Slide
Slide
Slide

آج کا مولوی اور انگریزی

✍️ ڈاکٹر محمد عبید اللہ قاسمی

اسسٹنٹ پروفیسر دہلی یونیورسٹی

______________________

اب طنز کرنے والوں کی زبانیں گونگی ہوگئیں کیونکہ جن پر طنز کیا جاتا تھا انہیں وہ زبان آگئی جن کے نہ آنے سے انہیں کسی دوسرے سیارے کی نامانوس مخلوق، دقیانوس، تنگ نظر، نابالغ الفکر، طرزِ کہن کا اڑیل، ذہن ودماغ کا سڑیل، زمانے کی گردشوں سے ناواقف، تہذیبِ نو سے نابلد، جدید فلسفہِ حیات سے نا آشنا، اور دنیائے عجم کا ابو العجم، مغرب کے آسمانِ فکر وفن تک رسائی نہ کرسکنے والا، گوروں کی زبانِ انگریزی سے جاہل سمجھا جاتا تھا۔ آج وہ گونگی مخلوق آسمانِ انگریزی پر کمندیں ڈال رہی ہے، اسے سیکھ رہی ہے اور اس انداز سے سیکھ کر اس پر قدرت حاصل کررہی ہے، فراٹے دار تقریریں کر رہی ہے، ان کے قلم سے انگریزی مضامین اور تحریریں ڈھل ڈھل کر نکل رہے ہیں کہ ملامت کرنے والے اب یہ زبان ان کی زبان سے سنکر اپنے دانتوں میں انگلیاں دبائے جارہے ہیں۔ کل تک جو بھانت بھانت انداز سے طعنہ زن تھے آج وہ مہر بلب ہیں۔ کل تک جو یہ کہتے تھے کہ مولوی کی کھونپڑی میں اتنی طاقتِ پرواز نہیں اور اس کے منھ میں ایسی زبان نہیں جو انگریزی جیسی عظیم الشان زبان کے تکلم اور اداء پر قادر ہو آج وہ اپنی اس بچکانہ ادا پر پشیمان ہیں اور اپنے کہے پر منھ چھپا رہے ہیں۔ انہوں نے اب دیکھ لیا کہ یہ مولوی قوم جب انگریزی سیکھنے پر آئی تو اس میدان میں بھی اپنا لوہا منوالیا۔ انگریزی میں بہتیرے رسالے نکال ڈالے، مقالے رقم کر دیے، کتابوں پر کتابیں لکھ ڈالیں، کتابوں کے انگریزی ترجمے شائع کردیے، عصری یونیورسٹیوں تک میں جا جا کر انگریزی میں ایم اے اور پی ایچ ڈی کے تمغے اٹھا لے آئے، سات سمندر پار انگریزوں کے ملکوں تک میں جاکر ان کے بچوں کو نہیں چھوڑا اور انہیں انگریزی پڑھاکر ہی دم لیا، امریکہ وافریقہ کے ملکوں میں مسجدوں کے منبروں سے انگریزی میں اپنے جوہرِ خطابت سے دھوم مچادی۔ بعضوں کو یہ حیرت ستارہی ہے کہ ایسا محض دو سالوں کی تعلیم میں کیسے ممکن ہوگیا۔ انہیں یہ نہیں معلوم ہے کہ مدرسوں کی تعلیم جس محنت، جذبے، جاں فشانی سے یہ حاصل کرتے ہیں اور مدرسے کا نصاب انہیں رگڑ رگڑ کر جس طرح کندن بنادیتا ہے ان کے لئے انگریزی سیکھ لینا اور اس میں مہارت حاصل کرلینا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ مدرسوں کی عربی گردانوں کی تعلیم نے انہیں tenses پر کمانڈ حاصل کرنے کا طریقہ سکھادیا، عربی الفاظ ومعانی کو یاد کرنے کی مشق نے انگریزی vocabulary کی تحصیل کو بازیچہِ اطفال بنادیا، عربی جملوں کی تراکیب کی مہارت نے گرامر کی غلطیوں سے فانوس بن کر حفاظت کردی، عربی کتابوں میں حفظِ تعبیرات کی خُو نے انہیں idioms اور phrases کا خوگر بنادیا، ہفت اقسام (معتل،لفیف،ناقص وغیرہ) کے تحلیل وتجزیے نے انگریزی الفاظ اور ان کے مشتقات میں جھانک کر ان کی اصلیت کو پہچاننے کا skill فراہم کردیا، عربی کے صلات سے واقفیت نے انگریزی کے نازک نگینہِ preposition کو سنبھالنے کا سلیقہ سکھادیا، مدرسوں کے عربی گرامر نے انگریزی گرامر کے چیلنجز کو چٹکیوں میں حل کردیا۔ آخر کوئی تو وجہ تھی کہ کیمبرج یونیورسٹی نے اپنے celta کورس کی سرٹیفکیٹ میں گرامر میں امتیازی حیثیت اپنے لندنی اسٹوڈنٹ کو لکھ کر نہیں دی، دہلی یونیورسٹی کے سینٹ اسٹیفن کالج کے انگریزی گریجویٹس کو نہیں دی بلکہ دار العلوم دیوبند کے دو فرزندوں کو یہ اعزاز بخشا۔ شاید یہی وجہ ہو کہ وقت کے حکیم الامت بھی فرما گئے کہ اگر عربی کو اسلام کے لئے نہیں پڑھنا چاہتے ہو نہ پڑھو، اسے انگریزی کو بہتر کرنے کے ارادے سے ہی پڑھ لو تب بھی بڑا فائدہ ہوگا کہ عربی کی استعداد انگریزی کی استعداد کو بہتر کرنے کے لئے بے حد مفید ہے۔ اس کا عملی تجربہ دار العلوم دیوبند کے فرزند ادارہ مرکز المعارف نے کرکے دکھادیا۔ محض دو سال کی مختصر مدت میں انگریزی کے حروف تک سے ناواقفوں کے لئے انگریزی کی اعلیٰ تعلیم کو ممکن بنا دیا۔ بعدہ دار العلوم دیوبند نے اس تجربے سے فائدہ اٹھاکر ایسی طرح ڈالی اور اس انداز میں آواز بلند کی کہ اب ملک کے تمام بڑے ادارے اس ضرورت کو تسلیم کرکے انگریزی کو فتح کرنے، اس میں دعوتِ دین کا کام کرنے، اسلام کا دفاع اور اشاعت کرنے، دینی کتابوں کا ترجمہ کرنے کی جانب متوجہ ہوگئے اور اپنے اداروں میں، اپنی سرپرستی میں انگریزی کا دوسالہ کل وقتی کورس شروع کردیا اور انگریزی زبان وادب کے شعبے قائم کرنے میں دلچسپی لینے لگے۔ بانیِ دار العلوم حضرت نانوتوی کا خواب، حضرت تھانوی کی خواہش، علامہ انور شاہ کشمیری کی نصیحت اور دار العلوم دیوبند کے اراکینِ شوریٰ کی 119 سالہ پرانی تجویز میں اب رنگ بھرے جانے لگے ہیں اور الحمد لله نوجوان فارغینِ مدارس کی کھیپ انگریزی زبان سے مسلح ہوکر میدانِ عمل میں آرہی ہے۔ خدا کرے کہ اس سلسلے پر کبھی خزاں نہ آئے اور کبھی اس میں ضعف پیدا نہ ہو، انگریزی سے لیس یہ قافلے دین کے دفاع کے کام کرسکیں اور ان میں اخلاص اور جذبہِ دین ہمہ دم قائم رہے! جن لوگوں نے یہ خواب دیکھے تھے، اس کی طرف متوجہ کیا تھا اور جنہوں نے عملی طور پر اس کی بنیاد ڈالی تھی ان کو اپنی شایانِ شان جزائے خیر مرحمت فرمائے!۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: