✍️ڈاکٹر محمد طارق ایوبی
_________________
کئی برس قبل ۲۰۱۹ء میں یہ اداریہ لکھا تھا، جس سوال کو عنوان بنایا تھا وہ اب بھی ویسے ہی قائم ہے، بلکہ اب یہ سوال پہلے سے زیادہ بھاری ہو گیا ہے، جن مسائل کا تذکرہ اس اداریے میں کیا گیا تھا وہ جوں کے توں باقی ہیں، بلکہ پہلے سے زیادہ خطرناک رخ اختیار کر گئے ہیں، ایک طرف جزیرۃ عرب کے دیوالیہ پن کی کہانی ہے، فکرِ اسلامی کو کھرچ کھرچ کر صاف کرنے کی خبریں ہیں، دوسری طرف قبلۂ اوّل کی داستانِ دل خراش اور غزہ کی تباہی کا منظر نامہ ہے، صرف قبلۂ اوّل ہی نہیں، جزیرۃ العرب اور حرمین شریفین پر بھی یہود و نصاریٰ کا تسلط ہے، بابری مسجد کی جگہ مندر کا افتتاح ہو گیا ہے، گیان واپی کی جامع مسجد کے تہہ خانے میں پوجا ہو رہی ہے، لیکن ان سب واقعات سے صرفِ نظر کرتے ہوئےامارات کے شاہ نے ابو ظبی میں بت پرستی کا بہت بڑا اڈا قائم کروایا ہے، ارشاداتِ نبوی کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے جزیرۃ العرب کی سر زمین پر بت پرستی کو رواج دیا جا رہا ہے۔ اس صورت حال میں کیسی عید اورکیسی خوشی اور کیسے جوڑے اور کیسے کپڑے! عید تو بہر حال منائی جائے گی، کیوں کہ رمضان کی نعمت پر شکرانے کے طور پرعید منانے کا حکم ہے، خدا کے حکم کی تعمیل تو ہر حال میں ہوگی۔ لیکن فی الحقیقت ہماری عید تو تب ہوگی جب حق و انصاف کا بول بالا ہوگا، ملت سربلند ہوگی، صہیونی ریاست کو اس کے جرائم کی سزا ملے گی، قبلۂ اوّل آزاد ہوگا، آزاد فلسطینی ریاست قائم ہوگی، جزیرۃ العرب پر کتاب و سنت کی حکمرانی ہوگی، غزہ پر کیے گئے جرائم کو دوہرانے سے پہلے دشمنانِ اسلام سو بار سوچیں گے، جب دنیا کا منظر نامہ اس طرح ہوگا تب ہماری حقیقی عید ہوگی، ابھی تو غزہ سے لے کر وطنِ عزیز تک افسوس ناک صورت حال ہے، اُدھر لاشیں ہیں، سسکیاں ہیں، آہیں اور چیخیں ہیں، بھوک سے بلکتے بچے اور پانی کو ترستے انسان ہیں، ادھر اپنے وطن میں اسلاموفوبیا کا جن بوتل سے باہر ہے، مسلمانوں کو ڈرانے کی مہم شباب پر ہے، عین رمضان سے قبل غیر دستوری شہریت ترمیمی قانون CAA کو نافذ کر دیا گیا ہے۔ ۲۰۲۴ء کے عام انتخابات کی تیاری زوروں پر ہے، CAA کے نفاذ کے ذریعہ بے شمار مسائل پر پردہ ڈال کر مسلمانوں کو خائف و محدود کرنے کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے پولرائیزیشن کی چال چل دی گئی ہے، الیکٹورل بونڈ کا ایشو اس کی واضح مثال ہے، ہندوستانی تاریخ کا یہ سب سے بڑا گھوٹالہ ہے، ایک سو ساٹھ ارب کا گھوٹالہ، لیکن ہر طرف خاموشی ہے۔ اب دیکھیے ملک کس رخ پر جاتا ہے، قیادت کیا لائحۂ عمل طے کرتی ہے، بات تو یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ ہندؤوں کے تہواروں پر سرکاری انتظامات ہوتے ہیں اور راستے بند کر دئیے جاتے ہیں اور مسلمان اگر جمعہ کی نماز کسی سڑک کے کنارے پڑھ لیں تو پولیس سجدہ کی حالت میں بوٹ مار کر ہٹاتی ہے، یہ سوال تو بعد میں ہے کہ سڑک پر نماز پڑھنا چاہیے یا نہیں؟ اس سے پہلے بات اس پر ہونی چاہیے کہ سڑک صرف ہندؤوں کی ہے یا دوسروں کی بھی؟ جب حالات اس طرح کے ہو جائیں تو صاحبِ احساس کے دل و دماغ میں ہلچل پیدا ہونا فطری امر ہے۔ عید کیسے منائیں اور عید کب ہوگی؟ اور حقیقت میں عید کی خوشی کیسی ہوتی ہے؟جیسے سوالات ذہن میں آنا فطری بھی ہے اور ضروری بھی، چوں کہ یہ شمارہ جب آپ کے ہاتھوں میں ہوگا تو آپ عید کی تیاریاں کر رہے ہوں گے یا عید منا چکے ہوں گے، غور و فکر کے لیے ہم یہاں پھر وہی مضمون نقل کر رہے ہیں جو ۲۰۱۹ میں لکھا تھا، اسے پڑھ کر یہ اندازہ کرنا بھی آسان ہوگا کہ ہمارا یہ پانچ سالہ سفر کیسا رہا؟ ہم کہاں کھڑے تھے اور اب کہاں پہنچے؟ ملاحظہ کیجیے:
جب سے احساس کی دولت ملی ، کئی عیدیں ایسی گذریں کہ زبان پر کسی کا کہا ہوا یہ شعر بار بار جاری ہوگیا ؎
عید اب کہ کچھ اس طرح آئی
گیت خوشیوں کے گنگنانہ سکا
لوگ قصداً بھی خوب ہنستے رہے
میں تو رسماً بھی مسکرا نہ سکا
اپنی نجی الجھنیں اور اپنے نجی مسائل اپنی جگہ، مگر غم ذات کے حصار سے باہر نکلیے تو ہر طرف غم و الم کی داستانیں ہیں ،ظلم کی گھٹائیں ہیں، قہر کے شعلے برس رہے ہیں، پھر رمضان کا آغاز ہوا، تو غزہ پر بموں کی بارش شروع ہوگئی، معصوم نہتے خاک و خون میں نہانے لگے، ظلم کی تاریخ دوہرائی جانے لگی، لیبیا و یمن پہلے ہی سے شعلوں کی لپیٹ میں تھے، دشمن سوڈان کی تاک میں ہے، جبکہ روہنگیا اور اویغور مسلمانوں کی بے بسی کا سلسلہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتا، مصر کے فرعون نے اپنے اقتدار کی مدت میں اضافہ کر لیا ہے، جبکہ گزشتہ سات سالوں سے مصر کے صاحبِ ایمان اور اصحابِ عزیمت جیالے مصری جیلوں میں بند ہیں، مرکز اسلام و مہبط وحی میں اسلام کو دیس نکالا دیا جا رہا ہے، علماء حق اور اہل عزیمت کو جیلوں میں ٹارچر کیا جا رہا ہے، کلمۂ اسلام کے متعلق صحیح و صریح صحیح گفتگو کو جرم گردانا جا رہا ہے، اسلامی بیداری کے علمبردار اب یہ کہتے نظر آرہے ہیں کہ اسلامی بیداری کی بات کرنا غلطی تھی، ہم تو اس ’’معتدل اسلام‘‘ کے علمبردار ہیں جس کا نعرہ حضور ولی عہد نے لگایا ہے، ’’صفقۃ القرن‘‘ کے تحت فلسطین کو یہودیوں کے حوالے کرنے کی تیار ی ہے، ارض حشر ونشر کو اہل اسلام سے خالی کرانے کی تیاری ہے، ملک شام کو تقریباً صحیح العقیدہ اہل سنت سے خالی کرا لیا گیا ہے، ۱۲ سے ۱۵ لاکھ مسلمان شہید کر دیے گئے اور تیس سے چالیس لاکھ ہجرت کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ فلسطینی مزاحمتی تحریک سے وابستگی کے جرم میں جزیرۃ العرب میں رہنے والے فلسطینیوں کو بھی گرفتار کیا جا رہا ہے، جزیرۃ العرب کے طول و عرض پر پابندیوں کے جال بچھائے جا رہے ہیں، کفر کے علمبرداروں کو نشانِ امتیاز عطا کیے جا رہے ہیں، شرک سے پاک کردی گئی سرزمین پر پھر سے شرک کے مظاہر اور شرک کے اڈے قائم کیے جا رہے ہیں، حالات ایسے مہیب اور سنگین ہیں کہ آدمی ذات کے حصار سے باہر نکل کر سوچے تو اس کے لیے کھانا پینا مشکل ہوجائے چہ جائیکہ وہ عید منائے۔
خود اپنی ملکی صورت حال پر نظر ڈالیے تو عرصۂ حیات تنگ ہوتا نظر آتا ہے، اس میں بڑی حد تک اس ملک میں قیادت کے فقدان یا قیادت کی گروہ بندیاں اور چھوٹے چھوٹے مفادات کی خاطر کسی ایک پلیٹ فارم پر جمع نہ ہونے کو بڑا دخل ہے، خدا کرے کہ اندیشے سب غلط ثابت ہوں اور ملت مرحوم کی قدرت غیب سے حفاظت کرے، مگر دستورِ الہی تو یہ ہے کہ اگر کام صحیح رخ پر نہ ہو، وسائل کا استعمال صحیح نہ ہو تو پھر قدرت سبق سکھانے کا سامان کرتی ہے، موجودہ انتخابات کے دوران جس قدر دھاندلیوں کی خبریں آئی ہیں اس سے پہلے ایسا کبھی نہیں ہوا، واقعہ یہ ہے کہ یہ الیکشن بی جے پی نے کمال ہوشیاری سے لڑا ہے، ۲۰۱۴ء اور پھر اس کے بعد یوپی کے انتخابات بی جے پی نے مکمل اکثریت کے ساتھ مشینوں کی مدد سے جیتا تھا، جب سوالات بہت اٹھے اور تھُو تھُوبہت ہوئی تو دیگر صوبوں کے انتخابات میں رنگ بالکل بدلا ہوا نظر آیا اور کچھ ڈرامہ کے جیسے مناظر سامنے آئے، راقم سطور کو اسی وقت یقین ہوگیا تھا کہ ۲۰۱۹ء کے انتخابات جی جے پی کمال ہوشیاری سے لڑ کر جیتے گی، آپ کو یاد ہوگا کہ ۲۰۱۴ء میں اور پھر یوپی میں تمام سروے رپورٹ میں پہلے ہی بی جے پی کو اکثریت دے دی گئی تھی، مگر اس بار ایسا نہیں کیا گیا، تاکہ مشینوں سے توجہ ہٹائی جاسکے، بہرحال بی جے پی بھلے ہی اس قدر اکثریت سے نہ آئے مگر واپسی اسی کی ہے(دعا تو یہی کہ ایسا نہ ہو)، مقابلہ کیسے کرنا ہے، یہ پالیسی ہم کو بنانا ہوگا، وقت بدل رہا ہے، حالات بدل رہے ہیں، سوشل میڈیا نے زہر پھیلانے میں بڑا کردار ادا کیا ہے، اس لیے آنے والے وقت میں بدلتے ہوئے حالات سے نمٹنے کے لیے اپنی پالیسی کو تبدیل کرنا ہوگا، متحدہ اور ٹھوس بنیادوں پر آگے بڑھنا ہوگا ورنہ بات بگڑتی جائے گی، تھوڑی دیر کے لیے مان لیجئے کہ بی جے پی نہیں آتی ہے تو پھر…؟ تو پھر ایک ملی جلی حکومت بنے گی مگر اس کی عمر ۶ ماہ بھی نہیں ہوگی کیوں کہ کانگریس سے بہت زیادہ سیٹیں جیتنے کی امید فضول ہے،اورپھر واپسی بھاجپا کا مقدر بنے گی، ہماری قیادت ہمہ وقت آئین ہند کا حوالہ دیتی ہے، مگر آئین نو جنوں اب آئین ہند کو بدل ڈالنے پر آمادہ ہے، جس کی جھلکیاں دکھائی جا چکی ہیں، خدا نہ کرے کہ آئندہ موقع ملے ورنہ مزید تبدیلی کے امکان ہیں۔
آئین سے کھلواڑ عین الیکشن کے دوران خوب نظر آیا، ایک طرف دہشت گردی کی ملزم سادھوی پرگیہ طبیعت کی خرابی کے لیے ضمانت پر باہر آئی اور بی جے پی نے اس کواامید وار بنایا، اس نے علی الاعلان گاندھی جی کے قاتل گوڈسے کو دیش بھکت کہا، ہیمنت کرکرے جیسے جانباز آفیسر کو برا بھلا کہا، دوسری طرف ڈرامائی انداز میں تیج بہادر کا پرچۂ نامزدگی رد کیا گیا، ایک نیوز چینل کے آپریشن میں اس کی سازش بےنقاب ہوئی۔
بیدار مغز اور دانشمند وہ لوگ ہوتے ہیں جو شریعت کے دائرہ میں رہ کر اس دین متین کی وسعتوں سے فائدہ اٹھائیں، اس کی بنیادوں پر جم جائیں اور روایت پسندی کے حصار سے نکل کر خود ہی مستقبل کے تحفظات فراہم کریں اور دشمن کی ہر چال ناکام بنائیں، تنگ نظری اور کہنہ دماغی سے اس امت کو ہمیشہ نقصان ہوا ہے، ذرا سوچیے کہ مدارس کا نظام ہندستان کا کتنا بڑا اور وسیع نظام ہے، دینی تعلیم اور ایک بڑے طبقہ کے روز گار کے لیے اتنا بڑے نظام کے تحفظ کا کوئی ذریعہ؟ صرف دستور ہند کا سہارا، بدلتے ہندستان میں اس شق کو بدل ڈالنے میں کتنی دیر لگے گی، کبھی اس ناحیہ سے سوچ کر اس اتنے بڑے جمے جمائے نظام کے تحفظ فراہم کرنے کو یقینی بنایا گیا؟ ہم نے کئی بار اس سلسلہ میں ایسی آراء رکھیں جن سے مدارس کا تشخص بھی باقی رہتا، وہ اپنا کام بھی کرتے، اور حکومت انھیں اپنے دائرے سے باہر سمجھ کر ان پر انگلی بھی نہ رکھتی، کانگریس کی وفاداری کے عوض یہ کام کرایا جا سکتا تھا مگر نہ ہوا، اگر مسلمان ایک بورڈ منظور کرا کر مدارس کے ثانویہ کو اس سے جوڑ دیتے اور بورڈ سے ہائی اسکول کی سند ملتی تو یہ اس ملک کی تاریخ میں بڑا کارنامہ قرار پاتا، بہرحال اب تو اندیشے ہیں، امکانات ہیں، الجھنیں ہیں، مسائل ہیں اور ان ہی کے درمیان عید ہے، جب ملت کے جسم کا ہر ہر عضو درد سے کراہ رہا ہو، تڑپ رہا ہو، پورا جسم زخموں سے چور اور نڈھال ہو تو پھر عید کیسی؟ اور سوال یہ بھی ہے کہ آخر یہ عید ہے کیا؟
یہ عید دراصل شکرانہ ہے اس ماہ مبارک کی تکمیل کا جو نیکیوں کا موسم بہار تھا، جس کا ہر پل قیمتی اور باعث خیر و برکت تھا، جس کے روزے فرض کیے گئے تھے اور جس میں کارِ خیر پر بے حد و حساب ثواب کا اعلان کیا گیا تھا قرآن مجید نے اس حقیقت کو یوں بیان کیا ہے ولتکملوا العدۃ ولتکبروا اللہ علی ماھداکم ولعلکم تشکرون۔ (البقرہ: ۱۸۵)’’اور یہ مقصود ہے کہ تم روزوں کی تعداد پوری کرو اور اللہ تعالیٰ نے تمہیں جو ہدایت دی ہے اس پر اس کی عظمت و کبریائی کے گن گاؤ تاکہ تم (اس کی نوازشوں کا) شکر ادا کرو‘‘ ، اس لیے مسلمانوں کی عید دیگر قوموں کی عید کی طرح نہیں، اس میں شرک کی خرافات، بدعات و ضلالات اور اسراف و فسق کا گذر نہیں، بلکہ مسلمانوں کی عید اطہار تشکر کا ذریعہ ہے، روزہ دار کو ایک خوشی تو افطار کے بعد نصیب ہوتی ہے مگر بری خوشی ماہ مبارک کے مکمل روزوں کی تکمیل کے بعد حاصل ہوتی ہے، مسلمانوں کی زندگی میں یہ وہ موقع ہوتا ہے جب وہ شرعی اور قانونی طور پر اظہار مسرت کر سکتے ہیں، قل بفضل اللہ وبرحمتہ فبذلک فلیفرحوا (یونس:۵۸) ’’کہہ دیجئے کہ ان کو اللہ کے فضل اور اس کی رحمت پر خوش ہونا چاہیے‘‘۔ لیکن اگر غور کیا جائے تو اس عید کے اور بھی بہت سے پہلو سامنے آئیں گے اور عید کے حقیقی معنی سمجھنے میں ہمارے لیے بڑے معاون ہوں گے۔
عید کا پیغام یہ ہے کہ ہماری پوری زندگی اکمالِ دین کی نعمت ملنے کے سبب عید ہو، ہمہ وقت اس نعمتِ عظمی کو گلے لگانے کی فکر ہو الیوم اکملت لکم دینکم اتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا۔ (المائدہ:۳) عید کا پیغام یہ ہے کہ عبادتوں میں دوام و تسلسل ہو، اقامتِ دین کی کوششیں اپنے بس بھر جاری رکھی جائیں، ہمیشہ طاعات کی عادت ڈالی جائے، عبادات کا ذوق عام ہو، جذبۂ شکر گذاری عام ہو، گناہوں سے شرم کی جائے، منکرات سے بچا جائے، خیر کو فروغ دیا جائے، واعبد ربک حتی یأتیک الیقین (الحجر:۹۹) ’’اور جب تک یقینی فیصلہ (موت) نہ آجائے اپنے رب کی بندگی کرتے رہیں‘‘ عید کا پیغام یہ ہے کہ نعمتوں پر منعم کا شکر ادا کیا جائے اور اس کے سامنے سجدہ ریز ہوا جائے۔ قل من حرم زینۃ اللہ التی أخرج لعبادہ والطیبات من الرزق، قل ھی للذین آمنوا فی الحیاۃ الدنیا خالصۃ یوم القیامۃ(اعراف:۳۲) ’’(ان سے) کہیے کہ اللہ کی عطا کردہ عمدہ چیزوں کو کس نے حرام قرار دیا؟ جن کو اللہ نے اپنے بندوں کے لیے پیدا کیا ہے، اور پاکیزہ رزق کس نے ممنوع کر دیا؟ اور یہ بتادیں کہ یہ سب چیزیں دنیا کی زندگی میں اصلاً ایمان والوں کے لیے ہیں، اور قیامت میں تو خالص ان ہی کے لیے ہوں گی‘‘۔ عید کا پیغام یہ ہے کہ ہماری اصل خوشی ہمارے دین میں ہے، عبادتوں میں ہے، نماز، روزہ، نوافل، صدقات، اذکار اور دین خداوندی کی بنیادوں کو مضبوط کرنے والے کاموں میں ہے، عید اپنے اندر رجوع الی الاسلام کا طاقتور پیغام رکھتی ہے، جماعت و اجتماعیت اور اتحاد ملت و وحدت امت کی نوید سناتی ہے، عید پکار پکار کر کہتی ہے کہ یہ موقع اصلاحِ حال اور اصلاحِ اعمال کا ہے، یہ موقع اسلاح معاشرہ کا ہے، یہ موقع خوشیاں بانٹنے اور غموں کو کافور کرنے کا ہے، یہ موقع ضغن، کینہ اور حسد کو نکال پھینکنے کا ہے، عید صلہ رحمی کی دعوت دیتی ہے، یتیموں مسکینوں اور بیواؤں کے لبوں پر مسکراہٹ بکھیرنے کا پیغام دیتی ہے، عید کی منشا ہے کہ اس موقع پر پڑوسیوں اور رشتہ داروں کو ہی نہیں بلکہ اخوت اسلامی کے رشتہ میں منسلک تمام افراد امت کو یاد رکھا جائے، عید کا موقع بہترین موقع ہے گلے اور شکوے مٹاکر ایک ساتھ خوشیاں منانے کا، ٹوٹے ہوئے دلوں کی دلجوئی خدا کو بہت پسند ہے، کسی مسلمان کو خوش کرنے کے لیے کیا گیا عمل اللہ کے یہاں بہت محبوب ہے، عید زبان حال سے کہتی ہے کہ جو لمحہ بھی معصیتِ الہی سے خالی ہو اور طاعت باری سے معمور ہو وہی عید ہے۔
عید کے اس انسانی پہلو پر بھی غور کر لیجئے کہ عید الفطر کے ساتھ صدقہ فطر کو بھی جوڑ دیا گیا، تاکہ توازن قائم رہ سکے، صاحب حیثیت صدقہ فطر ادا کردیں تاکہ بے حیثیت بھی عید کی مسرتوں میں شریک ہو سکیں، کیا خوب ہو کہ اہل ثروت صدقہ فطر گیہوں اورجو سے نہیں بلکہ کھجور و کشمس سے ادا کریں، جو جس قدر مالدار ہو وہ اسی اعتبار سے ان چار چیزوں میں سے کسی چیز کو معیار بنائے اور کم از کم کوشش یہ کرے کہ اس کے غریب رشتہ دار و پڑوسی اور نوکر چاکر اور ان کے بچے ویسے ہی خوشی منائیں جیسے اس کے اپنے بچے، صدقہ فطر اور اس کا نصاب جس ماحول میں مقرر کیا گیا اس کی حکمت پر ذرا سا غور کرنے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے۔
یہ ہے عید! مگر ہماری حقیقی عید کب ہوگی؟ ظاہر ہے کہ ہم امت اسلامیہ کے احوال سے صرفِ نظر نہیں کر سکتے، ہم ایک لمحہ کے لیے بھی غزہ کی ماتم کرتی بیواؤں اور چیختی پکارتی ماؤں کو نہیں بھول سکتے، مصر کی جیلوں میں قید شیدائیان اسلام کو ہم فراموش نہیں کر سکتے، ہم شام کے بے حال مظلوموں سے چشم پوشی نہیں کر سکتے، برما کے بے حال مسلمانوں اور یمن کے بھوک سے تڑپتے بچوں کو ہم نظر انداز نہیں کر سکتے، ان کے غم ہمارے غم ہیں، ان کی تکلیف ہماری تکلیف ہے، ان پر جو قیامت ٹوٹ رہی ہے اس سے ہم غافل نہیں، یہ ہماری بے بسی ہے کہ ہم دعاؤں کے سوا کچھ نہیں کر سکتے، لیکن ہماری یہ دعائیں اور ہمارا یہ تڑپنا بھی رائیگاں نہیں جائے گا، وما تقدموا لأنفسکم من خیر تجدوہ عند اللہ إن اللہ بما تعملون بصیر۔ (البقرہ: ۱۱۰) ’’جو بھی نیکی اور بھلائی اپنے لیے آگے بھیج دوگے اسے اللہ کے یہاں پاؤ گے، اللہ تمہارے اعمال سے خوب با خبر ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ تو یہ فرمایا کرتے تھے کہ میں کسی قاضی کو انصاف کرتے سنتا ہوں تو خوش ہوتا ہوں حالانکہ میں جانتا ہوں کہ شاید کبھی انصاف کے لیے اس سے میرا واسطہ نہ پڑے، میں سنتا ہوں کہ کسی مسلمانوں کے کسی شہر میں بارش ہوئی تو خوشی ہوتی ہے، حالانکہ وہاں میرا ایک جانور بھی نہیں جو اس کے سبزے سے اپنا پیٹ بھرے، اور پھر نبی پاک ﷺنے یہی تو فرمایا تھا کہ جو مسلمانوں کے امور میں دلچسپی نہ لے وہ ہم میں سے نہیں، بے شک ہماری حقیقی عید تب ہوگی جب ہمارے یہ مسلم ممالک دشمنوں کے پنجوں سے آزاد ہوں گے، جب ہمارے ان بے گناہ قیدیوں کو باعزت رہائی نصیب ہوگا، جب ہمارا قبلہ اول آزاد ہوگا، ورنہ عید ہے، طاعت الہی میں سر جھکا ہوا ہے، بدن پر نیا لباس ہے، مگر دل مغموم ہے، آنکھوں میں بے بسی کی تصویر ہے، بے کسی کا درد ہے، ایک طرف اپنے بچوں کی خوشی ہے، مگر فلسطینی بچوں کی گردن پر ناپاک یہود کے پاؤں رکھے ہونے کا منظر سامنے ہے، عالم اسلام میں بھیک مانگتے شامی بچے ہیں، ان کے معصوم چہرے اور کپکپاتے ہاتھ ہیں، جب ان غموں سے نجات ملے گی تو عید ہوگی ویسے بھی ایک مومن کی حقیقی عید حدیث کے بموجب اس وقت ہوگی جب خدا تعالیٰ فرمائیں گے کہ آج ہم تو کو اپنی رضا کا پروانہ دیتے ہیں، آج کے بعد ہم تم سے کبھی بھی ناراض نہیں ہوں گے، یہ عید اور اس طرح کی تمام طاعتیں و عبادتیں در اصل اسی حقیقی خوشی اور کامیابی کو حاصل کرنے کا ذریعہ ہیں۔ عن ابی سعید قال قال رسول الہ ﷺ ان اللہ تعالیٰ یقول لأھل الجنۃ، یا أھل الجنۃ، فیقولون لبیک ربنا وسعدیک، والیر کلہ فی یدیک، فیقول: ھل رضیتم؟ فیقولون: وما لنا لا نرضی یارب، وقد أعطیتنا ما لم تعط احدا من خلقک، فیقول ’’ألا اعطیتکم أفضل من ذلک، فیقولون یا رب وأی شیء افضل من ذلک؟ فیقول أحل علیکم رضوانی فلا أسخط علیکم بعدہ أبدا۔ (متفق علیہ)۔