، سگریٹ سے شوق فرماتے ہیں ۔۔ ایسے بہت سے حضرت جی ہیں جو ٹخنے سے نیچے پینٹ پائجامے کی نکیر کرتے ہیں مگر خود بہنوں کے حقوق اور دیگر حقوق العباد کی ادائیگی میں بہت پیچھے ہیں ، ان سے سوال کرنے کی جرأت کون کرے !
درس نظامی کی کتابوں میں تصنیف ،تالیف اور ترتیب کے ادوار  کے سکے،  وزن اور پیمائش کی اصطلاحات لکھی گئی تھیں وہی آج بھی پڑھائی جاتی ہیں ! جبکہ ارتقاء کے ادوار سے گزرتے ہوئے ہم کوڑی، پھوٹی کوڑی، دھیلہ ، آنہ ،  پیسہ، سولہ آنے کا روپیہ جو  اب  نیا پیسہ پر مشتمل سو نئے پیسے کا ایک روپیہ ہے۔ اسی طرح سولہ چھٹانک کا ایک سیر جو اب ایک ہزار  گرام کا ایک کیلو ہے،  ، رتی ، ماشہ ، تولہ کی جگہ اب گرام نے لے لیا ہے۔ کیلو میٹر نے میل کی جگہ لے لیا ہے۔ اسکول کی نصابی کتب میں ان تبدیلیوں کو مدنظر رکھتے ہوۓ وزن ، مقدار اور مسافت کی رائج الوقت مصطلحات لکھی گئی ہیں اور پڑھائی جاتی ہیں جو طلباء کو بغیر اضافی ذہنی ورزش کے بخوبی سمجھ میں آجاتی ہیں اس لئے کہ روز مرہ کی زندگی میں ان سے ان کا واسطہ پڑتا ہے۔  جبکہ مدارس کی کتب میں اس طرف توجہ نہیں دی گئی جس کی وجہ سے مثال کے طور پر ساڑھے سات تولے سونا اور ساڑھے باون تولے چاندی کا گرام‌ میں سمجھنے، پڑھنے اور پڑھانے کے لئے اضافی محنت اور کیلکولیٹر کی ضرورت ہوتی ہے۔ نکاح کے وقت اگر مہر فاطمی طے کیا جائے تو سکہ رائج الوقت میں تحدید کے لئے بغلیں جھانکنے لگتے ہیں ۔‌
خطاء بزرگاں گرفتن خطا است !
"بزرگوں کی غلطیوں کی نشاندہی کرنا اچھی بات نہیں ہے”  ! عقیدت کا یہی چشمہ تحقیق و تمحیص کی راہ میں مانع ہے۔
اگر ہمارے بعض اکابر کی چند تعبیرات متنازعہ فیہ ہیں تو تحقیق و تمحیص کے بعد ان تعبیرات سے برأت کا اظہار کرنا اگر اتحاد امت کی راہ ہموار کرنے میں معاون ہو سکتا ہے تو کیوں نہیں! ایسی تعبیرات ، تشبیہات اور اصطلاحات ایک خاص دور کے خاص طبقے کی ذہنیت کو مد نظر رکھتے ہوۓ استعمال کیا گیا تھا اگر اب ان تعبیرات کی ضرورت نہیں تو ان پر اصرار کیوں ! ” نماز میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا تصور اور خیال آنے سے نماز فاسد ” بیان کرنے سے مقصود خالص توحید پر زور دینا ہے۔ اسی طرح علم غیب کے تعلق سے کہی گئی باتوں کا مقصد قاری اور سامع کے دل و دماغ میں وحده لا شريك له پیوست کرنا ہے۔ اب ان تعبیرات کو کوئی اہانت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کہہ کر مصنف و مؤلف کی طعن وتشنیع کرے تو یہ اس طعن و تشنیع کرنے والے کی کور چشمی اور اختلاف برائے اختلاف کے لئے شوشہ چھوڑ کر اپنی جماعت اور فرقے کی الگ شناخت قائم کرنا ہے۔  اس کے باوجود اگر ہمارے بزرگوں کی چند تعبیرات سے برأت میں اگر خیر ہے تو اس میں حرج کیا ہے ! اسی طرح ” تنقید سے بالا تر نہیں”  کو لکیر کا فقیر بن کر بحث و مباحثہ اور مناظرہ کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ یہ ہمارا عقیدہ کہ دین اسلام کا ماخذ قرآن کریم اور سنت رسول احادیث مبارکہ ہم تک صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے توسط سے پہنچا ہے یہ ایک چین ہے اگر اس چین کی ایک بھی کڑی پر ہم نے شک و شبہہ کیا تو پورا تسلسل ٹوٹ جائے گا اور دین حنیف کے صحیح ماخذ و منبع پر ہمارا ایقان متزلزل ہو جائے گا ۔
دین اسلام کا جوہر ایمان بالغیب ہے۔ اس کی حقانیت ثابت کرنے کے لئے معجزات ، کشف و کرامات اور الہامات کا سہارا لینے کی ضرورت نہیں ہے ۔ اور جب ایسا ہے تو پھر بزرگوں کے واقعات بیان کر کے لوگ دین اسلام کی نہیں اپنے بزرگوں کی عظمت بیان کرنے میں رطب اللسان رہتے ہیں۔  معجزات ، کشف و کرامات اور الہامات یہ سب ما فوق الفطرت افعال و حرکات ہوتے ہیں جن کو عقلی طور پر ثابت نہیں کیا جاسکتا ہے اور دوسری بات یہ کہ بعض مافوق الفطرت افعال و حرکات علم سفلی والے اور غیر مسلموں میں بھی ہوتے ہیں تو ہم اپنے بزرگوں کے الہامات و کرامات بیان کر کے کون سا چار چاند لگاتے ہیں۔  اگر کسی کو الہام ہوا تو ہوا اس کا دین اسلام اور اس کی حقانیت سے کیا تعلق ؟
موجودہ دور آپ سے اتحاد امت کا متقاضی ہے، اس کے لئے مینیمم کامن ایجنڈا قدر مشترک یعنی  اللہ ایک ، پیغمبر ایک ، قرآن ایک ، قبلہ ایک کی بنیاد پر جوڑنے کا کام کرنے کی ضرورت ہے۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: