✍️ مفتی ناصرالدین مظاہری
_____________
وہ دونوں حقیقی بھائی تھے، دونوں پیار ومحبت سے گزربسر کررہے تھے، زمیں کی ایک مینڈھ کو لے کر دونوں میں کہاسنی ہوگئی یہ کہاسنی طناطنی میں بدل گئی، گھر کا جھگڑا باہر پہنچ گیا، صلح و مصالحت اور معاملہ کے تصفیہ کی کسی نے کوشش نہیں کی، نوبت تھانے پولیس تک پہنچ گئی، تھانے دار نے دونوں کو بلا کر معاملہ سمجھا اور دونوں پارٹیوں سے پانچ پانچ ہزار لے کر حکم صادر کردیا کہ دونوں پارٹیاں مینڈھ کو پرانی جگہ پر بنالیں۔ یہ دونوں ایک چھوٹے سے معاملہ میں دس ہزار گنوا کر تھانے سے گھر پہنچے، دونوں کو اپنی رقم کے ضائع ہونے کا احساس پختہ ہوتا گیا، آخر کار شیطان نے کورٹ کچہری کی راہ سجھائی اور ایک بھائی عدالت پہنچ گیا، گویا ایک مدعی بن گیا دوسرا مدعا علیہ ٹھہرا، کورٹ میں وکیلوں کی خدمات لی گئیں، اچھی خاصی فیس لی، کیس چلا، چلتا گیا، چلتا گیا اور تاریخ پر تاریخ ملتی گئیں، ہر پیشی پر جانا ضروری، پیشی والے دن کا اپنا حرج، سفر کا خرچہ، وقت کی بربادی اور سب سے بڑھ کر روپے کی بربادی دل کھول کر ہوتی رہی، کیس بغیر کیش کے کب نمٹا ہے چنانچہ وکیلوں کی جیب بھاری ہوتی گئی، عدالت کے اسٹامپ بکتے رہے، فائل موٹی ہوتی رہی، جج بدلتے رہے، وقت ٹلتا رہا، فیصلہ اب تک نہیں ہوا تھا، بات صرف انا کی تھی، انا میں غنا اور غنا میں عنا دونوں نے جم کر حالات کو خراب کیا، نوبت یہاں تک پہنچی کہ اولاد جوان ہوگئی، کسی پڑھے لکھے لڑکے نے تمام خرچ کو یکجا کر کے حساب کیاتو پتہ چلا کہ اتنے کی تو زمین نہیں ہے جتنے خرچ ہوچکے ہیں اور اس طرح "لوٹ کے بدھو گھر آگئے” دونوں پشیمان بھی، پریشان بھی اور حیران بھی، اس بیچ صلہ رحمی ختم ہوگئی، آپسی تعلقات کو گھن لگ گیا، شادی بیاہ میں شرکت کا سلسلہ بھی تھم گیا اور ایک دن ایک بڑے بزرگ نے ڈانٹتے ہوئے کہا کہ تم لوگ اپنی انا اور دولت کے غرورمیں ہم جیسے دنیا دیکھے لوگوں سے کچھ پوچھنے میں شرم محسوس کرتے ہو، عدالتوں کے فیصلے شرعی نہیں ہوتے، عدالتیں کاغذات دیکھتی ہیں، روپیہ پیسہ کاغذات بنواتے ہیں، عقل کا کھیل بھی کارفرما ہوتاہے اور میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ کسی عدالت نے شریعت کی روشنی میں فیصلہ کیا ہو، اگر کوئی ایک جیت بھی جاتا تو کیا ہوتا تکونے پتھر پر ہی رسی پڑنی تھی، دونوں پارٹیاں چونک پڑیں، پوچھا تکونا پتھر کیا چیز ہے ؟ بڑے میاں بولے کہ تکونا پتھر اسی مینڈھ کے قریب دو ہاتھ نیچے گاڑا ہوا ہے، پتھر تلاش کر لو جھگڑا ختم۔ چنانچہ پتھر مل گیا، جھگڑا ختم ہوگیا، سینے مل گئے، معافی تلافی ہوگئی۔
سوچئے بڑے میاں کی عدالت بہتر تھی یا کورٹ کچہری کی؟ وکیلوں کی فائلیں دم دار تھیں یہ گاؤں کے بڑے بوڑھوں کی گواہیاں۔
خاندانی جھگڑے، معاشرتی مسائل، ملی معاملات، قومی اور وطنی نزاعات ہرقسم کے اختلافات اگر گھر اور چاردیواری سے باہر نکل کر کورٹ اور کچہری تک پہنچے تو سمجھو کی دونوں پارٹیوں کی جیب ڈھیلی ہونے کا وقت آگیا ہے۔
عدالتیں ملک کی تجوریوں کو ترقی دینے کا بہترین ذریعہ ہیں، ججوں کے مشاہرہ جات، وکیلوں کے اخراجات، دفاتر کے خرچے، منشیوں کی تنخواہیں، عدالتوں کی وسیع عمارات، انتظامیہ کا پورا سسٹم یہ سب روپے کا مرہون منت ہے اور روپیہ عوام کی جیب سے ہی آتا ہے۔
اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْہُ اِلَى اللہِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ.ذٰلِكَ خَيْرٌ وَاَحْسَنُ تَاْوِيْلًا۔
(پھر اگر تمھارے درمیان کسی معاملے میں نزاع ہو جائے تو اسے اللہ اور رسولؐ کی طرف پھیر دو‘ اگر تم واقعی اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتے ہو۔ یہی ایک اچھا طریقِ کار ہے اور انجام کے اعتبار سے بھی بہتر ہے) ۔
ضرورت ہے کہ شرعی نظام کو فروغ دیا جائے، گھر کا معاملہ گھر میں نمٹایا جائے، امارت شرعیہ، فقہ اکیڈمیاں، دارالافتاء اور ملی و شرعی پنچایتوں کو رواج دیجیے، یہاں آپ کو شریعت کی روشنی میں مفت میں قاضی ملیں گے، متقی پرہیزگار منصف ملیں گے، جلد سے جلد آپ کو انصاف ملے گا، نہ جیب ڈھیلی نہ جیپ ڈھیلی، ہر موڑ اور ہر موقع پر قرآن وحدیث کا سہارا۔ یہی قرآن کریم کاتقاضایے ارشاد ہے:
وَاِذَا جَاۗءَھُمْ اَمْرٌ مِّنَ الْاَمْنِ اَوِ الْخَوْفِ اَذَاعُوْا بِہٖۭ وَلَوْ رَدُّوْہُ اِلَى الرَّسُوْلِ وَاِلٰٓى اُولِي الْاَمْرِ مِنْھُمْ لَعَلِمَہُ الَّذِيْنَ يَسْتَنْۢبِطُوْنَہٗ مِنْھُمْ (النساء)
اور جب کبھی امن یا خوف سے تعلق رکھنے والا کوئی اہم معاملہ ان کو پیش آتا ہے تو وہ اس کو پھیلا دیتے ہیں‘ حالانکہ اگر وہ اس کو رسولؐ تک اور اپنے اولی الامر تک پہنچاتے تو اس کی کنہ جان لیتے وہ لوگ جو ان کے درمیان اس کی کنہ نکال لینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔