✍️ محمد علم اللہ، نئی دہلی
__________________
یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ فرقہ واریت ہندستان کی سب سے بڑی دشمن ہے؛ جس نے نہ صرف جمہوریت و سیکولرزم بلکہ ملک کی جڑیں تک کھوکھلی کردی ہیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ جب جب ہندستان میں فرقہ واریت کے سبب انتشار برپا ہوا، غیر ملکی قوتوں نے اس کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ جب بھی آپسی ناچاقی بڑھی، جمہوریت پر قدغن لگا،تہذیب کس مپرسی کا شکار ہوئی اور دشمنوں نے اس کا فائدہ اٹھایا ۔ حالیہ دنوں میں اس میں ایک مرتبہ پھر سے تیزی آ گئی ہے۔ پورے ملک میں دلتوں، اقلیتوں اور کمزور طبقات کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ جس پر انسانی حقوق کی تنظیموں سمیت اقوام متحدہ نے بھی تشویش ظاہر کی ہے۔
ہندستان ایک جغرافیائی حقیقت ہے۔ شمال میں ہمالیہ، جنوب میں کنیا کماری، مشرق میں منی پور اور مغرب میں گجرات کے کچَھ تک کے علاقوں میں جو لوگ بستے ہیں وہ سب کے سب ہندستانی ہیں۔ خواہ وہ کسی بھی مذہب اور ذات سے تعلق رکھتے ہوں۔ ہندستان ابتدائی عہد سے ہی کثیر لسانی، ہمہ رنگ و نسلی اور کثیر المذاہب سماج پر مشتمل ملک رہا ہے۔ یہ مختلف فرقوں، طبقات اور تہذیبوں کا حسین سنگم رہا ہے۔ اس کی تاریخ آغاز سے ہی کثرت میں وحدت کی بنیاد کو ظاہر کرتی ہے۔ اسکے سنہرے ادوار میں تمام مذاہب کے مابین ہم آہنگی کے اصولوں پر زور دیا گیا ، بھلے ہی وہ اشوک، سمدرگپت یا اکبر کا عہد ہو۔ اپنشد کے رشیوں، بدھ، مہاویر، آچاریہ، رامانند، کبیر، نانک، نیز ماضی قریب کے رادھاکرشنن،راجہ رام موہن رائے، رویندرناتھ ٹیگور اور گاندھی جی، سبھی نے ہندستان کے لوگوں کو بھائی چارے کو فروغ دینے کی بات کہی ۔
آزادی کے بعد ہمارے آئین اور انتظامی نظام میں مذہبی منافرت یا اس طرح کی کسی بھی کوشش کے لیے کوئی مقام نہیں رہا۔ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی قانون کا حصہ بنا کہ ذات دھرم، طبقے، خاندان، سماج یا دھرم کے نام پرانارکی پھیلانا ایک گھناؤنا عمل ہوگا۔
سابق صدر جمہوریہ سروِپلّی رادھا کرشنن کے مطابق: ’’ہماری ریاست دھرم نرپکیش (مذہبی طورپرغیرجانبدار) ہے۔ اس کا مطلب اتنا ہی ہے کہ ریاست کسی ایک مذہب کی پابند نہیں ہے بلکہ تب تک وہ تمام مذاہب کا تحفظ اور احترام کرتی ہے جب تک ان کے پیروکار اس طرح کا رویہ نہیں رکھتے کہ اس سے اخلاقی ضمیر پر زد پڑتی ہو یا ملک کی ایکتا کے لیے خطرہ پیدا ہو۔‘‘
فرقہ واریت کا مطلب اس منفی تصور سے ہے، جو ذات پات، مذہب، لسان نیز نسل کی بنیاد پر دو طبقوں یا سماج کو تقسیم کرتا ہے۔ فلسطین سے لے کر جنوبی افریقہ میں گورے اور کالے کے درمیان، خلیجی ممالک سمیت جنوبی ایشیا کے مسلم ملکوں میں شیعہ سنی میں، کیرل میں ہندو اور مسیحیوں میں، نیز گجرات سمیت دیگر مقامات پر ہندو اور مسلمانوں کے درمیان فرقہ واریت کے سبب ہی فسادات برپا ہوئے ہیں اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔
’’سامپرد ایک ایکیہ‘‘ کے مصنف رضاء الکریم لکھتے ہیں: ’’ہم ہندستان میں بہ کثرت اور تھوڑے تھوڑے وقفے سے فرقہ وارانہ مسئلے کی بات سنتے ہیں، جو کہ ملک میں امن و امان پر گھات لگاتی ہے، نیز ایک دوسرے کو مار کاٹنے کے لیے اُکساتی ہے۔ یہ کہا جاتا ہے کہ یہ لوگوں کو اپنے خدا کے تئیں محبت کے لیے جلاد کے ہاتھوں سے بچانے کی امید میں معصوم لوگوں کا خون بہاتے ہیں۔ دن بہ دن ہندستان کی صورتِ حال خوف ناک ہوتی جارہی ہے، کیوں کہ آج کل مفاد پرست لوگ اپنے مذموم مقاصد کی خاطر مذہب کا بے دریغ استعمال کررہے ہیں۔ تمام مذاہب اور خداوند کے حقیقی ماننے والوں کو ان بگڑے معاملات و مسائل کا سامنا کرنے کے لیے ایک ہو جانا چاہیے، تاکہ مذہب سیاست سے چھٹکارا پا سکے۔ کیوں کہ مہربان خداوند کا مذہب انسانیت کے تئیں رحم اور محبت کے رشتے استوار کرنے کے بجائے دنیا کو ستانے کا سامان بن گیا ہے۔ کوئی بلا سبب کسی کو ستانے، نفرت کرنے اور مار ڈالنے نیز لوٹ لینے و برباد کرنے کے لیے اُکسا سکتا ہے، مگر یہ خدا اور مذہب کے نام پر ہرگز نہیں ہونا چاہیے۔ تمام ہی مذاہب کی تعلیم ہے کہ سبھی جان داروں سے پیار کرو، تمام خلقت خدا کا ہی کنبہ ہے، لہٰذا انھیں دکھ پہنچانے کا مطلب ہے خداوند کو تکلیف پہنچانا۔ دس ہزار مسجدیں منہدم کراؤ یا دس ہزار مندر منہدم کردو مگر خدا کے بندوں کو گزند نہ پہنچے۔ بھلے ہی کوئی شخص اشلوک اور مقدس آیات کی تلاوت نہ کرتا ہو، مگر وہ خدا کے بندوں کو پیار کرتا ہو، وہی خدا کا سچا بندہ ہے اور خدا تعالی بھی اسی پر ہی مہربان ہیں۔‘‘ واضح رہے کہ عبد الکریم ایک بنگالی مسلم وکیل اور انڈین نیشنل کانگریس کے رکن تھے جو ہندستان کی تحریک آزادی کے دوران میں جامع قوم پرستی اور متحدہ ہندستان کے علمبردار کہلاتے تھے۔
یہ ہندستان کی خوبی تھی کہ یہاں اقلیتیں اور اکثریت سبھی مل جل کر رہتے تھے۔ یہ باہمی فطری ملاپ، لگاؤ، اخوت اور ہمسائیگی کے احساس سے وابستہ ممالک میں صدیوں سے مکمل امن و شانتی، دوستی نیز ہم آہنگی پیڑھی در پیڑھی چلی آرہی ہیں۔ ویسے تو اختلافات اور جھگڑے سگے بھائیوں، میاں بیوی اور دیگر رشتے داروں کے مابین بھی ہوتے ہیں۔ کئی دفعہ ایک بھائی دوسرے بھائی سے ایسی چھوٹی چھوٹی چیزو ں کے لیے جیسے زمین کا ٹکڑا، بانس کا جوڑا، مویشیوں کی ملکیت، مکان پر حق یا تالاب میں مچھلی پکڑنے کے لیے جھگڑتا ہے تاہم یہ گھریلو جھگڑے فوری ختم ہوجاتے ہیں۔ وہ نہ تو شدید ناگواری کی صورت اختیار کرتے ہیں اور نہ ہی دلوں میں کوئی گھاؤ ہی باقی رہتا ہے۔ بالآخر یہ جھگڑے کچہریوں میں جاکر یا تو وقت کی ابدی نیند سوجاتے ہیں یا نئی پیڑھی کے لوگ انھیں ترقی کے لیے رُکاوٹ سمجھ کر ترک کرکے سمجھوتاکرلیتے ہیں۔
فرقہ واریت کا زہر اس قدر شدید ہوتا ہے کہ وہ سبھی فرقوں حتیٰ کہ انسانیت کی شریانوں میں بھی سرایت کر جاتا ہے۔ سال 1984 میں دلّی میں سکھوں کا قتل عام، بڑے واقعات میں 1969 کے گجرات فسادات، 1989 کے بھاگلپور فسادات، 1989 کے کشمیر میں ہونے والے فسادات، 2002 کےگجراتفسادات، 2013 کے مظفر نگر کے فسادات اور 2020 کے دہلی کے فسادات اس کی محض مثالیں۔ یہ سب اس ملک میں ہوا جس میں نانک، کبیر اور داتا گنج جیسے لوگوں نے بھائی چارے کا لازوال پیغام دیا تھا۔
گروگرنتھ صاحب میں ہندستانی تہذیب و روایت سے بھرپور بھجن موجود ہیں۔ دوسری طرف ایک مسلمان صوفی بزرگ حضرت میاں میر کو امرتسر کے گولڈن ٹیمپل کی بنیاد رکھنے کے لیے مدعو کیا گیا تھا، جو دارا شکوہ کے روحانی مرشد بھی تھے۔
فرقہ وارنہ فسادات اور تشدد کے معاملے میں حقائق پر مبنی تجزیہ کرنے پر یہی نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ یہ اُن غنڈے بدمعاشوں نیز سماج دشمن عناصر کے ذریعے ہی کرائے جاتے ہیں، جو اسمگلرس، شراب مافیا، زمین مافیا اور سرمایہ داروں کے اشاروں پر سماج میں توڑ پھوڑ کرکے انتظامیہ نیز عوام کی توجہ اپنے ناجائز اور غلط کارناموں سے ہٹانا چاہتے ہیں اور ملک کو کمزور کرنا چاہتے ہیں، تاکہ وہ چین کی بنسی بجاتے رہیں۔ خفیہ طور پر پولیس و انتظامیہ بھی ان سے مفاہمت جاری رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فرقہ وارانہ فسادات کے دوران میں سماج دشمن عناصر اور فسادیوں کی مخالفت کرنے کی اخلاقی جرأت ان میں نہیں ہوتی۔ جب تک مرکزی پولیس فورس یا فوج تعینات ہوتی ہے، تب تک صورتِ حال قابو سے باہر ہو جاتی ہے اور باہمی نفرت و تعصب کا پودا سر اٹھاتا رہتا ہے۔
کبھی کبھی مخصوص طبقے کا دھیان حقیقی مسائل سے بھٹکانے یا سیاسی ناکامی سے ہٹانے کے لیے منصوبہ بند طریقے سے فسادات بھڑکائے جاتے ہیں جیسا کہ گودھرا معاملےمیں ریل گاڑی کے دو ڈبوں کو خاکستر کرکے کیا گیا جس کے سبب منظم طریقے سے پورا گجرات فسادات کی زد میں آگیا تھا۔ نیز تقریباً ایک ہزار قیمتی جانوں اور معصوم لوگوں کی زندگیاں ضائع ہوگئی تھیں۔ آج ملک میں جو علاقائیت، طبقاتیت نیز صوبائیت کی لہر اٹھی ہے، اس کے پس پردہ بھی عوام کے دکھ درد کا استحصال کرکے ان کے خوابیدہ جذبات کو بھڑکانا ہے۔ مگر عوام اب بہت حد تک ان چال بازیوں کو سمجھ چکے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ ملک کے دیگر حصوں میں گجرات کے فسادات کا برائےنام اثر پڑا۔
مسلم کسان اور ہندو کسان میں کوئی بھید بھاؤ نہیں ہے۔ دونوں کا خوردونوش، کام کاج نیز لباس و پوشاک ایک ہی ہے۔ جہاں بنگال کا مسلمان بنگلہ بولتا ہے، اس کے کھانے میں مچھلی اتنی ہی لازمی ہے جتنی ہندو بنگالی کی پلیٹ میں۔ ان کے نام مغربی بنگال کے ہندوؤں جیسے ہی ہوتے ہیں، صرف بعد کا نام ہی مختلف ہوتا ہے۔ اسی طرح پڈوچری نیز گوا اور سورت کا مسلمان ویسے ہی سفید کپڑے زیب تن کرتا ہے جیسے ہندو پہنتے ہیں۔ تمل ناڈو کا مسلمان جہاں تمل بولتا ہے وہیں کیرل کا مسلمان ملیالم۔ اسی طرح کیرل کے عیسائی سے آپ ملیالم کے علاوہ کسی دیگر زبان میں بہ آسانی بات نہیں کرسکتے۔ شمالی ہند کے عیسائیوں کے نام اور زندگی بسر کرنے کے طریقے کو دیکھ کر اندازہ نہیں کیا جا سکتا کہ وہ ہندوؤں سے مختلف ہیں۔ ان کا خورد نوش بھی ویسا ہی ہے جیسا وہاں کے ہندوؤں کا، جو وہاں کی آب و ہوا پر انحصار کرتے ہیں۔ ملک کے اکثریتی طبقے سے متعلق لوگوں کے ذہن و دماغ میں بھی نہیں آتا کہ ان کے ساتھ آفس میں کام کرنے والا، بس میں ایک ساتھ سفر کرنے والا یا ریل گاڑی کا ہم سفر نیز گاؤں میں ان کے ساتھ زندگی بسر کرنے والا کس فرقے یا طبقے کا ہے۔ یہ بھید بھاؤ اسی وقت ہوتا ہے جب مفاد پرست عناصر کے ذریعے کہا جاتا ہے وہ مسلمان ہے یا ہندو۔ پنڈت جواہر لعل نہرو نے کہا تھا کہ:
’’ہندستان میں بسنے والا کوئی بھی طبقہ یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ ہندستان کے تمام ذہن اور خیالات پر تن تنہا اسی کا اختیار ہے۔ ہندستان آج جو کچھ بھی ہے، اس کی تشکیل میں ہندستانی عوام کے ہر ایک جز کا تعاون شامل ہے۔‘‘
اخیر میں یہی بات کہی جا سکتی ہے کہ آئیے! ہم ایک خوش حال سماج نیز ترقی یافتہ ہندستان کی تعمیر کا عہد و پیمان باندھیں۔