ووٹوں کا انتشار بی جے پی کی فتح میں اہم کردار ادا کرتا ہے
انقلاب خواہشوں سے نہیں عملی اقدامات سے آتا ہے
✍️ عبد الغفار صدیقی
_______________
پارلیمانی انتخابات کا عمل جاری ہے۔ پورے ملک کے سیاسی پارے میں روز بروزاضافہ ہورہا ہے۔موجودہ مرکزی حکومت اپنے حق میں حکومتی مشینری کا جا و بے جا استعمال کررہی ہے،مگر ایسا ہمیشہ ہوتا رہا ہے،اب کچھ زیادہ بے غیرتی کے ساتھ ہورہا ہے۔اپوزیشن جماعتوں اور ان کے لیڈران پر جس طرح ای ڈی کے چھاپے لگوائے جارہے ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بی جے پی کے علاوہ سب کرپٹ اور بھرسٹ ہیں۔اس ماحول سے گھبراکر بدعنوان لوگ بی جے پی کے دامن میں پناہ لینے پر مجبور ہیں۔ملک میں اپوزیشن اتحاد امید کی ایک کرن ہے۔اگر ملک کے انصاف پسند عوام نے جذبات کے بجائے عقل سے فیصلہ لیا تو اچھے دن واپس آنے کی قوی امید ہے۔
ہر پارلیمانی انتخاب کی طرح اس بار بھی مسلمانوں کی پوزیشن بہت نازک ہے۔ہر سیاسی جماعت ان کے ووٹ کی طالب ہے۔مگر ان کی پرسان حال کوئی جماعت نہیں ہے۔جب جس کا داؤں لگتا ہے مسلمانوں کی پیٹھ میں خنجر گھونپ دیتا ہے۔اسی درمیان اپنی قیادت کی بات بھی ہمیشہ کی طرح اٹھ رہی ہے۔یہ بڑی بدقسمتی کی بات ہے کہ اپنی قیادت کے جملہ دعوے دار انتشار کا شکار ہیں۔ملک میں فسطائی جماعتوں کا اتحاد”این ڈی اے“ ہے،نام نہاد سیکولر جماعتوں کا اتحاد”انڈیا“ ہے،لیکن مسلم امت کی خیر خواہی کا دعویٰ کرنے والی مسلم سیاسی جماعتوں کا کوئی اتحاد نہیں ہے،سب کی اپنی اپنی ڈفلی اور اپنا اپنا راگ ہے۔کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ قوم کے سیاسی خیر خواہان یکجا ہوں، ان کی پشت پر مذہبی جماعتوں کا ہاتھ ہو اور ملک کی سالمیت و جمہوریت کی بقا کے ایجنڈے کو لے کر عوام کے سامنے اپنی بات رکھی جائے۔جب جب اس طرح کے اتحاد کی بات کی جاتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ پندرہ فیصد مسلمانوں کے اتحاد سے پچاسی فیصد ہندو متحد ہوجائے گا۔یعنی ہم اس لیے متحد نہیں ہورہے ہیں کہ کہیں دوسرا متحد نہ ہوجائے۔
مسلمانوں کا سب سے بڑا مسئلہ سیاست کے متعلق ان کی سوچ کا ہے۔ان کانقطہ نظر یہ ہے کہ سیاست کا دین و مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے،اس عمل میں کوئی ثواب نہیں ہے،سیاست کرنے سے خدا خوش نہیں ہوتا،سیاست کرنے سے جنت نہیں ملے گی۔اس نقطہ نظر نے مسلم امت کو اقتدار سے محروم کرنے میں بڑااہم رول ادا کیا ہے۔اسی کا نتیجہ ہے کہ خاص پولنگ کے دن بھی ایک بڑی تعداد ”اللہ کی راہ“میں نکلی ہوئی ہوتی ہے اور اپنے ووٹ کا استعمال تک نہیں کرتی،مجھے نہیں معلوم کہ یہ نظریہ قرآن و حدیث کی کس نص سے اخذ کیا گیا ہے۔میں تو اتنا جانتا ہوں کہ نبی اکرم ﷺ کی بعثت کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں تھا کہ موجودہ سیاسی نظام کو اسلامی نظام سے بدل دیں۔اسی کو قرآن کی زبان میں ”لیظہرہ علی الدین کلہ“(تاکہ وہ تمام ادیان پر اس کو یعنی اللہ کے دین کوغالب کردے۔الصف۔۹)کہا گیا ہے۔خلفائے راشدین کے سیاسی نظام کو آئیڈیل ماننے والے اورحضرت عمرؓ جیسی خلافت و حکومت کی توقع کرنے والے سیاست کو غلیظ سمجھ کر خود بھی کنارہ کشی کے ہوئے ہیں اور دوسروں کی بھی ہمتیں پست کررہے ہیں،ہم یہ بات کیوں نہیں سمجھتے کہ اس عمل سے شیطانی قوتوں کو فائدہ پہنچ رہا ہے اور وہ طاقت میں آکرمسجدیں،مدرسے اور خانقاہیں بھی ہم پر تنگ کررہے ہیں۔ جب تک شرافت گوشہ نشینی اختیار کیے رہے گی اور تماش بین بنی رہے گی اور عوام پیسہ لے کر یادعوتیں اڑاکر ووٹ دیتی رہے گی اس وقت تک نہ کوئی صالح انقلاب آئے گا اور نہ کوئی منظر بدلے گا۔
میری رائے ہے کہ سب سے پہلے امت مسلمہ کے مذہبی قائدین اس غلط نقطہ نظر کی اصلاح فرمائیں جس کا ذکر درج بالا سطور میں کیا گیاہے۔انھیں ہر منبر و محراب سے یہ بات کہنی چاہئے کہ موجودہ سیاسی نظام میں حصہ لینا اور حکومت و اقتدار میں شریک ہونا عین تقاضائے دین ہے۔اپنے حق رائے دہی کا استعمال کرکے صالح افراد کو کامیاب کرنا ملک کے تابناک مستقبل کے لیے ضروری ہے۔اس کے بعد علماء کا ایک گروہ خود عملی سیاست میں حصہ لے کر اپنے اس قول کی عملی گواہی دے کہ سیاست دین کا حصہ ہے۔حالانکہ علماء اس وقت بھی حصہ لے رہے ہیں لیکن وہ سیاست میں حصہ لینے کو دین کا کام نہیں بتارہے ہیں، مولانا توقیر رضاخاں،مولانا بدرالدین اجمل قاسمی،مولانا محمود اسعد مدنی،دامت برکاتہم عملی سیاست میں سرگرم ہیں،اولذکر دو حضرات کی تو اپنی اپنی پارٹیاں ہیں۔اگر یہ حضرات اپنے اسٹیج امت مسلمہ کو یہ باور کرائیں کہ موجودہ جمہوری نظام میں ایک صالح اور منصفانہ انقلاب لانے کے امت مسلمہ کی دینی قیادت کو عملاً سیاسی عمل میں حصہ لینا عین تقاضائے دین ہے۔ کوئی بعید نہیں کہ عوام کا ذہن بدلے اور گاؤں کے پردھان سے لے کر ممبر پارلیمنٹ تک کے مناصب پرنورانی شخصیات جلوہ افروز ہوں۔آخر جو شخص قاضی شہر ہوسکتا ہے۔جو ہماری آخرت کے لیے رہنمائی کرسکتا ہے وہ ہماری دنیوی زندگی کا رہنما کیوں نہیں ہوسکتا؟ شیطان نے دنیا کو خدا سے دور کرنے اور زمین کو فتنہ و فساد سے بھرنے کے لیے یہ چال چلی ہے کہ دین و سیاست کو الگ الگ کردیا اور دنیا کی ساری باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں لے کر دینی پیشواؤں کو ”ذکر اللہ ہو“ میں مست کردیا۔ ساری دنیا میں شیطانی نظام اس بات سے خوف زدہ ہے کہ کہیں نیک،ایماندار،شریف اور مذہبی لوگ حکومت و اقتدار میں آکر اس کی محنت پر پانی نہ پھیردیں۔اس لیے ابلیس نے اپنے کارکنوں کو علامہ اقبال ؒکے الفاظ میں یہ مشورہ دیا ہے۔
مست رکھو ذکر و فکر و صبح گاہی میں اسے
پختہ تر کردو مزاج خانقاہی میں اسے
یہ بھی ضروری ہے کہ مسلمان جس پارٹی میں رہیں مسلمان کی حیثیت میں رہیں۔وہ جب اسلام کو چھوڑ دیتے ہیں تب ملت کو بہت نقصان پہنچاتے ہیں،اس صورت حال میں مختار عباس نقوی،شاہ نواز اور راجناتھ سنگھ و امت شاہ میں کوئی فرق نہیں رہ جاتا۔ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ کہیں نہ کہیں ہمیں مسلمانوں نے ہی لیڈر بنایا ہے۔ہمیں کرسی مل جانے کے بعد مسلمانوں کے مسائل سے منھ نہیں پھیرنا چاہئے۔ہمیں اپنی سیاسی پارٹیوں کے پلیٹ فارم پر ملی ایشوز کو پوری قوت کے ساتھ اٹھانا چاہئے۔اس سلسلے میں ملک میں دوسری اقلیتوں سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔مسلم نمائندے ضرورت سے زیادہ سیکولرزم اور پارٹی وفاداری کا مظاہرہ کرتے ہیں۔اگر ہمارے نمائندے ہی ہماری آواز بلند نہیں کریں گے توقوم کے ایشوز جمہوری اداروں میں کون اٹھا ئے گا؟
دوسرا ضروری کام یہ ہے کہ ووٹ کے حق کا استعمال لازمی کیاجائے۔اس معاملہ میں مسجد وار فعال و صالح افراد پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دینا چاہئے جس کی ذمہ داری یہ ہو کہ وہ اپنی مسجد کے حلقہ کے لوگوں کے ووٹ شمار کرے،نئے ووٹ بنوائے اور پولنگ کے دن ان کے ووٹ ڈلوائے۔مساجد کے ائمہ اس کے لیے خطابت جمعہ میں عوام کو سمجھائیں۔
رہا یہ سوال کہ کس کے حق میں ووٹ کیا جائے؟ ظاہر ہے اس کے لیے کوئی قاعدہ کلیہ بنانا مشکل ہے،ہر پارلیمانی حلقہ کے حالات الگ ہیں،البتہ اب تک کے تجربات یہ بتاتے ہیں کہ وہ پارٹیاں جنھوں نے تمام تر مشکلات کے باوجود بی جے پی کے ساتھ تعاون کرنے سے گریز کیا ہے ان کے امیدواران کو ووٹ کیا جاسکتا ہے۔اپنی قیادت کے نام پر وہیں ووٹ دیا جاسکتا ہے جہاں اس کے جیتنے کے قوی اور واضح امکانات ہوں،ورنہ ووٹ کی تقسیم کا فائدہ براہ راست بی جے پی کو پہنچے گا۔ وہ پارٹیاں جو ماضی میں بی جے پی کے ساتھ مل کر حکومت سازی کرچکی ہیں،ان کو کسی حال میں بھی ووٹ نہ کیا جائے چاہے ان کے امید وار مسلمان ہی کیوں نہ ہوں۔ایسے آزاد امیدواروں کو ووٹ نہ دیا جائے جن کا کردار مشکوک ہواور وہ ابن الوقت ثابت ہوسکتے ہوں۔
ایک بات اپنے ان بھائیوں سے کہنا چاہتا ہوں جو الیکشن میں حصہ لیتے ہیں یا لینا چاہتے ہیں۔وہ اسی وقت الیکشن اور سیاست میں قدم رکھیں جب ان کے پاس قوم اور ملک کے لیے کوئی وژن اور منصوبہ ہو،ورنہ دوسروں کی ٹانگ کھینچنے،یا اپنی ناک اونچی کرنے کی خاطر پیسہ برباد نہ کریں۔عام طورپرخدمت کے نام پر ایک ایک سیٹ پر کئی کئی مسلمان کھڑے ہوجاتے ہیں حالانکہ ان میں سے بعض جانتے ہیں کہ وہ ہار جائیں گے مگر اپنی انا کی تسکین کے لیے انتخابی میدان میں کود پڑتے ہیں۔بے دریغ پیسہ خرچ کرتے ہیں،مسلم ووٹرس کنفیوز ہوجاتے ہیں اور بعض مقامات پر جہاں سے یقینی طور پر اپنے نمائندے کو جیتنا چاہئے تھا وہ ہارجاتا ہے۔
موجودہ حکومت نے گزشتہ دس برسوں میں بیان بازی اور مذہبی منافرت میں اضافہ کے علاوہ کوئی قابل ذکر کام نہیں کیا ہے۔بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے،مہنگائی بڑھی ہے،کسانوں کے مسائل جوں کے توں ہیں،مسلمانوں کی تو چھوڑیے ملک کا کوئی طبقہ اس سے مطمئن نہیں ہے،سوائے ان لوگوں کے جن کے اندر مسلم دشمنی کے جراثیم پوری طرح بھرے ہوئے ہیں وہ اس کے لیے ووٹ ہی نہیں اپنی جان دینے کے لیے بھی تیار ہیں۔گزشتہ پارلیمانی انتخاب میں بی جے پی کو 37.76فیصد ووٹ ملا تھا اور اس کے اتحاد این ڈی اے کو 45فیصد ووٹ حاصل ہوا تھا۔اس کا مطلب ہے کہ اس کے خلاف پڑنے والا ووٹ ملنے والے ووٹ سے زیادہ تھا۔دوسرے لفظوں میں کہا جاسکتا ہے کہ بی جے پی کی فتح میں ووٹوں کے انتشار نے اہم کردار ادا کیا تھا۔