✍️ مولانا عبدالحمید نعمانی
_________________
بابری مسجد کی زمین پر رام مندر کی جاری تعمیر کے عمل اور اس پر پران پرتشٹھا کر کے ایک الگ طرح کا ایسا بھارت بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے جس میں اصل بھارت کا کردار اور نقشہ غائب ہے، ہم نے طالب علمانہ طور پر جتنا کچھ رام، رامائن کا مطالعہ کیا ہے اس کی بنیاد پر کہہ سکتے ہیں کہ رام، کل ملا کر ایک مثبت کردار ہے، اس کے بر خلاف جو چند منفی کردار اور کاموں کے حوالے ملتے ہیں ان کا بڑا حصہ الحاقی اور بعد کے دنوں میں اغراض پسندوں کا اضافہ ہے، مثلا شمبھوک قتل اور سیتا کا گھر نکالا وغیرہ وغیرہ، اسے بہت سارے غیر مسلم محققین بھی تسلیم کرتے ہیں، گزشتہ کچھ عرصے سے ہندو اکثریتی سماج میں شدت پسندی اور حملہ آور جذبہ پیدا کرنے کے لیے رام، ہنومان کو جس طرح غصے اور تیر، کمان کے ساتھ حملہ آور پوزیشن میں پیش کیا جا رہا ہے اس کا رام، ہنومان کے اصل کردار و شبیہ سے کوئی زیادہ تعلق نہیں ہے، یہ انتخابی سیاست کی پیداوار ہے، جس طرح کی حالت میں رام مندر کی تعمیر کی جا رہی ہے اس سے وہ کردار اور آئیڈیل کا قیام عمل میں نہیں آ سکتا ہے جو رام اور ہنومان نے قائم کیا تھا اور ان کے نام پر قائم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، مذہب و فرقہ کے نام پر فرقہ وارانہ بنیادوں پر جس طرح کے معاشرے کی تشکیل کی مختلف سطحوں پر کوششیں کی جا رہی ہیں اس کا اصل رامائن والمیکی، حتی کہ تلسی داس کے مثالی کردار رام کے حوالے سے پیش کردہ نمونے سے کوئی تعلق نظر نہیں آتا ہے، یہی وجہ ہے کہ رام مندر کی تحریک اور مندر کی جاری تعمیر سے سماج پر کوئی بہتر و مثبت اثرات و نتائج مرتب و برآمد نہیں ہو رہے ہیں، رام نے ایودھیا، لنکا میں ایکا پیدا کیا تھا، اس کے برخلاف نئے بھارت میں مذہب و فرقہ کی بنیاد پر سماج کی تقسیم و تفریق کا دائرہ وسیع تر ہوتا جا رہا ہے، رام کے نام اور جے شری رام کے نعرے کے ساتھ، ہجومی قتل و تشدد اور حملے، زیادتی کا سلسلہ جاری ہے، جب کہ رام کے تریتا یگ میں مختلف طرز حیات اور کھان پان کو لے کر باہمی تصادم نظر نہیں آتا ہے، گوتم، گاندھی، چشتی رح، نانک، آزاد رح مدنی رح کے دیس میں فرقہ وارانہ نفرت و تفریق کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے، رام، لکشمن نے جنگل، میدان میں بھی راکشسوں کےظلم اور قتل و غارت گری اور جنسی جذبات سے مغلوب راون سے مظلوم سیتا کی نجات کے لیے تیر، تلوار کا استعمال کیا جاتا اور تیاگ تپسیا میں لگے رشی منیوں کو راکشسوں سے بچانے کا کام کیا تھا، اس کے برعکس رام کے نام اور جے شری رام نعرے کے ساتھ مسجدوں، مزاروں، مدرسوں اور تعلیمی اداروں پر حملے اور توڑ پھوڑ کے سلسلے، بھارت کو فساد اوردہشت زدہ بھارت میں بدلنے کا کام کر رہے ہیں، بہار کا مدرسہ عزیزیہ، حیدرآباد کی عثمانیہ یونیورسٹی، بنگال کی جادو پور یونیورسٹی، بنارس ہندو یونیورسٹی، دہلی یونیورسٹی، جواہر لعل نہرو یونیورسٹی، اور حال میں گجرات یونیورسٹی کے طلبہ پر دوران نماز حملے اور توڑ پھوڑ کو کوئی اور نام نہیں دیا جا سکتا ہے، یہ حالات و واقعات بھارت کے بھوشیہ اور بہتر شبیہ کو تباہ کرنے کا کام کر رہے ہیں، رام کے کردار و اصول میں عبادت و تعلیم میں لگے اور نہتھے افراد کو نشانہ بنانے کا کوئی جواز نہیں ہے، یہ راکشسوں کی فطرت و عمل اور کار ابلیس ہے نہ کہ رام، لکشمن کا کردار، اس سلسلے میں تمام محب وطن ہندستانیوں کو عموما اور تمام اقلیتوں، دلتوں، آدی واسیوں اور دیگر محنت کش طبقات کے لوگوں کو خصوصا سمجھنا، دیکھنا ہوگا کہ کس طرح ایک آئینی بھارت کو انارکی کی حالت میں لے جا کر ایک مخصوص قسم کا نیا بھارت بنانے کی مذموم کوششیں کی جارہی ہیں، وزیراعظم کے ساتھ دیگر کا رام مندر کے نام پر آنے والے ہزار سال کے نیا بھارت بنانے کی بات سے لگتا ہے کہ ایسا کچھ کرنے کی منصوبہ بند کوششیں کی جارہی ہیں کہ مبینہ نئے بھارت میں دیگر کے لیے کوئی زیادہ جگہ نہیں ہوگی، ویسے بھی ملک کے مشترک و اجتماعی منصب پر فائز کسی شخصیت کا کسی ایک مذہب و فرقہ کے پلڑے میں وزن ڈال دینا، متحدہ جمہوری سیکولر ملک کے لیے کوئی اچھی علامت نہیں ہے، کرناٹک کے ایک بی جے پی لیڈر نے آئین بدلنے کے لیے 400سیٹیں دینے کی اپیل کر کے ایک سنگین خطرے اور بھارت کو ایک مخصوص سمت میں لے جانے کے منصوبے کوظاہر کر دیا ہے، اس سے پہلے بھی وہ اور دیگر لوگ آئین بدل دینے کی بات کر چکے ہیں، گرو گولولکر اور سنگھ کے ترجمان ہفت روزہ آرگنائزر کی طرف سے آئین ہند پر ناپسندیدگی اور منو سمرتی پر تحسین کا اظہار کیا جا چکا ہے، اپوزیشن پارٹیوں کی طرف سے آئین بدل کر ملک کو ایک الگ نظام کے تحت لانے کی کوششوں پر تشویش کا اظہار کیا جاتا رہا ہے ابھی حال میں ، بھارت جوڑو نیائے یاترا کے اختتام کے بعد ممبئی کے شیوا جی پارک میں اپوزیشن اتحاد کی مٹینگ میں بھی کہا گیا کہ بی جے پی کا مقصد، ملک کے آئین کو تبدیل کرنا ہے، لیکن اپوزیشن اتحاد کی طرف سے پیدا شدہ حالات میں بی جے پی اور آر ایس ایس کی طرف سے جاری سرگرمیوں کی کوئی مضبوط و موثر مزاحمت ہوتی ہوئی نظر نہیں آتی ہے، گانگریس تو پنڈت نہرو کے سیکولر کردار کو پیش کرتے ہوئے ان کا بھی صحیح دفاع نہیں کر پا رہی ہے، ابھی حال میں شائع ایک ضخیم کتاب، نہرو فائلس میں 127معاملات کے تعلق سے نہرو پر اعتراضات کر کے یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ نہرو کی پالیسی نے بھارت کو کمزور کرنے کا کام کیا ہے، دیگر پارٹیوں کا حال بھی بدلتے نئے بھارت کوئی زیادہ اچھا نہیں ہے، سماج وادی پارٹی، سماج واد کی افادیت اور ڈاکٹر لوہیا کی آج کے بھارت میں معنویت و ضرورت بتانے میں پوری طرح ناکام ہے، آچاریہ نریندر دیو وغیرہ کا نام کبھی کبھار ہی آتا ہے ان کے مقاصد پر پوری طرح پردہ ڈالنے کا کام کیا جا رہا ہے، بی ایس پی کا تو بہت ہی برا حال ہے، وہ ڈاکٹر امبیڈکر، جیوتی با پھولے، کانشی رام وغیرہ کی راہ ترک کر کے ایک عجیب قسم کی سیاست میں مبتلا ہو گئی ہے، جے ڈی یو، آر جے ڈی کے سامنے کئی طرح کے سنگین مسائل ہیں، بابو جگدیو پرساد، جے پرکاش نارائن ،کرپوری ٹھاکر وغیرہ کے افکار و اعمال کا تجزیہ کر کے نئے حالات میں کام کرنے کے طریقوں پر سوچنے کے لیے کوئی وقت نہیں ہے، بی ایس پی ہاتھی نہیں، گنیش ہے کا معنی بتانے میں پوری ناکام ہے، ایسی حالت میں بھارت کو ایک خاص رنگ میں رنگنے کی کوششوں کے موثر مزاحمت و مقابلے کی بہت زیادہ توقع رکھنا، قبل از وقت کی خوش فہمی ہوگی، اس کے مد نظر 2024 کے عام انتخابات میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے کا معاملہ، معشوق کی موہوم کمر کی طرح ہے، بہت ممکن ہے اور حالات بھی کھلے اشارے کرتے نظر آتے ہیں کہ 2024 کے عام انتخابات، اپوزیشن پارٹیوں کے لیے زندگی کا آخری موقع ثابت ہوں گے، یا پھر آخری کیل اور آخری الیکشن، بی جے پی اور آر ایس ایس اپنے مقاصد و اہداف کو لے کر انتہائی سنجیدہ اور سر گرم عمل ہیں، جب کہ اپوزیشن پارٹیوں کا معاملہ بالکل برعکس ہے، صرف جنوبی ہند کی پارٹیوں میں کچھ جان نظر آتی ہے، مغربی بنگال اور جھاڑ کھنڈ کے متعلق بھی زیادہ مایوسی کی بات نہیں ہے، اس کے باوجود یقین و وثوق سے یہ کہنا مشکل ہے کہ وہ قدیم بھارت کو تباہ کر کے ایک بالکل الگ طرح کے نئے بھارت بنانے والے، آگے بڑھتے رتھ کو روکنے میں کیا اور کتنا رول ادا کر پائیں گے، اس سلسلے میں دیگر اقلیتوں اور محنت کش عوام کے ساتھ مسلمانوں کے بہت سے معاملات خصوصی نوعیت کے ہیں، وطنی وابستگی کے ساتھ مذہبی، تہذیبی و معاشرتی نوعیت کے مسائل کے تناظر میں مسلم اقلیت کو مختلف قسم کی مشکلات کا سامنا ہے، اسے یوپی، آسام وغیرہ میں مدارس کی صورت حال اور سی اے اے کے معاملے وغیرہ سے بآسانی سمجھا جا سکتا ہے، مسلم اقلیت کے خلاف پورے ملک، خصوصا یوپی، گجرات اتر کھنڈ مدھیہ پردیش آسام، راجستھان حتی کہ دلی میں بھی اپنے مزعومہ نظریے وروایات کے مطابق جس طرح ذہن و سماج سازی کا کام کیا جا رہا ہے اس کے پیش نظر ملک کی سب سے بڑی اقلیت ہونے کے ناتے اس کے لیے، طویل المدتی و فوری قسم کی ذمےداریوں میں اضافہ ہو گیا ہے، اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ معروف مسلم تنظیمیں اور ادارے حسب استطاعت ملک میں پیدا کردہ فرقہ وارانہ حالات کا مقابلہ کر رہے ہیں، عدالتی چارہ جوئی کے ساتھ دیگر محاذوں پر بھی نبرد آزما ہیں اس کی ایک تازہ مثال جمعیۃ علماء ہند کی طرف سے این سی پی سی آر کے چیئرمین کو غلط بیانی پر نوٹس جاری کر کے اپنا بیان واپس لینے اور بہ صورت دیگر ان کے خلاف عدالتی کارروائی کا معاملہ ہے، گزشتہ دنوں دارالعلوم دیوبند نے بھی خاصا جرأت مندانہ فیصلہ کیا تھا، اس سے واضح ہے کہ مسلم تنظیمیں اور ادارے فرقہ وارانہ سوچ والے عناصر اور فرقہ پرستوں کے سامنے خود سپردگی کے خلاف ہیں، اس سلسلے میں جو مختلف قسم کی باتیں کی جاتی ہیں ان میں زیادہ دم، دلیل نہیں ہے، آچاریہ پرمود کرشنم اور رام دیو جیسے لوگوں کے بدلتے کردار کا کوئی زیادہ اثر مرتب ہونے والا نہیں ہے، امید یہی ہے کہ ہندستانی عوام کی اکثریت، قدیم اور آزادی کے بعد کے آزاد بھارت کو ختم کر کے الگ قسم کے نئے بھارت بنانے کی کوششوں کا آسانی سے ساتھ نہیں دے گی۔