۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام
۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام

۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس، اور تعطیلِ عام از ـ محمود احمد خاں دریابادی _________________ ہندوستان جمہوری ملک ہے، یہاں مختلف مذاہب کے لوگ بستے ہیں، ہر مذہب کے بڑے تہواروں اور مذہب کے سربراہوں کے یوم پیدائش پر مرکز اور ریاستوں میں عمومی تعطیل ہوتی ہے ـ ۱۲ ربیع الاول کو چونکہ پیغمبر […]

تذکرہ ایمان کی باد بہاری کا (خانقاہ علی میاں کا ایک دن)

✍️ عبدالرحیم ندوی

  استاذ دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ

_____________

طالب علمی کے زمانہ میں یہ تمنا تھی کہ رمضان المبارک میں حضرت مولانا علی میاں ندوی رحمہ اللہ کی خانقا میں حاضری دوں اور وہاں کے  فیوض و برکات سے مستفید ہوں، لیکن یہ تمنا پوری نہ  ہوسکی، فضیلت اول کا سالانہ امتحان 1999ء میں دے کر گھر پہونچا تھا اور ارادہ تھا کہ اس سال ضرور "تکیہ ” حاضری دوں گا کہ 22 رمضان کی صبح کو یہ خبر صاعقہ سننے کو ملی کہ حضرت  مولانا علی میاں ندوی رحمہ اللہ اس دار فانی سے رحلت فرما گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
اب تو یہ شوق زیارت اور شدید ہو گیا لیکن موسم کی سختی زنجیر پا بنی اور اس سال بھی حاضری سے محروم رہا،  پھر دوسرے سال ہمت کر کے حاضری کا عزم کر ہی لیااور رمضان کے اخیر عشرہ میں قرآن پاک سنا کر جب فارغ ہوا تو تکیہ رائے بریلی کے لیے روانہ ہو گیا، گھر سے لکھنؤ اور پھر لکھنؤ سے ظہر کے بعد،” تکیہ ” کے لیے بذریعہ بس  روانہ ہوا، لیکن نہ تو مسافت کا علم تھا نہ  بسوں کی رفتار کا اندازہ اس لیے بس ” کہاروں کے اڈے ( یہ رائے بریلی شہر میں  وہ جگہ ہے جہاں بس سے آنے والے اترتے ہیں اور وہاں سے رکشہ وغیرہ کے ذریعہ حضرت کے یہاں "تکیہ” جاتے ہیں)پہونچی تو مغرب کا وقت نکل چکا تھا اور افطار ہم کو بس ہی میں کرنا  پڑا  تھا چونکہ میں نو وارد تھا، پہلی مرتبہ اس شہر میں آیا تھا اس لیے مجھ کو بتایا ہوا ایک راستہ معلوم تھا کہ یہاں سے رکشہ کر کے تکیہ جانا ہے  لہذا میں رکشہ پر سوار ہو گیا، (غالبا دس روپیہ کرایہ لگا تھا ) تھوڑی دیر میں مدرسہ ضیاء العلوم آگیا، اس سے آگے بڑھتا ہوا میں تکیہ حضرت کی جائے پیدائش پہونچ گیا۔

اب میں نیا آدمی، یہاں کے معمولات سے نا واقف ، مسجد میں جا کر نماز ادا کی، لوگ نماز اور کھانے سے فارغ ہو چکے تھے، میرے لیے دشواری یہ تھی کہ میں کھانا کہاں کھاؤں ، بہر حال کسی طرح کچھ کھایا پیا اور یہاں کے معمولات میں شریک ہو گیا، تھوڑی دیر میں عشاء کی اذان ہوگئی وضو کر کے مسجد پہونچا ۔
ہر چیز کو میں نووارد کی طرح تجسس کی نگاہ سےدیکھ رہا تھا، مسجد دیکھی بالکل انوکھی نظر آئی، نہ مغلیہ طرز کی تعمیر ہے نہ نئے دور کی، ان سب سے مختلف تقریباً ساڑھے تین سو سال پرانی ہے، اس میں نہ کوئی مینار ہے نہ بڑا دروازہ، چوکور کمرہ ہے، جس کے باہر ایک معتدل صحن ہے، نہ زیادہ چوڑا نہ ہی بہت پتلا بلکہ مسجد کی مناسبت سے موزوں صحن  ہے، اینٹ کا فرش ہے جس پر سیمنٹ وغیرہ کا پلاسٹر نہیں ہے، شمال اور مشرق میں نصف قد کی دیوار ہے جس میں شمال مشرق میں ایک چھوٹا دروازہ ہے اور نصف سے جنوب کی طرف ذراہٹ کے مشرقی دیوار میں ایک اور دروازہ ہے اور جنوب میں وضوخانہ ہے، جونئی تعمیر ہے ٹونٹیاں لگی ہیں، وضو خانے کے اوپر سیمینٹیڈ ٹنکی ہے اور اسی سمت سے ایک زینہ نکل کر "سئی ندی "میں جاتا ہے جس سے اتر کر وضو وغیرہ کا کام پورا کیا جاتا ہے
اور مسجد کے دونوں جانب ایک ایک کمرے کی توسیع ہے جو پرانی مسجد سے اپنی تعمیر میں بالکل الگ ہے۔ واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ اتنا حصہ بعد میں تعمیر کیا گیاہے، شاید قصداً ایسا کیا گیا ہےتا کہ قدیم مسجد کا امتیاز باقی رہے۔

یہ وہ تاریخی  مسجد ہے جس کی خام تعمیر تو اس بستی کے مورث اعلیٰ اور معمار اول سید شاہ علم اللہ نے 1050ہجری  میں کی تھی اور پھر پختہ تعمیر 1083ہجری  میں ہوئی اس کی بنیاد میں آب زمزم ڈالا گیا ہے، مسجد کا نقشہ بیت اللہ شریف کے نقشہ کے مطابق ہے صرف چند انگل ادبا  اس سے کم رکھا گیا ہے ورنہ اس کا طول و عرض اور اونچائی سب کعبہ کے برابر  ہے یہی وجہ ہے کہ نہ اس میں کوئی گنبد ہے نہ کوئی مینار ( کاروان زندگی ج1)

  حضرت سید احمد شہیدرح کے زمانے میں اس مسجد کو مجاہدین کی تربیت گاہ اور قیام گاہ ہونے کا شرف حاصل رہا ہے، رمضان کے مہینے میں یہاں پر بڑی چہل پہل اور رونق رہتی ہے، کوئی آرہا ہے، تو کوئی رخصت ہو رہا ہے کبھی درس قرآن کا حلقہ لگا ہوا ہے۔ تو کسی وقت حدیث کا درس ہورہا ہے، بڑا نورانی اور  پر بہار موسم رہتا ہے اور رمضان کا موسم بہار تو سونے پر سہاگے کا کام کرتا ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ برکتوں کا نزول اور انوار کی برسات ہورہی ہے۔ یقیناً قابل دید منظر ہوتا ہے۔

سحر سے پہلے مسجد چلے جائیے ، کہیں تہجد کی نماز ادا  ہورہی ہے، کوئی اپنے رب سے دعاء ومناجات میں محو ہے، ابتہال و تضرع کی کیفیت پوری فضا پر طاری رہتی ہے، ایک شخص کھڑا تہجد  کی نیت باندھتا ہے، دیکھتے ہی دیکھتے چند لوگ اس کے پیچھے نیت باندھ لیتے ہیں، اور دو چار رکعت پڑھ جاتے ہیں، مسجد کے مختلف گوشوں میں تلاوت کلام اللہ کی آواز کو سن کر احساس ہونے لگتا ہے کہ شاید کتابوں میں صحابہ کرام کے تعلق سے "دوی کندوی النحل البر كازيز المرحل” جو کہا گیا ہے اس کا سماں کچھ ایسا ہی رہتا ہوگا ، یہ سلسلہ تراویح کے بعد تھوڑا آرام کر کے شروع ہو جاتا ہے اور صبح سحرکھانے تک چلتا رہتا ہے۔
   اب سحر کھانے کا وقت ہو گیا ہے اور مولانا عبد العزیز صاحب بھٹکلی جو پورے رمضان یہاں کے نظام کو دیکھتے ہیں، سحر، افطار اور کھانا، اسی طرح سارے امور آپ ہی کے ذمہ رہتے ہیں اور یہ کام تقریباً حضرت مولانا علی میاں رحمہ اللہ  کے زمانہ سے ۳۲/۳۰ سال سے وہ انجام دے رہے ہیں اور بڑی اچھی طرح انجام دیتے ہیں۔
  اب ان کی آواز سنائی دینے لگتی ہے، کھانے والوں کی تعداد ہر روز تقریبا ڈھائی تین سو کے درمیان رہتی ہوگی اور وقت سحر کا جو یقیناً وسعت کے باوجود تنگ ہی رہتا ہے، مولانا پکڑ پکڑ کر لوگوں کو دستر خوان پر جلدی جلدی بٹھاتے ہیں اور قریب قریب بٹھانے کی کوشش کئے جاتے ہیں، کھلانے والے کچھ پرانے طلبہ اور ایک دو مولانا کے پرانے شاگرد ہیں، اور اس بڑی ذمہ داری کو بحسن و خوبی انجام دیتے ہیں۔ بس تھوڑی دیر میں سارے لوگ سحر سے فارغ ہو گئے اور ابھی سحری کا وقت تقریباً آدھا گھنٹہ باقی ہے، اب وہ کھانا کھلانے کی آواز آنی بند ہو جاتی ہے، ایک طرح کا سکوت سا طاری ہو جاتا ہے تھوڑے لوگ ہیں جو اپنے بستروں میں چلے گئے ہیں اور باقی اکثر وضو وغیرہ سے فراغت حاصل کرنے لگتے ہیں، پھر مسجد میں آکر تلاوت، ذکر وغیرہ میں مصروف ہو جاتے ہیں، صبح کا وقت کتنی تیزی سے گزرتا ہے اس کا اندازہ تو سبھی کو ہے لمحوں میں اذان کی آواز سنائی دینے لگتی ہے اور "حی علی الصلوۃ اور الصلوۃ خیر من النوم کی صدا سب کو جو بستروں پر چلے گئے تھے اور گئے بھی اسی نیت سے تھے کہ یہ صدا بلند ہو اور وہ مسجد آئیں ، گویا اسی کے منتظر  تھے فورا بستر سے نکل وضو وغیرہ سے فارغ ہوکر مسجد میں حاضر، لیجئے  سنت سے فارغ ہوئے اور اول وقت میں نماز شروع ہوگئی اور اس دوگانہ کو ادا کر کے رات کے جگے ہوئے یہ اللہ کے بندے کمر سیدھی کرنے کے لیے بستروں پر چلے گئے۔ اب گیارہ بجے تک یہاں کوئی اجتماعی کام  نہیں ہوتا ہے،  لیکن بہر حال یہ موسم بہار ہے، ایک کا ستر ملتا ہے، کون بد قسمت ہوگا جو سو کر اس وقت کو گزارے، لہذا یہ نیک بندے جو دور  سے چل کر اس ذکر و عبادت کے ماحول میں آئے ہیں اور اسی لیے آئے ہیں کہ خوب جی کھول کر عبادت کریں گے ، اس نورانی فضا میں رہ کر اپنے دل کو منور کریں گے، اور موسم بہار میں اپنی مرجھائی ہوئی زندگی کو شادابی بخشیں گے، کوئی قریب سے کوئی دور سے آیا ہے، آنے والوں میں ایک معتدبہ تعداد معتکف ہے، اس بابرکت مسجد میں اعتکاف کیا ہے تا کہ یہاں کے فیوض وبرکات سے کسب کر سکے۔
  یہ اللہ کے بندے تھوڑی دیر میں بستروں سے اٹھ کھڑے ہوئے اور ضروریات سے فارغ ہو کر ذکر و تلاوت اور نمازوں میں پھر مشغول ہو گئے ہیں، لیکن ابھی ایسے بھی ہیں جو آرام کر رہے ہیں،
اب ساڑھے دس بجنے کو ہے، تقریبا سبھی نے بستر چھوڑ دیئے ہیں، سب وضو کر کے مسجد کے صحن میں دھوپ میں بیٹھ گئے ہیں۔ گیارہ بجے سے حدیث کا درس ہوتا ہے۔ مولا عبد الله حسنی صاحب رحمہ اللہ حدیث کا درس دیتے ہیں، کتاب” تہذیب الاخلاق“ ہے، اس کی حدیث پڑھتے ہیں اور اس کی بڑی دل نشیں، مؤثر انداز میں تشریح کرتے ہیں جو” از دل خیزد بر دل ریزد” کی سچی تصویر معلوم ہوتی ہے، جس روز راقم کو حاضری کا موقع ملا اس دن” سؤر المؤمن شفاء” کی حدیث تھی، آپ نے تشریح کی اسلامی تعلیمات اور اس کی ہمہ گیریت اور یہ کہ اسلام چھوٹی بڑی ہر چیز کی ہدایت دیتا ہے اس پر سیر حاصل گفتگو کی اور تمام سامعین اس طرح غور سے سن رہے  تھے کہ "کأن علی رو سهم الطير” کا گمان گزرتا تھا ، مولانا نے دوران درس  فرمایا کہ لوگ اس حدیث کا حوالہ دیتے ہیں، دانت صاف نہیں کرتے بدبو آتی ہے اور چاہتے ہیں ان کا جھوٹا لوگ کھالیں، دلیل میں یہ حدیث پیش کرتے ہیں ، گویا کہ یہ اعلان کرتے ہیں کہ وہ مؤمن کامل ہیں جبکہ جو مؤمن کامل ہوتے ہیں ان کے جھوٹے میں یہ تأثیر واقعی  ہوتی ہے۔ ان کے بچے ہوئے کھانے، پانی پر تو لوگ ایسے ہی ٹوٹ پڑتے ہیں، ان کو دلیل پیش کرنے کی حاجت نہیں رہتی۔

بہر حال یہ اپنی اپنی طبیعت اور مزاج پر موقوف ہے اور جن کی طبیعت ایسی نہ ہو اس پر کوئی جبر نہیں ہے کہ کسی کا جھوٹا کھائے یا پئے ، حدیث کا درس تقریباً ایک گھنٹہ چلتا ہے، اس کے بعد اس خانقاہ کے روح رواں( حضرت مولانا محمد رابع حسنی ندوی دامت برکاتہم) کا درس قرآن ہوتا ہے اور لوگ ان کی آمد سے قبل ہی مسجد کے اندر والے حصہ میں (شاید حضرت علی میاں صاحب کے دور میں یہیں درس قرآن ہوتا ہوگا) جمع ہونے لگتے ہیں۔ اب لوگ حلقہ بنائے  بیٹھے ہیں اور ایک
ڈسک رکھی ہے، مجمع کا رخ مغرب کی طرف ہے اور حضرت والا کا رخ مشرق کی طرف ہے۔ مسجد کا دروازہ سامنے ہے، راقم بھی شوق میں کچھ آگے ہی جا بیٹھا اور لوگوں کیساتھ انتظار کرنے لگا۔
  جنوب کی طرف سے انتہائی خوبصورت، نورانی چہرہ، سفید چمکیلی داڑھی ، رو مال لگائے ہوئے حضرت نمودار ہوئے ہیں، بس ایکدم سناٹا چھا گیا اور  ہر شخص ادب سے دوزانو بیٹھ گیا اور آپ آکر اپنی جگہ جلوہ افروز ہوگئے، پھر درس شروع ہوا، چوتھے پارے کے ربع اول کے ایک رکوع کاترجمہ کے ساتھ آیتوں کی تشریح و تفسیر شروع کی اور اپنے حسن ذوق، وسعت مطالعہ ، خاص طور سے عربوں کی جاہلی زندگی، ان کے رہن سہن اور آپس کے اختلافات اور جنگ و جدال کی زندگی پر وسیع نظر کے باعث بڑی شرح وبسط کے ساتھ ان تمام چیزوں کو بیان فرما رہے تھے۔ آپ کی تفسیر سن کر ایسا لگتا ہے کہ کوئی مؤرخ ہے جس کے سامنے عربوں کی پوری تاریخ کی ایک سی ڈی چل رہی ہے اور وہ دیکھ دیکھ کر بیان کرتا چلا جارہا ہے۔ اور ایک عربی داں عربی ذوق کا حامل شخص ہے جوقرآن کے اسلوب اور ایجاز واعجاز کی صفت واضح کر رہا ہے۔
  اس درس کے بعد اب نماز ظہر میں بہت تھوڑا وقت باقی رہ جاتا ہے، اس لیے بہت سے لوگ تو فورا وضو سے فارغ ہو کر مسجد میں صف بندی کر لیتے ہیں تلاوت، سنن وغیرہ میں مشغول ہو جاتے ہیں اور کچھ لوگ اپنی ضروریات کو پوری کرنے باہر چلے جاتے ہیں لیکن چونکہ اخیر عشرہ ہے اس لیے معتکفین کی تعداد ہی سے مسجد بھری رہتی ہے۔ لیجے ظہر کی اذان ہوئی، سب طرف بکھرے ہوئے لوگ پھر اللہ کے حضور مسجد میں جمع ہو گئے۔
  نماز ظہر ختم ہوئی ، استاد محترم مولانا نذرالحفیظ صاحب ندوی رحمہ اللہ  کھڑے ہوئے اور حضرت علی میاں صاحب کی معرکۃ الآ راء کتاب ” ارکان اربعہ” پڑھنے لگے، یہ کوئی آدھ گھنٹہ پڑھی جاتی ہے، اس کتاب کے بعد ایک طالب علم کھڑا ہوتا ہے اور سیرت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) بلند آواز سے پڑھتا جاتا ہے، آج بدر کا ذکر چل رہا ہے، یہاں نہ تو اس خاندان کے پیش رو کے واقعات سنائے جارہے ہیں ، نہ کسی کی کرامت کا تذکرہ ہے نہ کسی کی معرفت اور بزرگی کا قصہ بیان ہو رہا ہے، اگر بیان ہورہا ہے تو زاہدوں کے زاہد بزرگوں کے بزرگ ولیوں کے ولی حبیب خدا کا ذکر ہور ہا ہے، ان کی سیرت کی ورق گردانی کی جا رہی ہے ۔اب اس کے  بعد ایسا لگتا ہے کہ یہ  خاص تلاوت  ہی کا وقت ہے سبھی لوگ قرآن کی تلاوت میں لگ گئے، کوئی دھوپ میں، کوئی صحن میں ، تو کوئی مسجد کے اندر، کوئی اس گوشے میں بیٹھا ہے، تو کوئی جنوبی ناحیہ میں غرضیکہ تقریباً تمام مسجد کے لوگ قرآن کی تلاوت میں مصروف ہیں۔
جاڑے کے موسم میں ظہر اور عصر کے درمیان وقت  ہی  کتنا رہتا ہے  ایسا لگتا ہے کہ چشم زدن میں عصر کا وقت آگیا، لیجئے  عصر کی اذان ہورہی ہے، لوگ اکثر تو باوضو ہیں ہی، بس صف آراستہ ہونے لگی۔ اور دیکھئے تکبیر کی آواز سنائی دینے لگی،  عصر کی نماز ختم ہوئی  مولانا محمود حسن سنی ندوی  صاحب رحمہ اللہ اٹھے اور فضائل رمضان پڑھ کرسنا رہے ہیں، ان کی آواز ماشاء اللہ بلند ہے تمام نمازیوں تک صاف پہونچتی ہے اور ہر لفظ سمجھ میں آتا ہے ۔
اس کے بعد کی  پہلی صف کے لوگ منھ پھیر کر مشرق رخ بیٹھ گئے اور دوسری صف کے لوگ اور آگے بڑھ کر  اس طرح بیٹھ گئے جیسے دستر خوان پر دونوں جانب سے لوگ بیٹھتے ہیں۔
ایک شخص کھجور یا کسی چیز کا بیج  صفوں کے بیچ میں ڈالتا جاتا ہے اور ساتھ ہی  یہ آواز بھی آرہی ہے کہ جس کو معلوم نہیں ہے وہ دانہ نہ  اٹھائے لیکن کچھ بھی ہو دانہ اٹھا سمجھ میں آیا تو آیا ورنہ اغل بغل کے لوگوں سے سن سنا، کچھ پڑھ پڑھا ورد مکمل کرلیا ۔ اس  کے بعد دعاء ہوتی ہے، پوری امت کے لئے دین کا کام کرنے والوں کے لئےاور خاص طور پر یہاں کے ابدی کرنے والوں کے لیے، کتنے ہی پاک نفوس اس مسجد کے گرد آرام فرما رہے ہیں، ۔
اس وظیفے  کے بعد لوگ منتشر ہو جاتے ہیں اور ذکر الہی میں منہمک ہو جاتے ہیں، "لا إله إلا الله” کاورد شروع ہوتا ہے، کوئی ذکر بالجہر کرتا ہے اور کوئی بالسر، مولانا محمود حسنی صاحب کی آواز ابھی کانوں میں گونجتی معلوم ہوتی ہے، مسجد کی چھت بلند ہے، فرش پر پوال بچھا کر اس کے اوپر سے صاف ستھری ہری دری بچھا دی گئی ہے، مسجد اتنی گرم رہتی ہے کہ سخت جاڑے کے موسم میں بھی ایک کمبل اوڑھ کر آدمی سو سکتا ہے۔
  چونکہ مسجد بلند ہے اور دروازے چھوٹے چھوٹے نیچے ہیں، اس لیے آواز خوب گونجتی ہے اور ذکر کا عجیب سماں ہوتا ہے جو صرف سننے سے تعلق رکھتا ہے، الفاظ میں اس آواز کی نغمگی اور حلاوت کو بیان نہیں کیا جا سکتا، یہ سلسلہ مغرب سے تھوڑا پہلے تک چلتا ہے اور افطار سے چند منٹ قبل بالکل سناٹا چھا جاتا ہےاور لوگ دعاء کرنے لگتے ہیں،
  "چلو وقت ہو گیا،” چلو وقت ہو گیا "یہ حاجی عبدالرزاق صاحب ( حضرت کے خادم خاص) کی آواز سنائی دے رہی ہے، سب دعاء کا ہاتھ منھ پر پھیر مسجد کے صحن میں آبیٹھتے ہیں۔
     یہاں عصر کے بعد ہی سے افطار کا انتظام کیا جارہا ہے، پلیٹوں میں افطار لگایا جا رہا ہے، مولانا عبد العزیز صاحب اور ان کے ساتھ کام کرنے والے لڑکے، مسجد کے جنوب میں تھوڑی جگہ پختہ ہے یہاں سے ایک زینہ نکلتا ہے جو” سئی ندی” میں جاتا ہے، اس سے اتر کرندی میں برتن وغیرہ دھلنے اور بوقت ضرورت غسل و وضو کا کام کیا جاتا ہے، اسی پختہ حصہ میں سینکڑوں پلیٹوں میں افطار سجایا جاتا ہے اور پھر پورے صحن میں دو رویہ  لوگ بیٹھتے ہیں اور ہر دو آدمی کے بیچ میں ایک پلیٹ رکھ دی جاتی ہے، اس وقت کا ہجوم دیکھنے کے لائق ہوتا ہے، پورا صحن کھچا کھچ بھر جاتا ہے، اس میں بچے، بوڑھے، جوان سبھی شامل ہوتے ہیں، لیکن کثرت کے باوجود الحمدللہ نظم اتنا اچھا ہے کہ کہیں سے کوئی بدنظمی ظاہر نہیں ہوتی ، سبھی سکون کےساتھ افطار کرتے ہیں اور نماز کے بعد چائے وغیرہ کا دور چلتا ہے، کچھ تو اللہ کے بندے اوابیں و نوافل ہی میں مصروف رہتے ہیں اور کچھ مسجد سے نکل کر کسی اور طرف چہل قدمی وغیرہ کے لیے چلے جاتے ہیں "کھانا کھا لو،” کھانا کھا لیجئے” ، تھوڑی ہی دیر بعد یہ آواز آنے لگتی ہے یہ مولانا عبد العزیز  بھٹکلی صاحب  کی آواز ہے کیونکہ عشاء سے قبل تمام لوگوں کو کھانے سے فارغ ہو ہونا ہے اور وقت کم ہے اس لیے جلدی کیجاری ہے، لیجئے  کھانے پینے میں عشاء کا وقت آپہونچا "” الله اکبر، الله اکبر   "” حی على الصلوۃ ” یہ عشاء کی اذان سنائی دے رہی ہے ،   پھر سب کھنچ کر رب کے حضور آگئے نوافل میں مصروف، اقامت ہوئی اور نماز مکمل ہوئی ۔ سنت  کے بعد لوگ تراویح کے لیے بیٹھے ہیں اتنے میں حافظ مولانا جعفر حسنی صاحب مولانا واضح رشید صاحب رحمہ اللہ  کے صاحبزادہ تشریف لاتے ہیں اور تراویح شروع ہو جاتی ہے، صرف سوا پارہ کا دور چلتا ہے، انتہائی اطمینان کے ساتھ پڑھتے ہیں، آواز بھی شیریں ہے، لہجہ بھی عمدہ ہے، ہر لفظ الگ الگ غنہ، مد کی رعایت کےساتھ پڑھتے ہیں اور سن کر معلوم ہوتا ہے کہ پوری تیاری کے ساتھ آئے ہیں ، جم کر تیاری کی ہے۔ بہر حال بیس رکعت تراویح انتہائی اطمینان اور سکون کے ساتھ مکمل ہوتی ہے اور پھر وتر کے بعد نوافل سے فارغ ہو کر تھوڑی دیر حضرت شیخ (مولانا محمد رابع صاحب) کی مجلس لگتی ہے۔ اور پھر لوگ اپنے اپنے بستروں کی راہ لینے لگتے ہیں، لیکن ایک تعداد وہ ہے جو اب ذراباہر نکل کر ٹہل رہی ہے، کچھ جشن کا سا سماں ہے، شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ اخیر عشرہ ہے اور غالبا ۲۷ یا ٢٦ کی رات ہے۔
اب یہاں سے اٹھ کر حضرت مولانا عبد اللہ حسنی صاحب مہمان خانہ میں یا اگر معتکف ہیں تو مسجد میں اپنے گوشہ میں بیٹھتے ہیں اور ایک تعداد آکر آپ کی مجلس میں شریک ہوتی ہے، یہاں کیا ہوتا ہے، افطار کی بچی ہوئی اور بعض مرتبہ تازہ تیار کی ہوئی چیزیں ہوتی ہیں حاضرین کا شغل جاری  رہتا ہے، کبھی چائے کا دور چلتا ہےاور  مولانا اسی اثناء میں حکمت وموعظت کے موتی لٹاتے جاتے ہیں، دل کی سرد انگیٹھیوں کو گرماتے جاتے ہیں، اگر کوئی مغنی ہوا تو کسی اہل دل کا کلام پڑھتا ہے اور پوری مجلس پر ایک وجد کی کیفیت طاری ہو ہو جاتی ہے،
اب آپ اس مجلس میں حاضر ہو گئے ہیں تو دو چار مصرعے سنتے چلئے ۔
آج مولانا محمد ثانی صاحب کی مشہور نعت، پڑھی جا رہی،
     سید ولد آدم وہ خیر الانام  
   اس پہ لاکھوں درود اس پہ لاکھوں سلام
جس کی آمد سے باد نسیم آگئی
رحمت حق کی ہر سو گھٹا چھا گئی
چھا گئی اور پھر نور بر ساگئی
غم کی ماری تھی دنیا سکوں پاگئی
زندگی بھر پلایا محبت کا جام
اس پہ لاکھوں درود اس پہ  لاکھوں سلام
یقینا یہ خانوادہ دین کا ایک چراغ جلائے ہوئے ہے، اور پروانے آ آکر اس پر گر رہے ہیں اور اپنی عقیدت ومحبت کی شہادت پیش کر رہے ہیں، اس خاندان سے کیا بلکہ ہر اس شخص سے جو دین کی خدمت کرتا ہو، جو دین کی خدمت کے لیے اپنے کو وقف کرتا ہو، اس پر امت محبت کے پھول نچھاور کرنے کو آج بھی تیار ہے لیکن  پہلے کوئی پیدا تو کرے ویسا قلب سلیم

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: