۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام
۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام

۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس، اور تعطیلِ عام از ـ محمود احمد خاں دریابادی _________________ ہندوستان جمہوری ملک ہے، یہاں مختلف مذاہب کے لوگ بستے ہیں، ہر مذہب کے بڑے تہواروں اور مذہب کے سربراہوں کے یوم پیدائش پر مرکز اور ریاستوں میں عمومی تعطیل ہوتی ہے ـ ۱۲ ربیع الاول کو چونکہ پیغمبر […]

بچپن كا رمضان

از: ڈاكٹر محمد اكرم ندوى

_____________

اس وقت گاؤں ميں ٹیلی ویژن نہیں ہوتے تهے، اور نه جديد ترقى كے آثار دكهائى ديتے، ديہاتيوں كا مزاج فطرت سے نزديكـ تر تها، ان ميں نه فسوں تها نه مكر، اس عہد دلربا كا رمضان كيا تها؟ ہر روز روز عيد ہوتا اور ہر شب شب براءت، بہت سے مرد دور دراز شہروں میں کام کرتے تهے، مگر وہ كوشش كرتے كه عيد كا تہوار گاؤں ميں منائيں، وه رمضان ہى ميں وطن آجاتے، اور اپنے اپنے گهروں كى رونقيں بڑهاتے، وه كيا لوگ تهے جنہوں نے اپنے رب سے وفادارى كا عہد استوار كر ركها تها، اور رمضان كو رحمت وبركت كا مہينه سمجهتے تهے، وه شاعر مشرق كے اس شعر پر سراپا احتجاج رہتے:
طبع آزاد پہ قید رمضاں بھاری ہے
تمہیں کہہ دو یہی آئین وفاداری ہے
رمضان کے ايام امیر و غریب، چھوٹے اور بڑے، مرد اور عورت، سب کے لیے بے پناه شادمانيوں کے دن ہوتے، ہم چاند دیکھ کر رمضان کا آغاز كرتے، شعبان کی انتیسویں كا وقتِ غروب اس مہمان نو كى آمد كى نويد ديتا، عمارتوں کى بلنديوں سے اسے تاكا جاتا، جامع مسجد کی چھت جو سب سے اونچى جگه تھى، زياده تر لوگ اس پر چڑهـ كر ہلال ديكهنے كى كوشش كرتے، میں چھوٹا تھا، پهر بهى بڑوں کے ساتھ مسجد ميناره كے قريب كهڑا ہوتا اور اس گروه مقدس كا حصه بن جاتا، چاند دیکھ کر ایک عجيب فرحت کا سماں ہوتا، دل میں وہى روشنی پهوٹ پڑتى جو سفر سے كسى عزيز ترين رشته دار يا دوست كى واپسى پر ہوتى، رمضان كى پہلى رات بچوں كى صورت پر تبسم ہوتى، آہوئے ختن كى طرح مشكبار ہوتى، اور حجر اسود كى مانند جمال رعنا ہوتى، گھر ايكـ دينى تربيت گاه بن جاتا، جہاں ہم ایمان افروزی کا سبق ليتے، اور ہماری زندگیوں کو قرآنی ماحول میں ڈهال دیا جاتا۔
اگر كوئى شامت زده روزه نه ركهتا تو وه اچهوت شمار ہوتا، اس سے لوگوں كو ايسى ہى وحشت ہوتى جيسے با ذوق انسان مردوں كے ناچ سے يا كريلا چڑها نيم سے چڑهتا ہے، مولانا تهانوى ايسے عہد شكن كو چمار اور بهنگى كہا كرتے تهے، ہمارى عمر ساٹهـ سال كى ہوگئى ہے، بچپن سے ليكر اب تكـ ہم نے كسى كو روزه خوار كى تعريف كرتے نہيں سنا، ايسا نہيں ہے كه ہم كنويں كے مينڈكـ ہيں، ہم نے مشرق ومغرب كے ميخانے ديكهيں ہيں، نيكوں اور بدوں سے ہم مجلسى كى ہے، پر سب كو روزه داروں كا احترام كرتے پايا ہے۔
گرمی کے دنوں کا روزہ رکھنا کتنا پر رحمت ہوتا، تپتى دهوپ اور بہتے ہوئے پسينے عجيب لذتوں سے سرشار كرتے، عورتوں كا كام ہر مہينه ميں بڑها ہوتا ہے، اس مہينه ميں دو چند ہو جاتا، سحری تیار کرنا، افطار کے لئے کھانا بنانا، برتن مانجهنا، كپڑے دهونا، اور گهر ميں جهاڑو لگانا، يه سارے كام عورتيں تنہا كرتيں، اور خوشی سے كرتيں، کبھی اپنے نصيب ومقدر كو نه كوستيں، ہر روزه دار كو ہم ميدان جہاد كا سپاہى سمجهتے، اور اس جہاد ميں عورتيں مردون سے بازى لے جاتيں، يہيں سے ہمارے يقين واذعان ميں اضافه ہوا كه عورتيں نصف بہتر ہيں، جو حقيقت ہم پر بچپن ميں منكشف ہوگئى تهى، اس حقيقت سے ہندوستان كے اس طبقه كو اب تكـ پرده ميں ركها گيا ہے جو غلط استدلال اور كٹ حجتى كا بادشاه شمار ہوتا ہے، ظاہر ہے اسرار سرمدى سب پر واشگاف نہيں ہوتے۔
تراویح کی نماز شروع ہوتی تو ايسى كشش ہوتى جیسے كوئى جشن يا مہرجان ہو، يا موسیقی کا كوئى پروگرام ہو، چهوٹے بڑے ہر طرف سے مسجد ميں امڈ پڑتے، جو لوگ سال بھر مسجد كا منه نه ديكهتے وہ بهى رمضان میں جماعت سے نماز ادا كرتے، ہماری مسجد میں پندرہویں تاریخ کو قرآن كا پہلا ختم ہوتا، حافظ ہر رات دو پارے پڑھتا، پہلے ختم کے بعد گاؤں كے سارے حفاظ اكٹها ہوتے، اور ہر دو رات میں ایک ختم مکمل کرتے، عشاء كى نماز سے لیکر سحر تک يه سلسله چلتا، نئے حافظوں كے لئے يه مہينه امتحان كا ہوتا، حفاظ كے والدين اور رشته دار فخر محسوس كرتے، ان كا اعزاز واكرام ديكهكر دوسرے لوگ بهى اپنے بچوں كو حافظ بنانے كى نيت كرتے، يوں گاؤں ميں حافظون كى تعداد غير معمولى طور پر بڑهـ گئى تهى۔
ہم سلیمانیہ میں پڑھنے والے بچے رات كے آخرى حصه ميں لالٹين لے کر گاؤں کى گلیوں میں پهرتے، بلند آواز سے اردو اشعار پڑھتے، اور لوگوں کو سحرى كے لئے جگاتے، يه اشعار نبی اكرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نعت، خلفاء راشدین کیى مناقب، اور عام صحابہ رضي الله عنهم کی تعريف پر مشتمل ہوتے، میری والده کے پاس ایک پرانى ڈائری تهى جس میں بہت سى نظمیں لکھی ہوئى تهيں، ميں وه ڈائرى لے آكر آتا، اس كے اشعار پڑهتا اور دوسرے بچے ميرے پيچهے پیچھے وه اشعار دہراتے، ان میں کچھ بچے اپنی آواز میں خوبصورتی پيدا كرتے، اور كچه ايكـ خاص قلبى كيفيت سے اشعار گنگناتے، يوں ہم گاؤں كى ہر گلى سے گزرتے، لوگ ہمارے احسانمند ہوتے، اور ہميں عزت كى نگاه سے ديكهتے، كچهـ لوگ كبهى كبهى خاص كهانوں سے ہمارى ضيافت بهى كرتے۔
عورتیں مردوں سے پہلے بیدار ہو جاتی تھیں، کھانا پکانے اور سحرى تيار كرنے میں مصروف ہو جاتيں، سحرى میں مختلف قسم کے کھانے ہوتے، اور اس میں ایک خاص ڈش بھی تھی جس کو سحر گہى کہا جاتا تھا، يه ميوه جات سے تيار شده حريره ہوتا جو اسى وقت پكايا جاتا، انہيں گرم گرم پراٹهوں يا ساده روٹيوں سے كهايا جاتا، ہم ستاروں كى روشنى اور لطيف ہواؤں كے جهونكوں ميں سحرى تناول كرتے، طلوع فجر سے پانچ منٹ پہلے كهانا پينا ختم کر لیتے، عربی میں روزہ رکھنے کی نیت پڑھتے ” بصوم غد نويت من شهر رمضان”، پھر وضو کرتے اور مسجد میں نماز پڑھنے کے لئے نکلتے۔
فجر کے بعد مرد کھیتوں میں مصروف ہوجاتے، اور جب تكـ سورج کی گرمی تيز نه ہو جاتى كهيتوں ميں كام كرتے رہتے، عورتیں مشغولیات اور کاموں كے باوجود كثرت سے قرآن کی تلاوت کرتیں، میری والده عام طور پر چهه بار يا اس سے زياده قرآن ختم كرتين۔
ظہر کی نماز كے بعد عورتیں افطار تیار کرنے ميں لگ جاتیں، گهگهنى پكتى، پكوڑے اور گلگلے تلے جاتے، انواع واقسام كى ڈشيں ہوتيں، عصر سے لے کر مغرب تک گاؤں ميں كهانوں كى خوشبو ہى خوشبو ہوتى، ماحول میں ایک خاص ذائقه ہوتا جو دلوں کو مدہوش کردیتا، مسجد کے قریب برف فروخت ہوتی تھی، ہم برف خریدتے اور اسے مشروبات ميں ملاتے، روح افزا روزہ داروں كا خاص مشروب ہوتا، مغرب سے پہلے عورتيں اپنے بچوں كو مسجد ميں اور پڑوسيوں كے گهروں ميں افطار كا سامان ليكر بهيجتيں، ہر گلى ميں بچے ادهر ادهر پليٹيں لئے ہوئے پهرتے، ان كى چالوں سے خوشى كى لہريں پهوٹتيں۔
رمضان كى ہر شام سہانى اور رنگين ہوتى، ہر طرف چہل پہل ہوتى، افطار کا لطف دلوں میں نشه پيدا كرديتا، افطارى ميں دعاؤں كا رس گهولا جاتا، اور چهوٹے بڑے سارے روزه دار رب العالمين كى بارگاه ميں دست بدعا ہوتے، ان كى التجاؤں كو اجابت كا سوز وأہنگ بخشا جاتا، افطار كے بعد تهوڑى دير آرام كرتے، اور عشاء وتراويح سے پہلے چائے ضرور پيتے، ہميں اس پر ناز ہے كه ابو الكلام كى طرح ہم بهى چائے كے رسيا ہيں، چائے بقول مولانا "طبع شورش پسند کو سرمستیوں کی اور فکر عالم آشوب کو آسودگیوں کی دعوت دیا کرتی تھی”، جب بهى ہميں كسى بڑے آدمى كى كوئى اچهى يا برى عادت ايسى معلوم ہوتى ہے جو ہم ميں بهى جاتى ہے تو اس اشتراكـ پر سر غرور سے تن جاتا ہے۔
اس مباركـ مہينه ميں نفرتيں محبتوں ميں بدل جاتيں، دورياں كم ہو جاتيں، موافق ومخالف سب اپنے رب كے مہمان كى تعظيم پر متفق اللسان والحال ہوتے، ہندوستان ميں شيعه سنى، ديوبندى بريلوى، مقلد وغير مقلد كے نام سے بہتر فرقے ہيں، ہر فرقه دوسروں كو جہنمى سمجهتا ہے، اور ہمه وقت دست بگريباں رہتا ہے، اگر انسان كو بصيرت حاصل ہو تو اپنے سوا كسى كو جہنمى نه سمجهے، ہم نے جب بهى اپنى آنكهوں پر انصاف كى عينكـ لگائى تو ہميں سارے روزه داروں كے چہروں پر ايمان كا نور نظر آيا، اور ہميں ہر نمازى جنتى معلوم ہوا، اسى لئے ہم نے تمام فرقه پرستوں اور تعصب پسندوں سے كناره كشى كرلى ہے، اور ہم خدا سے اس جنت كے طلبگار ہيں جو مذہبى پيشه كاروں كى جنگ وجدال سے اور تنگ نظرى اور كج فہمى پر معقولات كا ليبل لگانے والوں سے پاكـ صاف ہو۔
حيف ان نفوس زائغه پر جو "رحماء بينهم” كى تلاوت كرتے ہيں، جو سورۂ حجرات حفظ كرتے ہيں، اور بار بار "إنما المؤمنون إخوة” كا تلفظ درست كرتے ہيں، مگر ان كے دل اپنے بهائيوں كے لئے نفرتوں اور كدورتوں سے لبريز رہتے ہيں، وه مسلمانوں كو لڑانے كا كوئى موقع ہاته سے جانے نہبيں ديتے، اگر ان كے بس ميں ہو تو "رحماء بينهم” كو "قساة بينهم” سے، اور "إنما المؤمنون إخوة” كو "إنما المؤمنون أعداء” سے بدل ديں، قرآن ميں تو وه تحريف نه كرسكے، ليكن احكام اسلام كے اجراء ميں انہوں يقينًا تحريف كر ڈالى ہے۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: